تراضی

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



تراضی عربی زبان کا لفظ ہے جس کا استعمال علم فقہ میں معاملات اور عقود کے باب میں ہوتا ہے۔ تراضی کا مطلب طرفین کا باہمی طور پر رضا مند اور راضی ہونا ہے۔ عقود کے باب میں معاملہ کرنے والے دو فریقین کی باہمی رضایت کے لیے لفظِ تراضی استعمال کیا جاتا ہے۔


صحتِ عقد کی شرط تراضی

[ترمیم]

کلی طور پر عقد کے صحیح ہونے کی شرط تراضی یعنی باہمی رضایت و رضا مندی ہے۔ اسی طرح اقالہ کے ذریعے سے اپنے ارادہ اور اختیار سے عقد کو فسخ کیا جا سکتا ہے۔ اقالہ سے مراد عقد کرنے والے دونوں فریقین کی باہمی رضا مندی اور رضایت سے عقد کو فسخ اور باطل کرنا ہے۔ فرق نہیں پڑتا کہ دونوں نے فسخ کرنے کے لیے الفاظ بولے ہوں یا ایک نے فسخ کرنے کے الفاظ بولے اور دوسرے نے قبول کیا ہو۔ پس عقد کے منعقد ہونے کی شرائط میں سے ایک شرط تراضی ہے اور اقالہ کی صورت میں عقد کو فسخ کرنے میں بھی تراضی کا دخل ہے۔

کمائی اور زندگی کے امور میں تراضی

[ترمیم]

اللہ تعالی نے دیگر افراد کے اموال کو باطل اور ناحق طریقے سے کھانے اور کمانے سے منع کیا ہے۔ غصب کر کے مال کمانا، چوری کرنا، جوا و قمار وغیرہ سے دین اسلام نے منع کیا ہے۔ ہاں اگر مال کا مالک راضی ہو اور اس طریقہِ معاملہ کو شارع نے بھی قبول کیا ہو تو اس کو اختیار کرنا جائز ہے۔ پس تجارت، کسب و کمائی میں فریقین کی رضا مندی کو اسلام نے اہم شرط قرار دیا ہے اور بغیر رضا مندی کے مال کو لینا باطل اور ناحق قرار دیا ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے: يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا لا تَأْكُلُوا أَمْوالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْباطِلِ إِلاَّ أَنْ تَكُونَ تِجارَةً عَنْ تَراضٍ مِنْكُم‌؛ اے ایمان لانے والو! اپنے درمیان ایک دوسرے کے مال کو باطل کے ذریعے سے مت کھاؤ مگر یہ کہ ایسی تجارت کرو جس میں تم ایک دوسرے سے راضی ہو۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. نساء/سوره۴، آیت ۲۹۔    
۲. شیخ انصاری، مرتضی، مکاسب، ج ۱۱، ص ۳۶۲۔    
۳. بحرانی، شیخ یوسف، الحدائق الناضرۃ، ج ۱۸، ص ۳۴۲۔    


مأخذ

[ترمیم]

فرہنگ فقہ مطابق با مذہب اہل بیت علیہم السلام ج۲، ص۴۳۲۔    


اس صفحے کے زمرہ جات : بیع | عقود | معاملات




جعبه ابزار