تزاحم
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
مقام امتثال میں دو حکموں کو ایک ساتھ جمع کرنے کا امکان نہ ہونا تزاحم کہلاتا ہے۔ اس سے
فقہ اور
اصول فقہ میں بحث کی جاتی ہے۔ تزاحم اس وقت کہلاتا ہے جب
حکم کی بجا آوری کے وقت دو حکم آپس میں اس لیے ٹکرائیں کیونکہ ان دونوں کو ایک ساتھ جمع نہیں کیا جا سکتا۔
[ترمیم]
تزاحم کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے ہم اس
لفظ سے آشنائی حاصل کریں اور دیکھیں کہ عربی زبان میں تزاحم کسے کہتے ہیں اور عرب اس لفظ کو کن معانی میں استعمال کرتے ہیں؟ اس کے بعد اس کا جائزہ لیا جائے کہ
علم اصول میں اس سے کیا مراد لی جاتی ہے۔
لغت میں تزاحم کا معنی شدت کے ساتھ جڑنا بیان کیے گئے ہیں۔ اسی سے کلمہ ازدحام استعمال ہوتا ہے جس کا مطلب لوگوں کا رش ہے کیونکہ لوگ جگہ کی تنگی کی وجہ سے ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں۔ اگر کسی محفل میں جگہ تنگ ہو جائے تو اس کو بھی زَحَم کے کلمہ اور اس کے مشتقات کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے۔
بعض نے زحم کا معنی دھکیلنا کیا ہے کیونکہ جب ایک جگہ تنگ ہو جائے یا رش بن جائے تو ایک دوسرے کے ٹکرا کر ایک دوسرے کو دھکیلا جاتا ہے۔ اسی طرح اگر موجوں میں تلاطم آ جائے اور ایک دوسرے کے ساتھ شدت کے ساتھ ٹکرائیں تو اس کو بھی زحم کے مادہ کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے۔
تزاحم سے مراد
مقام امتثال میں دو حکموں کو ایک ساتھ جمع نہ کر سکنا ہے۔
مکلف حکم کی بجا آوری میں کبھی ایسی حالت سے دوچار ہو جاتا ہے جس میں بیک وقت دو حکموں کو انجام دینا ضروری ہوتا ہے لیکن ان دونوں حکموں کو جمع کرنا
مکلف کی قدرت و توان سے باہر ہوتا ہے۔ اس مورد کو تزاحم سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ تزاحم کا ایک مورد یہ بھی بنتا ہے کہ دونوں حکموں سے ہٹ کر کسی دلیل کی بناء پر دو حکموں کو ایک ساتھ جمع کرنا پڑے اور مکلف ان دونوں کا بیک وقت ارادہ کرنے سے قاصر و عاجز ہے۔
کتاب
بحوث فی علم الاصول میں
شہید باقر الصدر بیان کرتے ہیں:
التزاحم، هو التنافی بین الحکمین بسبب عدم قدرة المکلف علی الجمع بینهما فی عالم الامتثال؛ تزاحم: دو حکموں کے درمیان ٹکراؤ کا ہونا جس کی وجہ
مکلف کا
مقام امثتال (حکموں کی بجا آوری کے وقت) میں ان دونوں کو ایک ساتھ جمع کرنے کی قدرت و استطاعت کا نہ ہونا ہے۔
پس تزاحم میں دو
حکم آپس میں اس لیے ٹکراتے ہیں کیونکہ
مکلف ایک وقت میں ان احکام کو جمع کرتے ہوئے انجام دینے کی قدرت و طاقت نہیں رکھتا۔
مثلا: ایک جگہ پر دو افراد پانی میں ڈوب رہے ہوں، وہاں موجود شخص پر ان دونوں کو ڈوبنے سے بچانا اور پانی سے نجات دینا واجب ہے۔ لیکن عملی طور پر وہ ان دونوں کو بیک وقت نجات دینے کی قدرت و طاقت نہیں رکھتا۔ اس موقع پر موجود شخص جب دو افراد کو ڈوبتا پائے تو پر دو واجب عائد ہو جائیں گے کہ وہ دونوں کو نجات دے، لیکن عملی طور پر وہ ایک کو نجات دے سکتا ہے۔ ایسے میں یہ دونوں وجوب آپس میں ٹکرائیں گے کہ کس واجب کو ادا کیا جائے اور ایک کو بچایا جائے؟ یہاں چونکہ مکلف ہر دو حکم کو جمع نہیں کر سکتا اس لیے ان دونوں حکموں میں تزاحم ایجاد ہو جائے گیا۔
[ترمیم]
تزاحم کے مورد میں علماءِ اصول کا نظریہ ہے کہ
عقل رہنمائی کرتی ہے کہ ان دو حکموں میں سے جو
حکم اہم تر ہے اس کو انجام دیا جائے اور اہم کو
حکم مہم پر ترجیح دی جائے۔ البتہ اگر دونوں حکم مصلحت کے اعتبار سے برابر ہوں اور
اہم اور
مہم نہ ہو تو پھر
مکلف کو اختیار حاصل ہے کہ وہ جس
حکم کو انجام دے دے وہ بجا آوری کفایت کرے گی۔
[ترمیم]
تزاحم کی اصطلاح قدماء میں نہیں پائی جاتی تھی۔ متأخر اصولیوں نے اس کو وضع کیا اور آہستہ آہستہ یہ اصطلاح
اصول فقہ کا حصہ بن گئی۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ قدماء نے تزاحم کے موضوع سے کسی قسم کی بحث نہیں کی بلکہ قدماء نے اس اصطلاح کو استعمال کیے بغیر اس کے بعض پہلوؤں سے بحث کی ہے، مثلا
امر اور نہی کا جمع ہونا،
ترتّب،
امر کی نہی کی ضد پر دلالت،
ادلہ کے درمیان تعارض وغیرہ۔
اصول فقہ میں کس طرح سے تزاحم کی بحث وارد ہوئی اور کس طرح سے اس نے مستقل اور اہم بحث کی حیثیت اختیار کر لی ؟ آیئے اس حوالے سے مختصر جائزہ لیتے ہیں:
فقہاء کرام نے تزاحم بمعنی - مقام امتثال میں دو حکموں کے درمیان تنافی و ٹکراؤ کا پایا جانا- کو
تزاحمِ حقوق کی بحث کو متعدد مصادیق میں سے ایک مصداق کے طور پر زیر بحث قرار دیا ہے۔
مکتبِ امامیہ سے تعلق رکھنے والے علماء اصول کی کتب و منابع میں تحقیق و جستجو سے روشن ہوتا ہے کہ پہلی شخصیت جس نے تزاحم کو اصولی اصطلاح کے طور پر زیر بحث قرار دیا وہ
شیخ اعظم مرتضی انصاری (وفات ۱۲۸۱ ھ) ہیں۔ انہوں نے اپنی اصولی کتب میں تصریح کی ہے کہ تزاحم سے مراد دو ایسے حکموں میں تنافی و ٹکراؤ ہے جو ملاکِ جعل رکھتے ہوں۔
شیخ مرتضی انصاری کے بعض شاگردوں نے مثلا
میرزا حسن شیرازی اور
محمدحسن آشتیانی واضح طور پر اس اصطلاح کو استعمال کیا۔
شیخ انصاری کے شاگردوں میں سے جس نے سب سے پہلے اس اصطلاح کو وسیع پیمانے پر بیان کیا اور اس کو بنیادی بحث قرار دیا وہ اخوند خراسانی (متوفی ۱۳۲۹ ھ) ہیں جنہوں نے اپنی معروف کتاب کفایۃ الاصول میں تزاحم سے تفصیلی بحث کی۔
اخوند خراسانی کے بعد ان کی کتاب پر شرح لکھنے والوں کا دور آتا ہے جنہوں نے کفایۃ الاصول کی شرح کرتے ان مباحث کو دقت کے ساتھ بیان کیا اور تزاحم کو مستقل بحث قرار دیا۔
کفایۃ الاصول میں تزاحم سے مربوط ابواب میں اجتماع امر و نہی کے علاوہ ابوابِ ترتّب اور تعارض بھی شامل ہیں۔ البتہ بعض شارحینِ کفایہ نے تحریر کیا ہے کہ تزاحم سے مربوط ابحاث جیسے مرجحاتِ تزاحم سے اصولیوں نے غفلت برتی ہے۔
اخوند خراسانی کے بعد بحثِ تزاحم
علمِ اصول کی مستقل بحث بن گئی اور اس نے اصولی مباحث میں اپنی مناسب جگہ پیدا کر لی۔ اخوند خراسانی کے بعد
میرزا حسین نائینی (وفات ۱۳۵۵ ھ) نے بحثِ تزاحم میں جدید نظریات پیش کیے۔
بعض محققین نے ذکر کیا ہے کہ متأخر اصولیوں کے نزدیک وہ تمام موارد
تعارض کی بحث سے خارج ہو کر بحث تزاحم میں شمار ہوں گے جن میں دو حکموں کے درمیان ٹکراؤ اور تنافی کا سبب مقامِ عمل میں
مکلف کا قادر نہ ہونا ہے۔
[ترمیم]
ایک اہم ترین بحث جو بابِ تزاحم سے تعلق رکھتی ہے وہ تزاحم کی تعریف، اس کی وضاحت اور اس ان اصطلاحات سے فرق ہے جو اس سے
مشابہ ہیں، جیساکہ
تعارض اور
اجتماعِ امر و نہی مشابہ اصطلاحات ہیں۔
[ترمیم]
تزاحم اور
تعارض میں متعدد فرق بیان کیے گئے ہیں جن میں بعض کو اختصار کے ساتھ درج ذیل نکات میں ذکر کیا جا رہا ہے:
۱.
تعارض کے باب میں
مقاتِ ثبوت میں دو حکموں کا
مدلول باہمی طور پر تنافی و ٹکراؤ رکھتا ہے۔ یعنی
مقامِ جعل و تشریع میں دو حکم آپس میں ٹکراتے ہیں اور قابل جمع نہیں ہیں کیونکہ دونوں آپس میں
تناقض رکھتے ہیں اور اس بات کو مستلزم ہیں کہ آمر (حکم دینے والے) کے نفس میں
ارادہ اور
کراہت ہر دو ایک شیء کے متعلق جمع ہو رہے ہوں۔
جبکہ بابِ تزاحم میں
مقامِ اثبات میں تعاند و ٹکراؤ پایا جاتا ہے۔ یعنی مقامِ عمل میں حکم کی بجا آوری کے وقت ٹکراؤ ایجاد ہوتا ہے ورنہ خود دونوں حکم میں کسی قسم کا ٹکراؤ موجود نہیں ہے، مثلا ایک وقت مین دو افراد کو ڈوبتا دیکھ کر موقع پر موجود شخص پر دونوں کو بچانے کا حکم عائد ہونا۔
۲.
تعارض کے باب میں دو حکموں میں سے ایک کو دوسرے پر مقدم کرنے کی بازگشت
موضوع سے حکم کا رفع ہونے کی طرف ہے، جبکہ بابِ تزاحم میں ایک حکم کو دوسرے سے مقدم کرنے کی بازگشت حکم کے
رفع ہونے کی طرف ہے جوکہ اس لیے رفع ہوا ہے چونکہ
موضوع رفع ہو گیا ہے۔ پس باب تعارض میں موضوع رفع نہیں ہوتا بلکہ حکم رفع ہو رہا ہے جبکہ بابِ تزاحم میں موضوع رفع ہونے کی وجہ سے حکم رفع ہو رہا ہے۔
۳. باب تعارض میں
مرجحات کے ذیل میں ذکر کیا جاتا ہے کہ ایک حکم کو دوسرے پر ترجیح
دلالت اور
سند کی قوت کو معیار بناء پر دی جا سکتی ہے، پس
بابِ تعارض میں
دلالت اور قوتِ سند کی بناء پر دو ٹکرانے والے حکموں میں ایک کو دوسرے پر
ترجیح دی جا سکتی ہے۔ جبکہ بابِ تزاحم میں حکم کا دلالت اور قوتِ سند سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ ممکن ہے کہ باب تزاحم میں ایک حکم کی دلالت زیادہ واضح ہو اور اس کی سند زیادہ قوی ہو لیکن اس کے باوجود دوسرے حکم کو اس پر ترجیح دے دی جائے۔
[ترمیم]
متأخر اصولیوں کے ہاتھوں بحثِ تزاحم اصول فقہ کی مستقل بحث بن گئی۔ اصولیوں نے تزاحم کی
تعریف کو معین کیا اور اس کی ذیلی ابحاث کو مرتب کر کے پیش کیا یہاں تک
میرزا نائینی کے بعد تزاحم کی بحث
تعارض سے جدا ہو کر تفصیلی طور پر زیر بحث لائی جانے لگی۔
اکثر علماءِ اصول نے تزاحم کا اطلاق اس مورد پر کیا ہے جس میں دو حکموں میں ٹکراؤ اور تنافی مکلف کی قدرت اور استطاعت نہ ہونے سے جنم لیتا ہے کیونکہ مکلف بیک وقت دونوں حکموں کو بجا لانے کی قدرت نہیں رکھتا۔
البتہ بعض اصولی قائل ہیں کہ بابِ تزاحم میں دو حکموں میں تنافی اور ٹکراؤ اس لیے ہوتا ہے کیونکہ دونوں حکم ملاک اور معیار رکھتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں جعل اور وضع کیا گیا ہے، ان حکموں کو بجا لاتے ہوئے دونوں کے ملاکِ جعل میں تنافی و ٹکراؤ پیدا ہوتا ہے۔
[ترمیم]
اصول فقہ کے مطابق تزاحم کا بنیادی معنی ایک ہے اور وہ
شارع کی جانب سے دو ایسے حکموں کا صادر ہونا ہے جن میں مقامِ امتثال میں ٹکراؤ پایا جائے، البتہ یہ ٹکراؤ کیوں پیدا ہوا؟ اس اعتبار سے ہمارے سامنے دو مورد آتے ہیں:
۱۔ یہ ٹکراؤ مکلف میں قدرت و استطاعت نہ ہونے کی وجہ سے پیدا ہوا۔ مکلف یہ قدرت نہیں رکھتا کہ مقامِ عمل میں ان دو حکموں کو باہمی طور پر جمع کر سکے اور انہیں بجا لائے۔ بابِ تزاحم میں زیادہ تر یہی صورت پائی جاتی ہے۔
۲۔ خارج میں کوئی ایسی دلیل وجود رکھتی ہے جو مکلف کو ان دونوں حکموں کے جمع کرنے کا ارادہ کرنے سے روک دیتی ہے۔
یہ خارجی دلیل ملاکِ جعل حکم ہے جس کی وجہ سے دو حکموں میں تنافی و ٹکراؤ پیدا ہو جاتا ہے۔
اخوند خراسانی کی نظر میں اس وقت تزاحم ہوتا ہے جب دو حکموں میں جعل و انشاء کا ملاک پایا جائے۔ اگر دو حکموں میں جعل و انشاء کا ملاک ثابت نہ ہو سکے، مثلا دونوں حکموں میں سے ایک حکم میں ملاکِ جعل موجود ہو اور ایک میں نہ ہو تو اس صورت میں یہ مورد بابِ تزاحم سے خارج ہو جائے گا باب تعارض کا مورد شمار ہو گا۔ اس نظریہ کے مطابق تزاحم کا سبب مکلف کا مقامِ عمل میں قادر نہ ہونا نہیں ہے بلکہ تزاحم کے وجود کا سبب دونوں حکموں میں ملاکِ جعل و انشاء کا ہونا ہے۔
بعض اصولیوں نے تزاحم کو مرحلہِ جعل سے مربوط ہونے کی بناء پر اس کو
تزاحمِ ملاکات سے تعبیر کہا ہے۔
جبکہ بعض نے اس کو
تزاحمِ ملاکی کا نام دیا ہے۔
ان کے نزدیک تزاحم کی بازگشت
شارع کی طرف ہے جس کا
مکلف سے کوئی ربط نہیں ہے۔ کیونکہ شارع
احکامِ شرعیہ میں ملاک کو مدنظر رکھتے ہوئے احکام جعل اور انشاء کرتا ہے اور
ملاکِ اہم کو
ملاکِ مہم پر ترجیح دیتا ہے۔
مکتبِ امامیہ معتقد ہیں کہ تمام
احکامِ شرعیہ مصالح اور مفاسد کے تابع ہیں چنانچہ ان کے نزدیک مزاحمِ ملاکی کے تصور کی گنجائش موجود ہے لیکن
اشاعرہ احکامِ شرعیہ کا
مصالح و مفاسد کے تابع ہونے کے قائل نہیں ہیں اس لیے مزاحمِ ملاکی کا تصور ان میں نہیں پایا جا سکتا۔
اخوند خراسانی کے نزدیک ایک فعل میں دو
ملاک اس صورت میں ہو سکتے ہیں اگر وہ فعل مختلف جہات رکھتا ہو، مثلا غصبی مکان میں
نماز پڑھنا اسی مورد کے مصادیق میں سے ہے۔
پس ایک فعل میں ممکن ہے کہ دو جہات پائی جائیں، ایک جہت سے وہ فعل
واجب ہو اور دوسری جہت سے وہ فعل
مباح ہو، مثلا
نماز پڑھنے کی جہت سے نماز
واجب ہے لیکن مسواک کرنے کے اعتبار سے
مسواک کے ہمراہ نماز پڑھنا
مستحب ہے۔
بعض اصولیوں نے دو حکموں کے درمیان ٹکراؤ اور تضاد کے تین مراحل بیان کیے ہیں
:
اگر دو حکموں کے درمیان تنافی اور ٹکراؤ مقامِ انشاء و تشریع میں ہو تو اس کو مرحلہِ جعل سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ مرحلہِ جعل سے تعلق رکھنے والا دو حکموں میں تضاد و ٹکراؤ
بابِ تعارض سے مربوط ہے، جیسے زمانہِ غیبت امام معصوم میں نماز جمعہ کے حکم کی وجوب پر دلالت اور ایک دوسرے حکم کی حرمت پر دلالت ہو۔
دو حکموں میں تنافی اور ٹکراؤ مرحلہِ تحقق میں ہو، اس مرحلہ کو مرحلہِ مجعول بھی کہتے ہیں۔
یہ مرحلہ بحثِ حکومت اور بحث ورود سے مربوط ہے، مثلا: ایک دلیل کہے کہ پانی ضرورت کی مقدار تک موجود ہے تو اس سے وضو کرنا واجب ہے اور دوسری دلیل آ کر کہے کہ جب پانی موجود نہ ہو تو تمیمم کرو۔ مرحلہِ جعل میں ان دونوں دلیلوں میں کسی قسم کا ٹکراؤ نہیں ہے لیکن ایک وقت میں یہ دونوں متحقق نہیں ہو سکتیں۔ کیونکہ ان دو حکموں میں سے ایک کا متحقق ہونا دوسرے حکم کے موضوع کے ختم ہو جانے کا باعث ہے۔
مقامِ امتثال میں دو حکموں کے درمیان تنافی اور ٹکراؤ بابِ تزاحم سے مربوط ہے، مثلا دو افراد جو کسی قسم کی ترجیح نہیں رکھتے ڈوب رہے ہوں اور اس موقع پر ایک شخص تنہا موجود ہو جس میں ان دونوں میں سے ایک بچانے کی قدرت و طاقت ہے۔ اس صورت میں ایک ڈوبتے کو بچانے کا
واجب ادا کرنا دوسرے کو پانی میں غرق ہونے دینے اور اس کے کے بچانے کے
واجب کو ترک کرنے کا باعث بنے گا۔ اگر غور کریں تو معلوم ہو گا کہ ان دونوں حکموں کا جعل ہونا اور ان کے متحقق ہونے کا
امکان عقلی طور پر موجود ہے۔ کیونکہ ہر دو کو نجات دینا مصلحت رکھتا ہے۔ پس جب مصلحت رکھتا ہو تو مولی کی طرف سے مقامِ جعل میں بطور حکم قرار پا سکتا ہے۔
نیز یہ دو حکم مرحلہِ تحقق اور
مرحلہِ مجعول میں بھی باہمی تنافی اور ٹکراؤ نہیں رکھتے، کیونکہ اگر مکلف ان میں دونوں کو ڈوبنے سے بچانے کا واجب ادا نہ کرے تو یقینی طور بر عاصی و نافرمان شمار ہو گا اور مستحقِ عقاب قرار پائے گا۔ اس بناء پر ان دو حکموں کے درمیان فقط مقامِ امتثال میں تنافی اور ٹکراؤ ہے، بقیہ مراحل میں نیہں۔
محقق نائینی کی نظر میں دو حکموں کے درمیان تضاد و ٹکراؤ کے مراحل میں فرق ہے۔ ان کی نظر میں مرحلہِ جعل میں دو حکموں کے درمیان تنافی و ٹکراؤ
بابِ تعارض سے مربوط ہے۔ لیکن اگر دونوں حکم قضیہ حقیقیہ ہوں اور مرحلہِ تحقق اور مرحلہِ امتثال میں ان دونوں میں ٹکراؤ و تضاد ہو تو یہ مورد بابِ تزاحم سے مربوط ہے۔ کیونکہ دو حکموں میں تنافی اور ٹکراؤ کا سبب مکلف میں دونوں کو بجا لانے کی قدرت کا نہ ہونا ہے۔ مکلف یہ توان نہیں رکھتا ہے کہ ایک وقت میں دو حکموں کو انجام دے جس کا نتیجہ عقلی طور پر یہ نکلتا ہے کہ ایک حکم کو انجام دینا دوسرے حکم کو ترک کرنا ہے۔ بالفاظِ دیگر دو حکموں میں سے ایک کو انجام دینا دوسرے حکم کے موضوع کی نفی کا باعث بنتا ہے،نہ کہ دوسرے کے موضوع سے حکم کی نفی کا باعث ہے،
اگر ہم یہ کہیں کہ اس صورت میں دوسرے حکم کے موضوع کی نفی ہوتی ہے تو اس کا یہ مطلب ہے کہ مکلف قادر نہیں ہے اور موضوع کا تحقق جن امور پر موقوف ہے ان میں سے ایک قدرتِ مکلف ہے، لیکن اگر ہم یہ کہیں گے کہ دوسرے حکم سے نفی ہوتی ہے نہ کہ اس کے موضوع سے، تو اس کا یہ مطلب ہے کہ شارع کی طرف سے حکم جاری ہو گیا ہے اور وہ مکلف پر عائد ہوتا ہے۔ پس اس صورت میں تزاحم کا تعلق شارع اور جعلِ تکلیف سے ہو جائے گا۔ میرزا نائینی قائل ہیں کہ تزاحم کا تعلق مکلف کی تکلیف اور اس کی قدرت سے ہے نہ کہ شارع اور جعلِ تکلیف سے، مثلاً: دو بندے ڈوب رہے ہیں اور موقع پر موجود شخص صرف ایک کو بچا سکتا ہے کیونکہ دونوں کو بچانا اس کے بس سے باہر ہے۔ پس یہ مکلف کی تکلیف اور اس کی قدرت سے مربوط ہے نہ کہ شارع اور حکم کو جعل کرنے سے مربوط ہے۔
شیخ
مظفر نے تزاحم اور
تعارض کے موارد میں یا تراحم اور
اجتماعِ امر و نہی کے موارد میں فرق کو واضح کیا ہے۔
شیخ مظفر کی نظر میں
شارع کی جانب سے جب ایک
خطابِ انشائی ہمارے ہاتھ میں آتا ہے تو ہم اس کے مصادیق کو دیکھیں گے، اگر خطاب
عمومِ استغراقی کا حامل ہے تو اس صورت میں خطاب میں اخذ کیا گیا عنوان اس کے تمام مصادیق میں حجیت رکھے گا اور دلالتِ التزامی کے طور پر اس کے مصادیق کی نسبت سے ہر دوسرے حکم کی نفی کرے گا۔
اگر اس صورت میں بالفرض دو لیلوں کے متعلَّق کے درمیان نسبت
عموم و خصوص من وجہ کی ہو، مثلا
نماز پڑھنے کا حکم دیا جائے اور غصبی مکان میں تصرف کرنے سے نہی کی جائے تو ان دو دلیلوں کا جمع ہونا مثلا غصبی مکان میں نماز پڑھنا
تعارض کا مورد کہلائے گا۔
در مقابل، اگر فرض شود که مطلوب شارع، صرف وجود
طبیعت است، نوبت به باب تعارض نمیرسد و دلالت التزامی مذکور در اینجا وجود ندارد.
مثلاً اگر دو
حکم «صَّلِ» و «لاتَغْصِبْ» جعل شده باشد، در این فرض، با انجام دادن هر فردی از افراد نماز، اجرای امر مذکور محقق میشود، اگر چه در
خانه غصبی اقامه گردد.
همچنین حرمت
غصب با انجام دادن هر فردی از مصادیق آن حاصل میشود، اگر چه با اقامه نماز در خانه غصبی باشد.
در این فرض، هر گاه مکلف بتواند یکی از دو
تکلیف را انجام دهد و دیگری را
ترک کند، به طوری که مثلاً بتواند نماز را هم در مکان غصبی هم در غیر آن بخواند، ولی به سوء
اختیار خود مکان غصبی را انتخاب کند، از موارد
اجتماع امر و نهی است، ولی اگر برای مکلف از جمع بین متعلَّق امر و نهی گریزی نباشد و هر دو حکم بناچار متوجه او شود، از موارد باب تزاحم خواهد بود، زیرا تنافی دو حکم ناشی از قدرت نداشتن مکلف بر امتثال هر دو حکم است.
[ترمیم]
آیا باب تزاحم میں یہ گنجائش موجود ہے کہ وہ اپنے موارد کے علاوہ دیگر موارد میں بھی سرایت کر جائے یا اتنی گنجائش موجود نہیں ہے؟ اس بارے میں اختلاف نظر موجود ہے۔ ایک نظریہ کے مطابق تزاحم فقط ان موارد کے ساتھ مختص ہے جن میں مقامِ امتثال میں ایک حکم کی بجا آوری کلی طور پر دوسرے حکم کے ترک کا باعث بنے گا۔
لیکن دیگر علماءِ اصول کی نظر یہ ہے کہ باب تزاحم ان موارد کو بھی شامل ہے جن میں ایک حکم کو بجا لانا دوسرے حکم کے ترک کا وقتی طور پر باعث ہے۔ اس اساس پر واجبِ مضیّق کا واجبِ موسع اور واجب تعیینی کا واجب تخییری سے ٹکراؤ بابِ تزاحم کے موارد میں شمار کیا جائے گا۔
[ترمیم]
اسی طرح
مستحبی احکام میں بھی تزاحم کے متحقق ہونے پر اختلاف پایا جاتا ہے۔
محمد جفعر جعفری لنگرودی قائل ہیں کہ تزاحمِ حقوق کی بحث میں کافی وسعت کی گنحائش ہے اور يہ دو امر یا دو نہی یا دو حکمِ تکلیفی یا دو حکمِ وضعی کے درمیان پایا جاتا ہے۔
[ترمیم]
علماءِ اصول نے تزاحم کو ایجاد کی پناء پر متعدد اقسام میں تقسیم کیا ہے۔
بعض اوقات منشأ تزاحم دو متضاد حکموں کے متعلقات کا متحد ہونا ہے، جیسے غصبی جگہ پر
نماز پڑھنا کہ امر و نہی کا متعلَّق وجود کے اعتبار سے ایک فرض کیا گیا ہے۔
بعض اوقات تزاحم کا سبب ایک حکم کو بجا لانا ہے جو دوسرے حکم کا مقدمہ بنتا ہے، جیسے ڈوبتے ہوئے شخص کو نجات دینا کسی دوسرے کے مال میں اس کی اجازت کے بغیر تصرف کا باعث بن رہا ہو، یہاں
مقدمہ اور
ذی مقدمہ کے درمیان تزاحم ایجاد ہو رہا ہے۔
بعض اوقات منشأ تزاحم دو حکموں کے متعلق میں تضاد کا واقع ہونا ہے، جیسے مسجد سے نجاست کو زائل کرنے کا وجوب اور نماز کا وجوب۔
بعض اوقات تزاحم دو ضد واجب یا مستحب کے مابین ہوتا ہے اور مکلف ہر دو حکموں کو انجام دینے کی قدرت نہیں رکھتا، مثلا: دو شخص پانی میں ڈوب رہے ہیں اور موقع پر حاضر شخص کمزو، لاغر اور ناتوان ہے جو اس وقت دونوں کو ڈوبنے سے نہیں بچا سکتا۔
اگر دو متزاحم حکموں میں سے ایک دوسرے کی نسبت ترجیح رکھتا ہے تو
عقل حکم دیتی ہے اسے ترجیح دی جائے ورنہ
حکمِ عقل یہ ہو گا کہ دونوں میں سے ایک کو انجام دیا جائے۔
[ترمیم]
وہ موارد جن میں دو متزاحم حکموں کے درمیان ایک اہم اور دوسرا مہم ہو تو حکمِ اہم مکلف کے لیے متعین ہو گا اور اس پر عمل کرنا ضروری قرار پائے گا۔ لیکن اگر دونوں متزاحم حکم مساوی ہوں اور
ظرفِ امتثال کے اعتبار سے ایک حکم کو بجا لانے کا وقت پہلے ہے تو
عقل حکم دیتی ہے کہ اس کو مقدم کیا جائے، جیسے
نماز ظہر و
نماز عصر کہ ہر دو
مکلف پر
واجب ہیں لیکن بالفرض
مکلف میں ان دو میں سے ایک کو انجام دینے کی قدرت ہے تو اسے نماز ظہر کو مقدم کرنا ہو گا کیونکہ نماز ظہر وقت کے اعتبار کے سے نماز عصر پر تقدّم رکھتی ہے۔
اس طرح کی صورتوں کے علاوہ دیگر موارد میں عقل حکم دیتی ہے کہ
مکلف کو اختیار حاصل ہے کہ وہ ان میں سے جس کو انجام دینا چاہے انجام دے۔
[ترمیم]
علماءِ اصول نے ملاکِ اہمیت، مختلف صورتیں اور مرجحات کا ذکر کیا ہے جن میں سے بعض مرجحات درج ذیل ہیں:
اگر دو حکموں کے درمیان تزاحم ایجاد ہو جائے اور ان میں سے ایک حکم کی انجام دہی کا وقت تنگ ہے جبکہ دوسرے کا وقت وسیع ہے، یعنی ایک
حکمِ مضیق اور دوسرا
حکم موسّع ہے تو ایسی صورت میں حکمِ مضیق کو مقدم کر دیا جائے گا۔ یعنی جس حکم کا وقت تنگ اور انجام دینے کی مدتِ زمانہ کم ہے اسے فورا بجا لایا جائے گا اور جس حکم کو انجام دینے کا وسیع وقت موجود ہے اس کے حکم کو مؤخر کیا جائے گا، مثلا
اوّلِ وقت میں
نماز کی ادائیگی کا ٹکراؤ
مسجد سے
نجاست کو زائل کرنے سے ہو جائے، اس مورد میں نماز کی ادائیگی کا وسیع وقت موجود ہے جبکہ مسجد سے
نجاست دور کرنے کا وقت اس کی نسبت کم ہے، لہذا
حکمِ مضیق یعنی مسجد سے نجاست کو دور کرنا
واجبِ فوری قرار پائے گا اور
مقامِ عمل میں ہم حکمِ مضیق کو
حکمِ موسّع پر مقدم کریں گے۔
اگر دو حکموں میں تزاحم ہو جائے جن میں سے امر معین اور دوسرا امر مخیر ہو، مثلا ایک ایسا شخص جس نے ماہِ رمضان کا روزہ جان بوجھ کر توڑ دیا اور اس کے ذمہ روزے کا کفارہ موجود ہے، یہ شخص نذر کرتا ہے کہ وہ مومن غلام آزاد کرے گا اور اس کی نذر پوری ہو جاتی ہے، اب وہ ان میں سے کس کو پہلے انجام دے؟ یہاں ایک امر
واجبِ تخییری ہے جوکہ ماہِ رمضان کا کفارہ ہے کہ تین میں سے ایک اس نے انتخاب کرنا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں دوسرا
واجب تعیینی ہے جس میں معین ہے کہ غلام کو آزاد کرنا
واجب ہے۔ اس مورد میں امرِ معین یعنی نذر کو پورا کرنے کو امرِ تخییری یعنی روزہ کا کفارہ ادا کرنے پر مقدم کیا جائے گا۔ اس اعتبار سے نذر کو پورا کرنے کے لیے
غلام کو آزاد کیا جائے گا اور روزہ کے کفارے کے لیے
مکلف کو اختیار ہے کہ ایک کا انتخاب کرے، مثلا دو ماہ مسلسل روزے رکھے یا ساٹھ (۶۰) فقیروں کو پیٹ بھر کر کھانا کھلائے۔
اگر دو حکموں میں تزاحم ایجاد ہو جائے جن میں سے ایک حکم کا بدل موجود ہے جبکہ دوسرے حکم کا بدل موجود نہیں ہے، مثلا ایک شخص نماز پڑھنا چاہتا ہے جس کے لیے اسے وضو یا غسل کرنا ضروری ہے، دوسری طرف اس کا لباس نجس ہو جاتا ہے جس کو پاک کرنے کے لیے اتنا پانی نہیں ہے کہ وہ وضو یا غسل بھی کرے اور لباس بھی پاک کرے، اس صورت میں وہ لباس کو پاک کرے گا کیونکہ اس کا بدل موجود نہیں ہے اور تیمم کر کے نماز پڑھے گا کیونکہ وضو یا غسل کا بدل موجود ہے۔ پس اگر دو حکموں میں ٹکراؤ ہو تو جس کا بدل موجود نہیں ہے اس کو اس حکم پر مقدم کیا جائے گا جس کا بدل موجود ہے۔
[ترمیم]
دو حکم جن میں تزاحم موجود ہے ان میں سے ایک کو دوسرے بر مقدم کرنے کا قانونِ کلی شارع کے نزدیک اولویت ہے جس کی رعایت کرنا ضروری ہے۔ اولویت یا تو ادلہِ شرعیہ سے سمجھی جائے گی یا حکم اور اس کے موضوع کے درمیان مناسبت سے یا شارع کے نزدیک احکامِ شرعیہ کے ملاکات کی شناخت سے سامنے آئے گی، مثلا حق الناس اور حق اللہ کے درمیان تزاحم کے موارد، عبادات میں واجب رکن اور غیر واجب رکن میں تزاحم اور اسی طرح رکوع اور قراءت میں تزاحم، مومنین کے امن و امان کو مدنظر رکھتے ہوئے جھوٹ بولنے اور سچ بولنے میں تزاحم تاکہ فتنہ و فساد کو دور کیا جا سکے کے موارد میں تزاحم، ان تینوں موارد میں پہلے کو دوسرے پر مقدم کیا جائے گا۔
[ترمیم]
علم فقہ میں بھی تزاحم سے بحث کی جاتی ہے اور مختلف فقہی احکام اس کی بنیاد پر ذکر کیے جاتے ہیں۔ فقہاء کرام نے مختلف عناوین کے تحت ایسے فقہی احکام کو ذکر کیا ہے جن میں تزاحم پایا جاتا ہے۔
[ترمیم]
علم فقہ میں تزاحم کے دو معنی بیان کیے گئے ہیں:
علم فقہ میں تزاحم کا پہلا معنی اس کے لغوی معنی سے قریب ہے اور وہ بعض واجبات یا مستحبات کو انجام دیتے ہوئے مکلفوں کا ازدحام و رش ہونا ہے، مثلا نمازِ جمعہ یا نمازِ جماعت میں نمازیوں کے رش و ازدحام کی وجہ سے مکلف کے لیے زمین پر سجدہ کرنا یا امامِ جماعت کی اقتداء کرنا ممکن نہ ہو یا رش کی وجہ سے اس کو رخ امام جماعت سے مڑ جائے وغیرہ۔ مذاہبِ عامہ کے مطابق اس صورت میں آگے کے نمازیوں کی پشت پر سجدہ کرنا جائز ہو جائے گا اور امامِ جماعت کی متابعت کرنا واجب ہو گا۔ اس کے مقابلے میں بعض نے دوبارہ نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے۔
باب تزاحم میں سے ایک مسئلہ حجرِ اسود کو بوسہ دینے یا لمس کرنے کے حوالے سے ہے۔ طواف کرنے والوں کے لیے حجرِ اسود کو بوسہ دینا یا اس کو لمس کرنا مستحب ہے۔ لیکن اگر رش شدید ہو تو فقہاء نے تحریر کیا ہے کہ دور سے اشارہ کر دینا کافی ہے۔
علم فقہ میں تزاحم کا دوسرا معنی حقوق میں تزاحم کا ہونا ہے۔ بعض اوقات تزاحم حق اللہ اور حق الناس کے درمیان ہوتا ہے اور بعض اوقات حق اللہ کے مصادیق اور حق الناس کے مصادیق کے درمیان تزاحم ایجاد ہو جاتا ہے۔ اس کو تزاحمِ حقوق کہا جاتا ہے۔
[ترمیم]
فقہی منابع و کتب میں تزاحمِ حقوق سے متعلق مختلف مسائل بیان ہوئے ہیں، جن میں سے چند کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے:
علم فقہ میں وصیت کے باب میں ایسے مسائل درج ہیں جو تزاحم سے تعلق رکھتے ہیں، مثلا اگر ایک شخص متعدد وصیتیں کرے جن کو پورا کرنے کے لیے اس کے مال کے تیسرے حصہ سے زائد اموال کی ضرورت پیش آئے جبکہ اس کے ورثاء میراث میں سے تیسرے حصے سے زائد اموال میں وصیت کو قبول نہ کریں یا وصیت تمام میراث سے بڑھ کر ہو تو ایسی صورت میں بعض فقہاء قائل ہیں کہ سابقہ وصیت تازہ وصیت پر مقدم شمار کی جائے گی۔ جبکہ بعض فقہاء حقوق اللہ اور حقوق الناس میں مختلف احکام کے قائل ہیں۔
[ترمیم]
مکتبِ امامیہ کے بعض فقہی منابع میں تزاحمِ حقوق کو خصوصی طور پر زیرِ بحث لایا گیا ہے جن میں سے ایک ابی جمہور احسائی ہیں جہنوں نے حقوقِ الہی میں تزاحم کو زیرِ بحث لایا ہے اور واجبات کے علاوہ بھی بقیہ مصادیق کو مدنظر رکھتے ہوئے تزاحم کو بیان کیا، مثلا واجبات کا دیگر احکام سے تزاحم، احکامِ واجب کا احکامِ مستحب سے تزاحم۔ اسی طرح انہوں نے حقوق الناس میں تزاحم کے موارد ذکر کیے ہیں اور فقہ میں ان سے تفصیلی بحث کی ہے۔
محمد بن مکی جوکہ
شہید اول کے نام سے معروف ہیں نے اپنی کتاب
الدروس میں
تزاحمِ حقوق سے بحث کرتے ہوئے لوگوں کے حقوق میں تزاحم کو ذکر کیا ہے او بعض ایسے مسائل جو تمام لوگوں میں مشترک ہیں جیسے روڈیں، گلیاں اور دیواریں وغیرہ کہ یہ عمومی جگہیں ہیں جو تمام لوگوں کا مشترکہ حق ہے کے متعلق خصوصی بحث کی ہے۔
[ترمیم]
•
حقوق میں تزاحم•
اصول فقہ میں تزاحم•
فقہ میں تزاحم[ترمیم]
[ترمیم]
فرہنگ نامہ اصول فقہ، تدوین توسط مرکز اطلاعات و مدارک اسلامی، ص ۳۰۵، برگرفتہ از مقالہ تزاحم۔ دانشنامہ جہان اسلام، بنیاد دائرة المعارف اسلامی، برگرفتہ از مقالہ تزاحم، شماره۳۵۱۷۔ فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت علیہم السلام، ج۲، ص۴۵۶۔