حضرت مسلم بن عقیلؑ (مزار)

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



حضرت مسلم بن عقیلؑ، کا مزار مسجد کوفہ میں واقع ہے۔ حال ہی میں اس کیلئے ایک مخصوص صحن اور مزار تعمیر کیا گیا ہے اور یہ مسجد کوفہ کے ساتھ ملحق ہے۔ اس میں داخلہ صحن اور مسجد کے شبستان سے گزر کا امکان پذیر ہے۔
مرقد مسلم بن عقیل


مسلم بن عقیل کا تعارف

[ترمیم]

مسلم، عقیل بن ابی‌طالب، کے فرزند، امام حسینؑ کے چچا زاد اور کوفہ میں سفیر تھے۔ آپؑ کے والد عقیل امیر المومنینؑ کے بھائی، حضرت ابوطالبؑ کے دوسرے بیٹے اور علم تاریخ و انساب میں قریش کی دانا ترین شخصیت تھے۔ وہ صلح حدیبیہ کے بعد پیغمبر اکرمؐ پر ایمان لائے اور مدینہ ہجرت کر گئے۔ انہوں نے اپنے بھائی جعفر طیارؑ کے ہمراہ غزوہ موتہ اور پھر غزوہ حنین میں شرکت کی۔ آپ کی رحلت سنہ ۶۰ہجری کو مدینہ میں ہوئی اور آپ کی قبر ابھی تک قبرستان بقیع میں موجود ہے۔
کوفہ میں امام حسینؑ کے سفیر کی حیثیت سے روانگی سے قبل، مسلم بن عقیل کی زندگی کے حالات کی تفصیلات موجود نہیں ہیں۔ منقول ہے کہ آپ کی والدہ علیہ نامی ایک ام ولد تھیں جنہیں عقیل نے شام سے خرید کیا تھا۔ مسلم نے رقیہ، بنت امام علیؑ سے ازدواج کیا جن سے آپ کے عبد اللہ، علی اور محمد نامی تین بیٹے تھے۔ جناب مسلم کے دو بیٹے عاشور کے دن امام حسینؑ کے ساتھ شہادت پر فائز ہوئے۔ ان میں سے ایک عبد اللہ بن مسلم تھے کہ جن کی والدہ رقیہ بنت علیؑ تھیں اور عمرو بن صبیح نے انہیں شہید کیا تھا۔ مسلم کے روزِ عاشور شہادت پر فائز ہونے والے دوسرے بیٹے محمد تھے کہ جن کی والدہ ام ولد تھیں اور ان کے قاتل ابومرہم ازدی اور لقیط بن ایاس جہنی تھے۔
مسلم بن عقیل، امام حسینؑ کے کوفہ میں سفیر تھے۔ جب اہل کوفہ نے امامؑ کو نامہ لکھا اور حضرتؑ کو کوفہ آنے کی دعوت دی تو امامؑ نے مسلم کو اپنے پاس بلایا اور حکم دیا کہ کوفہ جائیں اور جائزہ لیں کہ آیا کوفیوں نے جو کچھ اپنے خطوط میں لکھا ہے، اس پر کاربند ہیں یا نہیں؟! اور اگر وہ امامؑ کی بیعت کو آمادہ ہیں تو خط لکھ کر اس کی اطلاع دیں۔ مسلم کوفہ روانہ ہو گئے اور شیعوں نے ان کے پاس جمع ہو کر امام حسینؑ کی بیعت کر لی۔
مگر آخرکار کوفہ کے لوگ اپنی بیعت پر باقی نہ رہے اور انہوں نے مسلم کا ساتھ نہ دیا۔ مسلم بن عقیل کو ابن زیاد کے حکم پر دار الامارہ کی چھت سے گرا کر شہید کر دیا گیا۔

مزار کی مختصر تاریخ

[ترمیم]

مسلم بن عقیل، کا مزار مسجد کوفہ کے شرقی ضلع کے باہر دار الامارہ سے کچھ فاصلے پر واقع ہے۔ کچھ مدت کے بعد آپ کیلئے مخصوص صحن اور بارگاہ تعمیر کیے گئے اور اسے مسجد کوفہ کے ساتھ ملا دیا گیا۔ آج کل مسجد کے صحن اور شبستان میں سے گزر کر اس میں داخل ہونا ممکن ہے۔

← ضریح


ماضی میں مسلم کی قبر شریف کے اوپر لکڑی کی جالی دار ضریح موجود تھی جس پر حضرت مسلم کی مدح میں اشعار نقش تھے۔ اسے سنہ ۱۰۵۵ہجری میں نصب کیا گیا تھا کہ جب صفویوں کی حکومت تھی۔ ضریح، ایک ایرانی خاتون مام آقاخان کی جانب سے ہدیہ کی گئی تھی۔ کچھ مدت کے بعد اس لکڑی کی ضریح کی جگہ ایک چاندی کی ضریح نصب کی گئی۔
[۷] حرزالدین، شیخ محمد، مراقد المعارف، ج۲، ص۳۰۷-۳۰۹۔


← مزار کی تعمیر نو


مسلم بن عقیل کا مزار اس پر نصب سابقہ کتبے کی بنیاد پر سنہ ۱۲۳۲ و ۱۲۳۳ کو نواب حافظ محمد عبد الحسین خان نامی ایک ہندی شیعہ حکومتی عہدیدار نے از سر نو تعمیر کیا۔ عمارت کے گنبد پر آدھی صدی قبل تک کاشی کاری موجود تھی۔ سنہ ۱۳۸۴قمری کو کچھ مومنین آیت ‌اللہ سید محسن حکیم کے پاس آئے اور آپ سے گنبد کے حرم کی سونے سے تزئیین کی اجازت حاصل کی۔ اجازت ملنے کے بعد انہوں نے ۱۳۸۵ہجری بمطابق ۱۹۶۵ء کو حرم اور گنبد کی توسیع اور تعمیر نو کا آغاز کیا۔
اسی طرح سید محسن حکیم کے فرمان پر حضرت مسلمؑ کے حرم کیلئے ایک سونے چاندی کی ضریح کو تعمیر کیا گیا اور اسے قبر شریف پر نصب کیا گیا۔ گنبد کی طلاکاری کا کام بھی ۲۸ ربیع الاول سنہ ۱۳۸۷قمری کو شروع ہوا اور ایک شیعہ تاجر محمد حسین رفیعی بہبہانی کویتی نے اس کے سارے اخراجات برداشت کیے اور سید موسیٰ بحر العلوم نے اس کے حوالے سے ایک قصیدہ کہا جسے گنبد کے نچلے حصے پر ثبت کیا گیا ہے۔
[۸] حرزالدین، شیخ محمد، مراقد المعارف، ج۲، ص۳۱۰ و ۳۱۴۔


حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. زرکلی، خیرالدین، الاعلام، ج۴، ص۲۴۲۔    
۲. ابوالفرج اصفهانی، علی بن حسین، مقاتل الطالبیین، ص۸۶۔    
۳. زبیری، مصعب بن عبدالله، نسب قریش، ص۴۵۔    
۴. ابوالفرج اصفهانی، علی بن حسین، مقاتل الطالبیین، ص۹۸۔    
۵. ابوالفرج اصفهانی، علی بن حسین، مقاتل الطالبیین، ص۹۷۔    
۶. ابوالفرج اصفهانی، علی بن حسین، مقاتل الطالبیین، ص۹۹۔    
۷. حرزالدین، شیخ محمد، مراقد المعارف، ج۲، ص۳۰۷-۳۰۹۔
۸. حرزالدین، شیخ محمد، مراقد المعارف، ج۲، ص۳۱۰ و ۳۱۴۔


ماخذ

[ترمیم]

زیارت‌گاه‌های عراق، محمدمهدی فقیه بحرالعلوم، مقالہ «مرقد مسلم بن عقیل»، ج۱، ص۱۰۵-۱۱۶۔    






جعبه ابزار