جملہ طلبی
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
جملہ طلبی سے مراد وہ جملہ انشائیہ ہے جو کسی شیء کی طلب پر
دلالت کرے۔
اصول فقہ میں اس کی ہیئت اور مختلف اسلوبوں سے بحث کی جاتی ہے۔
[ترمیم]
جملہِ انشائیہ سے مراد وہ جملات ہیں جن میں
نسبتِ تامہ کے متحقق کرنے کو طلب کیا جائے۔
جملات انشائیہ میں جملے میں موجود نسبت کو خارج تحقق دینے کو طلب کیا جاتا ہے۔
جملہ خبریہ میں چونکہ واقع سے خبر دی جاتی ہے اس لیے کو سچ اور جھوٹ سے متصف کر سکتے ہیں جبکہ
جملہِ انشائیہ میں
نسبت کو طلب کیا جاتا ہے جوکہ ابھی واقع نہیں ہوئی، اس لیے جملات انشائیہ کو
صدق اور
کذب سے متصف نہیں کیا جا سکتا۔
جملہ خبریہ اور
جملہ انشائیہ کبھی الگ الگ جملات کی صورت میں
استعمال ہوتے ہیں، مثلا
یُصَلِی جملہ خبریہ ہے اور
صَلِّ جملہ انشائیہ۔ لیکن کبھی دونوں جملے لفظ میں متحد ہوتے ہیں جبکہ دونوں کے معنی جدا جدا ہوتے ہیں، مثلا
بِعۡتُ کتابی، یہ تب جملہِ خبریہ کہلائے گا اگر اس کتاب کے بیچنے کی خبر دی جائے، لیکن اگر
بِعۡتُ کہہ کر خرید و فروخت کو ایجاد کیا جائے تو یہ
جملہ انشائیہ کہلائے گا۔ پس بعض جملے لفظ کے اعتبار سے جملات خبریہ اور انشائیہ میں متحد ہوتے ہیں۔
اخوند خراسانی کی رائے یہ ہے کہ
جملہ انشائیہ کا
جملہ خبریہ سے
مدلول تصوری میں کوئی اختلاف نہیں ہے ۔ بلکہ ان دونوں میں فرق
مدلول تصدیقی کے مرحلے میں ہے کہ جملہ خبریہ میں ہم واقع سے حکایت کرتے ہیں جبکہ
جملہ انشائیہ میں لفظ کے ذریعے ایجاد کیا جاتا ہے۔ پس جملہ انشائیہ معنی ایجادی کا حامل ہے، مثلا
بِعۡتُ کہہ کر انشاء میں کلام کے ذریعے ملکیت ایجاد کی جاتی ہے جبکہ
بِعۡتُ جملہ خبریہ میں واقع سے حکایت کی جاتی ہے۔
جملہ انشائیہ کو دو قسموں میں تقسیم کیا جاتا ہے:
جملہ انشائیہ طلبیہ اور جملہ انشائیہ غیر طلبیہ۔ جملہ طلبیہ جیسے
فعل امر،
فعل نہی،
فعل استفہام وغیرہ، جبکہ جملہ غیر طلبیہ سے مراد
عقود،
تمنی،
ترجی،
تعجب،
قسم وغیرہ ہیں۔ البتہ اصولیوں میں اس تقسیم میں بھی اختلاف وارد ہوا ہے۔
[ترمیم]
شہید باقر الصدر نے جملہ طلبیہ کی
تعریف ان الفاظ میں بیان کی ہے:
و الجملة الطلبيّة (صلّ) مدلولها الجدّي طلب إيقاع النسبة التامّة التي تدلّ عليها هيئة صلّ أي طلب وقوع الصلاة من المخاطب؛ جملہ طلبیہ مثلا
صَلّ، اس کا
مدلولِ جدی اس
نسبتِ تامہ کے واقع کرنے کو طلب کرتا ہے جس پر جملہ کی ہیئت
دلالت کرتی ہے، جیسے
صلّ میں مخاطب سے
نماز کے وقوع کو طلب کیا جا رہا ہے۔
۔ جملہ طلبی جملہِ انشائیہ کی اقسام میں سے شمار ہوتے ہیں جو مقام انشاء میں مخاطب سے کسی شیء کو طلب کرنے کا معنی دیتے ہیں، مثلا
صَلِّ، جَاھِدۡ، صُمۡ، اَعِدۡ وغیرہ۔
بعض اوقات
جملہ خبریہ بھی طلب کے معنی آتا ہے اور جملہ طلبیہ کہلاتا ہے۔
جملہ خبریہ اگرچے
مدلول تصوری کے اعتبار سے فعل کے صادر ہونے کی نسبت پر دلالت کرتا ہے اور
مدلولِ تصدیقی کے اعتبار خارج میں موجود نسبت سے خبر دیتا ہے اور حکایت کرتا ہے۔ لیکن کبھی کبھی جملہ خبریہ استعمال کر کے اس سے مراد
طلب لی جاتی ہے۔ البتہ یہ صرف اس وقت ممکن ہے جب کلام میں قرینہ موجود ہو جس کی بناء پر جملہ خبریہ کی دلالت طلب پر ہو۔
اخوند خراسانی کا نظریہ ہے کہ
جملہ خبریہ اگر طلب پر
دلالت کرے تو اس صورت میں بھی یہ اپنے معنی حقیقی میں ہی استعمال ہوا ہے نہ کہ
معنی مجازی میں۔ کیونکہ جملہ خبریہ بمعنی
طلب کی صورت میں داعی اور انگیزہ طلب و بعث ہے اور یہ اسلوب
جملہ انشائیہ کی نسبت زیادہ تاکید پر دلالت کرتا ہے۔
جملہ خبریہ بھی مختلف انگیزہ اور اہداف کے پیش نظر مختلف معانی پر
دلالت کرتا ہے جیساکہ جملات انشائیہ کے صیغے دواعی کے مختلف ہونے سے مختلف معانی پر دلالت کرتے ہیں۔
[ترمیم]
[ترمیم]
ویکی فقہ اردو سے مربوط گروہِ محققین کی جانب سے یہ مقالہ ایجاد کیا گیا ہے۔