توابین کا قیام

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



توابین کا قیام سلیمان بن صرد خزاعی کی قیادت میں واقعہ کربلا کے بعد وقوع پذیر ہوا۔ کوفی واقعہ کربلا میں امام حسین(علیہ السلام) کا ساتھ نا دے کر جس احساس شرمندگی کا احساس کر رہے تھے اس احساس کو ختم کرنے اور خود سے بے وفائی کا دھبہ ہٹانے کے لیے قیام کرتے ہیں اور درنتیجہ سب کے سب شہید ہو جاتے ہیں۔ توابین قلیل تعداد میں پانچ ربیع الاول کی شام کو پہلے کربلا اکٹھے ہوتے ہیں اور اس کے بعد شام کی طرف حرکت کرتے ہوۓ عین الوردہ کے مقام پر اموی فوج سے روبرو ہوتے ہیں۔ جنگ تین دن جاری رہتی ہے یکے بعد دیگرے جنگ کے رہبران شہید ہوتے رہتے ہیں یہاں تک کہ رفاعہ بن شداد اپنے قلیل ساتھیوں کے ساتھ عقب نشینی کرتے ہوۓ کوفہ لوٹ آتے ہیں اور مختار ثقفی کے ساتھ ملحق ہو جاتے ہیں جبکہ بقیہ شہید ہو جاتے ہیں۔


قیام کا سبب

[ترمیم]

واقعہ کربلا کے بعد شیعوں کے اہم ترین قیاموں میں سے ایک توابین کا قیام ہے جو سلیمان بن صرد خزاعی کی قیادت میں وقوع پذیر ہوا۔ یہ قیام یکم یا پنجم ربیع الثانی سال ۶۵ ہجری کو عین الوردہ کے مقام پر پیش آیا جس میں توابین تو شکست کھا گئے لیکن یہ قیام مکتب تشیع کی ترویج میں مثبت اثرات چھوڑ گیا۔
[۲] طقوش، محمد سہیل، دولت امویان، قم، پژوہشکده حوزه و دانشگاه، ص۸۱-۸۰۔
[۳] محمد جعفری، سیدحسین، تشیع در مسیر تاریخ، ترجمه سید محمدتقی آیت اللهی، دفتر نشر فرهنگ اسلامی، ص۲۶۲.
یہ سوال کہ واقعہ کربلا کے فوری بعد یہ قیام پیش کیوں نا آیا اس بارے میں محمد سہیل طقوش لکھتے ہیں: اہالی کوفہ عبیداللہ بن زیاد کی حکومت میں مجبور ہو گئے تھے کہ کسی قسم کا قیام نا کریں۔ سیاسی ماحول اس طرح کا بنا ہوا تھا کہ کوئی بھی ایسا اقدام اٹھانا ممکن نہ تھا۔ جب یزید مر گیا اور عبیداللہ بن زیاد شام کی طرف فرار کر گیا تو امام حسین(علیہ السلام) کے چاہنے والوں نے خون خواہی کا نعرہ لگاتے ہوۓ قیام کی تحریک شروع کر دی۔
[۴] طقوش، محمد سہیل، دولت امویان، قم، پژوہشکده حوزه و دانشگاه، ص۷۹۔
قیام کے اہم ترین اسباب میں سے ایک سبب یہ تھا کہ کوفی امام حسین(علیہ السلام) کا ساتھ نا دے کر بہت شرمندہ تھے۔ جبکہ انہوں نے امام کی نصرت کے لیے خود کو پیش تو کیا تھا لیکن وقت آنے پر ساتھ نا دیا جس کے نتیجے میں امام اپنے قلیل ساتھیوں کے ساتھ کربلا کے بیابان میں بہت فجیع طرز پر شہید ہوگئے۔
الف) ابن اثیر اس متعلق لکھتے ہیں: کوفیوں نے پہلے امام حسین(علیہ السلام) کو دعوت دی اور پھر ان کی اجابت نا کر سکے جس پر وہ پشیمان تھے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ننگ ہمارے دامن سے پاک نہیں ہوگا مگر یہ کہ ہم اپنا خون بہا دیں اور قاتلین امام کو مار دیں۔
[۵] ابن اثیر، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، ج۱۱، ص۳۱۳-۳۱۲، ترجمہ ابوالقاسم حالت، عباس خلیلی، مؤسسہ مطبوعاتی علمی۔

ب) سید جعفر شہیدی رقمطراز ہیں: پہلے اتنے ہیجان اور ولولہ سے امام حسین(علیہ السلام) کو قیام کی دعوت دینا، پھر ان کے وکیل کو قبول کرنا، پھر جنگ کے وقت ناجوانمردی دکھاتے ہوۓ بھاگ جانا اور عراق کا شام کے مقابل ہار جانا یہ وہ احساسات تھے جو کوفہ کے لوگوں کو آسودہ نہیں ہونے دے رہے تھے۔ جیسے ہی کوفہ کے لوگوں کو علم ہوا کہ یزید مر گیا ہے انہوں نے نفس تازہ کی اور ہاتھ پیر ہلانے لگے۔
[۶] شهیدی، سیدجعفر، تاریخ تحلیلی اسلام، شرکت انتشارات علمی و فرہنگی، ص۲۰۶-۲۰۵۔


قیام کے قائدین

[ترمیم]

قیام کے قائد سلیمان بن صرد خزاعی تھے۔ سید حسین محمد جعفری نے سلیمان بن صرد کے علاوہ قیام کے دیگر قائدین کا نام ذکر کیا ہے جن میں مسیب بن نجبہ فزاری، عبداللہ بن سعد بن نوفل ازدی، عبداللہ بن وال تمیمی اور رفاعہ بن شداد بجلی شامل ہیں۔ ان کے متعلق لکھتے ہیں: یہ قائدین کوفہ کے شیعوں کی اجتماعی فعالیتوں میں ہمیشہ صف اول میں ہوتے تھے۔
[۷] ابن اثیر، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، ج۱۱، ص۳۱۵، ترجمه ابوالقاسم حالت، عباس خلیلی، مؤسسه مطبوعاتی علمی.
[۸] محمد جعفری، سیدحسین، تشیع در مسیر تاریخ، ترجمہ سید محمدتقی آیت اللہی، دفتر نشر فرہنگ اسلامی، ص۲۶۲۔
صرد کے فرزند سلیمان جو قبیلہ خزاعہ کی شاخ میں سے تھے انہوں نے کہا: جو گناہ ہم نے کیا ہے اس پر خدا ہم پر غضبناک ہے۔ کوئی بھی اپنی بیوی بچوں کے پاس نا جاۓ یہاں تک کہ خدا کو خوشنود نا کر لے۔
[۹] شهیدی، سید جعفر، تاریخ تحلیلی اسلام، شرکت انتشارات علمی و فرهنگی، ص۲۰۶.
سلیمان بن صرد اور ان کے ساتھیوں نے اپنے لیے «توابین» کا نام منتخب کیا اور تاریخ میں بھی توابین کے نام سے جانے جاتے ہیں۔
[۱۱] مسعودی، علی بن حسین، مروج الذهب، ج۳، ص۲۹۳.
[۱۲] مسعودی، علی بن حسین،مروج الذهب، ج۳، ص۲۹۵.
ان کا شعار انتقام خون امام حسین تھا۔

قیام کے مختلف مراحل

[ترمیم]

توابین کی تحریک کو دو مرحلوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:

← مخفیانہ مرحلہ


واقعہ کربلا کے بعد عبیداللہ بن زیاد کی کوفہ پر مارشل لاء طرز کے سختی ختم ہونے کے بعد ایک سو کے قریب شیعوں نے سلیمان بن صرد کے گھر پر اجتماع کیا۔ اس اجتماع میں سلیمان بن صرد کے علاوہ مُسَیّب بن نَجَبہ فَزاری، عبداللّہ بن وال تمیمی، سعد بن عبداللّہ و رِفاعہ بن شَدّاد بَجَلی جیسے مشہور یاوران امام علی(علیہ السلام) شامل تھے۔ اس اجتماع میں سلیمان بن صرد کو اسلام لانے میں سبقت اور امام علی(علیہ السلام) کی مصاحبت کی بنیاد پر توابین نے اپنا قائد منتخب کیا۔ انہوں نے سورہ بقرہ کی آیت ۵۴ کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ قوم موسی کی توبہ کا ذکر کیا اور شیعوں سے درخواست کی کہ وہ بھی توبہ کریں اور مسلحانہ قیام کے لیے خود کو آمادہ کریں۔ خالد بن سعید بن نفیل نے اس آیت کے استناد کی تصحیح کی جس میں اجتماعی خودکشی کی طرف القاء کیا گیا ہے۔ سلیمان نے عبداللہ بن وال کو مامور کیا گیا کہ وہ شیعوں کی طرف سے ہدیہ جات کو اکٹھا کریں تاکہ فوجی جنگی ساز و سامان کا انتظام کیا جاسکے۔
[۱۵] ابن مسکویہ، احمد بن محمد، تجارب الامم، ج۲، ص۹۶، چاپ ابوالقاسم امامی، ج ۲، تہران ۱۳۶۶ش۔

اس مخفیانہ تحریک کو آگے بڑھانے کے لیے کوششیں تیز کر دی گئیں۔ سلیمان نے مدائن اور بصرہ کے شیعہ قائدین کو بھی خط لکھے اور انہیں اپنی تحریک میں شامل ہونے کی دعوت دی جس کا انہیں مثبت جواب ملا۔

← آشکار مرحلہ


یزید بن معاویہ کے سال ۶۴ ہجری میں واصل جہنم ہونے کے بعد شام میں اس کی جانشینی پر بنو امیہ کا اختلاف ہو گیا۔ اس اختلاف کے نتیجہ میں حجاز اور عراق میں بنو امیہ کے مخالفین کو سر اٹھانے کی فرصت مل گئی۔ مکہ میں عبداللہ بن زبیر نے خلافت کا دعوی کیا۔ یزید کی موت کے بعد عبیداللہ بن زیاد اور اس کے ساتھی شام کی طرف فرار کر گئے جس کی وجہ سے عبیداللہ بن زبیر کو بصرہ اور کوفہ پر اپنا تسلط جمانے میں سہولت مل گئی۔ ان سیاسی تحولات مین توابین کو بھی اپنی نہضت کا دائرہ وسیع کرنے کا موقع ملا۔ بعض توابین اس بات کے قائل تھے کہ یہی موقع ہے دارالامارہ کوفہ پر قبضہ کر لیا جاۓ اور زبیریوں کو اس شہر میں داخل ہونے سے روکا جاۓ لیکن سلیمان بن صرد نے کہا کہ بہت سے کوفہ کے اشراف جو قتل امام حسین(علیہ السلام) میں شامل تھے اب بھی کوفہ پر ان کا نفوذ موجود ہے اور شیعوں کو ابھی مزید اپنی نہضت کو بڑھانے کی ضرورت ہے بعد میں کوفہ کو ہاتھ میں لیا جا سکتا ہے۔
اس نہضت کے مشہور مبلغ عبیداللہ بن عبداللہ مری نے مصر میں بہت زیادہ فعالیت انجام دی یہاں تک کہ توابین کی تعداد سولہ ہزار نفر تک جا پہنچی اور امید کی جا رہی تھی کہ بہت جلد توابین قیام کو آشکار کرنے والے ہیں۔
[۲۱] ابن اعثم کوفی، احمد بن محمد، الفتوح، ج۶، ص۵۱-۵۳، حیدرآباد دکن ۱۳۹۲/۱۹۷۲۔
[۲۲] ابن کثیر، اسماعیل بن عمر، البدایۃ والنہایۃ، ج۴، ص۲۵۰-۲۵۱، چاپ احمدابوملحم و دیگران، بیروت (۱۴۰۵/۱۹۸۵)۔
[۲۳] ابن کثیر، اسماعیل بن عمر، البدایۃ والنہایۃ، ج۴، جزء ۸، ص۲۵۴، چاپ احمدابوملحم و دیگران، بیروت (۱۴۰۵/۱۹۸۵)۔

لیکن بعد میں رونما ہونے والے حوادث جیسا کہ مختار ثقفی کا زندان سے باہر آ جانا اور زبیریوں کا کوفہ پر تسلط جما لینا توابین کے لیے نقصان دہ ثابت ہوا۔
مختار نے یزید کی موت سے پہلے ہی عبداللہ بن زبیر کے ہاتھ پر بیعت کر لی تھی۔ لیکن جلد ہی اس سے جدا ہو گئے اور ۱۵ رمضان المبارک سال ۶۴ ہجری کوفہ واپس لوٹ گئے اور شیعوں کو اپنی بیعت کی دعوت دینے لگے۔ انہوں نے خود کو امام کا نمائندہ اور امت کے مہدی یعنی محمد بن حنفیہ فرزند امام علی(علیہ السلام) کے طور پر پیش کیا اور سلیمان بن صرد کی قیادت کو خدشہ دار قرار دیا۔ مختار نے کہا کہ سلیمان سیاسی اور جنگی امور میں آگاہی نہیں رکھتے۔
[۲۶] ابن کثیر، اسماعیل بن عمر، البدایۃ والنهایۃ، ج۴، جزء۸، ص۲۵۱ـ۲۵۳، ج ۴، چاپ احمدابوملحم و دیگران، بیروت (۱۴۰۵/۱۹۸۵)۔
مختار کی تبلیغات کے بعد کوفہ کے شیعہ دو دھڑوں میں تقسیم ہو گئے اور دو ہزار توابین ان کے ساتھ ملحق ہو گئے اور اس طرح قاتلان امام حسینؑ سے جہاد کرنے والوں کی راہ میں تردید وجود میں آگئی۔
[۲۹] ابن کثیر، اسماعیل بن عمر، البدایۃ والنهایۃ، ج۴، جزء ۸، ص۲۵۱، چاپ احمدابوملحم و دیگران، بیروت (۱۴۰۵/۱۹۸۵)۔


شکست کے عوامل

[ترمیم]

بعض معاصر قائل ہیں کہ توابین کی شکست میں مختار کے توابین کے متعلق منفی نظریات کو ہی صرف قصور وار شمار نہیں کیا جا سکتا بلکہ دیگر مسائل بھی موجود تھے جن کی وجہ سے توابین کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ جیسا کہ توابین کا صرف موت کو طلب کرنا، قلیل سپاہ کے ساتھ ایک بہت بڑی فوج کے مقابلے کے لیے نکل کھڑا ہونا، زبیریوں اور اشراف کوفہ کی چالوں کو نا سمجھ پانا، اپنے اہداف اور عقائد کے لیے صرف شہادت کو اپنا مطلوب قرار دینا اور صرف جان نثاری کرنا ایسے اہداف تھے جن کے طرفدار کوفہ میں بہت کم تھے۔
[۳۰] معروف حسنی، ہاشم، جنبش‌ہای شیعی در تاریخ اسلام، ج۱، ص۵۴۴ ـ ۵۴۵، ترجمہ محمدصادق عارف، مشہد ۱۳۷۱ش۔
زبیریوں کی دو گانہ سیاست اور کوفہ کے اشراف کی فریبکاری بھی توابین کی نہضت کو سست کرنے میں ایک حد تک مؤثر تھی۔

زبیریوں کا کردار

[ترمیم]

یہ بات درست ہے کہ توابین اور زبیریوں کے مشترکہ دشمن اموی تھے۔ یہ امر مانع ہوا کہ وہ آپس میں روبرو ہوں تاہم اس کے باوجود بھی وہ ایک دوسرے کو دشمن سمجھتے تھے۔
[۳۱] معروف حسنی، ہاشم، جنبش‌ہای شیعی در تاریخ اسلام، ج۱، ص۵۳۶، ترجمہ محمدصادق عارف، مشہد ۱۳۷۱ش۔
[۳۲] معروف حسنی، ہاشم، جنبشہای شیعی در تاریخ اسلام، ج۱، ص۵۴۵، ترجمہ محمدصادق عارف، مشہد ۱۳۷۱ش۔
[۳۳] معروف حسنی، ہاشم، جنبش‌ہای شیعی در تاریخ اسلام، ج۱، ص۵۳۹-۵۴۰، ترجمہ محمدصادق عارف، مشہد ۱۳۷۱ش۔
اس بنا پر زبیری خاص طور پر توابین کے قیام کو لے کر بہت پریشان تھے کہ ان کے قیام کا نتیجہ کیا نکلتا ہے دراصل وہ چاہتے تھے کہ ان (توابین) کو استعمال کر کے امویوں کو بصرہ اور کوفہ کے سیاسی میدان سے خارج کیا جاۓ۔ کوفہ کا زبیری گورنر عبداللہ بن یزید توابین کے ساتھ دوگانہ سیاست چل رہا تھا۔ ایک طرف سے کہتا تھا کہ ہم قاتلان امام حسین(علیہ السلام) سے قصاص چاہتے ہیں اور دوسری طرف سے یہ بھی کہتا تھا کہ جو شخص زبیری خلافت کے خلاف نکلا اس کے خلاف جنگ کرے گا۔
جب توابین کوفہ سے جنگ کے لیے نکل کھڑے ہوۓ تو عبداللہ بن یزید نے کہا کہ ہم دونوں کا مشترکہ دشمن بنو امیہ ہے اس لیے ہمیں متحد ہو جانا چاہیے لیکن سلیمان بن صرد نے ان کی نا مانی کیونکہ وہ اس بات کے معتقد تھے کہ اگر زبیری ان کی نہضت میں شامل ہوگئے تو ہماری نہضت منحرف ہو جاۓ گی اور ہمیں زبیری خلیفہ کی بھی بیعت کرنی پڑے گی۔

مسلحانہ قیام کا آغاز

[ترمیم]

بالآخر توابین نے سال ۶۵ ہجری کو قیام علنی کیا۔ طے پایا کہ یکم ربیع الاول کو خروج کریں گے اور کوفہ کے باہر نخیلہ کے مقام پر پڑاؤ ڈالا جاۓ گا۔
[۳۶] ابن اثیر، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، ج۱۲، ص۱۶، ترجمہ ابوالقاسم حالت، عباس خلیلی، مؤسسہ مطبوعاتی علمی۔
[۳۷] ابن مسکویہ، احمد بن محمد، تجارب الامم، ج۲، ص۱۰۰، چاپ ابوالقاسم امامی، ج ۲، تہران ۱۳۶۶ش۔
سولہ سے بیس ہزار توابین جنہوں نے خود کو توبہ کے لیے پیش کیا اور جان قربان کرنے کی حامی بھری تھی ان میں سے فقط چار ہزار تواب حاضر ہوۓ جن میں بصرہ اور مدائن کے شیعہ نا ہونے کے برابر تھے۔
[۳۸] ابن کثیر، اسماعیل بن عمر، البدایۃ والنهایۃ، ج۴، جزء۸، ص۲۵۴، چاپ احمدابوملحم و دیگران، بیروت (۱۴۰۵/۱۹۸۵)۔

سلیمان نے اپنے چند مامور کو کوفہ بھیجا جو کوفہ کی گلیوں میں «یالَثارات الحسین» (اے خون حسینؑ کا انتقام لینے والو) کا نعرہ لگا رہے تھے، ان کو مامور کیا گیا کہ وہ کوفہ میں رہ جانے والے توابین کو جہاد میں شریک ہونے کے لیے آمادہ کریں لیکن اس کے باوجود تین دن بعد بہت قلیل افراد توابین کے ساتھ ملحق ہوۓ۔ سلیمان نے اس کے بعد انتظار کرنا مناسب نا سمجھا اور توابین کو کہا کہ اب ہمیں عبیداللہ بن زیاد کی سپاہ سے لڑنا ہوگا اگر ہم عین الوردہ میں ان کو شکست دینے میں کامیاب ہو جائیں تو کوفہ میں چھپے قاتلین امام حسین(علیہ السلام) کو بہت آسانی سے ہرایا جا سکتا ہے لیکن اگر کوفہ میں ہی ان سے لڑنے چلے جائیں تو جنگ فتنہ اور برادر کشی میں تبدیل ہو جاۓ گی۔
[۴۱] ابن کثیر، اسماعیل بن عمر، البدایۃ والنهایۃ، ج۴، جزء۸، ص۲۵۴-۲۵۵، چاپ احمدابوملحم و دیگران، بیروت (۱۴۰۵/۱۹۸۵)۔


کربلا کی طرف سفر

[ترمیم]

توابین پانچ ربیع الاول کی شام کو کربلا کی طرف روانہ ہو گئے۔ راستے میں بعض توابین ان سے جدا ہو گئے اور بقیہ نے کربلا پہنچ کر امام حسین(علیہ السلام) کے مزار پر عزاداری کی اور اپنے گناہوں کی بخشش کے لیے زار و قطار گریہ کیا۔ اس کے بعد شام کی طرف روانہ ہو گئے۔
عراق سے شام جاتے ہوۓ دریا فرات کے کنارے پر واقع شہر قرقیسیا پہنچے تو وہاں کے حاکم زفر بن حارث، جو بنو امیہ کے مخالفین میں سے تھا اس نے توابین کے لیے غلہ کا انتظام کیا۔ اس نے توابین کو متعدد تجویزیں پیش کیں لیکن سلیمان نے ماننے سے انکار کر دیا کیونکہ وہ یزید کے مرنے سے پہلے اس کی طرف سے قنسرین (فلسطین) میں گورنر رہ چکا تھا اور یزید کی موت کے بعد مرج راہط کی جنگ میں عبداللہ ابن زبیر کی طرفداری میں مروانیوں کے خلاف لڑ چکا تھا۔

عین الوردہ میں جنگ کا آغاز

[ترمیم]

عین الوردہ کے جنگی علاقے سے سلیمان کو پہلے سے ہی خبریں مل رہی تھیں جو عبیداللہ بن زیاد کے خلاف جنگ میں کافی کارگر ثابت ہوئیں۔
[۴۸] ابن مسکویہ، احمد بن محمد، تجارب الامم، ج۲، ص۱۰۶-۱۰۸، چاپ ابوالقاسم امامی، ج ۲، تہران ۱۳۶۶ش۔

توابین عین الوردہ پہنچے تو سلیمان نے جنگ کے آغاز سے پہلے جنگ کے آداب اپنے ساتھیوں کو بتاۓ جو انہوں نے امام علی(علیہ السلام) سے سیکھ رکھے تھے۔ اس کے بعد جنگ میں اپنے جانشینوں کا بھی اعلان کیا۔
لشکر توابین کے ماہر ترین افراد نے مسیب بن نجبہ کی فرمان دہی میں دشمن پر حملہ کیا جس میں بہت سے غنائم توابین کے ہاتھ لگے۔
[۵۰] بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ج۵، ص۲۱۰،، چاپ گویتین، اورشلیم ۱۹۳۶، چاپ افست بغداد (بی تا)۔
در اصل اموی لشکر میں کمانڈنگ کی کمی تھی یہ وہ وقت تھا جب شام میں اموی خلیفہ مروان بن حکم مر گیا اور اس کی جگہ عبدالملک بن مروان خلافت کے تخت پر براجمان ہوا۔ حکومت کی رد و بدل میں اموی لشکر بھی کافی پریشانیوں میں مبتلا تھا تاہم اس مشکل پر عبیداللہ بن زیاد نے جلد ہی قابو پا لیا اور بیس سے تیس ہزار کا لشکر تیار کر کے توابین کے خلاف لڑنے کے لیے نکل کھڑا ہوا۔
[۵۱] ابن اعثم کوفی، احمد بن محمد، الفتوح، ج۶، ص۸۱، حیدرآباد دکن ۱۳۹۲/۱۹۷۲۔
[۵۳] مسعودی، علی بن حسین، مروج الذہب، ج۳، ص۲۹۴۔

۲۵ جمادی الاول سال ۶۵ ہجری دونوں افواج کا آمنا سامنا ہوا جس میں دونوں فوج کے کمانڈروں نے ایک دوسرے کی فوج کو اپنی اطاعت کی دعوت دی۔ سلیمان نے اموی فوج سے کہا کہ وہ عبدالملک کو خلافت سے خلع کریں اور عبیداللہ بن زیاد کو توابین کے حوالے کریں۔ پھر دونوں فوجیں مل کر زبیریوں کو عراق سے نکال دیں اور حکومت کو اہل بیت(علیہم السلام) کے شائستہ ترین فرد یعنی امام علی بن الحسین(علیہما السلام) کے حوالے کر دیں۔
تین دن تک جنگ جاری رہی جس میں ایک کے بعد دوسرا توابین کا کمانڈر شہید ہوتا رہا۔ بالآخر رفاعہ بن شداد نے اپنے قلیل بچے کھچے ساتھیوں کے ہمراہ عقب نشینی کر لی۔
[۵۵] ذہبی، محمد بن احمد، تاریخ الاسلام و وفیات المشاہیر و الاعلام، ج۱، ص۴۸، چاپ عمر عبدالسلام تدمری، حوادث و وفیات ۶۱ـ۸۰ ه، بیروت ۱۴۱۰/۱۹۹۰۔
[۵۶] ابن کثیر، اسماعیل بن عمر، البدایۃ والنهایۃ، ج۴، جزء۸، ص۲۵۷، چاپ احمدابوملحم و دیگران، بیروت (۱۴۰۵/۱۹۸۵)۔

کوفہ کی طرف پلٹتے ہوۓ توابین کا بصرہ اور مدائن کے شیعوں سے ٹکراؤ ہوا جو ان کی مدد کے لیے عین الوردہ کی طرف آ رہے تھے۔ لیکن ان سب کو اندوہناک اور غمگین حالت میں اپنے اپںے شہروں کی طرف واپس جانا پڑا۔
[۵۹] ابن اعثم کوفی، احمد بن محمد، الفتوح، ج۶، ص۸۶، حیدرآباد دکن ۱۳۹۲/۱۹۷۲۔
[۶۰] اخطب خوارزم، موفق بن احمد، مقتل الحسین، ج۲، ص۱۹۹، چاپ محمد سماوی، نجف ۱۳۶۷۔


زندہ رہ جانے والوں کی مختار کے ساتھ بیعت

[ترمیم]

توابین کی عین الوردہ میں شکست انہیں اب دوبارہ تو منظم نہ کر سکی لیکن بچ جانے والوں نے مختار ثقفی کے ساتھ الحاق کر لیا۔ توابین کے قیام کے وقت مختار ثقفی کوفہ کے زندان میں قید تھے جہاں سے انہوں نے رفاعہ بن شداد اور بقیہ توابین کے لیے تسلیت کا پیغام بھیجا۔ اس نے سلیمان اور باقی شہدا کی عظمت و جلالت کا اعتراف کرتے ہوۓ زندہ رہ جانے والے توابین سے درخواست کی کہ وہ کتاب خدا اور سنت رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ) پر اس کے ہاتھ پر بیعت کریں تاکہ سب مل کر اہل بیت (علیہم السلام) کے دشمنوں سے جہاد کر سکیں۔
اگرچہ توابین ظاہری طور پر اموی فوج کے مقابلے میں شکست کھا چکے تھے لیکن تاریخ میں پہلی بار ان کے قیام نے شیعہ کو منسجم کیا اور چونکہ ان کی نہضت خالص شیعی تفکر اور امام حسین علیہ السلام کی شہادت سے متاثر ہو کر تشکیل پائی تھی اس لیے تشیع کی پیشرفت کا سبب بنی۔

مؤرخین کے قیام توابین پر آثار

[ترمیم]

مؤرخین نے توابین کے قیام کے متعلق جو آثار تحریر کیے ہیں ان کی مختصر تفصیل کچھ اس طرح سے ہے:
توابین کے قیام پر قدیمی ترین ماخذ ابو مخنف (متوفی ۱۷۵) ہجری کا رسالہ بنام سلیمان بن صرد و عین الوردہ ہے۔
[۶۲] ابن ندیم، محمد بن إسحاق، الفہرست، ج۱، ص۱۰۵۔
[۶۳] مسعودی، علی بن حسین، مروج الذہب، ج۳، ص۲۹۵، مروج (بیروت)، اخبار التوّابین بِعَیْن الورده۔
ابو مخنف کی روایات بعد میں آنے والے تمام مؤرخین از جملہ طبری کے لیے بہت اہم منبع شمار ہوتی ہوتی ہیں۔ عبدالعزیز جَلوُدی جو کہ امام باقر (علیہ السلام) کے صحابی اور بصرہ کے رواۃ میں سے ہیں انہوں نے بھی ایک رسالہ لکھا ہے جس کا نام اخبار التوابین و عین الوردہ ہے۔

فہرست ماخذ

[ترمیم]

(۱) ابن‌اثیر، على بن محمد، الکامل فی التاریخ۔
(۲) ابن اعثم کوفی، احمد بن محمد، الفتوح، حیدرآباد دکن ۱۳۹۲/۱۹۷۲۔
(۳) ابن‌سعد، الطبقات الکبرى۔
(۴) ابن کثیر، اسماعیل بن عمر، البدایۃ والنہایۃ، ج ۴، چاپ احمدابوملحم و دیگران، بیروت (۱۴۰۵/۱۹۸۵)۔
(۵) ابن ندیم۔
(۶) اخطب خوارزم، موفق بن احمد، مقتل الحسین، چاپ محمد سماوی، نجف ۱۳۶۷۔
(۷) بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ج ۵، چاپ گویتین، اورشلیم ۱۹۳۶، چاپ افست بغداد (بی تا)۔
(۸) ہاشم معروف حسنی، جنبشہای شیعی در تاریخ اسلام، ترجمہ محمدصادق عارف، مشهد ۱۳۷۱ش۔
(۹) محمد بن احمد ذہبی، تاریخ الاسلام و وفیات المشاہیر و الاعلام، چاپ عمر عبدالسلام تدمری، حوادث و وفیات ۶۱ـ۸۰ ه، بیروت ۱۴۱۰/۱۹۹۰۔
(۱۰) طبری، محمد بن جریر، تاریخ (بیروت)۔
(۱۱) مسعودی، علی بن حسین، مروج الذهب (بیروت)۔
(۱۲) ابن مسکویہ، احمد بن محمد، تجارب الامم، چاپ ابوالقاسم امامی، ج ۲، تہران ۱۳۶۶ش۔
(۱۳) نجاشی، احمد بن علی، فہرست اسماء مصنّفی الشیعه المشتهرب رجال النجاشی، چاپ موسی شبیری زنجانی، قم ۱۴۰۷۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. نمازی، شیخ علی، مستدرک سفینۃالبحار، مؤسسۃ النشرالاسلامی التابعۃ لجماعۃ المدرسین قم، ج۴، ص۶۸۔    
۲. طقوش، محمد سہیل، دولت امویان، قم، پژوہشکده حوزه و دانشگاه، ص۸۱-۸۰۔
۳. محمد جعفری، سیدحسین، تشیع در مسیر تاریخ، ترجمه سید محمدتقی آیت اللهی، دفتر نشر فرهنگ اسلامی، ص۲۶۲.
۴. طقوش، محمد سہیل، دولت امویان، قم، پژوہشکده حوزه و دانشگاه، ص۷۹۔
۵. ابن اثیر، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، ج۱۱، ص۳۱۳-۳۱۲، ترجمہ ابوالقاسم حالت، عباس خلیلی، مؤسسہ مطبوعاتی علمی۔
۶. شهیدی، سیدجعفر، تاریخ تحلیلی اسلام، شرکت انتشارات علمی و فرہنگی، ص۲۰۶-۲۰۵۔
۷. ابن اثیر، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، ج۱۱، ص۳۱۵، ترجمه ابوالقاسم حالت، عباس خلیلی، مؤسسه مطبوعاتی علمی.
۸. محمد جعفری، سیدحسین، تشیع در مسیر تاریخ، ترجمہ سید محمدتقی آیت اللہی، دفتر نشر فرہنگ اسلامی، ص۲۶۲۔
۹. شهیدی، سید جعفر، تاریخ تحلیلی اسلام، شرکت انتشارات علمی و فرهنگی، ص۲۰۶.
۱۰. ابن‌سعد، محمد بن سعد، الطبقات الکبری، ج۴، ص۲۱۹.    
۱۱. مسعودی، علی بن حسین، مروج الذهب، ج۳، ص۲۹۳.
۱۲. مسعودی، علی بن حسین،مروج الذهب، ج۳، ص۲۹۵.
۱۳. بقرہ:۵۴۔    
۱۴. طبری، محمد بن جریر، تاریخ، ج۵، ص۵۵۴-۵۵۵، (بیروت)۔    
۱۵. ابن مسکویہ، احمد بن محمد، تجارب الامم، ج۲، ص۹۶، چاپ ابوالقاسم امامی، ج ۲، تہران ۱۳۶۶ش۔
۱۶. طبری، محمد بن جریر، تاریخ، ج۵، ص۵۵۵-۵۵۸، (بیروت)۔    
۱۷. ابن‌اثیر، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، ج۴، ص۱۶۱۱۶۲۔    
۱۸. طبری، محمد بن جریر، تاریخ، ج۵، ص۵۵۹-۵۶۰، (بیروت)۔    
۱۹. طبری، محمد بن جریر، تاریخ، ج۵، ص۵۸۴، (بیروت)۔    
۲۰. ابن‌اثیر، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، ج۴، ص۱۶۲ ۱۶۳۔    
۲۱. ابن اعثم کوفی، احمد بن محمد، الفتوح، ج۶، ص۵۱-۵۳، حیدرآباد دکن ۱۳۹۲/۱۹۷۲۔
۲۲. ابن کثیر، اسماعیل بن عمر، البدایۃ والنہایۃ، ج۴، ص۲۵۰-۲۵۱، چاپ احمدابوملحم و دیگران، بیروت (۱۴۰۵/۱۹۸۵)۔
۲۳. ابن کثیر، اسماعیل بن عمر، البدایۃ والنہایۃ، ج۴، جزء ۸، ص۲۵۴، چاپ احمدابوملحم و دیگران، بیروت (۱۴۰۵/۱۹۸۵)۔
۲۴. طبری، محمد بن جریر، تاریخ، ج۵، ص۵۸۰، (بیروت)۔    
۲۵. ابن‌اثیر، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، ج۴، ص۱۶۳۔    
۲۶. ابن کثیر، اسماعیل بن عمر، البدایۃ والنهایۃ، ج۴، جزء۸، ص۲۵۱ـ۲۵۳، ج ۴، چاپ احمدابوملحم و دیگران، بیروت (۱۴۰۵/۱۹۸۵)۔
۲۷. طبری، محمد بن جریر، تاریخ، ج۵، ص۵۸۰، (بیروت)۔    
۲۸. طبری، محمد بن جریر، تاریخ، ج۵، ص۵۸۴، (بیروت)۔    
۲۹. ابن کثیر، اسماعیل بن عمر، البدایۃ والنهایۃ، ج۴، جزء ۸، ص۲۵۱، چاپ احمدابوملحم و دیگران، بیروت (۱۴۰۵/۱۹۸۵)۔
۳۰. معروف حسنی، ہاشم، جنبش‌ہای شیعی در تاریخ اسلام، ج۱، ص۵۴۴ ـ ۵۴۵، ترجمہ محمدصادق عارف، مشہد ۱۳۷۱ش۔
۳۱. معروف حسنی، ہاشم، جنبش‌ہای شیعی در تاریخ اسلام، ج۱، ص۵۳۶، ترجمہ محمدصادق عارف، مشہد ۱۳۷۱ش۔
۳۲. معروف حسنی، ہاشم، جنبشہای شیعی در تاریخ اسلام، ج۱، ص۵۴۵، ترجمہ محمدصادق عارف، مشہد ۱۳۷۱ش۔
۳۳. معروف حسنی، ہاشم، جنبش‌ہای شیعی در تاریخ اسلام، ج۱، ص۵۳۹-۵۴۰، ترجمہ محمدصادق عارف، مشہد ۱۳۷۱ش۔
۳۴. طبری، محمد بن جریر، تاریخ، ج۵، ص۵۶۱-۵۶۲، (بیروت)۔    
۳۵. طبری، محمد بن جریر، تاریخ، ج۵، ص۵۹۱-۵۹۲، (بیروت)۔    
۳۶. ابن اثیر، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، ج۱۲، ص۱۶، ترجمہ ابوالقاسم حالت، عباس خلیلی، مؤسسہ مطبوعاتی علمی۔
۳۷. ابن مسکویہ، احمد بن محمد، تجارب الامم، ج۲، ص۱۰۰، چاپ ابوالقاسم امامی، ج ۲، تہران ۱۳۶۶ش۔
۳۸. ابن کثیر، اسماعیل بن عمر، البدایۃ والنهایۃ، ج۴، جزء۸، ص۲۵۴، چاپ احمدابوملحم و دیگران، بیروت (۱۴۰۵/۱۹۸۵)۔
۳۹. طبری، محمد بن جریر، تاریخ، ج۵، ص۵۸۳-۵۸۴، (بیروت)۔    
۴۰. ابن‌اثیر، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، ج۴، ص۱۷۵۱۷۷۔    
۴۱. ابن کثیر، اسماعیل بن عمر، البدایۃ والنهایۃ، ج۴، جزء۸، ص۲۵۴-۲۵۵، چاپ احمدابوملحم و دیگران، بیروت (۱۴۰۵/۱۹۸۵)۔
۴۲. طبری، محمد بن جریر، تاریخ، ج۵، ص۵۸۹-۵۹۰، (بیروت)۔    
۴۳. ابن‌اثیر، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، ج۴، ص۱۷۷ ۱۷۸۔    
۴۴. طبری، محمد بن جریر، تاریخ، ج۵، ص۵۹۳-۵۹۶، (بیروت)۔    
۴۵. ابن‌اثیر، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، ج۴، ص۱۴۵۔    
۴۶. ابن‌اثیر، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، ج۴، ص۱۴۹۔    
۴۷. ابن‌اثیر، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، ج۴، ص۱۷۹۱۸۰۔    
۴۸. ابن مسکویہ، احمد بن محمد، تجارب الامم، ج۲، ص۱۰۶-۱۰۸، چاپ ابوالقاسم امامی، ج ۲، تہران ۱۳۶۶ش۔
۴۹. ابن‌اثیر، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، ج۴، ص۱۸۰۱۸۱۔    
۵۰. بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ج۵، ص۲۱۰،، چاپ گویتین، اورشلیم ۱۹۳۶، چاپ افست بغداد (بی تا)۔
۵۱. ابن اعثم کوفی، احمد بن محمد، الفتوح، ج۶، ص۸۱، حیدرآباد دکن ۱۳۹۲/۱۹۷۲۔
۵۲. ابن‌اثیر، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، ج۴، ص۱۸۲۔    
۵۳. مسعودی، علی بن حسین، مروج الذہب، ج۳، ص۲۹۴۔
۵۴. ابن‌اثیر، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، ج۴، ص۱۸۲۔    
۵۵. ذہبی، محمد بن احمد، تاریخ الاسلام و وفیات المشاہیر و الاعلام، ج۱، ص۴۸، چاپ عمر عبدالسلام تدمری، حوادث و وفیات ۶۱ـ۸۰ ه، بیروت ۱۴۱۰/۱۹۹۰۔
۵۶. ابن کثیر، اسماعیل بن عمر، البدایۃ والنهایۃ، ج۴، جزء۸، ص۲۵۷، چاپ احمدابوملحم و دیگران، بیروت (۱۴۰۵/۱۹۸۵)۔
۵۷. طبری، محمد بن جریر، تاریخ، ج۵، ص۶۰۰-۶۰۱، (بیروت)۔    
۵۸. طبری، محمد بن جریر، تاریخ، ج۵، ص۶۰۴-۶۰۵، (بیروت)۔    
۵۹. ابن اعثم کوفی، احمد بن محمد، الفتوح، ج۶، ص۸۶، حیدرآباد دکن ۱۳۹۲/۱۹۷۲۔
۶۰. اخطب خوارزم، موفق بن احمد، مقتل الحسین، ج۲، ص۱۹۹، چاپ محمد سماوی، نجف ۱۳۶۷۔
۶۱. طبری، محمد بن جریر، تاریخ، ج۵، ص۶۰۶، (بیروت)۔    
۶۲. ابن ندیم، محمد بن إسحاق، الفہرست، ج۱، ص۱۰۵۔
۶۳. مسعودی، علی بن حسین، مروج الذہب، ج۳، ص۲۹۵، مروج (بیروت)، اخبار التوّابین بِعَیْن الورده۔
۶۴. نجاشی، احمد بن علی، فہرست اسماء مصنّفی الشیعہ المشتہرب رجال النجاشی، ج۱، ص۲۴۲، چاپ موسی شبیری زنجانی، قم ۱۴۰۷۔    


ماخذ

[ترمیم]

دانشنامہ جہان اسلام، بنیاد دائره المعارف اسلامی، ماخوذ از مقالہ «توابین»، شماره۳۹۷۸۔    






جعبه ابزار