جنگ صفین میں شہید ہونے والے صحابہ

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



جنگ صفین میں صحابہ کرام کی ایک بڑی تعداد شہادت سے ہمکنار ہوئی۔ تعجب آور بات یہ ہے کہ شہید ہونے والے بھی صحابہ تھے اور قاتلین و باغی بھی صحابہ تھے۔ یہاں یہ سوال ابھرتا ہے کہ آخر کیسے تمام صحابہ عادل ہو سکتے ہیں اور اللہ سبحانہ ہمیشہ کے لیے ان سے کسے راضی ہو سکتا ہے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے اہل سنت اپنی اعتقادی مبانی کے تناظر میں ایک اہم ترین قاعدہ پیش کرتے ہیں جس کا عنوان ہے کہ تمام کے تمام صحابہ عادل ہیں۔ اگر ہم تاریخی حقائق کو ملاحظہ کریں اور پہلی صدی ہجری میں پیش آنے والے حوادث و واقعات کو ملاحظہ کریں تو عدالت صحابہ کا یہ نظریہ قابل ردّ قرار پاتا ہے۔ اس مقالہ میں بعض بزرگ صحابہ کرام کا تذکرہ کیا جا رہا ہے جو شہید کیے گئے اور انہیں شہید کرنے والے امت کے باغی تھے۔


مقدمہ

[ترمیم]

جنگ صفین ان جنگوں میں سے ہے جو رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کے درمیان لڑی گئی ۔ اس جنگ میں صحابہ کرام کی ایک بڑی تعداد شہید ہوئی ۔ جنگ صفین کی خصوصیت یہ ہے کہ اس جنگ میں حق و باطل کی شناخت کے لیے امام علیؑ کے وجودِ بابرکت کے علاوہ جناب عمار بن یاسر ؓ بھی تھے جن کے بارے نبی اکرم ﷺ کی معروف و معتبر حدیث ہے جوکہ صحیح بخاری کے علاوہ کئی کتبِ احادیث میں وارد ہوئی ہے: اے عمار تجھے ایک باغی گروہ قتل کرے گا ، وہ انہیں جنت کی طرف بلا رہے ہو گے اور مخالف انہیں جہنم کی دعوت دے رہے ہوں گے ۔
ابن جوزی نے نقل کیا ہے کہ اس جنگ میں ۲۵ بدری صحابہ کرام امام علیؑ کی رکاب میں شہید ہوئے ۔ ابن جوزی اپنی کتاب المنتظم میں لکھتے ہیں: وقتل بصفین سبعون الفا خمسة واربعون الفا من اهل الشام وخمسة وعشرون الفا من اهل العراق منهم خمسة وعشرون بدریا؛ جنگ صفین میں ستّر ہزار افراد قتل ہوئے ، ۴۵ ہزار افراد کا تعلق اہل شام سے تھا اور ۲۵ ہزار اہل عراق سے ، ان میں سے ۲۵ بدری صحابہ بھی شہید ہوئے ۔ یہاں سوال اٹھتا ہے کہ بدری صحابہ کا قاتل کیسے عادل ہو سکتا ہے؟! پھر ایک یا دو نہیں پچیس (۲۵) بدری صحابہ شہید کیے گئے !! یہاں سے اہل سنت کا عدالتِ صحابہ کا نظریہ مخدوش ہوتا ہے کیونکہ بدری صحابہ کی جلالت و منزلت آشکار ہے اور اتنے بزرگ صحابہ کا قاتل عدالت کے وصف سے کیسے متصف قرار دیا جا سکتا ہے!! ذیل میں چند صحابہ کرام کا تعارف پیش کیا جاتا ہے جوجنگ صفین میں شہید ہوئے۔

عمار بن یاسر

[ترمیم]

عمار بن یاسر کا شمار ان عظیم اور جانثار صحابہ میں ہوتا ہے جو دین اسلام پر دل و جان سے ایمان لائے اور مکہ میں ابتدائی ایام میں ہی اسلام قبول کر لیا تا آخرِ عمر رسول اللہ ﷺ سے کیے ہوئے عہدو پیمان پر قائم دائم رہے۔ رسول اللہ ﷺ نے آپ ؓ کی شخصیت کو حق و باطل کی شناخت کا معیار قرار دیا جس کا تذکرہ شیعہ و سنی معتبر احادیث میں پایا جاتا ہے۔ ذیل میں اہل سنت منابع احادیث سے کچھ شواہد پیش کیے جاتے ہیں:

← طبرانی کی نقل کردہ حدیث


اہل سنت کے معروف محدث ابو القاسم طبرانی اپنی معجم میں نقل کرتے ہیں: حدثنا محمد بن عبد اللَّهِ الْحَضْرَمِی ثنا ضِرَارُ بن صُرَدٍ ثنا عَلِی بن هَاشِمٍ عن عَمَّارٍ الدُّهْنِی عن سَالِمِ بن ابی‌الْجَعْدِ عن عَلْقَمَةَ عن عبد اللَّهِ عَنِ النبی (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) قال: اذا اخْتَلَفَ الناسُ کان بنُ سُمَیَّةَ مع الْحَقِّ؛ عبد اللہ بن مسعود رسول اللہ ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا: جب لوگوں میں اختلاف ہو جائے تو ابن سمیہ حق کے ساتھ ہوں گے۔

← روایت حاکم نیشابوری


حاکم نیشاپوری اپنی کتاب المستدرک علی الصحیحین میں لکھتے ہیں:اَخْبَرَنَا اِسْحَاقُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ الْهَاشِمِی بِالْکُوفَةِ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِی بْنِ عَفَّانَ الْعَامِرِی، ثنا مَالِکُ بْنُ اِسْمَاعِیلَ النَّهْدِی، اَنْبَاَ اِسْرَائِیلُ بْنُ یُونُسَ، عَنْ مُسْلِمٍ الاَعْوَرِ، عَنْ خَالِدٍ الْعُرَنِی، قَالَ: دَخَلْتُ اَنَا وَاَبُو سَعِیدٍ الْخُدْرِی عَلَی حُذَیْفَةَ، فَقُلْنَا: یَا اَبَا عَبْدِ اللَّهِ، حَدِّثْنَا مَا سَمِعْتَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) وَسَلَّمَ فِی الْفِتْنَةِ؟ قَالَ حُذَیْفَةُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) وَسَلَّمَ: «دُورُوا مَعَ کِتَابِ اللَّهِ حَیْثُ مَا دَارَ» فَقُلْنَا: فَاِذَا اخْتَلَفَ النَّاسُ فَمَعَ مَنْ نَکُونُ؟ فَقَالَ: «انْظُرُوا الْفِئَةَ الَّتِی فِیهَا ابْنُ سُمَیَّةَ فَالْزَمُوهَا، فَاِنَّهُ یَدُورُ مَعَ کِتَابِ اللَّهِ»، قَالَ: قُلْتُ: وَمَنِ ابْنُ سُمَیَّةَ؟ قَالَ: " اَوَ مَا تَعْرِفُهُ؟ "، قُلْتُ: بَیِّنْهُ لِی، قَالَ: «عَمَّارُ بْنُ یَاسِرٍ»، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) وَسَلَّمَ یَقُولُ لِعَمَّارٍ: «یَا اَبَا الْیَقْظَانِ، لَنْ تَمُوتَ حَتَّی تَقْتُلَکَ الْفِئَةُ الْبَاغِیَةُ عَنِ الطَّرِیقِ». هَذَا حَدِیثٌ لَهُ طُرُقٌ بِاَسَانِیدَ صَحِیحَةٍ، اَخْرَجَا بَعْضَهَا وَلَمْ یُخَرِّجَاهُ بِهَذَا اللَّفْظِ؛ خالد عرنی کہتے ہیں کہ میں اور ابو سعید خدری حذیفہ سے ملنے آئے ، ہم نے کہا: اے ابو عبد اللہ ! فتنوں کے بارے میں آپ نے رسول اللہ ﷺ سےجو کچھ سُنا ہے اس سے ہمیں باخبر کیجیے؟ حذیفہ نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا: کتاب الہٰی جہاں جہاں جاتی ہے وہاں تو لوگ بھی جاؤ ، ہم نے کہا: جب لوگ آپس میں اختلاف کرنے لگ جائیں تو ہم کس کا ساتھ دیں؟ انہوں نے کہا: اس گروہ پر نظر رکھو جس میں ابن سمیہ ہیں ، پس اس گروہ کے ساتھ جڑ جاؤ، کیونکہ وہ اللہ کی کتاب کے ہمراہ گردش کرتے ہیں ، راوی کہتا ہے: میں نے کہا: ابن سمیہ کون ہیں؟ حذیفہ نے کہا: کیا تم انہیں نہیں جانتے؟! میں نے کہا: مجھے ان کے بارے میں بتائیں ، حذیفہ نے کہا: عمار بن یاسر، میں رسول اللہ ﷺ کو عمار کے بارے میں فرماتے ہوئے سنا ہے : اے ابو یقظان! ہر گز تمہیں موت نہیں آئے گی یہاں تک کہ تمہیں صحیح راہ سے کنارہ کش باقی گروہ قتل کرے گا۔

← بخاری کی حدیث


مدینہ منورہ میں جب مسجد مدینہ بنائی گئی تو عمار بن یاسر دوسروں کے برخلاف دو دو اینٹیں اٹھا کر لا رہے تھے، رسول اللہ ﷺ نے جب انہیں دیکھا تو اپنے دست مبارک سے ان کے چہرے سے غبار چھاڑتے ہوئے فرمایا: وَیْحَ عَمَّارٍ تَقْتُلُهُ الْفِئَةُ الْبَاغِیَةُ، یَدْعُوهُمْ اِلَی الْجَنَّةِ، وَیَدْعُونَهُ اِلَی النَّار ؛ اے عمار ! تجھے ایک باغی گروہ قتل کرے گا ، وہ انہیں جنت کی طرف بلا رہے ہوں گے اور باقی گروہ ان کو جہنم کی دعوت دے رہا ہو گا۔ ان احادیث صحیحہ کے مطابق جناب عمارؓ معیارِ حق و باطل ہیں اور عمار جس گروہ میں ہوں گے وہ برحق اور اہل بہشت گروہ ہے ۔ اس کے برخلاف جو گروہ عمار ؓ کا مخالف اور مقابل گروہ ہے وہ باطل پر اور جہنمی ہے۔ اس حدیث مبارک سے جناب عمار کو شہید کرنے والے گروہ کو جہنم کی طرف دعوت دینے والا کہا گیا ہے۔یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو افراد صفین میں حضرت عمار کے مقابلے میں مارے گئے ان کے بارے میں معتبر احادیث جہنمی ہونے کی نوید سنا رہی ہیں تو بھلا ہم ان کے لیے کیسے عدالت کو ثابت کر سکتے ہیں؟!

← ذہبی کی حدیث


شمس الدین ذہبی اہل سنت کی متعصب اور متشدد شخصیت ہے جن کا تعلق متأخر علماء جرح و تعدیل سے ہے۔ ذہبی نے نقل کیا ہے کہ عمار بن یاسر کو ابو غادیہ نے قتل کیا تھاجس کے جہنمی ہونے کی بشارت رسول اللہ ﷺ نے دی تھی۔ چنانچہ ذہبی اپنی کتاب میزال الاعتدال میں تحریر کرتے ہیں: عن ابی‌الغادیة سمعت رسول الله (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) یقول: قاتل عمار فی النار وهذا شیء عجیب فان عمارا قتله ابوالغادیة؛ ابو غادیہ خود نقل کرتا ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: عمار کا قاتل جہنمی ہے ، عجیب بات یہ ہے کہ عمار کو ابو الغادیۃ ہی نے قتل کیا تھا۔ جناب عمار کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کی احادیث مبارکہ قطعی اور یقینی ہیں۔ تمام لوگ اس بات سے آگاہ تھے کہ عمار بن یاسر کو باغی گروہ قتل کرے گا۔نیز روائی اور تاریخی حقائق سے ثابت ہوتا ہے کہ معاویہ اور اس کا گروہ ہی وہ باغی جماعت ہیں جنہوں نے عمار بن یاسر کو قتل کیا۔ جنگ صفین میں معاویہ نے عمار بن یاسر کے قتل ہونے کا جب سنا اورلوگوں کی ایک بڑی تعداد پر لرزہ طاری ہو گیا کہ عمار قتل ہو گئے کیونکہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی زبانی سن رکھا تھا کہ انہیں ایک باغی جماعت قتل کرے گی تو معاویہ نے فورا عمرو بن عاص کو بلایا اور ایسے حالات میں اس سے مشورہ چاہا۔ باہمی مشاورت کے بعد انہوں نے یہ پروپیگنڈہ کرنا شروع کر دیا کہ عمار ؓ کو علیؑ نے قتل کیا ہے کیونکہ علیؑ ہیں جو عمارؓ کو میدانِ جنگ میں لے کر آئے ہیں ۔ اس لیے علیؑ نے انہیں قتل کیا ہے!!

← احمد بن حنبل کی حدیث


احمد بن حنبل اپنی مسند میں حدیث نقل کرتے ہیں: مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ عَنْ اَبِیهِ قَالَ لَمَّا قُتِلَ عَمَّارُ بْنُ یَاسِرٍ دَخَلَ عَمْرُو بْنُ حَزْمٍ عَلَی عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ فَقَالَ قُتِلَ عَمَّارٌ وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) تَقْتُلُهُ الْفِئَةُ الْبَاغِیَةُ فَقَامَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ فَزِعًا یُرَجِّعُ حَتَّی دَخَلَ عَلَی مُعَاوِیَةَ فَقَالَ لَهُ مُعَاوِیَةُ مَا شَاْنُکَ قَالَ قُتِلَ عَمَّارٌ فَقَالَ مُعَاوِیَةُ قَدْ قُتِلَ عَمَّارٌ فَمَاذَا قَالَ عَمْرٌو سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) یَقُولُ تَقْتُلُهُ الْفِئَةُ الْبَاغِیَةُ فَقَالَ لَهُ مُعَاوِیَةُ دُحِضْتَ فِی بَوْلِکَ اَوَنَحْنُ قَتَلْنَاهُ اِنَّمَا قَتَلَهُ عَلِی وَاَصْحَابُهُ جَاءُوا بِهِ حَتَّی اَلْقَوْهُ بَیْنَ رِمَاحِنَا اَوْ قَالَ بَیْنَ سُیُوفِنَا؛ ابو بکر بن محمد بن عمرو بن حزم اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ جب عمار بن یاسر قتل کر دیئے گئے تو عمرو بن حزم ’’عمرو بن عاص‘‘ کے پاس آئے اور انہیں کہا: عمار قتل کر دئیے گئے ہیں اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا: انہیں باغی جماعت قتل کرے گی۔ یہ سن کر عمرو بن عاص گھبراہٹ کے ساتھ اٹھ کھڑا ہوا اور کلمہ ترجیع ’’ ان للہ و انا الیہ راجعون‘‘ پڑھنے لگا اور یہ پڑھتے پڑھتے معاویہ کے پاس آ پہنچا ، معاویہ نے عمرو سے کہا : تمہیں کیا ہوا ہے؟! عمرو نے کہا: عمار قتل کر دئیے گئے ہیں، معاویہ نے کہا: اگر عمار قتل کر دیئے گئے ہیں تو اس میں کیا بڑی بات ہے؟! عمرو نے کہا: میں رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا تھا: اس کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا۔ معاویہ نے اس سے کہا: اپنے ہی پیشاب میں جا کر پھسلو ، کیا ہم نے اسے قتل کیا ہے !! اسے تو علی ؑ اور ان کے اصحاب نے قتل کیا ہے ، وہ عمار کو میدانِ جنگ میں لے کر آئے تھے یہاں تک کہ انہوں نے اسے ہمارے نیزوں کے سامنے پھینک دیا یا ہماری تلواروں کے درمیان لا پھینکا۔

← ان احادیث کا صحیح السند ہونا


اس حدیث کو متعدد محدثین نے نقل کیا ہے جن میں سے ایک ہیثمی ہیں جنہوں نے مجمع الزوائد میں اس حدیث کو نقل کیا ہے اور اس کے تمام راوی ثقہ قرار دیئے ہیں: رواه احمد وهو ثقة، اس حدیث کو احمد نے کیا ہے اور وہ ثقہ ہے۔ اسی طرح حاکم نیشاپوری نے بھی اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد اس کو شیخین یعنی بخاری و مسلم کی شرط پر قرار دیا ہے ، جیساکہ وہ لکھتے ہیں: هذا حدیث صحیح علی شرط الشخین ولم یخرجاه بهذه السیاقة؛ یہ حدیث صحیح ہے جوکہ شیخین کی شرط پر ہے اور اس سیاق کے ساتھ انہوں نے اس کو ذکر نہیں کیا۔ مناوی نے قرطبی سے اس کو نقل کرتے ہوئے لکھا ہے: وهذا الحدیث اثبت الاحادیث واصحّها، ولمّا لم یقدر معاویة علی انکاره قال: انّما قتله من اخرجه، فاجابه علی بانّ رسول اللّه (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) اذن قتل حمزة حین اخرجه. قال ابن دحیة: وهذا من علی الزام مفحم الذی لا جواب عنه، و حجّة لا اعتراض علیها؛ یہ حدیث محکم ترین اور صحیح ترین حدیث ہے ۔ جب معاویہ کی بس سے باہر ہو گیا کہ وہ اس کا انکار کرے تو اس نے کہا: عمار کو اس نے قتل کیا ہے جس نے اس کو میدان میں نکالا ہے ، اس پر علیؑ نے جواب دیا کہ پھر تو رسول اللہ ﷺ نے جناب حمزہ کے قتل کی اجازت دی تھی کیونکہ وہ حمزہ کو میدان میں لائے تھے۔ ابن دحیہ کہتے ہیں کہ یہ مدمقابل کو لا جواب کر دینے والا جواب ہے اور زیر کرنے والی ایسی دلیل ہے جس پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔

بدری صحابی خزیمہ ذو الشہادتین

[ترمیم]

خزیمہ بن ثابت ؓ کا شمار رسول اللہ ﷺ کے باوفا صحابہ میں ہوتا ہے جو آخری دَم تک رسول اللہ ﷺ سے کیے ہوئے عہد و پیمان پر استقامت کے ساتھ ڈٹے رہے۔ خزیمہ بن ثابت نے جنگ بدر اور بقیہ تمام جنگوں میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ شرکت کی سعادت حاصل کی ۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کی گواہی کو دو مردوں کی گواہی کے برابر قرار دیا ۔ اسی وجہ سے خزیمہ بن ثابت کو ذو الشہادتین کا لقب دیا گیا اور اسی لقب سے ان کی شہرت ہوئی۔ آپ جنگ صفین میں امام علیؑ کے ہم رکاب حاضر ہوئے اور اس جنگ میں شہید کر دئیے گئے۔آپ کی شہادت کا تذکرہ محدثین و مؤرخین نے اپنی کتب میں کیا ہے جن میں سے بعض شواہد درج ذیل ذکر کیے جاتے ہیں:

← ابن عبد البر کی تبصرہ


ابن عبد البر قرطبی جناب خزیمہ بن ثابت کے بارے میں تحریر کرتے ہیں: خزیمة بن ثابت بن الفاکه بن ثعلبة الخطمی الانصاری من بنی خطمة من الاوس یعرف بذی الشهادتین جعل رسول الله (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) شهادته بشهادة رجلین یکنی ابا عمارة شهد بدرا وما بعدها من المشاهد وکانت رایة خطمة بیده یوم الفتح وکان مع علی رضی الله عنه بصفین فلما قتل عمار جرد سیفه فقاتل حتی قتل وکانت صفین سنة سبع وثلاثین، روی عن محمد بن عمارة بن خزیمة بن ثابت من وجوه قد ذکرتها فی کتاب الاستظهار فی طرق حدیث عمار قال ما زال جدی خزیمة بن ثابت مع علی بصفین کافا سلاحه وکذلک فعل یوم الجمل فلما قتل عمار بصفین قال خزیمة سمعت رسول الله (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) یقول تقتل عمار الفئة الباغیة ثم سل سیفه فقاتل حتی قتل؛ خزیمہ بن ثابت بن فاکہ بن ثعلبہ بن خطمی انصاری کا تعلق قبیلہ اوس کی شاخ بنی خطمہ سے تھا ۔ وہ ذو الشہادتین کے لقب سے پہچانے جاتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کی گواہی کو دو مردوں کی گواہی کے برابر قرار دیا تھا، ان کی کنیت ابو عمارہ ہے ۔ جنگ بدر اور دیگر تمام جنگوں میں شرکت کی ۔ فتح مکہ کے موقع پر خطمہ کا پرچم ان کے ہاتھ میں تھا۔ علیؑ کے ساتھ صفین میں حاضر ہوئے ۔ جب عمار قتل کر دیئے گئے تو وہ اپنی تلوار کو سونت کر نکلے یہاں تک کہ قتل کر دئیے گئے ۔ صفین ۳۷ ھ کو لڑی گئی تھی۔ محمد بن عمارۃ بن خزیمہ بن ثابت سے مختلف طرق جنہیں میں نے کتاب استظہار میں حدیثِ عمار کے طرق میں ذکر کیا ہے سے یہ حدیث نقل کی گئی ہیں کہ وہ کہتے ہیں: میرے جدّ خزیمہ بن ثابت علیؑ کے ہمراہ صفین میں تھے جبکہ ان کی تلوار نیام میں تھی اور اسی طرح جنگ جمل میں انہوں نے کیا تھا۔ صفین میں جب عمار قتل کر دئیے گئے تو خزیمہ نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: عمار کو باغی جماعت قتل کرے گی ، پھر انہوں نے اپنی تلوار نکالی اور حملہ آور ہوئے اور اس وقت تک لڑتے رہے یہاں تک کہ شہید ہو گئے۔

← حاکم نیشاپوری کا تبصرہ


حاکم نیشاپوری اپنی کتاب المستدرک میں لکھتے ہیں: حَدَّثَنِی ابوبَکْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ اَحْمَدَ بْنِ بَالَوَیْهِ، ثَنَا اِبْرَاهِیمُ بْنُ اِسْحَاقَ الْحَرْبِی، ثَنَا مُصْعَبُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الزُّبَیْرِی، قَالَ: " خُزَیْمَةُ بْنُ ثَابِتِ بْنِ الْفَاکِهِ بْنِ ثَعْلَبَةَ بْنِ سَاعِدَةَ بْنِ عَامِرِ بْنِ غَیَّانَ بْنِ عَامِرِ بْنِ خَطْمَةَ وَهُوَ ذُو الشَّهَادَتَیْنِ، جَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) وَسَلَّمَ شَهَادَتَهُ بِشَهَادَةِ رَجُلَیْنِ، وَاَخْبَرَ النَّبِی (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) وَسَلَّمَ اَنَّهُ رَاَی فِی الْمَنَامِ کَاَنَّهُ سَجَدَ عَلَی جَبْهَةِ النَّبِی (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) وَسَلَّمَ، فَاضْطَجَعَ لَهُ النَّبِی (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) وَسَلَّمَ حَتَّی سَجَدَ عَلَی جَبْهَتِهِ " قَالَ ابْنُ اِسْحَاقَ: «قُتِلَ مَعَ عَلِی رَضِی اللَّهُ عَنْهُ بِصِفِّینَ بَعْدَ قَتْلِ عَمَّارِ بْنِ یَاسِرٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ اِسْحَاقَ، قَالَ: " شَهِدَ خُزَیْمَةُ بْنُ ثَابِتٍ ذُو الشَّهَادَتَیْنِ مَعَ عَلِی بْنِ ابی‌طَالِبٍ رَضِی اللَّهُ عَنْهُ صِفِّینَ، وَقُتِلَ یَوْمَئِذٍ سَنَةَ سَبْعٍ وَثَلاثِینَ مِنَ الْهِجْرَةِ؛ مصعب بن عبد اللہ زبیری نے بیان کیا ہے کہ خزیمہ بن ثابت بن فاکہ بن ثعلبہ بن ساعدۃ بن عامر بن غیان بن عامر بن خطمہ ، وہ ذو الشہادتین ہیں ۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کی گواہی کو دو مردوں کی گواہی کے برابر قرار دیا تھا۔ خزیمہ نے نبی ﷺ کو بتایا کہ انہوں نے خواب میں دیکھا ہے کہ گویا وہ نبی ﷺ کی پیشانی مبارک پر سجدہ کر رہے ہیں ،پھر نبی ﷺ ان کی خاطر لیٹ گئے تاکہ وہ ان کی پیشانی پر سجدہ کریں ۔ ابن اسحاق کہتے ہیں: خزیمہ صفین میں علیؑ کی ہمراہی میں عمار بن یاسر کے قتل ہونے کے بعد قتل ہوئے۔ محمد بن اسحاق سے نقل ہوا ہے کہ وہ کہتے ہیں: خزیمہ بن ثابت ذو الشہادتین نے علی بن ابی طالبؑ کے ہمراہ صفین میں شرکت اور اس دن ۳۷ ھ کو قتل کر دئیے گئے۔

ہاشم بن عتبہ مرقال

[ترمیم]

ہاشم بن عتبہ بن ابی‌ وقاص معروف صحابی ہیں اور مرقال کے لقب سے معروف ہیں۔ ہاشم سعد بن ابی وقاص کے بھتیجے لگتے ہیں۔ آپ ان عظیم صحابہ میں سے ہیں جنہوں نے جنگ جمل و صفین میں امام علیؑ کی نصرت فرمائی اور ان کے ہم رکاب لڑے۔ جنگ صفین میں آپ شہادت کے مرتبہ پر فائز ہوئے۔

← ابن حبان کا کلام


ابن‌حبان ہاشم بن عتبہ کے بارے میں تحریر کرتے ہیں: هاشم بن عتبة بن ابی‌وقاص بن اخی سعد له صحبة قتل یوم صفین؛ ہاشم بن عتبہ بن ابی وقاص جوکہ سعد کے بھتیجے ہیں ، صحابی تھے ، روز صفین میں شہید ہوئے۔

← طبری کا کلام


محمد بن جریر طبری نے ہاشم بن عتبہ کا نام جنگ صفین کے شہداء میں ذکر کیا ہے۔ طبری نے لکھا ہے: وهاشم بن عتبة بن ابی‌وقاص بن اهیب بن عبدمناف بن زهرة، أسلم‌ هاشم بن عتبة یوم فتح مکة وهو المرقال وکان اعور فقئت عینه یوم الیرموک وهو ابن اخی سعد بن ابی‌وقاص شهد صفین مع علی بن ابی‌طالب (علیه‌السّلام) وکان یومئذ علی الرجالة وهو الذی یقول: ۔۔۔ وقتل یوم صفین؛ ہاشم بن عتبہ بن ابی وقاص بن اہیب بن عبد مناف بن زہرہ، ہاشم بن عتبہ فتح مکہ کے دن اسلام لائے، انہیں مرقال کہا جاتا ہے، ہاشم ایک آنکھ سے نابینا تھے کیونکہ یرموک کی جنگ میں ان کی آنکھ ضائع ہو گئی تھی، وہ سعد بن ابی وقاص کے بھتیجے تھے، جنگ صفین میں علی بن ابی طالبؑ کے ساتھ تھے۔ اس دن پیادہ جنگ لڑ رہے تھے أور اس وقت انہوں نے کہا جناب ہاشم صفین کے دن شہید ہوئے۔
اعور یبغی اهله محلا ••••• قد عالج الحیاة حتی ملا
اعور جس مقام کا اہل ہے اس کی کوشش کرنے والا ہے •••••وہ زندگی کو سلجھاتے سلجھاتے تنگ آ گیا ہے
لابد ان یفل او یفلا
اس کا گرانا یا گرایا جانا ضروری ہو گیا ہے (یعنی وہ یا تو دشمن کو شکست دے دے یا خود شکست کھا جائے)۔

← ابن حجر عسقلانی کا تبصرہ


امام علیؑ کے اس شجاع اور دلیر علمبردار کے بارے میں ابن‌حجر عسقلانی نے تحریر کیا ہے: هاشم بن عتبة بن ابی‌وقاص بن اهیب بن زهرة بن عبد مناف الزهری الشجاع المشهور المعروف بالمرقال بن اخی سعد بن ابی‌وقاص قال الدولابی لقب بالمرقال لانه کان یرقل فی الحرب‌ای یسرع من الارقال وهو ضرب من العدو وقال بن الکلبی وابن حبان له صحبة... واخرج یعقوب بن سفیان من طریق الزهری قال قتل عمار بن یاسر وهاشم بن عتبة یوم صفین واخرج بن السکن من طریق الاعمش عن ابی‌عبد الرحمن السلمی قال شهدنا صفین مع علی وقد وکلنا بفرسه رجلین فاذا کان من القوم غفلة حمل علیهم فلا یرجع حتی یخضب سیفه دما قال ورایت‌ هاشم بن عتبة وعمار بن یاسر یقول له یا‌هاشم:؛ ہاشم بن عتبہ بن ابی وقاص بن اہیب بن زہرہ بن عبد مناف زہری، شجاع، جوکہ مرقال کے لقب سے معروف و مقبول تھے، سعد بن ابی وقاص کے بھتیجے تھے۔ دولابی نے کہا ہے کہ انہیں مرقال کے لقب سے اس لیے پکارا جاتا تھا کیونکہ وہ جنگ میں خاص چال اختیار کرتے ہوئے چلتے تھے، یعنی تیز اور پھرتی سے حملہ آور ہوتے ، ارقال دشمن پر خاص انداز پر کاری ضرب لگانا ہے۔ ابن کلبی اور ابن حبان نے کہا ہے کہ وہ صحابی تھے ... یعقوب بن سفیان نے زہری کے طریق سے ذکر کیا ہے کہ عمار بن یاسر اور ہاشم بن عتبہ جنگ صفین میں شہید ہوئے۔ ابن السکن نے اعمش کے طریق سے ابو عبد الرحمن سلمی سے نقل کیا ہے کہ ابو عبد الرحمن السلمی کہتے ہیں: ہم صفین میں علیؑ کے ہمراہ تھے اور ہم نے دو افراد ان کے گھوڑے پر نگہبان رکھے تھے، جب وہ امام علیؑ سے غافل ہو جاتے تو امام علیؑ تنہا جنگ میں داخل ہو کر حملہ آور ہوتے اور اس وقت تک نہیں پلٹتے تھے جب تک ان کی تلوار خون سے رنگین نہ ہو جاتی ۔ عبد الرحمن السلمی کہتے ہیں : میں نے ہاشم بن عتبہ کو اور عمار بن یاسر کو دیکھا، عمار ہاشم کو کہتے ہیں: اے ہاشم :
اعور یبغی اهلی محلا ••••• قد عالج الحیاة حتی ملا
ایک آنکھ سے نابینا جس مقام کا اہل ہے اس تک پہنچنا چاہتا ہے•••••وہ زندگی کو سلجھاتے سلجھاتے تھک گیا ہے
لا بد ان یفل او یفلا
اب اس کے لیے گرانا یا گرنا ضروری ہو گیا ہے۔
قال ثم اخذوا فی واد من اودیة صفین فما رجعا حتی قتلا، واخرج عبد الرزاق عن ابی‌بکر بن محمد بن عمرو بن حزم ان‌ هاشما انشده فذکر نحوه. وقال المرزبانی لما جاء قتل عثمان الی اهل الکوفة قال‌هاشم لابی موسی الاشعری تعال یا ابا موسی بایع لخیر هذه الامة علی فقال لا تعجل فوضع‌هاشم یده علی الاخری فقال هذه لعلی وهذه لی وقد بایعت علیا وانشد:؛ وہ کہتے ہیں: پھر صفین کی وادیوں میں سے ایک وادی میں شامیوں نے گھیر لیا اور دونوں اس وقت تک نہیں لوٹے جب تک دونوں شہید نہ ہو گئے۔ عبد الرزاق نے ابو بکر بن محمد بن عمرو بن حزم سے نقل کیا ہے کہ ہاشم بن عتبہ نے یہ اشعار پڑھے ، پھر وہ اشعار اسی طرح ذکر کیے ہیں، مرزبانی کہتے ہیں: جب عثمان کے قتل کی خبر اہل کوفہ تک پہنچ تو ہاشم نے ابو موسی اشعری سے کہا: اے ابو موسی یہاں آؤ! اس امت کے سب سے بہترین شخص علیؑ کے ہاتھ پر بیعت کرو، ابو موسی نے کہا: جلد مت کرو، ہاشم نے اپنا ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ کر رکھتے ہوئے کہا: یہ ہاتھ علیؑ کی طرف سے اور یہ میری طرف سے اور میں علیؑ کی بیعت کرتا ہوں، اس کے بعد ہاشم بن عتبہ نے یہ اشعار کہے:
ابایع غیر مکترث علیا ••••• ولا اخشی امیرا اشعریا
میں بے پرواہ ہو کر علیؑ کی بیعت کرتا ہوں•••••میں اشعری امیر سے نہیں ڈرتا
ابایعه واعلم ان سارضی ••••• بذاک الله حقا والنبیا
میں ان کی بیعت کرتا ہوں اور جانتا ہوں کہ راضی کروں گا •••••اس کے ذریعے حقیقی طور اللہ کو اور نبی ﷺ کو۔

← ابن عبد البر کا تبصرہ


ابن عبدالبر قرطبی نے جناب ہاشم بن عتبہ کی توصیف ان الفاظ میں کی ہے: هاشم بن عتبة بن ابی‌وقاص القرشی الزهری ابن اخی سعد بن ابی‌وقاص بکنی ابا عمرو وقد تقدم ذکر نسبه الی زهرة فی باب عمه سعد قال خلیفة بن خیاط فی تسمیة من نزل الکوفة من اصحاب رسول الله (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم)‌هاشم بن عتبة بن ابی‌وقاص الزهری وقال الهیثم ابن عدی مثله قال ابوعمر: أسلم‌ هاشم بن عتبة یوم الفتح یعرف بالمرقال وکان من الفضلاء الخیار وکان من الابطال البهم فقئت عینه یوم الیرموک... ثم شهد‌هاشم مع علی الجمل وشهد صفین وابلی فیها بلاء حسنا مذکورا وبیده کانت رایة علی علی الرجالة یوم صفین ویومئذ قتل وهو القائل یومئذ:؛ ہاشم بن عتبہ بن ابی وقاص، قرشی، زہری، سعد بن ابی وقاص کے بھتیجے، ان کی کنیت ابو عمرو ہے۔ زہرہ تک ان کا شجرہ نسب کا بیان ان کے چچا سعد کے باب کے ذیل میں گزر چکا ہے، خلیفہ بن خیاط نے ان اصحابِ رسول اللہ ﷺ جو کوفہ میں رہتے تھے کے ناموں کے ذیل میں کہا ہے: ہاشم بن عتبہ بن ابی وقاص، زہری، ہیثم بن عدی نے بھی اسی طرح سے کہا ، ابو عمر کہتے ہیں: ہاشم بن عتبہ فتح مکہ کے دن اسلام لائے ، مرقال کے لقب سے معروف تھے، ہاشم فضلاء اور بہترین افراد میں سے تھے اور شجاع و دلیر لوگوں میں سے تھے، یرموک کے دن ان کی ایک آنکھ ضائع ہو گئی ... پھر جنگ جمل میں ہاشم علیؑ کے ساتھ تھے اور جنگ صفین میں بھی ان کے ہمراہ رہے۔ صفین میں بہترین قابل ذکر آزمائش سے دوچار ہوئے ، ان کے ہاتھ میں امام علیؑ کا پرچم تھا ، صفین کے دن پیادہ لڑے، اسی دن شہید ہو گئے جبکہ اس دن انہوں نے یہ اشعار کہے:
اعور یبغی اهله محلا ••••• قد عالج الحیاة حتی ملا
ایک آنکھ سے دیکھںے والا اپنے مقام کی جگہ کو پانے کی کوشش کرتا ہے ••••• وہ زندگی کو سلجھاتے سلجھاتے ہوئے تھک گیا ہے۔
لا بد ان یفل او یفلا
اس کے لیے اب گرانا یا گرنا ضروری ہو گیا ہے۔
وقطعت رجله یومئذ فجعل یقاتل من دنا منه وهو بارک ویقول: ؛ صفین کے دن ہاشم بن عتبہ کا ایک پاؤں کاٹ دیا گیا ، انہوں نے اپنے قریب آنے والوں سے لڑنا شروع کر دیا جبکہ وہ سینے کے بل زمین بوس تھے اور یہ اشعار پڑھ رہے تھے:
الفحل یحمی شوله معقولا
مردِ میدان اپنوں کا دفاع کرتا ہے اگرچے اسے باندھ دیا جائے۔
وقاتل حتی قتل وفیه یقول ابو الطفیل عامر بن وائلة:؛ ہاشم اس وقت تک لڑتے رہے یہاں تک کہ شہید ہو گئے، ان کی شہادت پر صحابی رسولﷺ ابو طفیل عامر بن واثلہ نے کہا:
یا‌هاشم الخیر جزیت الجنة ••••• قاتلت فی الله عدو السنة
اے ہاشم الخیر ، جنت تیری جزا ہے ••••• تو نے راہِ الہی میں سنت کے دشمن سے جنگ کی۔
افلح بما فزت به من منة
زحمت اور مشقت کاٹتے ہوئے جس مقام کو تو نے حاصل کیا ہے وہ کتنی بڑی کامیابی ہے۔

← ہیثمی کا تبصرہ


مجمع الزوائد ہیثمی لکھتے ہیں: وعن ابی‌ عبد الرحمن السلمی قال شهدنا مع علی صفین وقد وکلنا بفرسه رجلین فکانت اذا کانت من الرجل غفلة غمز علی فرسه فاذا هو فی عسکر القوم فیرجع الینا وقد خضب سیفه دما ویقول یا اصحابی اعذرونی اعذرونی فکنا اذا توادعنا دخل هؤلاء فی عسکر هؤلاء فکان عمار بن یاسر علما لاصحاب محمد (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) لا یسلک عمار وادیا من اودیة صفین الا تبعه اصحاب محمد (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) فانتهینا الی‌هاشم بن عتبة بن ابی‌وقاص وقد رکز الرایة فقال ما لک یا‌ هاشم اعور و جُبْنًا ! لا خیر فی اعور لا یغشی الناس، فنزع‌ هاشم الرایة وهو یقول:؛ ابو عبد الرحمن السلمی سے منقول ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم امام علیؑ کے ساتھ صفین میں موجود تھے اور ہم نے اس کے گھوڑے کے ساتھ دو بندوں کو رکھا ہوا تھا، جب وہ نگہبان غفلت کا شکار ہوتے تو امام علیؑ اپنے گھوڑے پر سوار ہوتے اور دشمن کی فوج میں گھس جاتے اور اس وقت ہماری طرف لوٹتے جب ان کی تلوار خون سے رنگین ہو جاتی، وہ فرماتے: اے میرے اصحاب ، مجھے معاف کر دو ، مجھے معاف کر دو، جب جنگ بند ہو جاتی تو یہاں کے افراد دوسرے لشکر کے افراد میں آتے جاتے، عمار بن یاسر محمد ﷺ کے اصحاب میں مینار اور مثل پرچم تھے، صفین کی وادیوں میں سے کسی وادی میں عمار جاتے تو ان کے پیچھے پیچھے محمد ﷺ کے اصحاب چلے جاتے، پھر ہم ہاشم بن عتبہ بن ابی وقاص تک پہنچے جبکہ انہوں نے پرچم اٹھایا ہوا تھا، عمار نے ہاشم سے کہا: اے ہاشم ، تو بھینگا بھی ہے اور بزدلی بھی دکھا رہا ہے ؟! بھینگا ہونے میں کوئی خیر نہیں ہے وہ لوگوں سے تکلیف و مصیبت کو دور نہیں کر سکتا، ہاشم نے یہ کہتے ہوئے پرچم اٹھایا :
اعور یبغی اهله محلا ••••• قد عالج الحیاة حتی ملا
بھینگا جس مقام کا اہل ہے اس کی کوشش کرتا ہے ••••• وہ زندگی کو سلجھاتے سلجھاتے تنگ آ گیا ہے
لا بد ان یفل او یفلا
اس کے لیے گرانا یا گرنا ضروری ہو گیا ہے۔
اس روایت کی سند کے بارے میں ہیثمی لکھتے ہیں: رواه الطبرانی واحمد باختصار وابو یعلی بنحو الطبرانی والبزار بقوله تقتل عمارا الفئة الباغیة عن عبدالله بن عمرو وحده ورجال احمد وابی یعلی ثقات؛ طبرانی اور احمد نے اس حدیث کو مختصر طور پر نقل کیا ہے جبکہ ابو یعلی موصلی نے طبرانی کی طرح سے نقل کیا ہے اور بزّار نے یہ کہتے ہوئے نقل کیا ہے: عمار کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا ، یہ تنہا عبد اللہ بن عمرو بن عاص کے طریق سے نقل ہوئی ہے ، احمد اور ابو یعلی موصلی کے رجال سب ثقہ ہیں۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. بخاری، محمد بن اسماعیل ابو عبد الله (متوفی۲۵۶ھ)، صحیح البخاری، ج۱، ص۹۷۔    
۲. بخاری، محمد بن اسماعیل ابو عبد الله (متوفی۲۵۶ھ)، صحیح البخاری، ج۴، ص۲۱۔    
۳. ابن‌ جوزی حنبلی، عبد الرحمن بن علی بن محمد (متوفی ۵۹۷ ھ)، المنتظم فی تاریخ الملوک والامم، ج۵، ص۱۲۰۔    
۴. طبرانی، ابو القاسم سلیمان بن احمد بن ایوب (متوفی۳۶۰ھ)، المعجم الکبیر، ج۱۰، ص۹۵، ح۱۰۰۷۱۔    
۵. حاکم نیسابوری، محمد بن عبد الله (متوفی ۴۰۵ ھ)، المستدرک علی الصحیحین، ج۲، ص۱۶۲، ح ۲۶۵۲۔    
۶. بخاری جعفی، محمد بن اسماعیل ابو عبدالله (متوفی۲۵۶ھ)، صحیح البخاری، ج۱، ص۹۷۔    
۷. بخاری جعفی، محمد بن اسماعیل ابو عبدالله (متوفی۲۵۶ھ)، صحیح البخاری، ج۴، ص۲۱۔    
۸. ذہبی، محمد بن احمد بن عثمان، (متوفی۷۴۸ھ)، میزان الاعتدال فی نقد الرجال، ج۱، ص۴۸۸۔    
۹. شیبانی، احمد بن حنبل ابو عبد الله (متوفی۲۴۱ھ)، مسند احمد بن حنبل، ج۲۹، ص۳۱۶، ح۱۷۷۷۸۔    
۱۰. بیہقی، احمد بن الحسین بن علی بن موسی ابوبکر (متوفی ۴۵۸ھ)، سنن البیہقی الکبری، ج۸، ص۳۲۸۔    
۱۱. ذہبی، محمد بن احمد بن عثمان، (متوفی۷۴۸ھ)، سیر اعلام النبلاء، ج۱، ص۴۱۹-۴۲۰۔    
۱۲. ہیثمی، علی بن ابی‌بکر (متوفی ۸۰۷ ھ)، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، ج۷، ص۲۴۱-۲۴۲۔    
۱۳. حاکم نیساپوری، محمد بن عبدالله ابوعبدالله (متوفی ۴۰۵ ھ)، المستدرک علی الصحیحین، ج۲، ص۱۶۸۔    
۱۴. مناوی، عبد الرؤوف (متوفی:۱۰۳۱ ھ)، فیض القدیر شرح الجامع الصغیر، ج۶، ص۳۶۵۔    
۱۵. ابن عبد البر نمری قرطبی مالکی، یوسف بن عبدالله بن عبد البر (متوفی ۴۶۳ھ)، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، ج۲، ص۴۴۸۔    
۱۶. حاکم نیساپوری، ابو عبد الله محمد بن عبد الله (متوفی ۴۰۵ ھ)، المستدرک علی الصحیحین، ج۳، ص۴۴۸۔    
۱۷. تمیمی بستی، محمد بن حبان بن احمد (متوفا ۳۵۴ ھ)، الثقات، ج۳، ص۴۳۷، رقم:۱۴۲۸۔    
۱۸. طبری، محمد بن جریر بن یزید بن کثیر بن غالب (متوفی ۳۱۰ ھ)، المنتخب من ذیل المذیل، ج۱، ص۱۷۔    
۱۹. ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی بن حجر ابو الفضل (متوفی ۸۵۲ ھ)، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، ج۶، ص۴۰۴، رقم:۸۹۳۴۔    
۲۰. ابن عبد البر نمری قرطبی مالکی، یوسف بن عبد الله بن عبد البر (متوفی ۴۶۳ھ)، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، ج۴، ص۱۵۴۶-۱۵۴۷، رقم:۲۷۰۰۔    
۲۱. ہیثمی، ابو الحسن نور الدین علی بن ابی‌ بکر (متوفی ۸۰۷ ھ)، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، ج۷، ص۲۴۰-۲۴۱۔    


مأخذ

[ترمیم]

موسسہ ولیعصر، یہ تحریر مقالہ چہ کسانی از اصحاب در جنگ صفین بہ شہادت رسیده‌اند؟ سے مأخوذ ہے۔    






جعبه ابزار