حکمیت طاغوت
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
قرآن کریم کی بعض
آیات ان افراد کے ساتھ خاص کی گئی ہیں جو اپنے فیصلے
طاغوت سے کرواتے ہیں۔ ان آیات کی طرف اس مقالے میں اختصار کے ساتھ اشارہ کیا جاۓ گا۔
[ترمیم]
منافقین وہ لوگ تھے جو مختلف مسائل زندگی میں فیصلوں کے لیے طاغوت کی طرف رجوع کرتے تھے اور انہیں اپنا
حَکَم مان کر اس سے فیصلے کرواتے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:
أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ آمَنُواْ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ يُرِيدُونَ أَن يَتَحَاكَمُواْ إِلَى الطَّاغُوتِ۔۔۔؛ کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو دعویٰ تو یہ کرتے ہیں کہ جو کتاب آپ پر نازل ہوئی اور جو کچھ آپ سے پہلے نازل کیا گیا ہے، (سب) پر ایمان لائے ہیں مگر اپنے فیصلوں کے لیے طاغوت کی طرف رجوع کرنا چاہتے ہیں حالانکہ انہیں
طاغوت کا انکار کرنے کا حکم دیا گیا تھا، اور شیطان انہیں گمراہ کر کے راہ حق سے دور لے جانا چاہتا ہے۔
یہ آیت منافقین کے متعلق ہے۔
[ترمیم]
مدینہ کے ایک
یہودی کا کسی منافق مسلمان سے جھگڑا ہو گیا۔ طے پایا کہ دونوں کسی ایک شخص کو اپنا حَکَم بنائیں گے اور اس کا فیصلہ دونوں کو قبول ہوگا۔ یہودی نے
رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ) کی عدالت اور ان کی منصف مزاجی پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوۓ انہیں اپنا حَکَم قرار دیا۔ لیکن اس منافق مسلمان نے یہودیوں کے عالم
کعب بن اشرف کو اپنا حَکَم بنایا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ کعب کو پیسہ دے کر اس سے من پسند فیصلہ کروا سکتا ہے۔ اس پر قرآن کریم کی یہ آیت نازل ہوئی جس میں اس قسم کے افراد کی شدید مذمت ہوئی۔ بعض مفسرین نے اس کے دیگر شان نزول بیان کیے ہیں اور بیان کیا ہے کہ اس آیت میں ان افراد کی مذمت ہوئی ہے جنہوں نے تازہ اسلام قبول کیا تھا لیکن اپنے جھگڑوں کے حل کے لیے
زمانہ جاہلیت کی طرح کاہنوں یا یہودیوں کے علماء کی طرف رجوع کرتے تھے۔
حکمیت کے لیے طاغوت کی طرف رجوع کرنا اور باایمان ہونے کا دعوی کرنا،
قرآن کریم کی تعلیمات کے مطابق قابل افسوس ہے۔ جب خداوند متعال نے فرما دیا کہ اطاعت صرف اللہ اور اس کے رسول کی کرو تو پھر طاغوت کی طرف رجوع کرنے کا کیا مطلب؟
أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ آمَنُواْ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ يُرِيدُونَ أَن يَتَحَاكَمُواْ إِلَى الطَّاغُوتِ۔۔۔؛ در حقیقت اس آیت میں ایک سوال پوشیدہ ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک طرف سے لوگ مطیع خدا ہونے کا دعوی کرتے ہیں اور دوسری طرف سے اپنے مسائل کے حل کے لیے طاغوت کی طرف رجوع کرتے ہیں؟ یہ استفہام دراصل
استفہام تاسف ہے۔ در واقع خداوندمتعال فرمانا چاہتا ہے کہ افسوس کے ساتھ کچھ لوگ نازل ہونے والی کتاب پر ایمان لانے کا بھی دعوی رکھتے ہیں اور یہ بھی مانتے ہیں کہ جو کچھ کتاب کی صورت میں ان کے لیے نازل ہوا ہے اس کا مقصد ہی یہی تھا کہ اس کے ذریعے لوگوں کے مابین پیش آنے والے مسائل کا حل کیا جا سکے اس کے باوجود
طاغوت کی طرف رجوع کرتے ہیں۔
قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:
كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللّهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ وَأَنزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُواْ فِيهِ...؛ لوگ ایک ہی دین (فطرت) پر تھے، (ان میں اختلاف رونما ہوا) تو اللہ نے
بشارت دینے والے اور
تنبیہ کرنے والے انبیاء بھیجے اور ان کے ساتھ برحق
کتاب نازل کی تاکہ وہ لوگوں کے درمیان ان امور کا فیصلہ کریں جن میں وہ اختلاف کرتے تھے۔
اس کے باوجود اپنے
محاکمات کے لیے طاغوت کی طرف جانا جبکہ یہ بات جانتے ہوۓ کہ طاغوت
دین خدا سے
تمرد دکھانے والے اور مخلوق خدا پر تجاوز کرنے والے ہیں۔ ان کو آسمانی کتابوں میں حکم دیا گیا تھا کہ طاغوت کا انکار کریں لیکن یہ لوگ طاغوت سے تحاکم کرواتے ہیں اور اس طرح کتاب خدا اور
شریعت کو باطل قرار دیتے ہیں۔
طاغوت کو اپنے فیصلوں کے لیے حَکَم قرار دینا قرآن اور آسمانی کتابوں کی تعلیمات سے ناسازگار ہے۔
أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ آمَنُواْ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ يُرِيدُونَ أَن يَتَحَاكَمُواْ إِلَى الطَّاغُوتِ۔۔۔؛ اس آیت کریمہ سے واضح ہوتا ہے کہ قرآن کریم ہر زمانے کے لوگوں کے لیے ایک عمومی حکم دے رہا ہے کہ باطل حکام کی طرف رجوع کرنا کتنا بڑا خطرہ ہے۔ کیونکہ طاغوت سے فیصلہ کروانا خدا پر ایمان اور آسمانی کتابوں کی تعلیمات کے ساتھ سازگار نہیں ہے۔ اس سے انسان
حق کے مسیر سے اتنا دور ہو جاتا ہے کہ پھر حق کی طرف مڑ کر نہیں آ سکتا۔ اس کے علاوہ طاغوت سے فیصلہ کروانے کے اجتماعی طور پر اتنے مفاسد ہیں جو قابل شمارش نہیں۔
طاغوت کی طرف رجوع کرنے والے در اصل
شیطان کے
تسلط کو اپنے اوپر قبول کر لیتے ہیں۔
أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ آمَنُواْ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ يُرِيدُونَ أَن يَتَحَاكَمُواْ إِلَى الطَّاغُوتِ۔۔۔؛ یہ
آیت کریمہ ہمیں بتاتی ہے کہ ایسے افراد کا طاغوت کی طرف رجوع کرنا دراصل اس بنا پر ہے کہ شیطان نے ان کو اغوا کر لیا اور شیطانی القاء کی بنا پر یہ لوگ شیطان کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ شیطان ان کو اس طرح کے القائات کر کے ایسی
ضلالت میں مبتلا کر دیتا ہے جہاں سے راہ نجات بہت دور ہو جاتی ہے۔
تحاکم الی الطاغوت انسان کی شدید گمراہی کا باعث بنتا ہے۔
أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ آمَنُواْ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ يُرِيدُونَ أَن يَتَحَاكَمُواْ إِلَى الطَّاغُوتِ۔۔۔؛ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے گمراہی کی نسبت شیطان کی طرف دی ہے۔ پس
ضلالت کو خود خداوند متعال نے
خلق نہیں کیا اور
مسلک جبر کے پیروکاران جو یہ الزام لگاتے ہیں کہ خدا لوگوں کو گمراہ کرتا ہے، یہ بات درست نہیں۔ کیونکہ اگر خدا نے ضلالت کو خلق کیا ہوتا تو اسے شیطان کی طرف نسبت نا دیتا بلکہ خود کی طرف نسبت دیتا۔
رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ) کو حکم دیا گیا کہ اگر کوئی شخص
طاغوت کی طرف رجوع کرتا ہے تو آپ چشم پوشی اختیار کریں۔
أُولَئِكَ الَّذِينَ يَعْلَمُ اللّهُ مَا فِي قُلُوبِهِمْ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ وَقُل لَّهُمْ فِي أَنفُسِهِمْ قَوْلًا بَلِيغًا؛ یہ وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں اللہ جانتا ہے کہ ان کے دلوں میں کیا ہے، آپ انہیں خاطر میں نہ لائیے اور انہیں نصیحت کیجیے اور ان سے ان کے بارے میں ایسی باتیں کیجیے جو مؤثر ہوں۔
منافقین کے طاغوت کی طرف مراجعہ کے باوجود آپؐ مامور تھے کہ ان کو
مجازات نا کریں کیونکہ یہ لوگ ظاہری طور پر اسلام کا اظہار کرتے اس لیے
رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ) بھی ان کے ساتھ
مدارا کرتے۔ کیونکہ آپؐ بھی ظاہر کو دیکھ کر اقدام فرماتے مگر یہ کہ استثنائی موارد میں ان جیسوں کو کبھی مجازات کیا ہو۔ کیونکہ ظاہری طور پر تو منافقین بھی مسلمانوں کی صفوں میں ہوتے اس لیے اگر ان کو مجازات کیا جاتا تو یہ سمجھا جاتا کہ شاید ان سے کوئی ذاتی رنجش کی بنا پر سزا دی جا رہی ہے۔ اس کے بعد آیت میں حکم آتا ہے کہ ان کو وعظ و نصیحت کیجیے اور اس طرح ملائم و نرم رویہ سے بات کیجیے جو ان کے دلوں پر اثر کرے اور ان کے اعمال کا نتیجہ ان کے سامنے رکھ دے۔
پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ) کو حکم دیا گیا کہ وہ طاغوت کی طرف مراجعہ کرنے والے افراد کو
وعظ و نصیحت کریں اور ان کی ہدایت فرمائیں۔
أُولَئِكَ الَّذِينَ يَعْلَمُ اللّهُ مَا فِي قُلُوبِهِمْ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ وَقُل لَّهُمْ فِي أَنفُسِهِمْ قَوْلًا بَلِيغًا؛ اس آیت میں پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ)کو حکم دیا گیا کہ وہ منافقین سے زبانِ دل سے بات کریں تاکہ وہ متوجہ ہوں اور آپ کی بات کو درک کریں۔ ان کو سمجھائیں کہ ان لوگوں کی رفتار میں کون کون سا
فساد پایا جاتا ہے۔ اور اگر یہ لوگ اپنی
منافقت سے باز نہیں آتے تو کس قسم کا وحشت ناک
عذاب الہی ان پر نازل ہو سکتا ہے۔
[ترمیم]
[ترمیم]
•
مرکز فرہنگ و معارف قرآن، ماخوذ از مقالہ ’’حکمیت طاغوت‘‘۔ •