حضرت زینبؑ
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
شب عاشور جب
حضرت زینبؑ نے اپنے بھائی
امام حسینؑ کی
شہادت کی خبر سنی تو بے چین ہو گئیں اور آہ و فغاں کرنے لگیں لیکن امام حسینؑ نے اپنے نورانی الفاظ سے ان کو پرسکون کر دیا اور فرمایا: اے میری بہن!
تقویٰ اختیار کرو اور خود کو اللہ کے صبر سے دلاسہ دو۔
[ترمیم]
امام سجادؑ فرماتے ہیں والد کی شہادت سے ایک رات قبل میں بیٹھا ہوا تھا اور پھوپھی
زینبؑ میری دیکھ بھال میں مصروف تھیں۔ میرے والد ان اشعار کو پڑھتے ہوئے ہمارے خیمے میں داخل ہوئے:
یا دهر آف لک من خلیل•••
کم لک بالاشراق والاصیلمن صاحب او طالب قتیل•••
و الدهر لا یقنع بالبدیلوانما الامر الی الجلیل•••
و کل حی سالک السَّبیلاے زمانے! تجھ پر تف ہے کہ کتنے برے دوست ہو۔ ہر
روز و
شب تمہارے کتنے ساتھی مارے جاتے ہیں لیکن وقت کسی کو کسی دوسرے کی جگہ قبول کرنے پر قانع نہیں ہوتا۔ تقدیر خداوند متعال کے ہاتھ میں ہے اور ہر زندہ انسان اس راہ
موت کی جانب گامزن ہے۔
میں سمجھ گیا تھا کہ اس کا کیا مطلب ہے۔ میری ہچکی بندھ چکی تھی مگر میں نے رونے سے اجتناب کیا اور سمجھ گیا کہ
مصیبت نازل ہو چکی ہے۔ البتہ میری پھوپھی نے جب وہ سنا جو میں سن چکا تھا تو خود کو گریہ و زاری سے نہیں روک سکیں؛ چونکہ
خواتین نرم دل ہوتی ہیں اور جلد بے چین ہو جاتی ہیں۔ اپنی جگہ سے اس طرح اٹھیں کہ آپ کا لباس زمین پر خط دے رہا تھا اور آپ کا سر اور چہرہ کھلا ہوا تھا۔ میرے بابا کے پاس گئیں اور فریاد کی: وا ثکلاه! (ہائے افسوس اس مصیبت پر) کاش میں مر چکی ہوتی اور زندہ نہ ہوتی۔ ایسا لگتا ہے کہ آج ہی ماں
فاطمہؑ، بابا
علیؑ اور بھائی
حسنؑ اس دنیا سے رخصت ہوئے ہیں۔
امام حسینؑ نے حضرت زینبؑ پر نگاہ ڈالی اور فرمایا:
شیطان تمہارا صبر نہ چرا لے۔ زینبؑ نے عرض کی۔ اے ابا عبداللہ! میں آپ پر قربان جاؤں، کیا آپ نے موت کو قبول کر لیا ہے؟! حسینؑ کی آنکھوں میں
آنسو آ گئے اور فرمایا: لو ترک القط لیلاً لنام؛
عرب اس وقت اس
محاورے کا استعمال کرتے ہیں جب وہ بغیر اختیار کے کسی کام پر مجبور ہوں۔ قطا
کبوتر سے مشابہ ایک پرندے کا نام ہے جو
رات کو پرواز نہیں کرتا (سوائے یہ کہ مجبور ہو)
حضرت زینبؑ نے فرمایا: ہائے افسوس! کیا آپ کو زبردستی اور ظلم سے قتل کیا جائے گا؟! اس بات سے میرا کلیجہ کٹ رہا ہے اور یہ میرے لئے بہت سخت ہے؛ چنانچہ آپ نے اپنے چہرے پر طمانچہ مارا اور گریبان چاک کر لیا اور بے ہوش ہو کر
زمین پر گر گئیں۔ امام حسینؑ آپ کے پاس پہنچے اور آپ کے چہرے پر
پانی چھڑک کر فرمایا: میری پیاری بہن
تقویٰ اختیار کرو اور اپنے آپ کو پروردگار کے صبر سے تسلی دو اور جان لو کہ زمین پر رہنے والے سب مر جائیں گے اور آسمان پر رہنے والے بھی باقی نہیں بچیں گے۔ ہر چیز خدا کے علاوہ فنا ہو جائے گی جس نے زمین کو اپنی
قدرت سے پیدا کیا اور لوگوں کو اٹھائے گا اور
دنیا کی طرف واپس پلٹائے گا۔ وہ واحد اور بے مثل ہے میرے والد مجھ سے بہتر تھے اور میری والدہ اور میرے بھائی بھی مجھ سے بہتر تھے اور وہ سب اس دنیا سے چلے گئے اور مجھے اور ہر مسلمان کو
رسول خدا سے امید رکھنی چاہیے۔ پھرفرمایا: اے میری پیاری بہن! آپ کو
قسم دیتا ہوں اور آپ کو اس قسم کو پورا کرنا ہو گا کہ جب میں مارا جاؤں تو میرے سوگ میں اپنا گریبان چاک نہ کرنا اور اپنے چہرے کو خراب مت کرنا اور نالہ و فریاد مت کرنا۔
ابن اعثم نے امام حسینؑ کے
کربلا میں ورود کے وقت اشعار اور حضرت زینب کی بے تابی کو قلمبند کیا ہے۔
احمد بن
سید ابن طاؤس نے اس کے علاوہ ایک اور
روایت بھی نقل کی ہے کہ جس میں امام کے اشعار اور حضرت زینبؑ کی بے تابی کو اہل بیتؑ کی تمام خواتین سے مربوط قرار دیا ہے کہ امامؑ حضرت زینبؑ،
ام کلثوم،
رقیہ، فاطمہ اور
رباب کو تلقین کرتے ہیں کہ ان کے بعد اپنا گریبان چاک نہ کریں اور اپنے چہرے کو نہ خراشیں اور ایسے الفاظ سے پرہیز کریں کہ جن میں خدا کی رضا شامل نہ ہو۔
[ترمیم]
[ترمیم]
پیشوائی، مهدی، مقتل جامع سیدالشهداء، ج۱، ص۷۲۱-۷۲۵۔