توسل (فقہ)
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنے کی غرض سے سعی و جستجو کرنے کو توسل کہتے ہیں۔ اس عنوان سے باب صلاۃ (نماز) میں بحث کی جاتی ہے۔
[ترمیم]
توسل سے مراد اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنے کے لیے وسیلہ بنانا ہے جس کا حکم قرآن کریم میں دیا گیا ہے۔
وہ چیز جس سے متوسل ہو کر مقصود تک رسائی حاصل کی جاتی ہے کو وسیلہ کہا جاتا ہے۔
[ترمیم]
وہ چیز جس کے ذریعے سے بندہ اللہ تعالی کا تقرّب حاصل کرتا ہے اس کو قرآن کریم نے باب سے تعبیر کیا ہے، جیساکہ ارشادِ باری تعالی ہوتا ہے:
وَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوابِها؛ اور گھروں میں ان کے دروازوں سے آؤ۔
اسی طرح سورہ مائدہ آیت ۵ میں وسیلہ اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ہر وہ چیز وسیلہ کہلاتی ہے جس کو اللہ تک پہنچنے، اس کے ثواب کے حصول اور اس کے تقرب کے لیے ذریعہ بنایا جا سکتا ہے، مثلا وہ افعال جن سے اللہ کی اطاعت کی جاتی ہے، گناہوں کا ترک کرنا، معرفتِ امامؑ کے بعد ان کی اطاعت کرنا، وغیرہ کو بطور وسیلہ اختیار کیا جاتا ہے اور ان کے ذریعے اللہ تعالی کا تقرب حاصل کیا جاتا ہے۔
اسی طرح
اعمال صالح،
اسماء الہی،
معصومینؑ،
علماء ربانی،
مؤمنین کامل اور ہر وہ شیء جو اللہ تعالی کے نزدیک تقدس و عظمت رکھتی ہے، جیسے
قرآن کریم ،
تربتِ امام حسینؑ وغیرہ کو بطورِ وسیلہ اختیار کیا جا سکتا ہے۔
[ترمیم]
شریعت اور
عقل کی نظر میں توسل اللہ تعالی کے تقرب کا باعث بنتا ہے، خصوصا
رسول اللہ صلّی اللّه علیہ وآلہ اور
ائمہ اطہارؑ بالخصوص
امام مہدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے ذریعے توسل کرنا مطلوب اور
مستحب امر ہے
اور موردِ توصیہ قرآن کریم ہے۔
[ترمیم]
آئمہ علیہم السلام سے متعدد روایات میں وارد ہوا ہے کہ آیت کریمہ
وَ ابْتَغُوا إِلَیْهِ الْوَسِیلَةَ؛ اور اس تک پہنچنے کے لیے وسیلہ تلاش کرو،
میں وسیلہ سے مراد ہم (اہل بیت اطہارؑ) ہیں۔
نیز روایات میں وارد ہوا ہے کہ ہم باب اللہ ہیں،
ہم اللہ کے وہ
اسماء حسنی ہیں جن کے بارے میں اللہ نے اپنے بندوں کو حکم دیا ہے
کہ وہ ان کے ذریعے اللہ تعالی کو پکاریں۔
[ترمیم]
[ترمیم]
فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت، ج۲، ص۶۶۳۔