حصین بن مالک

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



حصین بن مالک کا شمار بعض مصادر کے مطابق شہداء کربلا میں ہوتا ہے۔ البتہ حصین بن مالک کا امام حسینؑ کے اصحاب میں سے ہونا ثابت نہیں ہے۔ اس لیے بعض محققین نے تحریر کیا ہے کہ حصین بن مالک حقیقت میں بنو امیہ کے لشکر میں سے تھا۔


حصین بن مالک کا مختصر تعارف

[ترمیم]

بحار الانوار میں علامہ مجلسی نے اس کا نام الْحُصَيْن بْنُ مَالِكٍ السَّكُونِي‌ ذکر کیا ہے۔ کتاب عشرہ کاملہ تنہا کتاب ہے جس میں ابو مخنف سے منسوب مقتل کا حوالہ دیتے ہوئے مصنفِ کتاب نے حصین بن مالک کو شہداء کربلا میں شمار کیا ہے۔
[۲] وقار شیرازی، عشره كاملہ، ج۱، ص۳۸۰۔
لیکن یہ لکھنے کے بعد مصنف واضح طور پر لکھتے ہیں کہ بعض مؤلفین نے اس کے نام اور لقب میں اشتباہ کیا ہے۔
[۳] وقار شیرازی، عشره كاملہ، ج۱، ص۳۸۰.
[۵] بہبہانی، محمد باقر، الدمعۃ الساكبۃ، ج۴، ص۳۴۷۔
[۶] محمدی، محمد باقر، عبرات المصطفین، ج۲، ص۹۹۔


حصین بن مالک کا اموی ہونا

[ترمیم]

خوارزمی کی کتاب مقتل الحسینؑ اور بحار الانوار میں درج عبارت سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب امام حسینؑ دشمن کے نرغے میں آ گئے اور شمر لعین نے آپؑ پر کاری ضربیں لگانا شروع کیں تو اس وقت حصین بن مالک نے امام حسینؑ کو پکار کر کہا: اے فرزندِ فاطمہؑ ! آپ کی وجہ سے یہ کس بات کا ہم سے انتقام لے رہا ہے؟! اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حصین بن مالک امام حسینؑ کے اصحاب میں سے نہیں تھا بلکہ اموی تھا کیونکہ امام حسینؑ جنگ کے لیے اس وقت تشریف لے گئے جب سب انصار و اصحاب شہید ہو گئے ۔ اسی لیے معروف محقق نمازی شاہردوی نے واضح الفاظ میں لکھا ہے: الحصين بن مالك السكوني: من جند بني امية؛ حصین بن مالک سکونی بنو امیہ کے لشکر میں سے تھا۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، ج۴۵، ص۵۲۔    
۲. وقار شیرازی، عشره كاملہ، ج۱، ص۳۸۰۔
۳. وقار شیرازی، عشره كاملہ، ج۱، ص۳۸۰.
۴. خوارزمی، موفق بن احمد، مقتل الحسین علیہ السلام، ج۲، ص۳۹۔    
۵. بہبہانی، محمد باقر، الدمعۃ الساكبۃ، ج۴، ص۳۴۷۔
۶. محمدی، محمد باقر، عبرات المصطفین، ج۲، ص۹۹۔
۷. خوارزمی، موفق بن احمد، مقتل الحسین علیہ السلام، ج۲، ص۳۹۔    
۸. مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، ج۴۵، ص۵۲۔    
۹. نمازی شاہرودی، علی، مستدرک علم رجال الحدیث، ج ۳، ص ۲۱۹۔    


مأخذ

[ترمیم]

جمعی از نویسندگان، پژوہشی پیرامون شہدای کربلا، ج۱، ص۱۵۲۔    






جعبه ابزار