خطبہ فدک کے مصادر اور شروحات

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



صدیقہ کبریٰ کا خطبہ خاندانِ وحی کے اعلیٰ ذخائر میں سے ہے۔ عظیم شیعہ علماء اور سادات نے اس کے ہر اقتباس کو لوحِ ضمیر پر ثبت کیا اور اسے حفظ اور نقل کرنے کو بہت اہمیت دیتے تھے۔ یہ سُچے موتیوں جیسے کلمات اہل بیتؑ کے دشمنوں کے مقابلے میں عترت مطہرہ کی حقانیت و مظلومیت پر بہترین استدلال ہیں اور اس چیز کو بیان کرتے ہیں کہ کس طرح آل محمدؑ کے دشمنوں نے انتہائی قساوت اور باطل پرستی سے کام لیا اور پست دنیوی مال و متاع کی خاطر آل پیغمبر پر بھاری مظالم ڈھاتے رہے۔


خطبے کا فلسفہ

[ترمیم]

متعدد اہم کتب اس خطبہ شریفہ کی روایت سے مزین ہیں اور بہت سی اسانید نے اسے روایت کیا ہے۔ اس خطبے میں پنہان حقائق کو جو شخص بھی بخوبی درک کر لے اور پہلے سے کچھ طے کیے بغیر اس کا مطالعہ کرے تو بلاتردید تسلیم کر لے گا کہ زہراؑ نے اس خطبے میں اپنے حق کو بہترین انداز میں ثابت کیا ہے۔
جی ہاں! فاطمہؑ کہ جن کے صبر و شکیبائی کے سامنے پہاڑ بہت حقیر و ناچیز ہیں؛ نے یہاں اپنے غضب کو (کہ غضبِ خدا ہے) آشکار کیا اور اپنے حلق تک خنجر پہنچ جانے پر ناچار مظلومیت کی صدا بلند کی، اپنا حق ثابت کرنے کیلئے قیام کیا تاکہ تاقیامت آنے والی نسلیں یہ جان لیں کہ پیغمبر کی خلافت کے دعویدار کس حد تک امت کی پیشوائی کی شرائط (منجملہ وسیع علم اور اعلیٰ عصمت) سے کس حد تک دور ہیں۔

آفتاب آمد دلیل آفتاب

[ترمیم]

اس خطبے کے جملات اس امر پر واضح گواہ ہیں کہ یہ موتیوں جیسے کلمات صدیقہ کبریٰ کی زبان سے ہی جاری ہو سکتے ہیں اور ان کے حضرت سیدہ نساء العالمین کی طرف انتساب میں تھوڑی سی بھی تردید نہیں کی جا سکتی۔ نبوت کے انوار اس سے آشکار ہیں اور امامت کی مہک اس سے پھوٹ رہی ہے۔ یہ آپ کے پدر سرورِ انبیاء کی فصاحت کا نشان ہے اور آپؑ کے شوہر سید اوصیاء کے خطبوں جیسی سلاست کا حامل ہے۔

مکمل خطبے پر مشتمل کتب

[ترمیم]

یہ طویل خطبہ جو بلند معانی اور احکامِ الہٰی کے اسرار پر مشتمل ہے، قدیم شیعہ علما کی کتب میں ثبت ہے۔ ان میں سے یہ نام قابل ذکر ہیں:

← دلائل الامامہ


۱۔ ابوجعفر محمد بن جریر طبری ، چوتھی صدی کے عالم نے دلائل الامامۃ، ص۳۱ میں پانچ طُرُق سے۔

← احتجاج


۲۔ ابو منصور احمد بن علی بن ابی طالب طبرسی، چھٹی صدی کے عالم نے احتجاج، ص۶۱میں؛ انہوں نے یہ خطبہ اپنے طریقہ کار کے تحت کہ صحیح احادیث کو مرسل صورت میں لاتے تھے؛ بلاسند ذکر کیا ہے۔

← کشف الغمہ


۳۔ ابو الحسن علی بن عیسی اربلی، ساتویں صدی عیسوی کے جلیل القدر عالم نے کشف الغمہ، ص۱۴۵ پر۔ انہوں نے یہ خطبہ ابوبکر احمد بن عبد العزیز جوہری کی کتاب السقیفہ کے اس نسخے سے چند طرق کے ساتھ نقل کیا ہے کہ جسے ربیع الثانی سنہ ۳۲۲ھ میں مؤلف پر قرائت کیا گیا تھا، احمد جوہری کی ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ ج ۴، ص۷۸ طبع مصر میں ستائش کرتے ہیں اور کہتے ہیں: وہ ایک محدث و ادیب عالم ہیں کہ جن کی وثاقت اور تقویٰ پر کوئی کلام نہیں ہے۔ حدیث کے مشائخ نے انہیں اچھے الفاظ میں یاد کیا ہے اور ان کی تالیفات کو نقل کیا ہے۔ یہ وہ مصادر ہیں جنہوں نے خطبہ زہراؑ کو مکمل طور پر نقل کیا ہے۔

خطبے کے اقتباسات پر مشتمل کتب

[ترمیم]
جن کتب میں خطبے کا کچھ حصہ نقل کیا گیا ہے، ان میں سے درج ذیل کو ملاحظہ کیا جا سکتا ہے:

← بلاغات النساء


ابو الفضل احمد بن ابی طاھر متوفی سنہ ۲۸۰؛ انہوں نے خطبہ دو طریق سے روایت کیا ہے: اول عروہ بن زبیر کا عائشہ سے طریق اور دوسرا زید بن علی بن حسینؑ کا عقیلہ بن ہاشم زینب کبریٰ سے طریق۔

← الشافی


سید مرتضیٰ، الشافی، ص۲۳۰میں ابو عبد اللہ محمد بن عمران مرزبانی سے؛ مرزبانی نے دو طریق سے خطبے کی روایت کی ہے: عروہ کا عائشہ سے طریق اور ابو العیناء محمد بن قاسم یمامی کا ابن عائشہ بصری سے طریق۔
البتہ سید مرتضیٰ نے خطبہ شریفہ کو اختصار کے ساتھ اس وجہ سے ذکر کیا ہے کہ اس کو مکمل طور پر نقل نہیں کرنا چاہتے تھے اور صرف اس کے صدیقہ اطہرؑ سے انتساب کی صحت کو ثابت کرنے کیلئے انہوں نے ایک روایت ذکر کی ہے، جو ان کے نزدیک صحیح ہے۔
نیز سید مرتضیٰ نے الشافی کے ص۲۳۱ پر مرزبانی سے اور انہوں نے اپنی سند کے ساتھ احمد بن ابی طاھر سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا: میں نے خطبہ حضرت زہراؑ کا ابی الحسين زید بن علی بن الحسين بن زيد بن علی بن الحسينؑ سے ذکر کیا اور کہا کہ لوگ اسے حضرت فاطمہؑ کا خطبہ خیال نہیں کرتے اور ان کے بقول یہ ابو العیناء کا کلام ہے، کیونکہ بہت ہی فصیح و بلیغ ہے۔
زید نے جواب دیا:
میں نے آل ابی طالب کے مشائخ کو دیکھا ہے کہ وہ اپنے آباؤ اجداد سے اس خطبے کی روایت کرتے ہیں اور اپنی اولادوں کو اس کی تعلیم دیتے ہیں۔ میرے والد نے اپنے جد امجد سے اس خطبے کی روایت کی ہے اور یہ سند فاطمہؑ تک متصل ہے نیز ابو العیناء کے دادا کی پیدائش سے قبل شیعہ مشائخ اسے روایت کر چکے تھے اور اپنی حدیثی مجالس میں بارہا اس کا ذکر کرتے رہے ہیں۔
اس خطبے کی ایک اور سند حسین بن علوان بن عطیہ عوفی کے طریق سے ہے، انہوں نے عبد اللہ محض سے اور انہوں نے اپنے والد امام مجتبیٰ کے واسطہ سے نقل کیا ہے۔
زید نے مزید کہا: کس طرح فاطمہؑ کے اس کلام کا انکار کرتے ہیں جبکہ عائشہ سے ایک کلام نقل کرتے ہیں جو انہوں نے اپنے باپ کی وفات پر کہا تھا اور وہ اس خطبے سے زیادہ حیرت انگیز ہے۔ عائشہ کے کلام کو قبول کرتے ہیں، مگر اہل بیتؑ کے ساتھ عناد کی وجہ سے ان کی احادیث کا انکار کرتے ہیں۔ (پھر خطبہ ذکر کیا)
آپ اس حدیث کو بعینہ ابن طیفور کی کتاب بلاغات النساء ص ۱۲، طبع نجف میں بھی ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ تاہم اس ایڈیشن میں سند کے کچھ نام حذف ہو گئے ہیں؛ کیونکہ اس میں مذکور ہے کہ ابی طاہر کے والد نے ابو الحسین زید بن علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب سے حدیث نقل کی ہے حالانکہ یہ قطعی امر ہے کہ وہ زید شہید کے ہم عصر نہیں تھے۔ لہٰذا شافی میں جو سند ذکر ہوئی ہے وہی صحیح ہے کہ ابو طاہر کے والد نے زید شہید کے پوتے سے یہ حدیث نقل کی ہے کیونکہ وہ دونوں ہم عصر تھے۔

← تلخیص الشافی


شیخ طوسیؒ نے تلخیص الشافی (مذکورہ کتاب کا خلاصہ) ص۴۱۳ پر اسے نقل کیا ہے۔

← المناقب


ابن شھر آشوب متوفی سنہ ۵۵۸ نے مناقب ، ج۱، ص۳۱۸ طبع ایران پر اسے نقل کیا ہے۔ انہوں نے حضرت زہراؑ کے ابوبکر و انصار و امیر المومنینؑ کے ساتھ کلام کا کچھ حصہ نقل کیا ہے۔

← الطرائف


سید رضی الدین علی بن طاؤس متوفی سنہ ۶۶۴ ھ نے طرائف ص۷۴ پر عظیم عالم احمد بن موسیٰ بن مردویہ کے حوالے سے اسے کتاب مناقب سے نقل کیا ہے۔ انہوں نے اپنی سند سے عروہ کے عائشہ سے طریق کے ساتھ خطبہ کے اول، وسط اور آخر کی چند عبارات کو روایت کیا ہے۔

← شرح ابن الحدید


ابن ابی الحدید نے بھی شرح نہج البلاغہ، ج ۴، ص۷۸ پر خطبے کو ابن مردویہ کی اسی ترتیب کے ساتھ اسے احمد بن عبد العزیز جوہری کی کتاب السقیفہ کے حوالے سے روایت کیا ہے۔

← شرح ابن میثم


ابن میثم متوفی سنہ ۶۷۹ء نے شرح نہج البلاغہ ص۳۵ پر اسے نقل کیا ہے۔ وہ امیر المومنینؑ کی جانب سے ابن حنیف کو تحریر کردہ مکتوب کے اس فقرے (مَا أَصْنَعُ بِفَدَكٍ وَ غَيْرِ فَدَكٍ) کی تشریح میں کہتے ہیں:
فاطمہؑ نے اس کے بارے میں ایک طولانی خطبہ ارشاد فرمایا کہ جس کے آخر میں فرمایا: ٱتَّقُواْ ٱللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ تا آخر خطبہ۔
بہرحال بہت اہم اور جدت طراز خطبہ ہے۔ ابن طیفور نے بھی اسے کتاب ’’بلاغات النساء‘‘ ص۱۲ پر نقل کیا ہے اور ان کی روایت جوہری کی روایت سے زیادہ قدیم ہے۔ تاہم بعض نے فاطمہ اطہرؑ کی مظلومیت کی اس ندا کو کسی اور سے بھی منسوب کیا ہے۔ تاہم اس قول کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔

خطبے کی شروحات

[ترمیم]

مکتبِ اہل بیتؑ کے مخلص علما نے اس خطبے پر طولانی شروحات لکھی ہیں کہ جنہیں ہمارے رئیس، انتھک محقق شیخ آقا بزرگ تہرانی نے اپنی نفیس کتاب ’’الذریعۃ الی تصانیف الشیعہ‘‘ میں جمع کیا ہے:
۱۔ مولی حاج محمد نجفی کرمانی، متوفی ۱۲۹۲ھ مشھد کی شرح؛
۲۔ حاج شیخ فضل علی بن مولی ولی اللہ قزوینی متولد ۱۲۹۰ھ کی شرح؛
۳۔ ابن عبدون بزاز المعروف ابن حاشر کی شرح؛
۴۔ سید علی محمد تاج العلماء بن سید محمد سلطان العلماء بن سید دلدار علی متوفی ۱۳۱۲ھ لکھنؤ کی شرح؛
۵۔ چودہویں صدی کے نیمہ اول سے تعلق رکھنے والے جلیل القدر عالم سید عبد اللہ شبر کی تالیف کشف المحجۃ؛
۶۔ حاج میرزا محمد علی انصاری کی تالیف ’’اللمعۃ البیضاء فی شرح خطبۃ الزھراء‘‘ مؤلفہ حاج میرزا محمد علی انصاری؛
۷۔ الدرّۃ البیضاء مؤلفہ سید محمد تقی بن سید اسحاق قمی رضوی، مطبوعہ ایران سنہ ۱۳۵۳ھ؛

ماخذ

[ترمیم]

ماخوذ از کتاب ’’وفاة الصدیقة الزهراء علیها السلام‘‘، عبد الرزاق المقرم، صفحہ ۷۸ تا ۸۱ ۔    






جعبه ابزار