تنجز تکلیف
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
تنجز تکلیف کی اصطلاح
علم فقہ میں استعمال کی جاتی ہے۔ اس لفظ کا اطلاق اس
حکم شرعی اور تکلیفِ شرعی پر ہوتا ہے جس کا علم
مکلف کو ہو اور وہ مرحلہِ قطعیت میں داخل ہو۔ یعنی مکلف کو
قطع اور یقین ہو کہ یہ تکلیف میرے اوپر عائد ہے۔
[ترمیم]
تنجزِ تکلیف دو الفاظ سے مرکب ہے: تنجز اور تکلیف۔ تنجز کو تکلیف کی طرف مضاف کیا گیا ہے۔ تنجز
عربی زبان کا لفظ ہے جس کے اصلی حروف ن-ج-ز ہے۔ اس کا لغوی معنی پورا کرنا، ایک شیء کو انجام دے دینا اور ایک شیء کو
وعدہ کے مطابق تیزی سے انجام دینا ہے۔
یہی سے یہ لفظ تکلیفِ شرعی کے پورا کرنے اور اس کو انجام دینے میں معنی میں استعمال ہونا شروع ہوئی۔
تنجزِ تکلیف کو اصطلاحی طور پر ملاحظہ کریں تو اس کا اطلاق
مکلف کے
علم آ جانے کے بعد تکلیف کا قعطی مرحلہ میں داخل ہونے پر ہوتا ہے۔ اس مرحلہ کو تنجزِ تکلیف کہتے ہیں جس میں تکلیف
ملاک کی حامل ہونے اور مولی کے
ارادہ سے متعلق ہونے کے بعد مولی کی جانب سے انشاء ہو اور مکلف کے حق میں قطعیت رکھتی ہو۔ اس طرح سے کہ مکلف اس تکلیف کے مطابق عمل کو ترک نہیں کر سکتا۔ کیونکہ اگر مکلف بغیر کسی عذر کے اس تکلیف کو ترک کرے گا تو وہ مولی کی جانب سے مؤاخذہ اور
عقاب کا مستحق قرار پائے گا۔ لیکن اگر وہ اس قطعی تکلیف کو انجام دے گا تو مطیع کہلائے گا اور مستحق
ثواب قرار پائے گا۔
[ترمیم]
تکلیف اور حکم کے متعدد مراتب ہیں:
۱ ـ
مرحلہ اقتضاء: وہ مرحلہ جو
مصلحت اور
مفسده کا حامل ہو۔ یعنی ایک امر جس کو قانونی صورت میں دینا مقصود ہو اس میں مصلحت اور مفسدہ کو مدنظر رکھنا مرحلہِ اقتضاء کہلائے گا۔
۲ ـ
مرحلہ انشاء: کسی
فعل میں مصلحت کی وجہ سے یا مفسدہ کی بناء پر مولی کے شدید اور اکید شوق کے بعد اس کا
قانون گزاری کے مرحلہ میں داخل ہو جانا مرحلہِ انشاء کہلاتا ہے۔ یعنی جو شیء مصلحت کی حامل تھی اس کا انجام دینا مکلف کے لیے
واجب اور جس مں مفسدہ اور فساد تھا اس کا انجام دینا
حرام قرار دے دیا جائے۔
۳ ـ
مرحلہ فعلیت: اس سے مراد وہ مرحلہ ہے جب ایک
حکم کو قانونی طور پر جاری کیا جائے۔ یعنی جب ایک حکم
مصلحت و مفسدہ رکھنے کے بعد مولی کی جانب سے جعل اور انشاء ہو گیا تو اب ضروری ہے کہ مکلف کے سامنے اس کا اعلان کیا جائے تاکہ اس کے علم میں حکمِ مولی آ جائے۔ مرحلہِ فعلیت کا لازمہ مکلف تک قانون اور جعل شدہ امر کا
ابلاغ کرنا ہے۔
۴ ـ
مرحلہ تنجز: قانون کے اعلان ہونے کے بعد جب اس کا علم مکلف کو ہو جائے اور اس کو ترک کرنے کا کوئی عذر مکلف کے پاس موجود نہ ہو تو اس کو مرحلہِ تنجز کہتے ہیں۔ اس مرحلہ میں تکلیف قطعی اور یقینی طور پر مکلف سے وابستہ ہوتی ہے اور مکلف کے لیے تکلیف کے بعد عمل کرنا لازمی ہو جاتا ہے کہ اگر مکلف جان بوجھ کر بغیر کسی عذر کے اس تکلیف کی مخالف کرتا ہے تو وہ
مؤاخذہ اور عقاب کا مستحق بنتا ہے اور اگر تکلیف کے مطابق عمل انجام دے تو مستحقِ ثواب قرار پاتا ہے۔
اخوند خراسانی ابنی کتاب
کفایۃ الاصول میں تحریر کرتے ہیں:
ثم لا یذهب علیک ان التکلیف ما لم یبلغ مرتبة البعث والزجر لم یصر فعلیا، وما لم یصر فعلیا لم یکد یبلغ مرتبة التنجز واستحقاق العقوبة على المخالفة وإن کان ربما یوجب موافقته استحقاق المثوبة؛ پھر آپ سے یہ مطلب رہ نہ جائے کہ
تکلیفِ شرعی جب تک مرتبہِ بعث و
زجر تک نہیں پہنچتی اس وقت تک وہ فعلی نہیں ہوتی اور جب تک وہ فعلی نہیں ہوتی تب تک وہ مرتبہِ تنجز اور مخالفت کی صورت میں مستحقِ عقاب اور موافقت کی صورت میں مستحق ثواب قرار نہیں پاتی۔
[ترمیم]
[ترمیم]
فرہنگنامہ اصول فقہ، تدوین توسط مرکز اطلاعات و مدارک اسلامی، ص۳۶۵، یہ تحریر مقالہ تنجز تکلیف سے مأخوذ ہے