تمثل

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



ایک شیء کا کسی غرض و مقصد کی وجہ سے انسان کے سامنے ایسی شکل و صورت میں ظاہر ہونا جس سے انسان مانوس ہو تمثل کہلاتا ہے۔ یہ کلمہ اس وقت استعمال کیا جاتا ہے جب مجرد یا برزخی وجودات یا بعض مادی اشیاء انسان کے سامنے مانوس اور آشنا صورت و شکل میں ظاہر ہونے کا تقاضا رکھتی ہوں۔


تمثل کا معنی

[ترمیم]

تَمَثُّل باب تفعّل سے مصدر ہے جس کے حروف اصلی م-ث-ل ہے جس کے لغوی معنی شباہت اور ایک شیء کا دوسری شیء کے نظیر یا شبیہ ہونا ہے۔ راغب نے تحریر کیا ہے کہ تمثل سے مراد شیء کا صورت و شکل اختیار کرنا ہے۔ علامہ طباطبائی تمثل کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: فإن معنى تمثل شيء لشيء في صورة كذا هو تصوره عنده بصورته وهو هو لا صيرورة الشيء شيئا آخر فتمثل الملك بشرا هو ظهوره لمن يشاهده في صورة الإنسان لا صيرورة الملك إنسانا؛ ایک شیء کا دوسری شیء کے لیے فلاں صورت میں تمثل کا معنی یہ ہے کہ اس کے نزدیک اس شیء کا تصور اُس کی صورت میں ہوا، وہ شیء کسی اور شیء میں تبدیل نہیں ہوتی، پس فرشتہ کا انسان کے متمثل ہونے سے مراد یہ ہے کہ فرشتہ انسان کی شکل و صورت میں مشاہدہ کرنے والے کے لیے ظاہر ہوا، نہ کہ یہ مطلب ہے کہ فرشتہ انسان میں تبدیل ہو گیا۔ پس اگر واقعا ایک شیء خارج میں تبدیل ہو کر دوسری شیء بن جاتی تو یہ انقلاب کہلاتا نہ کہ تمثل۔ آیت اللہ حسن زادہ آملی بیان کرتے ہیں کہ تمثل سے مراد موطنِ ادراک میں شیء کا ایسی صورت میں ظاہر ہونا ہے جو حالات کے عین مناسب اور انسان کے نفسانی امور سے سازگار ہوتی ہے۔ پس تمثل میں ایک شیء دیکھنے والے کے لیے خاص صورت و شکل اختیار کرتی ہے جوکہ غرض و مقصد کے عین مطابق اور دیکھنے والے کے لیے مانوس ہوتی ہے۔ اس بناء پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ تمثل انقلاب یا ایک شیء کا تبدیل ہو کر کسی دوسری شیء میں ڈھل جانا نہیں ہے کیونکہ ماہیت کا انقلاب محال ہے۔

← ایک شبہ اور جواب


ممکن ہے یہاں کوئی کہے کہ تمثل کا جو معنی بیان کیا گیا ہے وہ سفسطہ اور غیر حقیقت کو حقیقت سمجھنا ہے جوکہ باطل عمل اور قابل مذمت ہے؟! مثلا فرشتہ انسان کی صورت میں نظر آئے جبکہ وہ انسان نہیں اور دیکھنے والا اسے دیکھ کر انسان سمجھے تو یہ سفسطہ ہے!! اس کے جواب میں علامہ طباطبائی فرماتے ہیں کہ درج ذیل دو موارد میں فرق کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ان میں سے ایک مورد حقیقت اور دوسرا سفسطہ ہے جبکہ تمثل سے ہمارے پیش نظر یہی پہلا مورد مراد ہے:
۱. أن يكون هناك حقيقة يظهر للمدرك بما يألفه من الصور وتحتمله أدوات إدراكه؛ خارج میں ایک حقیقت ہو جو درک کرنے والے کے لیے اس شکل و صورت میں ظاہر ہوتی ہے جس سے وہ درک کرنے والا مانوس ہوتا ہے اور اس کے ادواتِ ادراک اس کو قبول کرتے ہیں۔ تمثل سے ہماری مراد یہی مورد ہے۔ پس تمثل میں وجود خارج میں موجود ہوتا ہے اور حقیقت کے عین مطابق ہوتا لیکن دیکھنے والے کے لیے ایسی صورت میں ظاہر ہوتا ہے جس سے دیکھنے والا مانوس ہو۔
۲. اس کے برخلاف سفسطہ میں صرف صورت دکھائی دیتی ہے جس کے ماوراء کوئی وجود خارجی خارج اور حقیقت میں موجود نہیں ہوتا۔ یہ سفسطہ ہے۔

تمثل کے حصول کے طریقے

[ترمیم]

انسان کے لیے جو صورتیں و شکلیں تمثل اختیار کرتی ہیں وہ صورتیں درج ذیل چند طریقوں سے حاصل ہوتی ہے:
۱. ظاہری حواس: جیسے محسوسات کی صورتیں جوکہ حواس خمسہ ظاہری کے ذریعے حسّ مشترک میں متمثل ہوتی ہیں، کیونکہ تحقیق کے مطابق جزئی مدرکات اور جزئی معلومات و تصورات مثالی ہوتی ہیں یعنی مجرد غیر تام ہوتی ہیں۔
۲. قوت متخیلہ کا اختراع کرنا۔
۳. باطن میں عالم معنی اور عقولِ قدسیہ سے تجلیات و تمثلات کے ذریعے تمثل ہونا، جیسے سچے خواب، رؤیا صادقہ۔
۴. عالم مثال اور خیال منفصل میں موجودات کی منعکس ہونی والی صورتی۔
۵. ابلیسوں اور شیاطین کا انسانی وجود سے باہر متمثل ہونا۔
[۸] آملی، حسن زادہ، شرح فصوص الحکم، ص۱۰۴۔
ان میں سے آخری دو قسمیں اس مقالہ میں موضوعِ بحث ہیں۔

قرآن کریم میں تمثل

[ترمیم]

قرآن کریم میں متعدد موارد ہیں جن میں تمثل کا تذکرہ وارد ہوا ہے۔ ان میں سے بعض درج ذیل ہیں:

← جناب مریمؑ کے لیے فرشتہ کا تمثل


قرآن کریم میں وارد ہوا ہے کہ جناب مریمؑ کے لیے ایک فرشتہ بشر کی صورت میں متمثل ہوا، جیساکہ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: فَاَرسَلنا اِلَیها روحَنا فَتَمَثَّلَ لَها بَشَرًا سَویّا؛ پس ہم نے مریمؑ کی طرف اپنی روح کو بھیجا جوکہ ان کے لیے مکمل بشر کی صورت میں ظاہر ہوا۔ جناب مریمؑ کے لیے روح کے تمثل سے مراد یہ ہے کہ مریمؑ نے دائرہِ ادراک میں انسانی شکل کا مشاہدہ کیا۔ جناب مریمؑ کے اس ادراک سے ہٹ کر خارج میں کوئی انسانی شکل و صورت والا کوئی مرد نہیں تھا بلکہ اس بشری صورت کے مارواء حقیقتِ جناب جبریلؑ تھی۔
[۱۰] جوادى آملى، عبد اللہ، تفسیر موضوعی، ج۷، ص۳۶۵۔
اس کا راز یہ ہے کہ جناب مریمؑ نے فرشتہ کو انسان شکل و صورت میں مشاہدہ کیا تھا کیونکہ تمثل کا مطلب یہ ہے کہ ایک حقیقت کا ایسی صورت میں ظاہر ہونا جس سے انسان مأنوس ہو اور وہ صورت غرض و مقصد سے سازگار ہو۔
[۱۲] آملی، حسن زادہ، ممدّ الہمم فی شرح فصوص الحکم، ص۳۵۱۔


← فرشتوں کا جناب داؤدؑ کے لیے متمثل ہونا


قرآن کریم میں ان فرشتوں کا ذکر وارد ہوا ہے جو حضرت داؤدؑ کے لے دو لڑنے والے افراد کی شکل میں متمثل ہوئے، جیساکہ قرآن میں ارشاد ہوتا ہے:وَهَلْ أَتاكَ نَبَأُ الْخَصْمِ إِذْ تَسَوَّرُوا الْمِحْراب‌...؛ اور کیا آپ کے پاس مقدمے والوں کی خبر آئی ہے جب وہ دیوار پھلانگ کر محراب مں داخل ہو گئے۔ حضرت داؤد حالتِ عبادت میں تھے کہ ناگہانہ انہوں نے ایک پُر رعب منظر دیکھا کہ دیوار کے اوپر آپس میں دشمنی کرنے والے مقدمہ لے کر ان کے پاس آئے اور کہا کہ گھبراؤ مت، ہم دو گروہ ہیں جن میں جھگڑا ہو گیا ہے اور آپ کے پاس فیصلہ کرانے آئے ہیں۔ قرآن کریم میں اس بارے میں ارشاد ہوتا ہے:إِذْ دَخَلُوا عَلى‌ داوُدَ فَفَزِعَ مِنْهُمْ قالُوا لا تَخَفْ خَصْمانِ بَغى‌ بَعْضُنا عَلى‌ بَعْضٍ فَاحْكُمْ بَيْنَنا بِالْحَقِّ وَ لا تُشْطِطْ وَ اهْدِنا إِلى‌ سَواءِ الصِّراط اِنَّ هذا اَخی لَهُ تِسعٌ وتِسعونَ نَعجَةً ولِیَ نَعجَةٌ واحِدَةٌ فَقالَ اَکفِلنِیهَا وَعَزَّنی فِی الخِطَاب قالَ لَقَد ظَلَمَکَ بِسُؤالِ نَعجَتِکَ اِلی نِعاجِهِ...؛ جب وہ داؤد کے پاس آئے تو وہ ان سے ڈر گئے، انہوں نے کہا کہ گھبراؤ مت ہم جھگڑنے والے دو فریق ہیں، ہم سے بعض نے دیگر پر ظلم و زیادتی کی ہے پس آپ ہمارے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کیجیے اور نا انصافی نہ کیجیے اور ہمیں سیدھے راستے کی طرف ہدایت دیں، یہ میرا بھائی ہے جس کی ۹۹ دنبیاں ہیں اور ایک میری دُنبی ہے، وہ کہتا ہے کہ اس ایک دُنبی کو بھی میرے حوالے کر دو اور بول چال میں مجھ پر دباؤ ڈالتا ہے، داؤد نے کہا: تیری ایک دُنبی کو اپنی دُنبیوں سے ملانے کا مطالبہ کرنا اس کا تیرے اوپر ظلم ہے۔ ان آیات سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت داؤدؑ نے مدّعی کا دعوی سنا اور مد مقابل فریق کا دفاع سنے بغیر حکم سنا دیا۔ پھر اچانک اس طرف توجہ گئی کہ حکم بیان کرنے میں عجلت سے کام لیا گیا ہے اس لیے وہ اپنے ربّ سے استغفار کرنے لگے جیساکہ ارشاد باری تعالی ہوتا ہے: وظَنَّ داوودُ اَنَّما فَتَنّهُ فَاستَغفَرَ رَبَّهُ وخَرَّ راکِعًا واَناب؛ اور داؤد یہ سمجھے کہ ہم نے نے انہیں آزمایا ہے، لہٰذا وہ اپنے ربّ سے استغفار کرنے لگے اور عاجزی و انکساری کے ساتھ جھک گئے اور اللہ کی طرف رجوع کیا۔

یہ واقعہ خارج میں وقوع پذیر نہیں ہوا تھا کیونکہ روایات گواہی دیتی ہیں کہ فرشتے انسانی شکل و صورت میں متمثل ہوئے تھے اور ظرفِ تمثل عالم مثال ہے جوکہ عالم تکلیف و معصیت نہیں ہے۔ مذکورہ ماجرا بالکل اسی طرح ہے جیسے کوئی انسان خواب کے عالم میں کچھ دیکھتا ہے اور سیکھتا ہے اور جب بیدار ہوتا ہے تو اپنی کوتاہی پر پشیمان ہوتا ہے اور استغفار کرتا ہے تاکہ اس کے کمالات زیادہ سے زیادہ حاصل ہوں اور اس واقعہ سے سبق حاصل کرے۔ انسان خواب اور برزخی تمثلات میں جو دیکھتا ہے وہ گناہ و معصیت نہیں ہے کہ بیداری کے عالم میں اس کے لیے استغفار کرنا ضروری ہو۔ حضرت داؤدؑ نے بھی کوئی معصیت انجام نہیں دی تھی جس کی وجہ سے انہوں نے استغفار کی ہو بلکہ آپؑ کا ایسا کرنا کمالِ اطاعت و بندگی اور عاجزی انکساری کی بناء پر اور کسی بھی قسم کی کوتاہی و لغزش سے محفوظ رہنے کی خاطر تھا۔

← شیطان کا بنی اسرائیل کے عابد کے لیے متمثل ہونا


روایات میں مختلف واقعات وارد ہوئے جن میں شیطان عابدوں اور زاہدوں کے پاس انسانی شکل میں متمثل ہو کر ظاہر ہوا۔ قرآن کریم میں بھی شیطان کا ایک عابد کے پاس انسانی شکل میں آنے اور اسے کفر پر ابھارنے کے واقعہ کی طرف اشارہ ہوا ہے، جیساکہ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:كَمَثَلِ الشَّيْطانِ إِذْ قالَ لِلْإِنْسانِ اكْفُرْ فَلَمَّا كَفَرَ قالَ إِنِّي بَري‌ءٌ مِنْكَ إِنِّي أَخافُ اللَّهَ رَبَّ الْعالَمين‌؛ شیطان کی مثال کی مانند جب اس نے انسان کو کہا کہ کفر کرو، پھر جب وہ کفر کر بیٹھا تو (شیطان) کہنے لگا: میں تجھ سے براءت کا اظہار کرتا ہوں بے شک میں اللہ جوکہ عالمین کے ربّ سے ڈرتا ہوں۔ مفسرین نے ذکر کیا ہے کہ اس آیت میں ایک واقعہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ بنی اسرائیل کے برصیصا نامی ایک انتہائی عبادت گزار عابد کو شیطان نے اتسانی صورت میں تمثل کر کے بہکایا یہاں تک وہ عابد زنا کا مرتکب ہو گیا اور اس کی سزا پھانسی قرار پائی۔ جب اس کو پھانسی دی جانے لگی تو اس وقت شیطان اس کے سامنے انسانی صورت میں متمثل ہوا اور کہا: اگر تم مجھے سجدہ کرو بے شک اشارہ کنایہ سے سجدہ کر دو تو میں تمہیں اس مشکل سے نجات دے دوں گا، اس عابد نے پھانسی سے نجات کی خاطر شیطان کی باتوں میں آ کر اشاروں سے سجدہ کیا اور کفر کیا اور جب وہ کفر کر بیٹھا تو شیطان نے اس سے براءت کا اظہار کیا اور اللہ تعالی کی ربوبیت کا اقرار اور اس سے خوف کا اظہار کیا۔

← جناب جبریلؑ کا رسول اللہ ﷺ کے لیے متمثل ہونا


آیات و روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ جناب جبریلؑ رسول اللہ ﷺ کے لیے اکثر و بیشتر موارد میں تمثل اختیار کرتے۔ اس مطلب کی طرف متعدد آیات اشارہ کرتی ہیں۔ احادیث کے مطابق رسول اللہ ﷺ کے لیے جناب جبریلؑ کسی اعرابی شخص اور اکثر بیشتر دحیہ کلبی کی شکل میں تمثل اختیار کرتے۔
[۲۳] شوستری، نور اللہ، احقاق الحق، ج۹، ص۱۸۴۔
اس کے بعد جناب جبریلؑ اپنی اصل صورت میں آ جاتے۔
[۲۵] ملا صدرا، محمد بن ابراہیم، تفسیر صدر المتألہین، ج۳، ص۴۱۵۔
[۲۶] خمینی، سید روح اللہ، چہل حدیث، ص۴۱۵۔


روایات میں تمثل

[ترمیم]

روایات میں تمثل کے متعدد موارد ذکر کیے گئے ہیں، مثلا شیطان کا تمثل اختیار کر کے کئی انبیاءؑ سے گفتگو کرنا اور اسی طرح حضرت آدم، نوح، ابراہیم اور یحیی علیہم السلام کے پاس شیطان مختلف صورتیں اختیار کر کے متمثل ہوا۔
[۲۷] مبیدی، رشید الدین، کشف الاسرار، ج۸، ص۲۹۱۔
[۲۸] غزالی، محمد، مکاشفٍ القلوب، ص۷۰ ۷۱۔
[۲۹] طبری، محمد بن جریر، جامع البیان، ج۲۳، ص۹۷۔
روایات میں وارد ہوا ہے کہ دار الندوه میں شیطان ایک بوڑھے نجدی کی صورت میں مشرکین کے سامنے متمثل ہوا، جیساکہ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:واِذ یَمکُرُ بِکَ الَّذینَ کَفَروا لِیُثبِتوکَ اَو یَقتُلوکَ اَو یُخرِجوک؛ وہ وقت یاد کریں جب کفر کرنے والے آپ کے بارے میں سازشی منصوبہ بنا رہے تھے تاکہ وہ آپ کو اسیر کر لیں یا آپ کو قتل کر دیں یا آپ کو (اپنے علاقے سے) نکال دیں۔ روایات کے مطابق شیطان غزوہ بدر والے دن سراقۃ بن جُعشم مُدلجی کی شکل میں، روز عقبہ مُنبہ بن حجاج کی صورت میں اور رحلتِ رسول اللہ ﷺ والے دن مغیرہ بن شعبہ کی شکل و صورت میں ظاہر اور متمثل ہوا۔ وارد ہوا ہے کہ دنیا امام علیؑ کے لیے دنیا ایک خوبصورت جاذب فتنہ انگیز لڑکی کی صورت میں متمثل ہوئی۔ متعدد احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان جب مرتا ہے تو اس کا مال، اولاد اور اس کے اعمال قبر میں اور روزِ قیامت مختلف صورتوں میں متمثل ہوں گے۔

منابع کی فہرست

[ترمیم]

(۱) احقاق الحق، نور اللہ الحسینی الشوشتری، تعلیقات شہاب الدین نجفی، قم، مکتبۃ النجفی، ۱۴۰۶ ق۔
(۲) الامالی، الطوسی (م ۴۶۰ ق)، قم، دارالثقافۃ، ۱۴۱۴ ق۔
(۳) بحار الانوار، المجلسی (م ۱۱۱۰ ق)، بیروت، احیاء التراث العربی، ۱۴۰۳ ق۔
(۴) تفسیر القرآن الکریم، صدرالمتالہین (م ۱۰۵۰ ق)، قم، بیدار، ۱۳۶۶ ش۔
(۵) تفسیر موضوعی قرآن کریم، جوادی آملی، تہران، اسراء، ۱۳۷۳ ش۔
(۶) تفسیر نمونہ، مکارم شیرازی و دیگران، تہران، دارالکتب الاسلامیۃ، ۱۳۷۵ ش۔
(۷) جامع البیان، الطبری (م ۳۱۰ ق)، بیروت، دار الفکر، ۱۴۱۵ ق۔
(۸) شرح چہل حدیث، امام خمینی (قدس سره) (م ۱۳۶۸ ش.)، تہران، نشر آثار امام(قدس سره)، ۱۳۷۶ ش۔
(۹) شرح فصوص الحکم، قیصری (م ۷۵۱ ق)، تہران، علمی و فرہنگی، ۱۳۷۵ ش۔
(۱۰) کشف الاسرار، میبدی (م ۵۲۰ ق)، تہران، امیر کبیر، ۱۳۶۱ ش۔
(۱۱) مجمع البیان، الطبرسی (م ۵۴۸ ق)، بیروت، دار المعرفۃ، ۱۴۰۶ ق۔
(۱۲) مفردات، الراغب (م ۴۲۵ ق.)، دمشق، دار القلم، ۱۴۱۲ ق۔
(۱۳) مکاشفۃ القلوب المغربی، الغزالی (م ۵۰۵ ق.)، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، ۱۴۰۲ ق۔
(۱۴) ممد الہمم در شرح فصوص الحکم، محی الدین بن عربی (م ۶۳۸ ق.)، شرح: حسن زاده آملی، تہران، وزارت ارشاد، ۱۳۷۸ ش۔
(۱۵) المیزان، الطباطبائی (م ۱۴۰۲ ق.)، بیروت، اعلمی، ۱۳۹۳ ق۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. زبیدی، مرتضی، تاج العروس، ج ۳۰، ص ۳۷۹۔    
۲. ابن فارس، احمد، معجم مقاییس اللغۃ، ج ۵، ص ۲۹۶۔    
۳. راغب اصفہانی، حسین، المفردات فی غریب القرآن، ص۷۵۸-۷۵۹۔    
۴. طباطبائی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ج۱۴، ص۳۶ -۳۷۔    
۵. زادہ آملی، حسن، نصوص الحکم علی فصوص الحکم، ص ۳۸۱۔    
۶. مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، ج۱۳، ص۳۶۔    
۷. طباطبائی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ج۱۴، ص۴۰۔    
۸. آملی، حسن زادہ، شرح فصوص الحکم، ص۱۰۴۔
۹. مریم/ سوره ۱۹، آیت ۱۷۔    
۱۰. جوادى آملى، عبد اللہ، تفسیر موضوعی، ج۷، ص۳۶۵۔
۱۱. طباطبائی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ج۱۴، ص۳۶ -۳۷۔    
۱۲. آملی، حسن زادہ، ممدّ الہمم فی شرح فصوص الحکم، ص۳۵۱۔
۱۳. ص/ سوره ۳۸، آیت۲۱۔    
۱۴. ص/ سوره ۳۸، آیت ۲۲ -۲۴۔    
۱۵. ص/ سوره ص، آیت ۲۴۔    
۱۶. طباطبائی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ج۱۷، ص۱۹۴۔    
۱۷. حشر/سوره۵۹، آیت ۱۶۔    
۱۸. طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان، ج۹، ص۴۳۸۔    
۱۹. نجم/سوره ۵۳، آیت ۷۔    
۲۰. نجم/سوره ۵۳، آیت ۱۳۔    
۲۱. نجم/سوره ۵۳، آیت ۱۴۔    
۲۲. تکویر/ سوره ۸۱، آیت ۲۳۔    
۲۳. شوستری، نور اللہ، احقاق الحق، ج۹، ص۱۸۴۔
۲۴. مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج۱۸، ص۲۶۷ -۲۶۸۔    
۲۵. ملا صدرا، محمد بن ابراہیم، تفسیر صدر المتألہین، ج۳، ص۴۱۵۔
۲۶. خمینی، سید روح اللہ، چہل حدیث، ص۴۱۵۔
۲۷. مبیدی، رشید الدین، کشف الاسرار، ج۸، ص۲۹۱۔
۲۸. غزالی، محمد، مکاشفٍ القلوب، ص۷۰ ۷۱۔
۲۹. طبری، محمد بن جریر، جامع البیان، ج۲۳، ص۹۷۔
۳۰. انفال/سوره۸، آیه۳۰.    
۳۱. طوسی، محمد بن حسن، الامالی، ص۱۷۷۔    
۳۲. طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان، ج۴، ص۴۷۸۔    
۳۳. طوسی، محمد بن حسن، الامالی، ص۱۷۶۔    
۳۴. طباطبائی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ج۱۴، ص۳۷۔    


مأخذ

[ترمیم]

دائرة المعارف قرآن کریم، یہ تحریر مقالہ تمثل سے مأخوذ ہے۔    






جعبه ابزار