حضرت ہود

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



قرآن کریم میں جن انبیاءؑ کا تذکرہ آیا ہے ان میں سے ایک جناب ہودؑ ہیں۔ جناب ہودؑ کا تذکرہ قرآن کریم میں تقریباً دس مرتبہ آیا ہے اور آپؑ کے نام کی سورہ بنام سورہِ ہود قرآن کریم میں آئی ہے۔


حضرت ہودؑ کا نسب

[ترمیم]

کتبِ تاریخ میں جناب ہودؑ کا نسب اس طرح سے وارد ہوا ہے: هود بن عبدالله بن رباح بن خلود بن عاد بن عوص بن ارم بن سام بن نوح۔ اس تحریر شدہ نسب کے مطابق جناب ہودؑ ساتویں پشست سے حضرت نوحؑ کے فرزند بنتے ہیں۔ کتب احادیث میں وارد ہوا ہے لما حضرت نوحا (ع) الوفاة دعا الشيعة فقال لهم : اعلموا أنه ستكون بعدي غيبة تظهر فيها اطواغيت ، وأن الله عزوجل يفرج عنكم بالقائم من ولدي اسمه هود ، له سمت وسكينة ووقار ، يشبهني في خلقي وخلقي ، وسيهلك الله أعاءكم عند ظهوره بالريح ، فلم يزالوا يترقبون هودا (ع) وينتظرون ظهوره حتى طال عليهم الامد فقست قلوب كثير منهم ، فأظهر الله تعالى ذكره نبيه هودا عنه اليأس منهم وتناهي البلاء بهم ، وأهلك الاعداء بالريح العقيم التي وصفها الله تعالى ذكره؛ جب حضرت نوحؑ کی وفات کا وقت قریب آ پہنچا تو آپؑ نے اپنے شیعوں اور پیرو کو وصیت کرتے ہوئے بشارت دی کہ میرے بعد طولانی غیبت ہو گی اور غیبت کے دوران طواغیت تم لوگوں پر اور عامۃ الناس پر مسلط ہو جائیں گے اور لوگوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھائیں گے، پھر میری اولاد سے ایک قائم ظہور کرے گا جس کا نام ہود ہو گا اور وہ ان طواغیت سے تم لوگوں کو نجات عطا کرے گا۔ ہودؑ با وقار، صابر اور خوبرو ہوں گے اور ظاہر و باطن کے اعتبار سے مجھ سے شباہت رکھتے ہوں گے اور اللہ تعالی جناب ہودؑ کے ظہور کے وقت تمہارے دشمنوں کو ایک طوفان سے ہلاک کرے گا۔ حضرت نوحؑ کی رحلت کے بعد مؤمنین اور شیعہ جناب ہودؑ کا انتظار کرتے رہے یہاں تک کہ اللہ کا اذن ہوا اور جناب ہودؑ کا ظہور ہوا اور اللہ تعالی نے ان کے ذریعے سے مؤمنین کو نجات عطا کی اور ان کے دشمنوں کو طوفان کے ذریعے سے ہلاک و برباد کر دیا جس کا تذکرہ اللہ تعالی ذکرہ نے قرآن کریم میں کیا ہے۔

لفظِ ہود کی وجہِ تسمیہ

[ترمیم]

جناب ہودؑ کو اس لیے ہود کہا جاتا ہے کیونکہ وہ اپنی گمراہ اور منحرف قوم میں ہدایت یافتہ تھے اور اپںے قوم کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے والے اور بلانے والے تھے۔ جناب ہودؑ قیافہ اور قد و قامت میں حضرت آدمؑ کے ہم شکل تھے اور پُر وقار خوبرو تھے۔ تاریخ انبیاءؑ دوسرے نبی ہیں جنہوں نے بت اور بُت پرستی کے خلاف قیام کیا اور اس انحرافی عقیدہ کے خلاف مبارزہ کیا ۔ آپؑ سے پہلے جناب نوحؑ نے بُت پرستی کے خلاف قیام فرمایا تھا۔
[۲] طباطبائی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ج ۱۰، ص ۲۰۷-۲۰۸۔


حضرت ہودؑ کی زندگی

[ترمیم]

حضرت عیسیؑ کی ولادت کے تقریباً ۷۰۰ سال پہلے سرزمین احقاف جوکہ یمن و عمان اور جنوبی عربستان کے درمیان جسے حضرموت بھی کہا جاتا ہے میں ایک قوم آباد تھی جسے قوم عاد کہا جاتا ہے۔ اس قوم کو اس لیے قوم عاد کہا جاتا ہے کیونکہ اس قوم میں عاد بن عوص نامی شخص گزرا ہے جس کی مناسبت سے اس کو قوم عاد کہتے ہیں۔ حضرت ہودؑ کا تعلق اسی قوم سے تھا اور بعض مؤرخین کے مطابق عاد بن عوص جناب ہودؑ کے تیسرے جدّ بنتے ہیں۔ بعض محققین کے نزدیک قوم عاد سے پہلے بھی عاد کے نام سے ایک قوم بسا کرتی تھی جسے قرآن کریم میں سورہ نجم آیت ۵۰ میں عادِ اولی کہا ہے جیساکہ ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:وَ أَنَّهُ أَهْلَكَ عَاداً الْأُولَى۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. علامہ مجلسی،محمد باقر، بحار الانوار، ج ۱۱، ص ۳۶۳۔    
۲. طباطبائی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ج ۱۰، ص ۲۰۷-۲۰۸۔
۳. نجم/سوره۵۳، آیت ۵۰۔    


مأخذ

[ترمیم]

اندیشہ قم۔    






جعبه ابزار