حدیث غدیر پر اشکالات کے جوابات

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



واقعہ غدیر تاریخِ اسلام کے اہم ترین واقعات میں شمار ہوتا ہے جو۱۰ ہجری ، ۱۸ ذولحجہّ کو وقوع پذیر ہوا۔اس مقالہ میں حدیث غدیر اور اہل سنت کی جانب سے اس پر کیے گئے بعض اشکالات اور ان کے جوابات کو زیر بحث لا گیا ہے۔


شعر میں غدیر کی توصیف

[ترمیم]

علی امامنا و امام لسوانا، اتی به التنزیل
یوم قال النبی من کنت مولا ه فهذا مولاه، خطب جلیل
ان ما قاله النبی علی الامة حتم، ما فیه قال و قیل
علیؑ ہمارے اور ہمارے علاوہ (سب ) کے امام ہیں (اور یہ وہ حکم ہے) جسے قرآن نے بیان کیا ہے؛ اس دن جس میں نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: جس کا میں رہبر ہوں یہ علیؑ بھی اس کے رہبر ہیں اور یہ نہایت بلند مرتبہ ہے؛بے شک (غدیر کے دن) جو کچھ رسو ل اللہؐ نے امت کیلئے ارشاد فرمایا وہ حتمی اور قطعی ہے، اس میں کسی قسم کی ردّ وقدح اور حیص بیص کی گنجائش نہیں ہے۔ (شعر از ابوالقاسم قیس بن سعد بن عباد انصاری، به نقل ازالغدیر، ج صفر، ص۲۴۱)

غدیر کا زمان ومکان

[ترمیم]

زمان:یہ عظیم واقعہ، ۱۰ ہجری، ۱۸ ذی الحجہّ، جمعرات کے دن بوقت ظہر رونما ہوا۔
مکان:رسولِ خدا ؐ نے یہ حدیث، مکہ اور مدینہ کے درمیان واقع ، جحفہ کے نزدیک، مقام غدیرخم پر ارشاد فرمائی تھی۔

واقعہ غدیر

[ترمیم]

حجۃ الوداع سے واپسی پر، جب رسول اکرمؐ اور ان کے اصحاب غدیر خم کے مقام پر پہنچے تو فرشتہ وحی بلغّ ما انزل الیک کا پیغام لیکر اچانک نازل ہوئے مذکورہ آیت نازل ہونےکے بعد رسول خداؐ نے کاروان کو رکنے کا حکم دیا اور آگے نکل جانے والوں کو واپس بلایا؛ گرمی کی شدّت عروج پر تھی اور حجاج کو گرمی کی شدّت تحمل کرنامشکل ہورہا تھا ؛ سب ایک دوسرے سے یہی پوچھ رہے تھے کہ ایسا کیا حادثہ پیش آیا ہے جس کیلئے حضرت ؐاتنا اہتمام فرمارہے ہیں۔اور واقعی یہ ایسا امر تھا ، جسے ظاہر کرنے سے رسول اکرمؐ کو خوف لاحق تھا ؛ یہاں تک خدا نے فرمایا: «و الله یعصمک من الناس»یعنی اس پیغام کو ابلاغ کرو خدا آپؐ کی حفاظت کرے گا۔
اور اللہ کی طرف سے یہ بھی خبردار کیا گیا: «و ان لم تفعل فما بلغت رسالتک»اگر اس پیغام کو نہ پہنچایا تو گویا آپؐ نے رسالت کوئی کام انجام ہی نہیں دیا!
جب سب اکھٹے ہوگئے، تو نمازِ جماعت قائم کی گئی، اس نماز میں تقریباً ایک لاکھ افراد نے شرکت کی؛نماز ختم ہونے کے بعد آپؐ نے اونٹوں کے پالانوں سے منبر تشکیل دینے کا حکم دیا ؛آپ منبر پر تشریف لے گّئے اور ایک فصیح وبلیغ خطبہ ارشاد فرمایا۔اس کے بعد حکم دیا کہ حضرت علیؑ بھی منبر پر تشریف لے آئے؛ پھر آپؐ نے حضرت علیؑ کا ہاتھ پکڑ کر اتنا بلند کیا کہ آپ دونوں کی بغلوں کی سفیدی نظر آنے لگی،جب سب نے یہ منظر دیکھا تو آپؐ نے اس موقع پر ارشاد فرمایا: «من کنت مولاه فهذا علی مولاه»
یعنی جس کا میں مولا اور رہبر ہوں علی بھی اس کے رہبر ہیں۔اس کے بعد آپؑ نے ان کے حق میں بارگأہِ خداوندی میں دعا فرمائی۔ اس وقت سب کا ایک ہی شعار تھا کہ «الحمدالله الذی فضلنا علی العالمین»؛ حمدوسپاس اس اللہ کی جس نے ہمیں عالمین پر فضیلت دی۔پھر سب لوگ امیر المومنینؑ کی بیعت کرنےاور انہیں مبارک باد کہنے کیلئے ان کے خیمے کی طرف آنا شروع ہوگئے،حتی یہ کہ وہاں موجود خواتین کو بھی آپؑ کی بیعت کرنے کا حکم دیا گیاتھا، اور شیخین نے آپؑ کو خصوصی طور پر مبارک باد دی: «بخ بخ! یا علی! امسیت مولی کل مومن و مومنته» واہ واہ (کیا بات ہے)!اے علی! آپ ہر مومن اور مومنہ کے مولا بن گئے۔

حدیث غدیر کا تواتر

[ترمیم]

حدیث غدیر اتنی زیادہ طرق اور اسناد کے ساتھ نقل ہوئی ہے کہ کوئی شخص اس کےصدور میں شک نہیں کرسکتا.
[۶] غزالی، ابوحامد، سرالعالمین و کشف ما فی الدارین، ص۲۱۔
اور جس اہتمام اور تواتر کے ساتھ اس حادثے کو نقل کیا گیا ہے ، تاریخ اسلام میں اس کی مثال نہیں ملتی؛علامہ امینی نےصحابہ ۱۱۰ صحابہ کے نام ذکر کیے ہیں جنہوں نے اس حدیث کو روایت کی ہے، جیسے ؛ امیرالمؤمنین علیؑ، حضرت زہراؑ ، امام حسنؑ و امام حسینؑ ، سلمان فارسی، مقداد، اسماء بنت عمیس، ‌ام ہانی، جابر بن عبدالله انصاری، ابوبکر بن ابی قحافہ، عمر بن خطاب، عثمان بن عفان، اسامه بن زید، ابوهریره، ابی بن کعب، عایشه، عمر و بن عاص وغیرہ ۔اہل تسنن کے علماء میں سے بھی بعض نے اس حدیث کو متواتر قرار دیا ہے اور اہل سنت کے بزرگ علماء نے اسے متعدد اسناد کے ساتھ نقل کیا ہے، جیسے:ابوعیسی ترمذی، ابوجعفر طحاوی، احمدغزالی،
[۱۰] - غزالی، ابوحامد، سرالعالمین و کشف ما فی الدارین، ص۲۱۔
ابن کثیر شافعی، ابن حجر عسقلانی، محمد آلوسی، ابن ابی الحدید اور بہت سے دیگر محدّثین نے اس حدیث کو متعدد طرق اور اسناد کے ساتھ قلمبند کیا ہے۔

حدیث غدیر کے مدّمقابل جعلی احادیث

[ترمیم]

بعض لوگوں نے جہالت یا تعصب کی بنا پر اس حدیث کی واقعیت سے انکار کیا؛ انہوں نے اس حقیقت کو چھپانے کیلئے ایک طرف سے خلفاء راشدین کی فضیلت میں حدیثیں گھڑنا شروع کیا؛ جیساکہ احمد بن عبید اللہ ابو العزنے ، ابو بکر کے حق میں حدیث جعل کیا یا جس طرح عائشہ نے اپنے والد کے حق میں جعلِ حدیث کا کام کیا.
[۱۶] خطیب بغدادی، ابوبکر احمد بن علی، تاریخ بغداد، ج۱۴، ص۳۶۔
اور دوسری جانب، اس کی سند یا دلالت دلالت کے اعتبار سے، اس پر جرح کی ہے۔

حدیث غدیر پر اشکالات

[ترمیم]

اہل سنت کے بزرگ علماء، خلفاء کی فضیلت میں وارد ان احادیث کو خود ساختہ جانتے ہیں جو حدیث غدیر کے مقابلے میں نقل ہوئی ہیں۔ ہم یہاں حدیثِ غدیر پر کیے جانے والے اہم ترین اشکالات اور ان کے جوابات کا تذکرہ کریں گے۔

← پہلا اشکال


امامت جیسے اعتقادات کو ثابت کرنے کیلئے خبر کا (علماء شیعہ کے مطابق) متواتر ہونا ضروری ہے، جبکہ حدیثِ غدیر متواتر نہیں ہے۔
[۱۸] ہیتمی، ابن حجر، الصواعق المحرقۃ، ص۶۴۔
[۱۹] جرجانی، سید اسماعیل، شرح المواقف، مطبعۃ السعادة، ج۸، ص۳۶۱


←← جواب


جیساکہ اوپر بیان کیا گیا کہ یہ اشکال تعصب اور علم حدیث سے جہالت کی بنا پر کیا گیا ہے؛ورنہ اس حدیث کے طرق اور اسناد کواگر تعصب کی عینک اتار کر ملاحظہ کی جائیں تو بآسانی اس کا تواتر ثابت ہوجاتا ہے؛اس کے علاوہ اہل سنت کے بزرگ علماء جیسے؛ ترکمانی ذهبی، سیوطی، جرزی، جلال الدین سیوطی، حاکم نیشاپوری اور کئی دیگر افراد نے اس کی اسناد صحیح ہونے کا اعتراف کیا ہے، جن کی طرف علامہ امینی نے الغدیر میں اشارہ کیا ہے.
[۲۱] امینی، عبدالحسین، الغدیر، ج۱، ص۲۹۴


← دوسرا اشکال


بعض کا کہنا ہے کہ واقعہ غدیر جس دن وقوع پذیر ہوا ، اس دن حضرت علیؑ زکات جمع کرنے کی غرض سے یمن تشریف گئے تھے؛ لہذا اس حدیث کے ذریعے ان کی خلافت اور جانشینی کا اثبات ممکن نہیں

←← جواب


یہ اشکال بھی تاریخ اور علمِ حدیث سے عدم آگاہی کی بنا پر کیا گیا ہے، کیونکہ اہل سنت کے بزرگ محدّثین اور مورخین کا کہنا ہے کہ حضرت امام علیؑ اگرچہ موسم حج سے پہلے یمن میں موجود تھےلیکن حجۃ الوداع کے موقع پر رسولِ خداؐ کے ساتھ ملحق ہوگئےتھے اور واقعہ غدیر میں حاضر تھے۔
[۲۳] ہیثمی، ابن حجر، الصواعق المحرقۃ، ص۶۴۔
[۲۴] ابن کثیر، عماربن ابی الفداء، البدایة و النهایة، ج۲، ص۱۸۴۔
[۲۵] ابن کثیر، عماربن ابی الفداء، البدایة و النهایة، ج۲، ص۱۳۲۔
[۲۶] ابن اثیر، عزالدین علی بن ابی الکرم، الکامل فی التاریخ (تاریخ ابن اثیر)، تحقیق علی شیری، ج۲، ص۳۰۲


← تیسرا اشکال


کلمہ مولی کے متعدد معنی مراد لیے جاسکتے ہیں جیسے:اولی بالتصرف، ناصر، دوست، چچا زاد اور غلام آزاد کرنے والا وغیرہ ، لیکن حدیث میں یہ بات معلوم نہیں ہے کہ مولی کونسے معنی میں استعمال ہوا ہے؛ اور اولی بالتصرف میں استعمال کرنے پر کوئی دلیل نہیں ہے؛ بلکہ مولی کے اصلی معنی ہی ناصر اور دوست کے ہیں اور اہل لغت نے بھی، مفعل کو افعل کے معنی میں استعمال نہیں کیا ہے۔
[۲۸] هیتمی، ابن حجر، الصواعق المحرقة، ص۶۵


←← جواب


ا)بالفرض ہم قبول کرتے ہیں کہ کلمہ مولی مشترک معنوی ہے اور اولی بالتصرف میں حقیقت کے طور پر استعمال نہیں ہوتا، لیکن اس واقعہ میں موجود افرادنے، اس لفظ سے اولی بالتصرف کا مفہوم سمجھا ہے، اور ان کا فہم ہمارے لیے حجّت کی حثیت رکھتا ہے؛ یہی وجہ ہے کہ حدیث میں مذکور لفظ ِ مولی سے اولی بالتصرف کی طرف تبادر ہوتا ہے۔حسان بن ثابت ان بزرگ شعراء میں سے ہیں جو اس عظیم واقعہ میں موجود تھےاور انہوں نے اس واقعہ کو رسولِ خدا کی زبانی یوں بیان کیا ہے: قم یاعلی فاننی رضیتک من بعدی اماما و هادیا؛یعنی اے علی کھڑے ہوجائیں کیونکہ میں اپنے بعد آپ کو امام اور ہادی بنانے پر خوش ہوں اس کے علاوہ شیخین کی مبارک باد بھی اسی مطلب پر دلالت کرتاہے جس کی طرف اوپر اشارہ کیا گیا۔
ب) کیا حضرت علیؑ کی دوستی کا اعلان کرنا کوئی ایسا امر تھا جس کے ظاہر کرنے سے رسولِ خدا کو خوف لاحق ہوجائےاور اللہ کو یہ کہنا پڑجائے:«والله یعصمک من الناس» (مائده، ۶۷)
ج)عربی زبان میں مولی ، صاحب امر اور اولی بالتصرف کے معنی میں کثرت سے استعمال ہوا ہےاور اہل لغت وادب کے بزرگ علماء جیسے: فراء، جوہری، قرطبی اور ابن اثیر نے اس بات مطلب کو صحیح قرار دیا ہے، پس مولی ایسا اسم ہے جو افعل تفضیل کے معنی میں استعمال ہوا ہےنہ یہ کہ خود اولی کی جگہ استعمال ہوتا ہے

← چوتھا اشکال


ہر چند لفظ مولی، اولی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے لیکن اولی بالتصرف کے معنی میں نہیں بلکہ اطاعت اور تقرب میں اولیت کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے
[۳۳] ہیتمی، ابن حجر، الصواعق المحرقة، ص۶۹


←← جواب


ا) حدیث کے ابتدائی حصّہ «الست اولی بکم من انفسکم؟» میں کوئی شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ یہ جملہ تصرف میں اولیت کے معنی میں استعمال ہوا ہے، اب اگر ہم کہیں کہ من کنت مولاہ میں کلمہ مولی، اولی بالتصرف کے معنی میں استعمال نہیں ہواہے تو رسول اللہؐ کے کلام میں ایک قسم کا مغالطہ لازم آئے گأ کہ کلام کے ابتدائی حصہ میں مولی سے ایک ایسا معنی مراد لیا ہے جو آپؐ کے اسی کلام کےاگلےحصہ یعنی من کنت مولاہ میں کلمہ مولی سے مختلف ہے اور یہ بات قطعی طور پر درست نہیں ہے۔
ب) بالفرض اگر کلمہ مولی، اطاعت میں اولیت کے معنی میں استعمال ہو تب بھی حضرت علیؑ کی ولایت پر دلالت کرتا ہے؛کیونکہ کسی شخص کی اس وقت اطاعت کی جاتی ہے جب وہ حاکم ہو اور حاکم نہ ہونے کی صورت میں وہ دوسروں کا مطیع ہوگا۔

← پانچواں اشکال


اگر کلمہ مولی سے رسولِ خدا کا مقصود ، امام اور خلیفہ ہوتا، تو آپؐ نے اس کلمہ کی بجائے لفظ خلیفہ استعمال کیوں نہیں کیا!۔
[۳۴] هیتمی، ابن حجر، الصواعق المحرقة، ص۶۹


←← جواب


ا) یہ اشکال بھی وارد نہیں ہوتا؛ اگرچہ اس حدیث میں لفظ خلیفہ استعمال نہیں ہوا ہے لیکن جن مطالب کو بیان کیا گیاان سے بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ حدیث میں کلمہ مولی، تصرف میں اولیت کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔
ب) اس کے علاوہ متعدد أحادیث میں رسول اللہؐ نے حضرت علیؑ کو بطور خلیفہ متعارف کروایا ہے جن میں باقاعدہ خلیفہ کا لفظ استعمال ہوا ہے لہذا وہ تمام احادیث اس بات پر قطعی قرینہ کی حیثیت رکھتی ہیں کہ حدیث غدیر میں کلمہ مولی، اولی بالتصرف کے معنی میں وارد ہوا ہے۔
[۳۵] طبری، ابن جریر، تاریخ الامم و الملوک، ج۱، ص، ۵۴۱۔
[۳۶] حاکم نیشابوری، محمد، المستدرک علی الصیحین، ج۳، ص۱۳۳۔

حدیث غدیر پر مذکورہ اشکالات کے علاوہ،کچھ دیگر اعتراضات بھی کئے گئے ہیں جن سے آگاہی حاصل کرنے کیلئے علامہ امینی کی کتاب الغدیر کی طرف رجوع کرنا چاہیے ۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. امینی، ابوالحسین، الغدیر، ج ۱، ص۳۴۰    
۲. امینی، عبدالحسین، الغدیر فی الکتاب و السنة و الادب، ج ۱، ص۴۲۔    
۳. امینی، عبدالحسین، الغدیر فی الکتاب و السنة و الادب، ج ۱، ص۴۶    
۴. مائده/سوره۵، آیه۶۷.    
۵. امینی، عبدالحسین، الغدیر فی الکتاب و السنة و الادب، ج ۱، ص۳۵۵۔    
۶. غزالی، ابوحامد، سرالعالمین و کشف ما فی الدارین، ص۲۱۔
۷. امینی، عبدالحسین، الغدیر فی الکتاب و السنة و الادب، ج ۱، ص۱۶۱۔    
۸. ترمذی، ابوعیسی محمد بن عیسی، سنن ترمذی، تحقیق احمد محمد شاکر، ج۵، ص۶۳۳، ح۳۷۱۳۔    
۹. طحاوی، احمد بن محمد، مشکل الاثار، ج۵، ص۱۳۔    
۱۰. - غزالی، ابوحامد، سرالعالمین و کشف ما فی الدارین، ص۲۱۔
۱۱. ابن کثیر، عماربن ابی الفداء، البدایة و النهایة، ج۵، ص۲۲۸۔    
۱۲. ابن حجر، احمد بن علی، فتح الباری فی شرح صحیح البخاری، تحقیق محمد فواد عبدالباقی و دیگران، ج۷، ص۷۴۔    
۱۳. آلوسی، شهاب الدین محمد، روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم و السبع المثانی، ج۳، ص۳۶۳۔    
۱۴. ابن ابی الحدید مدائنی، عزالدین ابوحامد، شرح نهج البلاغه، تحقیق محمد ابوالفضل ابراهیم، ج۱۹، خطبه ۱۵۴، ص۲۱۷۔    
۱۵. ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی، لسان المیزان، ج۱، ص۲۳۴، رقم ۶۷۸۔    
۱۶. خطیب بغدادی، ابوبکر احمد بن علی، تاریخ بغداد، ج۱۴، ص۳۶۔
۱۷. امینی، عبدالحسین، الغدیر، ج۱۱، ص. ۷۔    
۱۸. ہیتمی، ابن حجر، الصواعق المحرقۃ، ص۶۴۔
۱۹. جرجانی، سید اسماعیل، شرح المواقف، مطبعۃ السعادة، ج۸، ص۳۶۱
۲۰. امینی، عبدالحسین، الغدیر، ج۱، ص۳۲۰۔    
۲۱. امینی، عبدالحسین، الغدیر، ج۱، ص۲۹۴
۲۲. ایجی، میر شریف، شرح المواقف، ج۸، ص۳۶۱    
۲۳. ہیثمی، ابن حجر، الصواعق المحرقۃ، ص۶۴۔
۲۴. ابن کثیر، عماربن ابی الفداء، البدایة و النهایة، ج۲، ص۱۸۴۔
۲۵. ابن کثیر، عماربن ابی الفداء، البدایة و النهایة، ج۲، ص۱۳۲۔
۲۶. ابن اثیر، عزالدین علی بن ابی الکرم، الکامل فی التاریخ (تاریخ ابن اثیر)، تحقیق علی شیری، ج۲، ص۳۰۲
۲۷. جرجانی، سید اسماعیل، شرح المواقف، ج۸، ص۳۶۱۔    
۲۸. هیتمی، ابن حجر، الصواعق المحرقة، ص۶۵
۲۹. امینی، عبدالحسین، الغدیر، ج۱، ص۲۷۲- ۲۸۳۔    
۳۰. مائده/سوره۵، آیه۶۷۔    
۳۱. امینی، عبدالحسین، الغدیر، الغدیر، ج۱، ص۳۶۱۔    
۳۲. جرجانی، سید اسماعیل، شرح المواقف، ج۸، ص۳۶۱۔    
۳۳. ہیتمی، ابن حجر، الصواعق المحرقة، ص۶۹
۳۴. هیتمی، ابن حجر، الصواعق المحرقة، ص۶۹
۳۵. طبری، ابن جریر، تاریخ الامم و الملوک، ج۱، ص، ۵۴۱۔
۳۶. حاکم نیشابوری، محمد، المستدرک علی الصیحین، ج۳، ص۱۳۳۔
۳۷. علی بن محمد بن محمد، شیبانی، الکامل ابن اثیر، ج۲، ص۶۲۔    
۳۸. امینی، عبدالحسین، الغدیر، ج۲، ص۲۸۷۔    


مأخذ

[ترمیم]

سائٹ پژوھہ، مأخوذ از مقالہ «حدیث غدیر اہل سنت کی نظر میں»، تاریخ بازبینی۹۸/۵/۳۰.    






جعبه ابزار