حضرت زہراؑ کی شہادت

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



حضرت زہراؑ، کی شہادت تاریخ کے مسلمہ واقعات میں سے ہے جس کی صحت پر نہ صرف شیعہ کے معتبر مصادر بلکہ اہل سنت کے معتبر مصادر بھی شہادت دیتے ہیں اور یہ کسی بھی غیر متعصب اور منصف مزاج شیعہ یا سنی کیلئے ناقابل انکار ہے۔
تاریخی شواہد اور دستاویزات کے مطابق حضرت زہراؑ، پیغمبرؐ کی رحلت کے فوری بعد ابوبکر کے حکم پر عمر بن خطاب کی جانب سے حضرتؑ کے گھر پر حملہ کیے جانے کے نتیجے میں زخمی ہوئیں، بیمار رہیں اور مختصر مدت کے بعد تین جمادی الثانی سنہ ۱۱ھ کو مدینہ میں شہید ہو گئیں۔ بنت پیغمبرؐ کا پاکیزہ پیکر شہادت کے بعد مخفیانہ رات کے وقت دفن کیا گیا اور آج تک آپؑ کا نشانِ قبر مخفی ہے۔


اہل ‌سنّت مصادر کا نقطہ نظر

[ترمیم]

حضرت فاطمہ زہراؑ کی شہادت ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس پر شیعہ اور سنی کی معتبر حدیثی اور تاریخی کتب گواہ ہیں۔ بعض لوگوں نے حدیث اور تاریخ سے آشنائی نہ رکھنے کی وجہ سے اس حققیت میں تردید کا اظہار کیا ہے۔ اس رو سے ان میں سے چند شواہد کو اہل سنت کی معتبر کتب سے بیان کریں گے۔
قال رسول اللَّه (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم): ... فتکون اوّل من یلحقنی من اهل بیتی فتقدم علیّ محزونة مکروبة مغمومة مقتولة. (فاطمہ) میرے اہل بیت میں سے پہلی ہوں گی جو میرے ساتھ ملحق ہوں گی، پس میرے سامنے پہنچیں گی جبکہ حزن، کرب اور غم کی حالت میں ہوں گی اور انہیں قتل کیا جائے گا ۔۔۔ ۔قال ابن عباس: انّ الرّزیّة کُلَّ الرّزیة، ما حال بین رسول اللَّه (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) و بین کتابه. ساری مصیبت اس وقت ٹوٹی جب پیغمبرؐ اور ان کی تحریر میں حائل ہو گئے۔ پیغمبرؐ کی اکلوتی یادگار ’’ام ابیھا‘‘»
[۳] بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح بخاری، ج۳، ص۸۳، کتاب فضائل اصحاب النّبی (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم)، ب۴۲، ح۲۳۲۔
[۴] بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح بخاری، ب ۶۱، مناقب فاطمة، ح ۲۷۸۔
«بضعۃ الرّسول» ’’سیده نساء العالمین‘‘، ’’سیدة نساء اھل الجنّہ‘‘ حضرت زہراؑ کی شہادت نہ صرف شیعہ کی معتبر کتب کے مسلمات میں سے ہے بلکہ اہل سنت کے اہم ترین مصادر بھی اس پر شاہد ہیں۔ (اہل سنت کے نزدیک قرآن کے بعد معتبر ترین کتاب) صحیح بخاری میں اس مصیبت کو ابن عباس کے بقول ایک حدیث کے ضمن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: الرزیّة کلّ الزریّة مصیبت، وہ مصیبت جو ہر مصیبت سے بالاتر ہے بلکہ وہ مصیبت جو تمام مصائب کو شامل ہے، وہ اس عظیم مصیبت کا سامان فراہم کرنے کی تیاری تھی۔

پیغمبرؐ کی طرف ہذیان کی نسبت

[ترمیم]

پیغمبر اکرمؐ کی طرف ہذیان (غلبۃ الوجع) کی نسبت آنحضرتؐ کی جانب سے اپنی شہیدہ بیٹی کے بارے میں مزید وصیتیں اور تاکید کو روکنے کیلئے تھی اور جملہ عندنا کتاب اللَّه حسبنا نے کتاب کو [[ عترت سے جدا کر کے الرّزیّة کلّ الرّزیّة کا سامان فراہم کیا۔
ابن‌ عباس کہتے ہیں: جب رسول خداؐ کی بیماری شدید ہوئی تو فرمایا: کوئی چیز لے آؤ تاکہ اس پر تمہارے لیے کوئی تحریر لکھ دوں تاکہ میرے بعد گمراہ نہ ہو۔ عمر نے کہا: پیغمبرؐ پر بیماری کا غلبہ ہے، کتاب خدا ہمارے ہاتھ میں ہے اور ہمارے لیے کافی ہے، پس انہوں نے ایک دوسرے سے اختلاف شروع کر دیا اور شور و غل زیادہ ہو گیا۔ پیغمبرؐ نے فرمایا: میرے پاس سے اٹھ جاؤ، میرے سامنے لڑائی شائستہ نہیں ہے۔ پس ابن عباس باہر نکل گئے اور کہا کرتے تھے: مصیبت، ساری مصیبت اس وقت ٹوٹی جب پیغمبرؐ اور ان کی تحریر میں لوگ حائل ہو گئے۔
عن ابن‌ عباس قال: لمّا اشتدّ بالنّبیّ (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) وجعه، قال: ائتونی بکتاب اکتب لکم کتاباً لاتضلّوا بعده، قال عمر: انّ النّبیّ (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) غلبه الوجع وعندنا کتاب اللَّه حسبنا، فاختلفوا وکثر الغلط، قال: قوموا عنّی ولاینبغی عندی التنازع، فخرج ابن‌ عباس یقول: انّ الرزیّة کلّ الرزیّة ماحال بین رسول اللَّه (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) وبین کتابه.

بیت زہراؑ نذر آتش

[ترمیم]

شاید ابن عباس کا کلام الرّزیّة کلّ الرّزیّة سننے والے حیران و آشفتہ تھے کہ اس کا کیا مطلب ہے؟! ابن عباس کیا کہہ رہے ہیں؟! مگر چند گنتی کے دنوں کے بعد پیغمبرؐ کی طرف (معاذ اللہ) ہذیان اور فضول بات کرنے کی نسبت دینے والے نے ایک اور بات کہہ دی: خدا کی قسم! تمہارے گھر کو جلا ڈالوں گا۔ یہ واقعہ اہل سنت کے بہت سے مصادر میں آیا ہے کہ جن میں سے صرف چند نمونوں کی طرف اشارہ کریں گے۔

← ابن ‌ابی ‌شیبہ


بخاری کے شیخ اور استاد ابوبکر عبدالله بن محمد بن ابی ‌شیبہ، کتاب المصنف میں کہتے ہیں:
رسول خداؐ کے بعد جب ابوبکر کی بیعت کی جا رہی تھی۔ علیؑ اور زبیر کی اس امر میں مشاورت کیلئے فاطمہؑ کے حضور آمد و رفت تھی۔ عمر بن خطاب کو خبر ملی تو وہ فاطمہؑ کے پاس آیا اور کہا: اے رسول خداؐ کی بیٹی! خدا کی قسم ہمارے لیے آپؑ کے پدر سے زیادہ کوئی محبوب نہیں ہے اور ان کے بعد سب سے زیادہ محبوب آپؑ ہیں!! اور خدا کی قسم! یہ امر مانع نہیں ہو گا کہ اگر وہ لوگ تمہارے پاس جمع ہوں تو حکم دوں گا کہ گھر کو گھر والوں سمیت آگ لگا دیں۔ اسلم کہتے ہیں: جب عمر فاطمہؑ کے پاس سے چلے گئے تو علیؑ گھر واپس آئے۔ پس فاطمہؑ نے کہا: جانتے ہو کہ عمر میرے پاس آیا تھا اور اس نے خدا کی قسم کھائی ہے کہ اگر آپ (ابوبکر کی بیعت کیے بغیر) گھر واپس آئے تو گھر کو تمہارے سمیت آگ لگا دوں گا اور خدا کی قسم وہ اپنی قسم پر عمل کرے گا۔
حین بویع لابی بکر بعد رسول اللَّه (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) کان علیّ والزبیر یدخلان علی فاطمة بنت رسول اللَّه (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) فیشاورونها ویرجعون فی امرهم، فلمّا بلغ ذلک عمر بن خطاب، خرج حتّی دخل علی فاطمة فقال: یا بنت رسول اللَّه (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) واللَّه ما احد احب الینا من ابیک وما احد احب الینا بعد ابیک منک، وایم اللَّه ما ذلک بمانعی ان اجتمع هؤلاء النفر عندک ان امرتهم ان یحرق علیهم البیت. قال: فلمّا خرج عمر جاؤوها فقالت: تعلمون انّ عمر قد جائنی وقد حلف باللَّه لان عدتم لیحرقنّ علیکم البیت، وایم اللَّه لیمضینّ لما حلف علیه.

← سیوطی اور ابن ‌عبد البر


اسی مضمون کی ایک روایت کو سیوطی نے مسند فاطمہ میں نقل کیا ہے۔
[۱۲] سیوطی، جلال‌الدین، مسند فاطمه، ص۳۶۔
ابن‌عبدالبر، نے الاستیعاب میں بھی اس داستان کو نقل کیا ہے۔

← بلاذری


بلاذری کہتے ہیں: ابوبکر نے علیؑ کو پیغام بھیجا کہ ان کی بیعت کر لیں مگر علیؑ نے قبول نہیں کیا۔ پس عمر ایک مشعل لے کر آیا، فاطمہؑ نے اچانک عمر کو مشعل کے ساتھ اپنے گھر کے دروازے پر پایا، پس فرمایا: یا بن الخطاب! کیا میں یہ دیکھوں کہ تو میرے گھر کو نذر آتش کر رہا ہے؟! عمر نے کہا: ہاں۔
انّ ابابکر ارسل الی علیٍّ یرید البیعة، فلم یبایع فجاء عمر ومعه فتیلة فتلقته فاطمة علی الباب، فقالت فاطمة: یابن خطاب! اتراک محرقاً علیَّ بابی؟! قال: نعم.

← ابو الفداء


ابوالفداء بھی کہتے ہیں: پھر ابوبکر نے عمر بن خطاب اور ان کے ساتھیوں کو علیؑ کے گھر بھیجا تاکہ وہ ان لوگوں کو فاطمہؑ کے گھر سے باہر نکالیں اور حکم دیا: اگر وہ تمہارا حکم نہ مانیں تو ان کے ساتھ جنگ کرو۔ پس عمر آگ لے آیا تاکہ گھر کو جلا ڈالے۔ پس فاطمہؑ اس کے راستے میں حائل ہو گئیں اور فرمایا: کہاں؟! اے ابن خطاب! کیا تو اس لیے آیا ہے کہ ہمارے گھر کو نذر آتش کرے؟! کہنے لگا: ہاں، مگر یہ کہ تم بھی اس میں داخل ہو جاؤ جس میں امت داخل ہو چکی ہے۔
ثمّ انّ ابابکر بعث عمر بن خطاب الی علیٍ ومن معه لیخرجهم من بیت فاطمة (رضی اللَّه عنها) وقال: ان ابی‌ علیک فقاتلهم، فاقبل عمر بشیء من نار علی ان یضرم الدار، فلقیته فاطمة (رضی اللَّه عنها) وقالت: الی این یابن الخطّاب؟! اجئت لتحرق دارنا؟! قال: نعم، او یدخلوا فیمادخل فیه الامّة.
[۱۵] ابوالفداء، إسماعيل بن علی، المختصر في أخبار البشر، ج۱، ص۱۵۶. دار المعرفة، بیروت۔


← جوینی


شافعیہ کے ایک بزرگ عالم دین ابراہیم بن محمد جوینی ہیں۔ ان کے بہت سے شاگردوں میں سے ایک ذہبی بھی ہیں جوان کی شاگردی پر فخر کرتے ہیں اور کہتے ہیں: سمعت من الامام المحدّث الاوحد الاکمل فخرالاسلام صدرالدّین ... و کان دیّناً صالحاً. )
وہ پیغمبر اکرمؐ سے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’جب میں اپنی دختر فاطمہؑ کو دیکھتا ہوں تو وہ کچھ یاد آجاتا ہے جو میرے بعد اس کے ساتھ ہو گا، اس کے گھر میں ذلت داخل ہو گی، اس کی حرمت شکنی ہو گی، اس کا حق غصب ہو گا، اس کی وراثت چھین لی جائے گی، اس کا پہلو شکستہ ہو گا اور جنین ساقط ہو جائے گا اور وہ فریاد بلند کر رہی ہو گی: یا محمداه .... پس وہ میرے اہل بیت میں سے پہلی ہے جو میرے ساتھ ملحق ہو گی، پس میرے پاس آئے گی؛ محزون، کرب کی کیفیت میں، مغموم اور مقتول ۔۔۔ ۔
. . وانّی لمّا رایتها ذکرت ما یصنع بعدی، کانّی بها وقد دخل الذّل بیتها وانتهکت حرمتها وغصبت حقّها ومنعت ارثها وکسرت جنبها واسقطت جنینها وهی تنادی: یا؛ محمداه... فتکون اوّل من یلحقنی من اهل بیتی فتقدم علیّ َ محزونة مکروبة مغمومة مغصوبة مقتولة.

← ذہبی


جب آگ کی مشعل لے کر پیغمبر اکرمؐ کی دختر کو تسلی دینے آئے تو آپ کے شکم میں ’’محسن‘‘ تھے اور گھر پر حملہ ۔۔۔ محسن کے قتل کا موجب بنا کہ جو ابھی پیدا نہیں ہوئے تھے؛ چنانچہ ابن ابی دارم (جن کی ذہبی الامام الحافظ الفاضل... کان موصوفاً بالحفظ و المعرفة کے عنوان سے مدح کرتے ہیں) اس جملے کہ انّ عمر رفس فاطمة حتّی اسقطت بمحسن؛ عمر نے حضرت زہراؑ کو لات ماری جس کے نتیجے میں محسن سقط ہو گئے۔ کی تائید کرتے ہیں اور اس وجہ سے ان کی مذمت بھی ہوئی۔ کان ابن‌ ابی‌دارم مستقیم الامر عامة دهره ثم فی آخر ایامه کان اکثر ما یقرء علیه المثالب حضرته و رجل یقرء علیه ان عمر رفس فاطمة حتی اسقطت بمحسن.

شہادت پر حدیثی و تاریخی شواہد

[ترمیم]

واضح ہے کہ جو مستور گھر کو جلا ڈالنے کی دھمکی، گھر کو جلانے اور جنین کے سقط ہونے سے مریض ہو اور اس بیماری کے مختصر عرصے میں فوت ہو جائے، یہ وفات شرعا، عرفا اور عقلا قتل اور شہادت سمجھی جاتی ہے اور یہ جرم ہے۔ اسی لیے آئمہ معصومینؑ اور اہل بیتؑ اپنی مادر گرامی کو شہیدہ کہتے تھے؛ چنانچہ حضرت موسیٰ بن جعفرؑ نے فرمایا: انّ فاطمة (سلام‌الله‌علیها) صدیقة شهیدة.
مذکورہ بالا بیان کے بعد اس امر میں تردید باقی نہیں رہتی اور پیغمبرؐ کی دختر کی شہادت کسی بھی منصف اور غیر متعصب شیعہ یا سنی کیلئے ناقابل تردید ہو جاتی ہے۔ اس کے باوجود اس پر یقین کرنا بہت سے لوگوں کیلئے دشوار ہے اور وہ یہ شور مچانا شروع کر دیتے ہیں کہ: ہائے! کیا کہہ رہے ہو؟! کیا لکھ رہے ہو؟! خاموش رہو! کیا ممکن ہے کہ یہ سچ ہو؟! اگر سچ ہے تو کیوں آسمان قائم ہے؟! سورج روشنی دے رہا ہے؟! اور ۔۔۔ کیا خدا نے اپنے پیغمبرؐ سے نہیں فرمایا ہے: لولاک لما خلقت الافلاک اور پیغمبر اکرمؐ نے اپنی بیٹی کے بارے میں نہیں فرمایا: «فاطمة بضعة منّی؛ فاطمہؑ میرا حصہ ہے؟!

← بخاری


اگر بخاری کے کلام کی صحت میں تردید ہو تو اس کے متعدد اقوال کو بطور سند پیش کیا جا سکتا ہے، انہوں نے نصفِ شب کو خلیفہ کی نظروں سے دور فاطمہؑ کی تدفین کا ذکر کیا ہے اور کہا ہے:
جب فاطمہؑ کی وفات ہوئی تو ان کے شوہر علیؑ نے انہیں رات کے وقت دفن کر دیا اور ابوبکر کو خبر نہیں دی اور خود ان پر نماز ادا کی؛ فلمّا توفّیت دفنها زوجها علیّ لیلاً و لم یؤذن بها ابابکر و صلّی علیها...
پوچھنا چاہئے، انہوں نے یہ کیوں ذکر کیا کہ علیؑ کو عمر سے ملنا ناپسند تھا۔... ان ائتناو لا یاتنا احد معک کراهیّة لمحضر عمر.

← مسلم


یہ واقعہ صرف بخاری میں نہیں ہے، مسلم نے بھی اس واقعے کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ: ابن عباس اس مصیبت پر اس قدر روئے کہ ان کے آنسوؤں سے ریت بھیگ گئی:
قال ابن‌عباس: یوم الخمیس وما یوم الخمیس، ثمّ بکی حتّی بلّ دمعه الحصی، فقلت یا بن عباس وما یوم الخمیس؟ قال: اشتدّ برسول اللَّه (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) وجعه فقال ائتونی اکتب لکم کتاباً لاتضلّوا بعدی فتنازعوا وما ینبغی عند نبیّ تنازع، وقالوا ما شانه اهجر استفهموه، قال: دعونی...
ابن عباس کہتے ہیں: جمعرات کا دن، کیسا جمعرات کا دن! پھر انہوں نے رونا شروع کر دیا یہاں تک کہ ان کے آنسوؤں سے ریت تر ہو گئی۔ میں نے پوچھا: جمعرات کیا ہے؟! کہنے لگے: رسول خداؐ کی بیماری شدید ہو گئی، پس فرمایا: تم لے آؤ تاکہ تمہارے لیے کچھ لکھ دوں کہ میرے بعد گمراہ نہ ہو۔ پس لوگوں نے جھگڑنا شروع کر دیا حالانکہ پیغمبرؐ کے پاس جھگڑا سزاوار نہیں ہے اور کہنے لگے: انہیں کیا ہو گیا ہے، ہذیان کہہ رہے ہیں، ان سے پوچھا جائے، پس آپؐ نے فرمایا: مجھے چھوڑ دو۔

← اہل‌ سنت کی معتبر کتب


ابن ‌ابی ‌شیبہ میرے استاد نے اس سانحے کو مجھ سے زیادہ واضح بیان کیا ہے کہ گھر کو نذر آتش کرنے کی دھمکی کو ذکر کیا ہے۔
یہ بات بہت ہی روشن ہے اور اسے مخفی نہیں کیا جا سکتا چونکہ یہ مطلب اہل سنت کے معتبر مصادر میں بکثرت وارد ہوا ہے۔
شاید کوئی یہ گمان کرے کہ: معتبر اور صحیح سند کے ساتھ جو امر ناقابل انکار ہے، وہ بیت زہراؑ کو جلانے کی دھمکی ہے، مگر خود جلا ڈالنا ثابت نہیں ہے؟!
ہاں، ابن ابی شیبہ کا کلام بیتِ وحی کے نذر آتش کیے جانے کو ثابت نہیں کرتا، مگر بخاری علیؑ کی جانب سے بیعت نہ کرنے کو نقل کر کے بیت نبوت کو آگ لگانے کی خبر دے رہے ہیں؛ کیونکہ ابن ابی شیبہ کی نقل کے مطابق ہم یہ ملاحظہ کر چکے ہیں کہ عمر نے قسم اٹھائی تھی: اگر بیعت نہیں کریں گے تو حکم دوں گا کہ گھر کو گھر والوں سمیت جلا دیں۔ عمر کی قسم، اس حد تک سنجیدہ تھی کہ فاطمہؑ نے بھی قسم اٹھائی کہ عمر اپنی قسم پوری کرے گا؛ چنانچہ بخاری نے نقل کیا ہے:
فاطمہؑ ابوبکر پر غضبناک ہوئیں پس وہ ان پر ناراض ہوئیں اور اپنی وفات تک ان سے بات نہیں کی اور پیغمبرؐ کے بعد چھ ماہ تک زندہ رہیں اور علیؑ نے اس پورے عرصے میں بیعت نہیں کی۔
فوجدت فاطمة علی ابی‌بکر فی ذلک فهجرته فلم تکلمه حتّی توفیّت وعاشت بعد النّبیّ (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) ستّة اشهر... ولم یکن یبایع تلک الاشهر.
پس اسی بنا پر بلاذری، انساب الاشراف میں کہتے ہیں: فلم یبایع فجاء عمر ومعه فتیلة؛ عمر نے اپنی قسم کو پورا کیا اور اہل البیت، کے بیت کو آگ لگا دی۔
بعض نے جو یہ نقل کیا ہے کہ علیؑ دھمکی کے بعد بیعت کرنے پر مجبور ہو گئے تھے اور آگ لگانے کی نوبت نہیں آئی؛ یہ بخاری کی روایت کے برخلاف ہے جو کہ اہل سنت کے نزدیک زیادہ معتبر ہے نیز حدیثی و تاریخی شواہد بھی اس بات کو رد کرتے ہیں۔
جی ہاں! اس نوحے اور مرثیے کا قافیہ اس کی بنیادوں کے ذکر کیساتھ ہر مرثیہ خوان کی زبان پر جاری ہو گا، چونکہ گھر کو آگ لگا دینے کی قسم پھر قسم کو پورا کرنے کیلئے مشعل کے ساتھ گھر کے دروازے پر آمد اور جنین کا سقط ۔۔۔ اور حضرتؑ کی مختصر عرصے میں وفات، قتل اور شہادت کا تعلق ان مقدمات سے ہی ہو گا۔ اگرچہ اس مصیبت کے بعض ناقلین نے اس کی تصریح نہیں کی ہے، مگر جیسا کہ ذکر کیا گیا یہ مرثیہ حضرت فاطمہؑ کے پدر گرامی، پیغمبر اکرمؐ اور آپؑ کی اولاد میں سے آنے والے آئمہ اطہارؑ نے ہمیشہ کہا۔
یہاں تک اہل سنت کے معتبر مصادر کی رو سے حضرت زہراؑ کی شہادت پر چند تاریخی اور حدیثی شواہد ذکر کیے گئے ہیں۔ یہ مطلب اس قدر واضح و روشن ہے کہ جس کیلئے زیادہ حوالے دینے کی ضرورت نہیں ہے۔
تاہم دوسری طرف سے یہ سانحہ اس قدر عظیم اور سنگین ہے کہ اگرچہ اس کے تاریخی و حدیثی ثبوتوں اور دلائل کو نہیں جھٹلایا جا سکتا مگر اس کے باوجود احساسات و جذبات بڑی مشکل سے ان پر یقین کر سکتے ہیں۔

صبر علیؑ اور حیائے پیغمبرؐ سے ناجائز استفادہ

[ترمیم]

کیا علیؑ نہیں تھے؟! کس طرح انہوں نے جرات کی؟! علیؑ دیکھ رہے تھے؟! دیکھ رہے تھے کہ فاطمہؑ کو مار رہے ہیں؟! دیکھ رہے تھے کہ آگ بھڑک رہی ہے؟! دیکھ رہے تھے کہ فاطمہؑ پر ایسی مصیبتیں ٹوٹ رہی ہیں جو دنوں کو مثلِ شب تاریک کرنے والی تھیں؟! کیسے انہیں جرات ہوئی؟! کیا انہوں نے نہیں دیکھا تھا کہ علیؑ عمرو بن عبدود کو ۔۔۔ ؟! کیا نہیں دیکھا تھا؟!
کیا انہوں نے جبرئیل کی ندا ’’لا سیف الاّ ذوالفقار و لا فتی الاّ علی‘‘ کو نہں سنا تھا؟! انہوں نے کس طرح جرات کی؟!
جی ہاں! انہوں نے علیؑ کو دیکھا تھا۔ کاش! انہوں نے علیؑ کو صرف ان مقامات پر دیکھا ہوتا کہ جرات نہ کرتے، انہوں نے علیؑ کے حلم کو بھی دیکھا تھا جو پہاڑوں سے زیادہ سخت تھا۔
ان کو معلوم تھا کہ علیؑ نفسِ پیغمبرؐ ہیں اور پیغمبرؐ کو بھی سالہا سال آزما چکے تھے، یہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔ اس سے قبل پیغمبرؐ کے سامنے بھی گستاخیاں اور جسارت کرتے تھے! آپؐ کو اذیت دیتے تھے! نہ اس اذیت کی مانند جو مشرکین مکہ آپؐ کو پتھر مار کر، مٹی اور کوڑا کرکٹ ڈال کر دیتے تھے! اس سے بھی بدتر! نہ وہ تکلیف جو مشرکین ، یہود اور نصاریٰ سے جنگوں میں تیروں، نیزوں اور تلواروں سے اٹھاتے تھے بلکہ اس سے زیادہ سخت!
پیغمبرؐ کی ازواج کے حوالے سے اذیت! اف! کس قدر سخت ہے غیرت اللہ کیلئے!
ہمیں چاہئیے کہ اپنے سروں کو دیوار پر دے ماریں اور ہمیشہ ہمیشہ مظلومیتِ محمدؐ پر خون روئیں چونکہ آپؐ نے فرمایا: ما اوذی نبیّ بمثل ما اوذیت فتوحات کے بعد اذیتیں کم ہونے کی بجائے زیادہ ہو گئیں! اور آپؐ کی رحلت کے بعد عروج تک جا پہنچیں۔
وہ سمجھ چکے تھے کہ پیغمبرؐ کی عظمت اور حلم ان کی شجاعت اور طاقت سے بڑھ کر ہے۔ وہ دیکھ چکے تھے کہ آپؐ مشرکین کی اذیتوں کے جواب میں انہیں بددعا نہیں دیتے تھے اور فرماتے تھے: انّ قومی لا یعلمون اس کے مقابلے میں جن لوگوں نے حضرت پر تلواریں سونت رکھی تھیں، انہیں فرمایا: اذهبوا انتم الطّلقاء لہٰذا وہ جسارت کرتے تھے۔ آپؐ حیا کے پیکر تھے کہ ان کی اذیتوں کے جواب میں ان کی مذمت کریں، آپؐ دینِ خدا کا پاس کرتے تھے اور خدا آپؐ کا دفاع فرماتا تھا۔

پیغمبرؐ کو ستانے کے مصادیق

[ترمیم]

اب پیغمبرؐ کو تکلیف دینے کے بعض مصادیق کی طرف اشارہ کریں گے۔

← آیاتِ قرآن


سورہ احزاب کی آیات سے استفادہ ہوتا ہے کہ: کچھ لوگ اچانک اور اجازت کے بغیر پیغمبرؐ کے گھر میں داخل ہو جاتے تھے۔ جب انہیں دعوت دی جاتی تھی تو خاطر مدارت کے بعد وہیں پر براجمان رہتے تھے اور ایک دوسرے کے ساتھ بیہودہ حتی ایذا رساں باتیں شروع کر دیتے تھے اور بعض اوقات جب ازواجِ پیغمبرؐ سے کوئی چیز طلب کرنا ہوتی تو اچانک پردہ اٹھا کر مانگتے لیتے تھے۔ پیغمبرؐ اس صورتحال پر دل آزردہ ہو جاتے تھے؛ مگر حیا اس امر سے مانع ہوتی کہ ایسی غیر شائستہ حرکتوں پر انہیں منع کریں۔
یا اَیُّهَا الَّذینَ آمَنُوا لا تَدْخُلُوا بُیُوتَ النَّبِیِّ اِلاَّ اَنْ یُؤْذَنَ لَکُمْ اِلی طَعامٍ غَیْرَ ناظِرینَ اِناهُ وَ لکِنْ اِذا دُعیتُمْ فَادْخُلُوا فَاِذا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا وَ لا مُسْتَاْنِسینَ لِحَدیثٍ اِنَّ ذلِکُمْ کانَ یُؤْذِی النَّبِیَّ فَیَسْتَحْیی مِنْکُمْ وَ اللَّهُ لا یَسْتَحْیی مِنَ الْحَقِّ وَ اِذا سَاَلْتُمُوهُنَّ مَتاعاً فَسْئَلُوهُنَّ مِنْ وَراءِ حِجابٍ ذلِکُمْ اَطْهَرُ لِقُلُوبِکُمْ وَ قُلُوبِهِن۔ ‌ مومنو! پیغمبر کے گھروں میں نہ جایا کرو مگر اس صورت میں کہ تم کو کھانے کے لئے اجازت دی جائے اور اس کے پکنے کا انتظار بھی نہ کرنا پڑے۔ لیکن جب تمہاری دعوت کی جائے تو جاؤ اور جب کھانا کھا چکو تو چل دو اور باتوں میں جی لگا کر نہ بیٹھ رہو۔ یہ بات پیغمبر کو ایذا دیتی ہے اور وہ تم سے شرم کرتے ہیں (اور کہتے نہیں ہیں) لیکن خدا سچی بات کے کہنے سے شرم نہیں کرتا اور جب پیغمبروں کی بیویوں سے کوئی سامان مانگو تو پردے کے باہر مانگو۔ یہ تمہارے اور ان کے دونوں کے دلوں کے لئے بہت پاکیزگی کی بات ہے۔
پھر فرمایا: وَ ما کانَ لَکُمْ اَنْ تُؤْذُوا رَسُولَ اللَّهِ وَ لا اَنْ تَنْکِحُوا اَزْواجَهُ مِنْ بَعْدِهِ اَبَداً اِنَّ ذلِکُمْ کانَ عِنْدَ اللَّهِ عَظیما۔ اور تم کو یہ شایاں نہیں کہ پیغمبر خدا کو تکلیف دو اور نہ یہ کہ ان کی بیویوں سے کبھی ان کے بعد نکاح کرو۔ بیشک یہ خدا کے نزدیک بڑا (گناہ کا کام) ہے۔
پھر چند آیات کے بعد فرماتا ہے: اِنَّ الَّذِینَ یُؤْذُونَ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ لَعَنهَمُ اللَّهُ فیِ الدُّنْیَا وَ الاَخِرَةِ وَ اَعَدَّ لهَمْ عَذَابًا مُّهِینًا۔ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو اذیت دیتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں اللہ نے لعنت کی ہے اور اس نے ان کے لیے ذلت آمیز عذاب تیار کر رکھا ہے۔

← پیغمبرؐ کی ازواج کو اذیت


شاید پیغمبرؐ کو اذیت دینے کا ایک اہم مصداق اس داستان کو قرار دیا جا سکتا ہے کہ جسے بخاری نے نقل کیا ہے۔ داستان کا خلاصہ یہ ہے کہ پیغمبر اکرمؐ کی ایک زوجہ رات کی تاریکی میں مکمل پردے کے ساتھ ایک مناسب اور خلوت کے مقام پر رفع حاجت کیلئے گئیں؛ ام ‌المؤمنین سوده چونکہ بلند قامت تھیں یا صحت مند تھیں، عمر نے انہیں پہچان لیا اور آواز دی کہ اے سودہ! تم خود کو ہم سے نہیں چھپا سکتی ہو، جان لو کہ ہم نے تمہیں پہچان لیا ہے۔ سودہ واپس آ کر پیغمبرؐ سے شکوہ کرتی ہیں اور آنحضرتؐ فرماتے ہیں کہ آپ کو اپنی حاجت کیلئے باہر نکلنے کی رخصت ہے۔ اس داستان کو بخاری نے اپنی صحیح میں تین مقامات پر نقل کیا ہے۔
سورۃ الاحزاب کی کتاب التفسیر میں مذکورہ بالا آیات کے ذیل میں وارد ہوا ہے: عن عَائِشَةَ رضی الله عنها قالت خَرَجَتْ سَوْدَةُ بعد ما ضُرِبَ الْحِجَابُ لِحَاجَتِهَا وَکَانَتْا مْرَاَةً جَسِیمَةً لَا تَخْفَی علی منیَعْرِفُهَا فَرَآهَا عُمَرُ بن الْخَطَّابِ فقال یا سَوْدَةُ اَمَا والله ما تَخْفَیْنَ عَلَیْنَا فَانْظُرِی کَیْفَ تَخْرُجِینَ قالت فَانْکَفَاَتْ رَاجِعَةً وَرَسُولُ اللَّهِ فی بَیْتِی وَاِنَّهُ لَیَتَعَشَّی وفی یَدِهِ عَرْقٌ فَدَخَلَتْ فقالت یا رَسُولَ اللَّهِ انی خَرَجْتُ لِبَعْضِ حَاجَتِی فقال لی عُمَرُ کَذَا وَکَذَا... فقال انه قد اُذِنَ لَکُنَّ اَنْ تَخْرُجْنَ لِحَاجَتِکُنَّ
عائشہ نے کہا: جب آیت حجاب نازل ہوئی تو سودہ رفع حاجت کیلئے باہر گئیں، وہ صحت مند خاتون تھیں، اس لیے خود کو ان لوگوں سے پنہان نہیں کر سکتی تھیں جو انہیں پہچانتے تھے۔ عمر بن خطاب نے انہیں دیکھا اور کہا: اے سودہ! بخدا تم ہم سے نہیں چھپ سکتی، پس اب باہر نکلنے کی کوئی اور تدبیر کرو۔ عائشہ کہتی ہیں: وہ جلدی سے واپس آ کر پیغمبرؐ کی خدمت میں گئیں اور کہا: یا رسول اللہ! میں ضروری حاجت کے باعث باہر نکلی تھی۔ عمر نے مجھے یہ باتیں کی ہیں ۔۔۔ پس پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا: آپ کو اجازت ہے کہ اپنی ضروریات کییلئے باہر نکلو۔.
بخاری کی كتاب النكاح ’’باب خروج النساء لحوائجهن‘‘ میں آیا ہے: عن عَائِشَةَ قالت خَرَجَتْ سَوْدَةُ بِنْتُ زَمْعَةَ لَیْلًا فَرَآهَا عُمَرُ فَعَرَفَهَا فقال اِنَّکِ والله یا سَوْدَةُ ما تَخْفَیْنَ عَلَیْنَا فَرَجَعَتْ الی النبی فَذَکَرَتْ ذلک له وهو فی حُجْرَتِی یَتَعَشَّی وَاِنَّ فی یَدِهِ لَعَرْقًا فَاَنْزَلَ علیه فَرُفِعَ عنه وهو یقول قد اَذِنَ الله لَکُنَّ اَنْ تَخْرُجْنَ لِحَوَائِجِکُنَّ
عائشہ نے کہا: ایک رات سودہ بن زمعہ باہر نکلیں، عمر نے ان کو دیکھ کر پہچان لیا اور کہا: خدا کی قسم، اے سودہ! تم خود کو ہم سے نہیں چھپا سکتی ہو۔ کہتی ہیں: وہ پیغمبرؐ کے پاس واپس آ گئیں، پھر آنحضرتؐ کے سامنے ماجرا نقل کیا اور آپؐ نے فرمایا: خدا نے تمہیں اجازت دی ہے کہ اپنی ضروریات کیلئے باہر چلی جایا کرو ۔
.
كتاب الوضوء ’’باب خروج النساء الي البراز‘‘ میں منقول ہے: عن عَائِشَةَ اَنَّ اَزْوَاجَ النبی کُنَّ یَخْرُجْنَ بِاللَّیْلِ اذا تَبَرَّزْنَ الی الْمَنَاصِعِ وهو صَعِیدٌ اَفْیَحُ فَکَانَ عُمَرُ یقول لِلنَّبِیِّ (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) احْجُبْ نِسَاءَکَ فلم یَکُنْ رسول اللَّهِ (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) یَفْعَلُ فَخَرَجَتْ سَوْدَةُ بِنْتُ زَمْعَةَ زَوْجُ النبی (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) لَیْلَةً من اللَّیَالِی عِشَاءً وَکَانَتْ امْرَاَةً طَوِیلَةً فَنَادَاهَا عُمَرُ الا قد عَرَفْنَاکِ یا سَوْدَةُ حِرْصًا علی اَنْ یَنْزِلَ الْحِجَابُ
عائشہ نے کہا: پیغمبرؐ کی ازواج رات کو قضائے حاجت کیلئے کھلے صحرا کی طرف جایا کرتی تھیں۔ عمر پیغمبرؐ سے کہتا تھا: اپنی ازواج کو نامحرموں سے چھپا کر رکھیں، مگر پیغمبرؐ (عمر کی نصیحت) پر عمل نہیں کرتے تھے یہاں تک کہ ایک رات سودہ بن زمعہ جو بلند قامت تھیں، رات کا کچھ حصہ گزرنے کے بعد باہر نکلیں، پس عمر نے بلند آواز سے کہا: اے سودہ! جان لو کہ ہم نے تمہیں پہچان لیا ہے؛ کیونکہ وہ آیتِ حجاب کے نزول پر حریص تھا۔
عام طور پر مفسرین نے مذکورہ بالا آیات کے شان نزول کے ضمن میں دو واقعات ذکر کیے ہیں۔
۱۔ وہ داستان جو ہم ذکر کر چکے ہیں۔
۲۔ یہ کہ صحابہ میں سے ایک نے کہا: جب پیغمبرؐ کا انتقال ہو گا تو میں ان کی فلاں زوجہ سے شادی کروں گا، اس بات سے آنحضرتؐ بہت رنجیدہ ہوئے، پس مذکورہ بالا آیات نازل ہوئیں۔ مفسرین کے ایک گروہ نے اس شان نزول کو ذکر کیا ہے، ان میں سے طبری نے [[ جامع البیان میں آلوسی نے روح المعانی میں اور ابن‌کثیر نے تفسیر القرآن العظیم میں اسے بیان کیا ہے؛ ابن ‌کثیر نے آیت کے شان نزول میں صحابی کا مصداق طلحہ کو اور زوجہ جس پر اس کی نظر تھی؛ کا مصداق عائشہ کو قرار دیا ہے۔
اگرچہ عمر اور سودہ کی داستان آیتِ حجاب کے نزول کے بعد واقع ہوئی ہے؛ جیسا کہ حدیث کے متن میں آیا ہے: بعد ما ضرب الحجاب. مگر اس کے باوجود اس بے ادبی اور ام المومنین سودہ جو پیغمبرؐ کا حرم تھیں، انہیں تکلیف و اذیت (جو رسول خداؐ کی دل آزاری اور آیت شریفہ (و ما کان لکم ان تؤذوا رسول اللَّه) کہ تمہیں پیغمبرؐ کو تکلیف دینے کا کوئی حق نہیں ہے) پہنچانے کو عمر کے فضائل یا بالفاظ دیگر عمر کے موافقات میں سے شمار کیا گیا ہے۔
مثلا آلوسی یہ قبول کرنے کے بعد کہ عمر کا کام بے ادبی اور رسول اللہ کے حرم ’’سودہ‘‘ کو شرمندہ کرنے اور اذیت دینے کا موجب تھا، کہتے ہیں: عمر اس کام کو معیوب نہیں سمجھتے تھے، چونکہ ان کا گمان تھا کہ اس کام پر عظیم خیر مترتب ہو گی۔
وذلک احد موافقات عمر (رحمة‌الله‌علیه) وهی مشهورة، وعدّ الشّیعة ما وقع منه من المثالب، قالوا: لما فیه من سوء الادب وتخجیل سوده حرم رسول اللَّه (صلی الله علیه و سلم) وایذائها بذلک. واجاب اهل السّنة، بعد تسلیم صحة الخبر انّه (رحمة‌الله‌علیه) رای ان لاباس بذلک، لما غلب علی ظنّه من ترتب الخیر العظیم...
اسی طرح بخاری (یا کچھ راویان حدیث) نے کتاب وضوء میں اس داستان کی کچھ اس طرح توجیہہ کی ہے کہ یہ توہین اور بے ادبی حرصاً علی ان ینزل الحجاب یعنی حجاب کے بارے میں آیت نازل ہونے پر حرص کے باعث تھی۔.
حالانکہ خود سورہ احزاب کی تفسیر میں کہا ہے: یہ داستان آیت حجاب کے نزول کے بعد کی ہے۔.
یہ امر موجب بنا کہ بخاری کے بعض شارحین مجبور ہو کر ان احادیث میں جمع کرتے ہوئے یہ کہیں کہ: شاید یہ واقعہ چند بار وقوع پذیر ہوا ہے۔قال الکرمانی: فان قلت: وقع هنا انّه کان بعد ضرب الحجاب، وتقدم فی الوضوء انّه کان قبل الحجاب، فالجواب: لعله وقع مرتین.

جسارت کی جرات کا سبب

[ترمیم]

بہرحال، جب حکومت پیغمبر اکرمؐ کے ہاتھ میں تھی اور یہ سب محکوم تھے، مگر پھر بھی آنحضرتؐ کے سامنے جسارت کرتے تھے۔ کبھی پیغمبرؐ کی رحلت کی آرزو کرتے ہوئے ان کی زوجہ سے شادی کا خواب دیکھتے تھے، کبھی توہین آمیز الفاظ کے ساتھ پیغمبرؐ کی ازواج کو مخاطب کرتے تھے۔ مگر ابھی تک سوال باقی ہے کہ کیوں، پیغمبرؐ و علیؑ کی شجاعت سے نہیں ڈرتے تھے اور جرات کرتے تھے تھے؟! یا بالفاظ دیگر، کیوں پیغمبر اور علیؑ اپنی شجاعت اور غیرت کو بروئے کار نہیں لاتے تھے تاکہ مخالفین اس طرح کی جرات کر کے ان پر غالب نہ ہوں؟!
پہلی بات: پیغمبرؐ کا خاندان اوروں کی مانند نہیں ہے۔ وہ چیز جو انہیں رد عمل دکھانے کی ترغیب کرتی ہے، فقط امرِ الہٰی اور رضائے الہٰی ہے۔ وہ تعصب ، غضب، شخصی مفادات اور اپنے اور اپنے متعلقین کے دفاع کی بنیاد پر اقدام نہیں کرتے ہیں بلکہ صرف دین کے مدافع اور امرِ الہٰی کے پابند ہیں۔ حضرت علیؑ صرف امر و فرمان کی بنیاد پر عمل کرتے تھے، انہیں صبر کا حکم دیا گیا تھا پس انہوں نے اللہ کے امر کی پیروی کرتے ہوئے صبر کیا۔
ثانیا: واضح ہے کہ اگر کسی (خواہ ضعیف و غیر شجاع) کی ماں، زوجہ یا بہن پر حملہ ہو تو وہ گھر میں نہیں بیٹھے گا اور اپنا دفاع کرنے کیلئے اٹھے گا۔ اگر وہ یہ جانتا ہو کہ حملہ آور اس کے جذبات کو مشتعل کر کے یہ چاہتے ہیں کہ وہ رد عمل دکھائے تاکہ وہ اپنے ناپاک مقاصد کو حاصل کر سکیں تو اس صورت میں اگر وہ اہلِ عقل و تدبیر ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے نفس پر مسلط ہو تو وہ کبھی دشمن کو رد عمل دکھا کر اس کے مقاصد میں کامیاب نہیں کروائے گا۔
علیؑ جانتے تھے کہ فتنہ و شرانگیزی حملہ آوروں کا ہدف ہے تاکہ اس کے سائے میں معاملات کو مشکوک بنا دیں اور حق کو متعارف کرانے کی فرصت کو علی و فاطمہؑ سے سلب کر لیں۔ علیؑ نے صبر اور بردباری کے ساتھ حملہ آوروں کے ناپاک منصوبے کو ناکام کیا اور اپنے آپ کی اور اپنی زوجہ کی قربانی پیش کر کے دین کی حفاظت کی ذمہ داری کو پورا کیا اور قیامت تک کیلئے مخلوق پر حجت تمام کر دی۔

نتیجہ ‌گیری

[ترمیم]

آپؑ نے اپنے صبر کے ذریعے تاریخ کے سامنے بہت سے سوالات کو کھڑا کر دیا کہ جن میں سے کچھ یہ ہیں: کیوں، فاطمہؑ کی زندگی کا خورشید اتنی جلدی غروب ہو گیا؟! کیا یہ موت طبیعی تھی؟!
گھر کو جلانے کی دھمکی کا اس میں عمل دخل نہیں تھا؟! گھر کے دروازے کو جلانے کا عمل دخل تھا؟! دروازے کو پہلو پر گرانا وجہ بنا؟! حمل کا سقط اور اس کے بعد کی بیماری شہادت کی وجہ بنی؟! اگر یہ سب کچھ شہادت کی وجہ نہیں تھے تو کیوں: جیسا کہ [[ بخاری اور مسلم کہتے ہیں: فاطمہؑ زندگی کے آخری لمحات تک ابوبکر پر غضبناک تھیں؟! فغضبت فاطمة بنت رسول اللَّه (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) فهجرت ابابکر فلم تزل مهاجرته حتی توفّیت. فوجدت فاطمة علی ابی‌بکر فی ذلک فهجرته فلم تکلّمه حتّی توفّیت.
کیوں، بخاری میں آیا ہے: فاطمہؑ کو مخفیانہ سپرد خاک کیا گیا؟! فلمّا توفّیت دفنها زوجها علیٌّ لیلاً ولم یؤذن بها ابابکر و صلّی علیها.
کیوں، پیغمبرؐ کی اکلوتی یادگار کی قبر آج تک مخفی ہے؟! کیوں، اس واقعے کے سالہا سال کے بعد مسلم نے نقل کیا ہے کہ: علیؑ ابوبکر و عمر کو کاذب، گنہگار، غدار اور خائن سمجھتے تھے؟!
قال عمر لعلی و عباس: فرایتماه (ابابکر) کاذباً آثماً غادراً خائناً... فرایتمانی کاذباً آثماً غادراً خائناً...
شاید اگر فاطمہؑ پر مصائب ٹوٹنے کے بعد علیؑ قیام کر لیتے اور فاطمہؑ کے ضاربین و قاتلین کے خلاف جنگ کرتے تو آج تاریخ کے تحریف گر یہ کہتے کہ علیؑ نے حکومت حاصل کرنے کیلئے جنگ کی اور لڑائی جھگڑے کے دوران فاطمہؑ قتل ہو گئیں اور علیؑ، فاطمہؑ کے قاتل ہیں۔ اس صورت میں مذکورہ بالا سوالات کے جواب روشن نہ ہو پاتے۔
اس قبیل کے امور تاریخ میں تحریف کرنے والوں سے بعید نہیں ہے، جیسا کہ شہادت حضرت فاطمہ زہراؑ کا انکار بھی اس سے کم نہیں ہے۔ جنگ صفین میں عمار یاسر کی شہادت کہ پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا تھا: یقتله الفئة الباغیة
فراه النّبیّ (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) فینفض التّراب عنه ویقول: تقتله الفئة الباغیة ویح عمّار یدعوهم الی الجنّة ویدعونه الی النّار (تجھے ایک باغی گروہ شہید کرے گا) کی خبر پر مبنی حدیث جب متفق علیہ اور ناقابل تردید تھی اور عمار کے قاتلین کی بغاوت اور باطل پر ہونے کی ایک روشن دلیل تھی تو معاویہ کا دفاع کرنے والوں نے کسی ہٹ دھرمی سے اجتناب نہیں کیا، دن کو رات اور شب کو روز کے طور پر پیش کیا، کیا انہوں نے نہیں کہا کہ عمار کے قاتل علی ہیں؟! چونکہ وہ انہیں جنگ میں لائے ہیں؟! اس بات سے غافل رہے کہ پیغمبر اکرمؐ نے مزید فرمایا تھا: یدعوهم الی الجنّة و یدعونه الی النار
عمار انہیں بہشت کی طرف بلائیں گے اور وہ عمار کو جہنم کی طرف دعوت دیں گے اور اس طرح پیغمبر اکرمؐ نے علیؑ کے مخالفین اور ان کے رہبر کو آیتِ شریفہ: وَ جَعَلْناهُمْ اَئِمَّةً یَدْعُونَ اِلَی النَّارِ وَ یَوْمَ الْقِیامَةِ لا یُنْصَرُونَ کا مصداق قرار دیا۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. حمویی جوینی، ابراهیم بن محمد، فرائد السمطین، ج۲، ص۳۵۔    
۲. بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح بخاری، ج۱، ص۳۴۔    
۳. بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح بخاری، ج۳، ص۸۳، کتاب فضائل اصحاب النّبی (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم)، ب۴۲، ح۲۳۲۔
۴. بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح بخاری، ب ۶۱، مناقب فاطمة، ح ۲۷۸۔
۵. بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح بخاری، ج۵، ص۲۹۔    
۶. ذهبی، محمد بن احمد، سیر اعلام النبلاء، ج۳، ص۴۱۵۔    
۷. بخاری، محمد بن إسماعیل، صحیح بخاری، ج۱، ص۳۴۔    
۸. بخاری، محمد بن إسماعیل، صحیح بخاری، ج۶، ص۹، کتاب المغازی، باب مرض النّبیّ (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) و وفاته، حدیث ۴۴۳۲۔    
۹. بخاری، محمد بن إسماعیل، صحیح بخاری، ج۷، ص۱۲۰، کتاب المرض و الطب، باب قول المریض قوموا عنّی، حدیث ۵۶۶۹۔    
۱۰. بخاری، محمد بن إسماعیل، صحیح بخاری، ج۹، ص۱۱۱، کتاب الاعتصام، باب کراهیة الخلاف، حدیث ۷۳۶۶۔    
۱۱. عبداللَّه بن محمد بن ابی‌شیبه، ابوبکر، کتاب المصنف، ج۷، ص۴۳۲، حدیث۳۷۰۴۵، کتاب الفتن۔    
۱۲. سیوطی، جلال‌الدین، مسند فاطمه، ص۳۶۔
۱۳. ابن‌عبدالبر، ابوعمر، الاستیعاب، ج۳، ص۹۷۵۔    
۱۴. بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ج۱، ص۵۸۶۔    
۱۵. ابوالفداء، إسماعيل بن علی، المختصر في أخبار البشر، ج۱، ص۱۵۶. دار المعرفة، بیروت۔
۱۶. ذهبی، شمس‌الدین، تذکرة الحفاظ، ج۴، ص۱۹۹۔    
۱۷. حمویی جوینی، ابراهیم بن محمد، فرائد السمطین، ج۲، ص۳۴-۳۵، طبع بیروت۔    
۱۸. ذهبی، شمس‌الدین، سیر اعلام النبلاء، ج۱۲، ص۱۲۶۔    
۱۹. کلینی، محمد بن یعقوب، اصول کافی، ج۱، ص۴۵۸، ح ۲۔    
۲۰. بخاری، محمد بن إسماعیل، صحیح بخاری، ج۵، ص۱۳۹۔    
۲۱. نیشابوری، مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، ج۳، ص۱۲۵۷۔    
۲۲. بخاری، محمد بن إسماعیل، صحیح بخاری، ج۵، ص۱۳۹۔    
۲۳. احزاب/سوره۳۳، آیه۵۳۔    
۲۴. احزاب/سوره۳۳، آیه۵۳۔    
۲۵. احزاب/سوره۳۳، آیه۵۷۔    
۲۶. بخاری، محمد بن إسماعیل، صحیح بخاری، ج۶، ص۱۲۰۔    
۲۷. بخاری، محمد بن إسماعیل، صحیح بخاری، ج۷، ص۳۸۔    
۲۸. بخاری، محمد بن إسماعیل، صحیح بخاری، ج۴۱، ص۱۴۶۔    
۲۹. آلوسی، شهاب‌الدین، تفسیر روح المعانی، ج۲۲، ص۷۲۔    
۳۰. بخاری، محمد بن إسماعیل، صحیح بخاری، ج۱، کتاب الوضوء، باب ۱۰۹ خروج النّساء الی البراز۔    
۳۱. بخاری، محمد بن إسماعیل، صحیح بخاری، ج۱، کتاب الوضوء، باب ۱۰۹ خروج النّساء الی البراز۔    
۳۲. عسقلانی، احمد بن علی، فتح الباری، ج۸، ص۳۹۱۔    
۳۳. بخاری، محمد بن إسماعیل، صحیح بخاری، ج۴، ص۷۹۔    
۳۴. بخاری، محمد بن إسماعیل، صحیح بخاری، ج۵، ص۱۳۹۔    
۳۵. نیشابوری، مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، ج۳، ص۱۳۸۰۔    
۳۶. بخاری، محمد بن إسماعیل، صحیح بخاری، ج۵، ص۱۳۹۔    
۳۷. نیشابوری، مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، ج۴، ص۳۰، کتاب الجهاد و السیر، باب ۱۵، ح ۵۲۔    
۳۸. بخاری، محمد بن إسماعیل، صحیح بخاری، ج۵، ص۱۳۹۔    
۳۹. نیشابوری، مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، ج۳، ص۱۳۸۰۔    
۴۰. نیشابوری، مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، ج۳، ص۱۳۷۷۔    
۴۱. بخاری، محمد بن إسماعیل، صحیح بخاری، ج۱، ص۹۷۔    
۴۲. بخاری، محمد بن إسماعیل، صحیح بخاری، ج۱، ص۹۷۔    
۴۳. قصص/سوره۲۸، آیه۴۱۔    


ماخذ

[ترمیم]

مؤسسہ ولی عصر، ماخوذ از مقالہ ’’شهادت حضرت فاطمه زہراؑ ناقابلِ انکار حقیقت»۔    






جعبه ابزار