جناب فاطمہ زہراء کی قبر مبارک

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



بعض قرائن اور شواہد کے مطابق جناب فاطمہ علیہا السلام کی قبر جنت البقیع میں، بعض شواہد کے مطابق ان کے گھر میں اور بعض کے مطابق رسول اللہؐ کی قبر مبارک اور مسجد نبوی میں منبر رسولؐ کے درمیان ہے۔


جناب فاطمہ کی قبر کی دقیق جگہ

[ترمیم]

اگر دقیق طور پر اس موضوع کا جائزہ لیں تو معلوم کہ ہو گا کہ حضرت فاطمہؑ کی قبر مبارک دو میں سے ایک جگہ ہے:
۱) جنت البقیع میں
۲) یا ان کے اپنے گھر میں
۳) قبرِ رسول اللہؐ اور منبرِ رسولؐ کے درمیان سیدہ زہراءؑ کی قبر مبارک ہے، اس حصہ کو ریاض الجنۃ کہا جاتا میں ہے۔
ہم مکمل یقین اور وثوق سے جناب فاطمہؑ کی قبر مبارک کے بارے میں ایک جگہ کا تعین نہیں کر سکتے۔ ہمارے پاس جتنے شواہد اور قرائن جنت البقیع میں دفن ہونے کے ہیں اتنے ہی قرائن اور دلائل موجود ہیں کہ جناب سیدہؑ اپنے گھر کے حجرہ مبارک میں مدفون ہیں۔

اہل سنت کے مطابق جناب فاطمہ کی قبر مبارک

[ترمیم]

اہل سنت قدیم زمانے سے قائل ہیں کہ جناب فاطمہؑ جنت البقیع میں مدفون ہیں۔ جناب سیدہؑ کے بارے میں اہل سنت فقط احتمال دیتے ہیں کہ شاید وہ اپنے ہی گھر مدفون ہوں۔ پس ان کے نزدیک قوی قول جنت البقیع میں دفن ہونے کا ہے۔

مکتب تشیع کے مطابق جناب فاطمہؑ کی قبر مبارک

[ترمیم]

مکتب تشیع میں وارد ہونے والی احادیث مبارکہ کے مطابق جناب فاطمہؑ نے اپنے قبر کے متعلق بیان کیا تھا کہ انہیں انہی کے گھر میں دفن کیا جائے۔ نیز قرائن اور شواہد بھی یہ بات بتاتے ہیں کہ جناب زہراءؑ اپنے گھر میں مدفون ہیں۔

← گھر میں دفن ہونے کے قوی شواہد


اکثر علماء و بزرگان شیعہ متعدد شواہد کی بناء پر قائل ہیں کہ جناب سیدہؑ کو امیر المؤمنینؑ نے اپنے گھر میں ہی دفن کیا تھا۔ ذیل میں ان شواہد کو احادیث اور دیگر کتب سے پیش کیا جاتا ہے جو دلالت کرتے ہیں کہ آپؑ اپنے گھر میں مدفون ہیں۔

←← امام جعفر صادقؑ سے منقول روایت


معروف اہل سنت مؤرخ و محدث ابن شبہ نے امام جعفر صادقؑ سے روایت نقل کی ہے کہ آپؑ فرماتے ہیں: قُبِرَتۡ فَاطِمَة سلام الله علیها فِی بَیۡتِهَا الَّذی أَدۡخَلَه عمرُ بن عبدِ الۡعَزِیۡزِ فِی الۡمَسۡجِدِ؛ فاطمہ سلام اللہ علیہا کی قبر ان کے اس گھر میں بنائی گئی جسے عمر بن عبد العزیز نے مسجد نبوی کا حصہ بنا دیا۔

عبد اللہ بن جعفر حمیری نے نقل کیا ہے کہ عیسی بن موسی عباسی امام جعفر صادقؑ کی خدمت میں حاضر تھا کہ ایک شخص نے امام صادقؑ سے جناب فاطمہؑ کی قبرِ مبارک کے بارے میں سوال کیا، عیسی بن موسی نے جواب دیا کہ وہ جنت البقیع میں مدفون ہیں، اس شخص نے امامؑ کی طرف رخ کر کے پوچھا کہ آپؑ اس بارے میں کیا فرماتے ہیں، امامؑ نے فرمایا: کہ تمہیں عیسی نے جواب دے دیا ہے، اس نے کہا: اللہ آپ کے امور کی اصلاح فرمائے میں اور عیسی بن موسی نہیں بلکہ آپؑ نے اپنے آباء و اجداد کی جانب سے بیان فرمائیں، تب امام جعفر صادقؑ نے فرمایا: دُفِنَتْ‌ فِي‌ بَيْتِهَا؛ جناب فاطمہؑ کو ان کے گھر میں دفنایا گیا تھا۔

←← امام رضاؑ سے منقول روایت


ابو نصر بزنطی نے معتبر سند کے ساتھ امام رضاؑ سے روایت نقل کی ہے جس میں جناب فاطمہؑ کی قبر مبارک کے بارے میں سوال کیا گیا ہے، امام رضاؑ اس کے جواب میں فرماتے ہیں: دُفِنَتْ فِی بَیْتِهَا فَلَمَّا زَادَتْ بَنُو أُمَیَّةَ فِی الْمَسْجِدِ صَارَتْ فِی الْمَسْجِدِ؛ جناب فاطمہؑ کو ان کے گھر میں دفنایا گیا، پھر جب بنو امیہ نے مسجدِ نبوی میں اضافہ کیا تو آپؑ کا گھر بھی مسجد میں آ گیا اور اس کا حصہ بن گیا۔

←← قبر رسولؐ اور منبرِ رسولؐ کے درمیان قبر مبارک کا ہونا


اہل سنت اور مکتب تشیع میں صحیح السند احادیث میں قبر رسول اللہؐ اور منبر رسولؐ کے درمیان کی جگہ کو روضۃ الجنۃ اور جنت کا ایک خوبصورت اور زیبا ٹکڑا قرار دیا گیا ہے۔ بعض روایات میں وارد ہوا ہے کہ اس کو روضۃ الجنۃ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ یہاں جناب فاطمہؑ کی قبر مبارک ہے۔ امام جعفر صادقؑ سے منقول ہے کہ آپؑ فرماتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: مَا بَيْنَ‌ قَبْرِي‌ وَ مِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ وَ مِنْبَرِي عَلَى تُرْعَةٍ مِنْ تُرَعِ الْجَنَّةِ لِأَنَّ قَبْرَ فَاطِمَةَ ص بَيْنَ قَبْرِهِ وَ مِنْبَرِهِ وَ قَبْرُهَا رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ وَ إِلَيْهِ تُرْعَةٌ مِنْ تُرَعِ الْجَنَّةِ؛ میری قبر اور میری منبر کے درمیان جنت کے زیبا اور خوبصورت ٹکڑوں میں سے ایک ٹکڑا ہے اور میرا منبر جنت کے باغوں میں سے ایک خوبصورت باغ ہے، کیونکہ رسول اللہؐ کی قبر اور ان کے منبر کے درمیان فاطمہؑ کی قبر ہے جوکہ جنت کے خوبصورت حصوں میں سے ایک حصہ اور جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔ اس روایت کو علامہ مجلسی نے صحیح اور معتبر روایت قرار دیا ہے۔

مکتب تشیع کے بزرگ محدثین و علماء کا نظریہ

[ترمیم]

معتبر اور صحیح السند احادیث سبب بنیں کہ مکتب اہل بیتؑ کے بزرگ اور برجستہ علماء جیسے شیخ صدوق، شیخ مفید، شیخ طوسی، ابن طاووس اور علامہ مجلسی وغیرہ قائل ہیں کہ جناب زہراءؑ کو انہی کے گھر میں دفن کیا گیا ہے۔ اب یہ جگہ مسجد نبوی کا حصہ شمار ہوتی ہے اور اس میں داخل کر دی گئی ہے۔
[۱۰] فصلنامہ میقات حج، ش۷، ص۹۶-۹۷۔
[۱۱] فصلنامہ میقات حج، ش۲۶، ص۱۰۴۔


← شیخ صدوق کی نظر


شیخ صدوق معتقد ہیں کہ جناب فاطمہؑ کی قبر مبارک ان کے گھر میں ہے جو بعد میں مسجد نبوی کا حصہ بن گیا۔ اس بارے میں شیخ صدوق لکھتے ہیں: اخْتَلَفَتِ الرِّوَايَاتُ فِي مَوْضِعِ قَبْرِ فَاطِمَةَ سَيِّدَةِ نِسَاءِ الْعَالَمِينَ ع فَمِنْهُمْ مَنْ رَوَى أَنَّهَا دُفِنَتْ فِي الْبَقِيعِ‌، وَمِنْهُمْ مَنْ رَوَى أَنَّهَا دُفِنَتْ بَيْنَ الْقَبْرِ وَالْمِنْبَرِ وَأَنَّ النَّبِيَّ ص إِنَّمَا قَالَ: مَا بَيْنَ قَبْرِي وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ؛ لِأَنَّ قَبْرَهَا بَيْنَ الْقَبْرِ وَالْمِنْبَرِ، وَمِنْهُمْ مَنْ رَوَى أَنَّهَا دُفِنَتْ‌ فِي‌ بَيْتِهَا فَلَمَّا زَادَتْ بَنُو أُمَيَّةَ فِي الْمَسْجِدِ صَارَتْ فِي الْمَسْجِدِ، وَهَذَا هُوَ الصَّحِيحُ عِنْدِي‌؛ فاطمہ سیدۃ نساء العالمین کی جائے قبر کے بارے میں روایات مختلف قسم کی ہیں، ان میں سے بعض نے نقل کیا ہے کہ جناب سیدہؑ بقیع میں دفن کی گئیں، اور بعض نے نقل کیا ہے کہ جناب سیدہؑ قبرِ رسولؐ اور منبرِ رسولؐ کے درمیان دفن کی گئیں، نبیؐ نے اسی لیے فرمایا تھا: میری قبر اور میرے منبر کے درمیان جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے کیونکہ قبرِ رسولؐ اور منبرِ رسولؐ کے درمیان جناب فاطمہؑ کی قبر ہے، اور ان میں سے بعض نے روایت نقل کی ہے کہ آپؑ اپنی گھر میں مدفون ہیں، پھر جب بنو امیہ نے مسجد نبوی کی توسیع کی تو اس گھر کو مسجد میں شامل کر دیا گیا۔ یہ وہ ہے جو میرے نزدیک صحیح ہے۔ جنت البقیع میں وہ جگہ جہاں چار آئمہؑ کی قبور ہیں س کے نیچے کی طرف شمال غرب میں دائیں طرف ایک قبر ہے جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ جناب فاطمہؑ کی ہے۔ لیکن احتمال ہے کہ یہ قبر مبارک امیر المؤمنینؑ کی والدہ ماجدہ جناب فاطمہ بنت اسد کی ہے۔

← ابن شہر آشوب اور شیخ طوسی کی نظر


ابن شہر آشوب اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں: قال أبو جعفر الطوسي الأصوب أنها مدفونة في‌ دارها أو في الروضة؛ ابو جعفر طوسی کہتے ہیں: سب سے صحیح بات یہ ہے کہ جناب سیدہؑ اپنے گھر میں یا روضۃ الجنۃ میں دفن کی گئیں۔

← ابن ادریس حلی کی نظر میں


ابن ادریس حلی اپنی کتاب السرائر میں تحریر کرتے ہیں: وقد روي أنّ فاطمة عليها السلام مدفونة هناك، و قد روي أنّها مدفونة في‌ بيتها و هو الأظهر في الروايات، و عند المحصّلين من أصحابنا، إلا أنّه لمّا زاد بنو أمية في المسجد صارت فيه، و روي أنّها مدفونة بالبقيع و يعرف ببقيع الفرقد، و هو شجر مثل العوسج، و حبّه أشدّ حمرة من حبّه، و هذه الرواية بعيدة من الصواب.؛ نقل کیا گیا ہے کہ فاطمہ علیہا السلام کو روضۃ الجنۃ میں قبرِ رسولؐ اور منبرِ رسولؐ کے درمیان دفن کیا گیا، نیز روایت کیا گیا ہے کہ جناب فاطمہؑ اپنے گھر میں مدفون ہیں، یہ قول روایات سے واضح اور ظاہر ہے اور ہمارے اصحاب کے نزدیک تحقیق طور حاصل شده قول ہے، البتہ بنو امیہ نے اس گھر کو مسجد میں شامل کر دیا اور وہ مسجد کا حصہ بن گیا۔ روایت کی گئی ہے کہ آپؑ بقیع میں مدفون ہیں ۔۔۔ لیکن یہ روایت حقیقت اور صحت سے دور ہے۔

← علامہ مجلسی کی نظر میں


علامہ مجلسی نے متعدد روایات کی طرف اشارہ کرنے کے بعد ان دو احادیث کو آپس میں جمع کر کے معنی لیا ہے۔ وہ حدیث جس کے مطابق جناب سیدہؑ کو ان کے گھر میں دفنایا گیا اور وہ حدیث جس میں مذکور ہے کہ آپؑ کو روضۃ الجنۃ میں دفن کیا گیا ان دونوں میں کسی قسم کا ٹکراؤ نہیں ہے بلکہ دونوں سے مراد ایک ہی ہے کیونکہ بنو امیہ نے مسجد نبوی کی جب توسیع کی تو قبرِ رسول اللہؐ اور جناب سیدہؑ کے گھر کو مسجد میں داخل کر کے اس کا حصہ بنا دیا۔ چنانچہ امام صادقؑ کے دور میں گھر اور قبرِ رسولؐ ہر دو مسجد میں داخل تھے۔ علامہ مجلسی لکھتے ہیں: ويمكن الجمع بأن يقال: الروضة متسعة بحيث تشمل بعض بيتها عليها السلام الذي دفنت فيه، ويؤيده قوله عليه السلام: فلما زادت بنو أمية إلى آخرها؛ روضۃ الجنۃ کو وسعت دی گئی ، اس طرح سے کہ وہ جناب سیدہ علیہا السلام کے اس گھر کو بھی شامل ہو گیا جس میں آپؑ کو دفن کیا گیا، اور اس کی تائید امام علیہ السلام کا یہ فرمان بھی کرتا ہے: جب بنو امیہ نے مسجد میں توسیع کی ۔۔

عظمت حضرت فاطمہؑ

[ترمیم]

جناب زہراءؑ خاتونِ جنت اور عالمین کی خواتین کی سردار ہیں۔ آپؑ کا رسول اللہؐ سے انتہائی والہانہ تعلق تھا۔ آپؑ اور آپؑ کے بیٹوں اور شوہرِ نامدار امیر المؤمنینؑ کے بارے میں رسول اللہؐ سے بہت سی روایات وارد ہوئی ہیں۔ انہی روایات میں سے ایک روایت جو اہل سنت و شیعہ ہر دو مکاتب فکر میں معروف ہے وہ یہ ہے: فَاطِمَةُ بَضْعَةٌ مِنِّي‌ فَمَنْ آذَاهَا فَقَدْ آذَانی؛ فاطمہ میرے وجود کا ٹکڑا ہے جس نے اسے اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی۔

امام علی کا نماز جنازہ پڑھنا

[ترمیم]

اہل سنت و مکتب تشیع متفق ہیں کہ جناب فاطمہؑ کا نماز جنازہ امام علیؑ نے پڑھایا اور نماز جنازہ میں چند افراد کے علاوہ کسی نے شرکت نہیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جناب فاطمہؑ راضی نہیں تھیں کہ ان کے جنازے اور دفن میں بعض معروف شخصیات شامل ہوں۔ مسلم نیشاپوری نے اپنی کتاب صحیح مسلم میں ام المؤمنین عائشہ سے روایت نقل کی ہے جس میں وہ فرماتی ہیں: فَلَمَّا تُوُفِّيَتْ دَفَنَهَا زَوْجُهَا عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ لَيْلًا، وَلَمْ يُؤْذِنْ بِهَا أَبَا بَكْرٍ، وَصَلَّى عَلَيْهَا عَلِي؛ جب جناب فاطمہ وفات پا گئیں تو ان کے شوہر علی ابن ابی طالب نے انہیں رات کے وقت دفن کیا اور جناب فاطمہؑ کی وجہ سے امامؑ نے ابو بکر کو اجازت نہیں دی، اور امام علیؑ نے جناب زہراءؑ کی نماز جنازہ پڑھی۔

جناب فاطمہؑ کا رات کو دفن کرنے کی وصیت کرنا

[ترمیم]

اہل سنت اور مکتب تشیع متفق ہیں کہ جناب فاطمہؑ کو امام علیؑ نے رات کے وقت دفنایا اور لوگوں کی اکثریت کو دفنانے کی خبر نہیں ہوئی۔ مختلف روایات اور تاریخی شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ جناب سیدہؑ نے امیر المؤمنینؑ کو وصیت کی تھی کہ انہیں رات کے وقت دفن کیا جائے اور دو اعرابی شخص ان کے جنازے میں شرکت نہ کریں۔ امام جعفر صادقؑ سے منقول روایت ہے جس میں آپؑ سے سوال پوچھا گیا جناب فاطمہؑ کو رات کے وقت کیوں دفنایا گیا اور دن کے وقت دفن نہیں کیا گیا؟ امامؑ نے فرمایا: لِأَنَّهَا أَوْصَتْ‌ أَنْ لَا يُصَلِّيَ عَلَيْهَا رِجَالٌ [۱۸]    ؛ کیونکہ جناب فاطمہؑ نے وصیت کی تھی کہ ان پر وہ مرد حضرات نماز (جنازہ) نہ پڑھیں۔


حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. تاریخ المدینۃ المنورۃ، ابن شبّہ، عمر بن شبہ، ج۱، ص۱۰۴-۱۱۰۔    
۲. تاریخ المدینۃ المنوره، ابن شبّہ، عمر بن شبہ، ج۱، ص۱۰۷۔    
۳. قرب الاسناد، حمیری، عبد الله بن جعفر، ص۳۶۷۔    
۴. الکافی، کلینی، محمد بن یعقوب، ج۱، ص۴۶۱۔    
۵. کتاب السنۃ، ابن ابی عاصم، احمد بن عمرو، ج ۲، ص ۳۳۹۔    
۶. مسند احمد بن حنبل، حنبل، احمد بن محمد، ج ۲۶، ص ۳۶۵۔    
۷. الکافی، کلینی، محمد بن یعقوب، ج ۴، ص ۵۵۵۔    
۸. معانی الاخبار، شیخ صدوق، محمد بن علی، ص ۲۶۷۔    
۹. مرآة العقول فی شرح آل الرسول، علامہ مجلسی، محمد باقر، ج ۵، ص ۳۴۹۔    
۱۰. فصلنامہ میقات حج، ش۷، ص۹۶-۹۷۔
۱۱. فصلنامہ میقات حج، ش۲۶، ص۱۰۴۔
۱۲. من لایحضره الفقیہ، شیخ صدوق، محمد بن علی، ج۲، ص۵۷۲۔    
۱۳. مناقب آل ابی طالب، ابن شہر آشوب، محمد بن علی، ج ۳، ص ۳۶۵۔    
۱۴. السرائر الحاوی لتحریر الفتاوی، ابن ادریس حلی، محمد بن احمد، ج ۱، ص ۶۵۲۔    
۱۵. مرآة العقول فی شرح آل الرسول، علامہ مجلسی، محمد باقر، ج ۵، ص ۳۴۹۔    
۱۶. مسند احمد بن حنبل، حنبل، احمد، ج ۲۶، ص ۴۶۔    
۱۷. صحیح مسلم، مسلم نیشاپوری، مسلم بن الحجاج، ج ۲، ص ۷۷۔    
۱۸. تاریخ المدینۃ المنورۃ، ابن شبّہ، عمر بن شبہ، ج۱، ص۱۰۸۔    
۱۹. مصنف ابن ابی شیبۃ، ابن ابی شیبۃ، عبد الله بن محمد، ج ۳، ص ۳۱۔    
۲۰. علل الشرائع، شیخ صدوق، محمد بن علی، ج ۱، ص ۱۸۵۔    


مأخذ

[ترمیم]

آثار اسلامی مکّہ و مدینہ، ص۳۳۹-۳۴۰، رسول جعفریان۔    
بعض مطالب اور حوالہ جات محققینِ ویکی فقہ اردو کی طرف سے اضافہ کیے گئے ہیں۔






جعبه ابزار