تشکیل حکومت کی ضرورت
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
قرآن کریم کی اہم صفات میں سے ایک اس کا جامع ہونا ہے۔ امت اسلامیہ متفق ہے کہ قرآن کریم متعدد اور گوناگوں معارف پر مشتمل ہے جو انسانی زندگی کے تمام جوانب کو شامل ہے۔ انہی اہم ترین ابحاث میں سے ایک
دین اور سیاست کا باہمی تعلق اور حکومت کی تشکیل سے متعلق مباحث ہیں۔
[ترمیم]
دین اور سیاست کا باہمی تعلق کو
قرآنی معارف میں واضح طور پر ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ سیاست کے موضوع پر قرآنی معارف مختلف آیات میں بکھرے ہوئے ہیں۔ انہی میں سے ایک موضوع تشکیلِ
حکومت کی ضرورت کا بیان ہے۔ زیر نظر سطور میں قرآن کریم کی نگاہ میں عالمی سطح پر بین الاقوامی روابط، شوری اور مشاورتی نظام جیسے موضوعات کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے۔
[ترمیم]
قرآن کریم کی نظر میں حکومت
دین سے جدا نہیں اور
دین اور سیاست کا باہمی تعلق اس گہرے طور پر ہے جو کسی صورت ٹوٹ نہیں سکتا۔ آیت اللھ
مکارم شیرازی بیان کرتے ہیں: (
سورھ حدید، آیت ۲۵ کے مطابق) انبیاء (علیہم السلام) کی بعثت کا ہدف معاشرے میں عدل و انصاف قائم کرنا ہے۔ دین اس لیے آیا ہے کہ انسان کو اسارت و قید و بند سے چھٹکارا دلائے اور بشر کو خواہشات نفسانی کے زندانوں اور ذلت و پستی کے مقامات سے آزادی عطا کرے۔
سورھ اعراف، آیت ۱۵۷ کے مطابق دین کی آمد کا مقصد مستضفعین کو ظالمین اور ستمگروں کے چنگل سے نجات دینا اور ظالمین کی برتری کو ختم کرنا ہے۔ واضح سی بات ہے کہ
دین کے یہ اہداف حکومت کی تشکیل کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتے۔ اگر
دین اور سیاست کی ہاہمی جدائی کے قائل ہو جائیں تو اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ دین آنے کے جو اہداف تھے وہ حاصل نہیں کیے جا سکتے اور دین اپنے اہداف تک نہیں پہنچ سکتا۔ پس اگر
دین اور سیاست کا باہمی تعلق ختم کر دیا جائے اور ان کو ایک دوسرے سے جدا کر دیا جائے تو دین تخریب کار انسان کی فقط خواہشات و ذاتی اہداف کے حصول کا ایک آلہ و ہتھیار بن کر رہ جائے گا۔
شہید مطہری فرماتے ہیں:
دین اور سیاست کا باہمی تعلق عام فہم بنا کر ہمیں پیش کرنا چاہیے اور عوام کو باور کرانا چاہیے کہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہیں۔
جمال الدین افغانی نے بھی دین اور سیاست کی جدائی کی فکر کے خلاف مبارزہ کیا۔ ان کا نظریہ تھا کہ اسلام دینِ سیاست ہے۔
اسلام اجتماعیات کا دین ہے۔
قرآن کریم کی متعدد آیات سے تشکیل حکومت کی حاجت و ضرورت پر استدلال قائم کیا جا سکتا ہے۔ ان آیات میں سے ایک
سورھ ص کی آیت ۳۵ ہے۔ اس آیت میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا قول اس طرح بیان ہوا ہے:
وَھبْ لِی مُلْکا؛ (بار الہا) مجھے حکومت عطا فرما۔
اس آیت کے ذیل میں علماء بیان کرتے ہیں کہ
حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی اس دعا کا
قرآن کریم میں موجود ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ ایک قوی و پائیدار حکومت کا ہونا، مادی وسائل کی فراوانی اور اقتصادی لحاظ سے قوت کا حصول معنوی مقامات اور ان کے حصول سے منافات و ٹکراؤ نہیں رکھتا۔
سورھ آل عمران آیت ۲۶ میں ارشادِ باری تعالی ہوتا ہے:
قُلِ اللَّھمَّ مالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشاءُ وَ تَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشاءُ ...؛ (اے نبی)کہہ دیجیے! بار الہا تو بڑی مملکت کا مالک ہے اور تو جس کو چاہتا ہے ملک و سلطنت عطا کرتا ہے اور جس سے چاہتا ہے اس سے لے لیتا ہے۔
اس آیت کے ذیل میں
علامہ طباطبائی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: مُلک (میم پر ضمہ کے ساتھ) کا مطلب عوام پر
سلطنت کرنا ہے، یہ ایک ایسا امر ہے کہ جس سے انسان بے نیاز و مستغنی نہیں ہو سکتا۔ قرآن کریم نے اس مطلب کو جناب
طالوت کے واقعہ کے ذیل میں جامع طور پر ذکر کیا ہے۔
سورہ بقرہ آیت ۲۵۱ میں ارشاد ہوتا :
وَ لَوْ لا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَفَسَدَتِ الْأَرْض؛ اگر اللہ بعض لوگوں کو بعض دیگر کے ذریعے دور نہ کرتا تو زمین فاسد ہو جاتی (اور رہنے کے قابل نہ رہتی)۔
اس آیت کے ذیل میں
علامہ طباطبائی بیان کرتے ہیں: نوع انسانی اجتماعی امور میں سعادت و کامرانی ایک دوسرے کی مدد کے بغیر حاصل نہیں کر سکتی۔ مزید لکھتے ہیں کہ دفع اور غلبہ کا معنی ایک عمومی معنی ہے کہ جو زندگی کے تمام شعبوں کو شامل ہے۔ غلبہ کا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص کسی دوسرے شخص کو اس بات کا قائل کرے کہ اس کے ذاتی امور میں وہ اس کے موافق ہو جائے اگرچے یہ دوسرا شخص اپنے طور پر موافقت کرنا نہین چاہ رہا لیکن پہلا شخص اس کو مناتا ہے۔ یہ جاننا ضروری ہے کہ غلبہ یا دفع کرنا یعنی دھکیلنا اور دُور کرنا ایک طبعی عمل ہے جو ہر انسان کی ذات میں موجود ہے، چاہے وہ غلبہ یا دفع شریعت اور عدالت کے ذیل میں ہو یا غیر شرعی اور ظلم کی صورت میں ہو۔
ان آیات کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ قرآن کریم کی نظر میں تشکیل حکومت ایک ضروری امر ہے۔
[ترمیم]
قرآن کریم کی آیات میں دقت کرنے سے معلوم ہو گا کہ اگر ایک
اسلامی معاشرہ یا اسلامی حکومت کسی کافر حکومت سے قرار داد یا معاہدہ کرتی ہے تو ضروری ہے کہ اس معاہدے کو پورا کرے۔ البتہ یہ اس وقت تک ہے کہ جب تک دوسرا فریق اس معاہدے کی خلاف ورزی نہ کرے۔ اس موضوع پر
توبہ آیت ۴ میں ارشاد ہوتا ہے:
إِلاَّ الَّذینَ عاھدْتُمْ مِنَ الْمُشْرِکینَ ثُمَّ لَمْ ینْقُصُوکمْ شَیئاً وَ لَمْ یظاھرُوا عَلَیکمْ أَحَداً فَأَتِمُّوا إِلَیھمْ عَھدَھمْ إِلی مُدَّتِھمْ إِنَّ اللَّھ یحِبُّ الْمُتَّقین؛ مگر
مشرکین میں سے وہ جن سے تم لوگوں نے معاہدہ کیا تھا پھر انہوں نے تمہارے ساتھ کسی قسم کی خلاف ورزی نہیں اور تمہارے خلاف کسی کی مدد کی تو تم ان سے کیے ہوئے معاہدے کو اس مدت تک تمام کرو جو تمہارے درمیان طے ہوا تھا بے شک اللہ متقین سے محبت کرتا ہے۔
اس بناء پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ قرآن کریم کی نظر میں ایک اسلامی ملک اپنے امور خارجہ اور بین الاقوامی روابط معاشرے میں بسنے والے لوگوں کی جہت سے چند ذمہ داریاں رکھتا ہے۔ پس اگر ایک اسلامی ملک اپنے ملکی مفادات یا عوامی فلاح و بہبود کو مدنظر رکھتے کے کسی غیر مسلم ملک کے ساتھ معاہدہ کرے تو ضروری ہے کہ اس معاہدے کا پابند رہے اور اس کے مطابق امور انجام دے۔
سورہ ممتحنہ آیت ۸ اور ۹ میں ارشادِ باری تعالی ہوتا ہے:
لا ینْھاکمُ اللَّھ عَنِ الَّذینَ لَمْ یقاتِلُوکمْ فِی الدِّینِ وَ لَمْ یخْرِجُوکمْ مِنْ دِیارِکمْ أَنْ تَبَرُّوھمْ وَ تُقْسِطُوا إِلَیھمْ إِنَّ اللَّھ یحِبُّ الْمُقْسِطین،إِنَّما ینْھاکمُ اللَّھ عَنِ الَّذینَ قاتَلُوکمْ فِی الدِّینِ وَ أَخْرَجُوکمْ مِنْ دِیارِکمْ وَ ظاھرُوا عَلی إِخْراجِکمْ أَنْ تَوَلَّوْھمْ وَ مَنْ یتَوَلَّھمْ فَأُولئِک ھمُ الظَّالِمُون؛ جن لوگوں نے دین کے معاملے میں تم سے جنگ نہیں کی اور نہ ہی تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا ہے اللہ تمہیں ان کے ساتھ احسان کرنے اور انصاف کرنے سے نہیں روکتا، بے شک اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
اللہ تو صرف ان لوگوں سے تمہیں منع کرتا ہے جنہوں نے
دین کے معاملے میں تم لوگوں سے قتال و جنگ کی اور تمہیں تمارے گھروں سے گھر بدر کیا اور تمہاری جلاوطنی پر ایک دوسرے کی مدد کی ہے اور جو ان لوگوں سے دوستی کرے گا پس وہی لوگ ظالم ہیں۔
اس آیت کے ذیل میں آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی بیان کرتے ہیں: ان آیات سے ہم کلی طور پر اس امر کا استفادہ کر سکتے ہیں کہ ایک اسلامی ملک کسی غیر اسلامی ملک سے کیسے ارتباط قائم کرے اور اپنے امور کو انجام دے۔ اس آیت کی روشنی میں مسلمانوں کا یہ وظیفہ بیان کیا گیا ہے کہ ہر اس گروہ یا ملک سے تعلقات منقطع کر دینے چاہیں جس نے مسلمانوں سے دشمنی اختیار کی یا جو اسلام کے خلاف یا مسلمانوں کے خلاف سازش کا حصہ بنا۔ لیکن اگر کوئی غیر مسلم گروہ یا غیر اسلامی ملک اسلامی مملکت سے دشمنی اختیار نہیں کرتا اور نہ ہی مسلمانوں کے خلاف سازش میں شریک ہے یا
اسلام کی طرف میلان و رغبت رکھتا ہے تو مسلمانوں کو چاہیے کہ ان سے دوستانہ تعلقات قائم کریں۔ البتہ اس دوستی کی حدود بھی معین اور مشخص کی گئی ہیں کہ غیر مسلم ممالک کے ساتھ دوستی سے زیادہ قوت اور مضبوطی نہیں آنی چاہیے۔ قرآن کے مطابق مسلمانوں کا مضبوط ترین دوست مسلمان ہی ہونا چاہیے۔
خارجہ امور میں سب سے اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ امت اسلامی کے استقلال کو یقینی بنایا جائے۔ قرآن کریم نے کفار کا مسلمانوں پر تسلط اور قبضہ ممنوع قرار دیا ہے لہذا مسلمانوں کے ذاتی امور اور فیصلوں میں کفار کی دخل اندازی کو قبول نہیں کرنا چاہیے اور ایسی کوئی راہ نہیں دینی چاہیے جس سے کفار مسلمانوں کے فیصلوں میں اثر انداز ہونے لگیں۔
سورہ نساء آیت ۱۴۱ میں اس مطلب کو صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے: «وَلَن یجْعَلَ اللّھ لِلْکافِرِینَ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ سَبِیلًا»؛ اور اللہ ہے کافروں کو مؤمنین پر مسلط ہونے کی کوئی راہ قرار نہیں دی۔
اسی طرح ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے: «یا أَیھا الَّذِینَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ الْکافِرِینَ أَوْلِیاء مِن دُونِ الْمُؤْمِنِینَ أَتُرِیدُونَ أَن تَجْعَلُواْ لِلّھ عَلَیکمْ سُلْطَانًا مُّبِینًا ؛ اے ایمان والو! تم مومنین کو چھوڑ کر کفار کو اپنا حامی و سرپرست مت بناؤ، کیا تم چاہتے ہو کہ خود اپنے خلاف اللہ کے پاس صریح دلیل فراہم کرو؟!
تفسیر راہنما میں بیان کیا گیا ہے: ولی بمعنی
سرپرست ہے اور آیت کا یہ جزء
لا تتخذوا واضح دلالت کر رہا ہے کہ
کافروں کی سرداری قبول نہیں اور
من دون المؤمنین نشاندہی کرتا ہے کہ مسلمانوں کو ایک دینی و اسلامی حکومت تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔
اسی ضمن میں سورہ آل عمران آیت ۲۸ سے بھی استفادہ کیا جا سکتا ہے جس میں اللہ تعالی فرماتا ہے:
لاَّ یتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْکافِرِینَ أَوْلِیاء مِن دُوْنِ الْمُؤْمِنِینَ؛
مؤمنین دیگر مومنین کو چھوڑ کر کفار کو
ولی اور سرپرست نہ بنائیں۔
علامہ طباطبائی اس آیت کریمہ کے ذیل میں فرماتے ہیں: اگر ہم کفار کو اپنا سرپرست بنا لیں تو نہ چاہتے ہوئے بھی روحانی طور پر ان جیسا مزاج پیدا کرلیں گے اور مزاج میں ہم ان کے مطیع ہو جائیں گے جس کے نتیجے میں مسلمان اپنا اخلاقی اور اجتماعی تشخص کھو بیٹھیں گے۔
مندرجہ بالا سطور میں جو ذکر ہوا وہ غیر اسلامی ممالک کے ساتھ روابط و تعلقات کے بارے میں اجمالی معلومات تھیں۔ جہاں تک اسلامی ممالک سے روابط اور تعلقات کی قرآنی ہدایات ہیں تو اس سلسلے میں ہمیں
سورہ انبیاء آیت ۹۲ کی طرف رجوع کرنا چاہیے جس میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:
إِنَّ ھذِہ أُمَّتُکمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّکمْ فَاعْبُدُونِ؛ بے شک تمہاری امت ایک امت ہے اور میں تمہارا ربّ ہوں پس تم لوگ میری عبادت کرو۔
مرحوم
طبرسی اس آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں: یعنی تمہارا دین، ایک دین ہے۔
پس اگر تمام مسلمانوں کا دین ایک ہے اور سب مسلمانوں کا ایک ہی ہدف یعنی اللہ کی بندگی اور عبادت کرنا ہے اور اسی طرف سب بڑھ رہے ہیں تو ایک مسلم کو دوسرے مسلم سے قطع تعلق نہیں کرنا چاہیے اور اسے تنہا نہیں چھوڑنا چاہیے۔
[ترمیم]
انسانی زندگی کی اجتماعی مدیریت کا قدیمی ترین طریقہ شوارائی نظام ہے۔ تاریخ کے مستند ترین حکمران اپنے ساتھ ایک شورائی کابینہ رکھتے تھے اور اس سے استفادہ کرتے تھے اور یہ عوام الناس کو قانع کرنے کا ایک بہترین طریقہ کار بھی ہے۔
قرآن کریم میں بھی اسلامی حکومت کی مدیریت اور نظم و نسق کے امور کے لیے اسلامی شوری کا نظریہ موجود ہے۔ شوری ایک طرح سے اسلام کے سیاسی نظام کا بنیادی و اساسی ستون ہے۔ قرآن کریم میں شوری کے عنوان سے مکمل ایک سورہ نازل ہوئی ہے۔
سورہ شوری آیت ۳۸ میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:
وَأَمْرُھمْ شُورَی بَینَھمْ؛ اور اپنے امورِ زندگانی اور معاملات میں باہمی طور پر مشاورت کرتے ہیں۔
آیت اللہ مکارم اس آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں: ایک انسان چاہے جتنا بھی مفکر و عالم ہو وہ ایک مسئلے پر صرف چند جوانب سے غور و فکر کر سکتا ہے۔ لیکن اگر وہی مسئلہ شوری میں زیرِ بحث لایا جائے اور سب کی عقلی سوچ بچار سے فائدہ اٹھایا جائے اور مختلف افراد کے تجربوں کو مدنظر رکھا جائے تو اس مسئلہ کا بہترین راہِ حل میسر آ سکتا ہے اور اس طرح مسائل کو اچھے طریقے سے حل کیا جا سکتا ہے۔
اسی طرح قرآن کریم میں ایک اور جگہ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
وَشَاوِرْھمْ فِی الأَمْرِ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکلْ عَلَی اللّھ إِنَّ اللّہ یحِبُّ الْمُتَوَکلِینَ؛ اور امورِ (زندگانی) میں ان سے باہمی مشورہ لیں، پس جب آپ عزم کر لیں تو پھر اللہ پر توکل کریں بے شک اللہ توکل کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
اس آیت کے ذیل میں آیت اللہ مکارم لکھتے ہیں: اگرچہ کلمہ
الامر وسیع مفہوم رکھتا ہے اور زندگی کے تمام شعبہ جات و امور کو شامل ہے لیکن یہ بات مسلم ہے کہ جہاں
رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ) اہم امور میں مشاورت کرتے ہوئے لوگوں کو ساتھ ملاتے تھے وہاں بعض امور میں قطعًا کسی قسم کا مشورہ نہیں لیتے تھے اور وہ امور احکامِ الہی اور قانون کی تشکیل ہے کہ ان میں مشاورت کی بجائے فقط
وحی کی اتباع فرماتے تھے۔
[ترمیم]
سورہ نحل آیت ۸۹ کے مطابق قرآن کریم وہ الہی کتاب ہے جس میں انسان کی زندگی کے ہر اہم مسئلہ اور زندگی کے مختلف شعبہ جات کے متعلق ہدایتِ الہی اور رہنمائی موجود ہے۔ انہی اہم ترین مباحث میں سے ایک سیاسی مباحث ہیں جن کے متعلق قرآن کریم نے اپنا موقف واضح طور پر بیان کیا ہے اور قرآنی موقف نہ ماننے کے نتائج اور مضر اثرات کی بھی نشاندہی کی ہے۔ کیونکہ دین اسلام کا سیاست سے گہرا ربط ہے۔
دین اور سیاست کا باہمی تعلق سبب بنتا ہے کہ دونوں کو ایک دوسرے سے جدا تصور نہ کیا جائے۔
قرآنی سیاست اور دنیاوی سیاست میں فرق ہے۔ قرآنی سیاست سے مراد وہ سیاست ہے جو قرآنی افکار و تعلیمات کی روشنی میں انجام پائے۔ قرآن کریم کے مطابق دینی سیاست کے دو اہم حصے ہیں:
۱۔
فلسفہِ سیاسی اسلام، یعنی اسلام کی نظر میں سیاست کے نظریاتی خدوخال اور اس کے پیش نظر اہداف و مقاصد کا بیان۔
۲۔
فقہ سیاسی اسلام، یعنی اسلامی سیاست کی سوجھ بوجھ اور اس کے بنیاد اصول و ضوابط۔
اسلامی کی نظر فلسفہِ سیاست سے عمیق ترین بحث یہ کی جاتی ہے کہ سیاست اور اعتقاد کا گہرا باہمی تعلق و ربط ہے۔ جیساکہ
سورھ نساء آیت ۵۹ اللہ تعالی فرماتا ہے:
یا أَیھا الَّذِینَ آمَنُواْ أَطِیعُواْ اللّہ وَأَطِیعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِی الأَمْرِ مِنکمْ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِی شَیءٍ فَرُدُّوہ إِلَی اللّہ وَالرَّسُولِ إِن کنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللّہ وَالْیوْمِ الآخِرِ ذَلِک خَیرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِیلًا؛اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اور تم میں سے جو صاحبان امر ہیں کی اطاعت کرو، پس اگر کسی مسئلہ میں تم آپس میں کس جھگڑے کا شکار ہو جاتے ہو تو اس کو اللہ اور رسول کی طرف پلٹا دو اگر تم اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو، یہ سب سے بہتر ہے اور حقیقی مصلحت کے سب سے قریب ہے۔
تفسیر راہنما میں اس کے ذیل میں وارد ہوا ہے: کیونکہ اللہ، اس کے رسول اور
اولوا الامر کی اطاعت کرنا ایک سیاسی امر ہے اور اسی طرح سے یہ اطاعت ایک قسم کا اعتقادی مسئلہ بھی بن جاتا ہے۔ پس اس بناء پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ سیاسی اور عقائدی مسائل کا ایک دوسرے سے گہرا رابطہ اور تعلق ہے۔
سورہ نساء آیت ۱۴۴
سے بھی اس مطلب کا استفادہ کیا جا سکتا ہے جس میں مومنین کی بجائے کفار کو اپنا سرپرست و
ولی بنانے کی نفی کی گئی ہے۔ سیاسی امور میں ایمان و کفر کی رعایت واضح دلیل ہے کہ سیاست اور اعتقاد کا گہرا ربط اور تعلق ہے۔ لہذا اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومت ایمانی بنیاد پر ہونی چاہیے۔
قرآن کریم کی آیات کے تناظر میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اسلام کے تمام سیاسی امور کی اصل بنیاد عدالت ہے۔
لفظ
عدل (ع، د، ل) اور اس کے مختلف مشتقات قرآن کریم میں ۲۹ بار اور لفظ
ظلم اور اس کے مشتقات ۲۹۰ بار وارد ہوئے ہیں۔
اس طرف توجہ رہے کہ ان سطور میں جو مطالب و نکات آیات کریمہ کے ذیل میں بیان کیے گئے ہیں وہ اسلام کی نظر میں سیاست اور سیاسی مباحث و افکار کی طرف ایک اجمالی اشارہ ہے ۔ کیونکہ اس موضوع کی تفصیلی ابحاث کو ان مختصر سطور میں سمیٹا نہیں جا سکتا۔ ان موضوعات کی تفصیلی معلومات کے لیے متعلقہ کتابوں کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ اللہ سبحانہ و تعالی سے دعا ہے کہ ان سب قرآنی مباحث کو زیر بحث لانے اور ان سیاسی عناوین کو معاشروں پر لاگو کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔
[ترمیم]
[ترمیم]
سایت اندیشہ قم، ماخوذ از مقالہ رابطہ قرآن و سیاست۔