دار العلوم دیوبند

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



دار العلوم دیوبند پاکستان کا دینی مدرسہ ہے کہ جس کی تاسیس پاکستان میں ’’میرٹھ‘‘ کے بڑے قیام کے چند سال دیوبندی فرقے کی جانب سے کی گئی اور یہ پاکستان کے مختلف علاقوں میں قائم کیے گئے۔ پاکستان کے مذہبی مدارس میں سے دار العلوم حقانیہ سب سے زیادہ مشہور اور بنیاد پرست تعلیمی مرکز ہے کہ جس میں سلفی جہادی تفکر کی تقویت، شدت پسندی کی ترویج اور دیوبندی وہابی عقائد کی بنیاد پر دہشت گردوں کی تربیت کی جاتی ہے۔ اس مدرسے نے افغانستان کے اندر طالبان کی حکومت کو برسر اقتدار لانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ پاکستان کے مذہبی مدارس کے طالبان کے ساتھ قریبی روابط کی وجہ سے طالبان کے نوے فیصد رہنما پاکستان سے فارغ التحصیل ہوئے ہیں۔ اسی طرح یہ مدرسہ القاعدہ اور اسامہ بن لادن کے ساتھ مربوط تھا اور ان کی حمایت کرتا تھا۔


تاسیس کی وجوہات

[ترمیم]

سنہ ۱۸۵۷ء/۱۲۳۶شمسی میں ’’میرٹھ‘‘ کے عظیم قیام کے بعد مدرسہ دار العلوم دیوبند کی بنیاد رکھی گئی۔ یہ قیام مسلمانوں اور ہندوؤں نے مل کر مشرقی ہندوستان کی کمپنی کی حکومت کے خلاف کیا۔ اس قیام کو انگریز کے نوکروں نے کچل دیا اور جو مسلمان اس میں نمایاں کردار کے حامل تھے؛ انہیں یا قتل کر دیا گیا یا جلا وطن کر دیا گیا۔ اسی طرح یہ قیام کچلنے کے دوران بہت سا مال بھی ضبط کر لیا گیا۔ اس قیام کے نتیجے میں علمائے اسلام کو سخت نقصان پہنچا اور وہ کلی طور پر پراکندہ ہو گئے۔
اس قیام کے چند سال بعد مدرسہ دار العلوم دیوبند قائم کیا گیا تاکہ ایک طرف سے علما کے غیر ساسی کردار کی حفاظت کی جائے اور دوسری طرف سے علی گڑھ مکتب کے بانی سرسید احمد خان کے سیاسی افکار کا مقابلہ کیا جا سکے۔

اہمیت

[ترمیم]

مدرسہ حقانیہ پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ کے شہر اکوڑہ خٹک میں واقع ہے۔ مولانا محمد حسن کے دور (۱۸۵۰ تا ۱۹۲۱) تک دوبندی تفکر کے بہت سے مدارس پاکستان کے صوبہ سرحد میں تاسیس کیے گئے۔ اس مدت میں اہل حدیث (دیوبند سے منسلک ایک اور گروہ) کے مدارس نے بھی شمال مغربی سرحد میں اپنی سرگرمیاں بڑھا دیں اور «اکوڑه خٹک»، «اترک»، «دره‌ کتر‌» اور دیگر علاقوں میں قائم کیے۔

دیوبندی علما کی تربیت

[ترمیم]

دار العلوم اکوڑہ خٹک کا دار العلوم پاکستان کا ایک معروف دینی مدرسہ ہے کہ جس نے آج تک بہت زیادہ افراد کی تربیت کی ہے۔ طالبان کے رہنما اور خود ملا محمد عمر اسی مدرسہ کے فارغ التحصیل ہیں۔ مذکورہ دینی مدارس میں مذہبی دروس کے علاوہ کفار کا مقابلہ کرنے کیلئے جہاد اور سیاست کی تربیت بھی دی جاتی ہے۔ یوں کفار کے خلاف جدوجہد خدا کی راہ میں جہاد قلمداد کیا جاتا ہے۔

مدارس اور طلاب کی تعداد میں اضافہ

[ترمیم]

افغان جہاد کے دوران دینی مدارس کی تشکیل میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا۔ یہ امر بھی عرب ممالک کی مالی امداد کی وجہ سے فروغ پا رہا تھا۔ دوسری طرف سنہ ۱۹۷۹ء میں زکات و عشر آرڈیننس کا نفاذ کیا گیا اور اس کام کی نگرانی دیوبندی مدارس کے علما کے سپرد کی گئی جس سے ان کی مالی طاقت میں بے پناہ اضافہ ہوا اور انہوں نے اس رقم سے متعدد مدارس تعمیر کیے۔ اس کے بعد دیوبندی رہنماؤں نے دیگر مکاتب فکر بشمول شیعہ و بریلوی کا مقابلہ کرنے کی غرض سے بڑی تعداد میں طلبہ کو داخلے دئیے۔

مدارس کے اعداد و شمار

[ترمیم]

اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی آزادی کے وقت صرف ۱۳۷ مدارس تھے۔ ۱۹۶۰ء کی دہائی میں ان مدارس کی تعداد ۵۰۰ ہو گئی اور ۱۹۷۰ء کے اوائل میں ۷۰۰ تک جا پہنچی۔ سنہ ۱۹۷۷ء سے ۱۹۸۸ء تک پاکستان میں دینی مدارس کی تعداد میں ریکارڈ اضافہ ہوا۔
پاکستان کی صورتحال کے امریکی ماہر جسیکا استرن نے سنہ ۲۰۰۲ء میں پاکستان کے مذہبی مدارس کی تعداد ۱۰ ہزار رپورٹ کی ہے کہ جو سنہ ۲۰۰۶ء میں ۱۲ ہزار اور ۲۰۱۳ء تک ۱۷ ہزار ہو گئی۔ صوبہ پنجاب اور اس کے بعد شمال مغربی سرحدی علاقوں میں سب سے زیادہ مذہبی مدارس قائم کیے گئے کہ جن میں سے ایک دار العلوم حقانیہ ہے۔

مشہور ترین‌ مدرسہ

[ترمیم]

پاکستان کے مذہبی مدارس میں سے مدرسہ حقانیہ پاکستان کا ایک مشہور اور بنیاد پرست مذہبی مرکز ہے کہ جس میں سلفی جہادی تفکر کی تقویت، شدت پسندی کی ترویج اور دیوبندی وہابی عقائد کی بنیاد پر دہشت گردوں کی تربیت کی جاتی ہے۔
دار العلوم حقانیہ کہ جسے اصطلاح میں مدرسہ کہا جاتا ہے، اسلامی اصولوں کی شدت پسندانہ تشریح کر کے امارت اسلامی طالبان کی افغانستان میں تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔ مولانا سمیع الحق کو طالبان کا روحانی باپ کہا جاتا ہے اور وہ خود بھی اس پر فخر کرتے تھے۔ ان کا خیال ہے کہ اگر طالبان کو جنگجوؤں کی ضرورت ہو گی تو مدرسہ حقانیہ کو بند کر کے تمام طلبہ کے ہمراہ اسلحہ اٹھا کر جائیں گے۔ اس نقطہ نظر سے ان کے دیوبندی سلفی گروہوں والے متعصب افکار کی نشاندہی ہوتی ہے۔
بہرحال اکوڑہ خٹک اور مدرسہ حقانی کا نام برصغیر کی سلفی جہادی تحریکیوں کے ساتھ ضم ہے اور ایک اہم شدت پسند مدرسہ کے عنوان سے طالبان کے صف اول کے رہنماؤں میں شامل تھے۔ دیوبند کے مذہبی مدارس کی وہابیت سے تاثیر پذیری کی وجہ سے خطے میں سلفی جہادی گروہوں کی شدت پسند کاروائیوں میں اضافہ ہوا ہے؛ کیونکہ انہیں فنڈ بھی فراہم کیے گئے اور اسلحہ سے بھی لیس کیا گیا۔
بہرحال اکوڑہ خٹک اور مدرسہ حقانیہ کا نام برصغیر کی سلفی جہادی جماعتوں کے ساتھ نتھی ہے اور ایک شدت پسند دینی مدرسے کے عنوان سے طالبان کی ہائی کمان کے بہت سے افراد کی تربیت گاہ ہے۔

مدارس کے طالبان اور القاعدہ کے ساتھ روابط

[ترمیم]

پاکستان کے مذہبی مدارس امریکہ کے افغانستان پر حملے کے بعد کلی طور پر بہت زیادہ فعال ہوئے اور انہوں نے سلفی جہادی جماعتوں کو توسیع دی۔

← طالبان کے ساتھ تعلقات


مروجہ تعریف کی رو سے طالبان دینی علوم کے طالب علم ہیں جو پاکستان کے مذہبی مدارس سے فارغ التحصیل ہوئے ہیں۔ پاکستان کے مذہبی مدارس کا طالبان سے قریبی تعلق اس امر کا باعث بنا ہے کہ طالبان کے نوے فیصد سے زائد اراکین پاکستان کے مذہبی مدارس سے فارغ التحصیل ہوں۔ پاکستان کے شیعہ مخالف گروہوں از قبیل سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی، جیش محمد اور ہندوستان مخالف دہشت گرد گروہ جیسے لشکر طیبہ کی بڑی تعداد دینی مدارس سے فارغ التحصیل ہوئی ہے۔
پاکستان کے مذہبی مدارس میں سے مدرسہ حقانیہ کا ایک خاص اور اہم مقام ہے؛ کیونکہ طالبان کے زیادہ تر رہنما اس مدرسہ کے فارغ التحصیل ہیں۔ طالبان کمانڈر ملا عمر وہ پہلے اور آخری فرد ہیں؛ جنہیں اس مدرسہ سے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری ملی ہے۔ حقانیہ نیٹ ورک کے رہنما جلال الدین حقانی بھی ان افراد میں سے ہیں جنہوں نے مدرسہ حقانیہ میں تعلیم حاصل کی ہے۔
مدرسہ حقانیہ کے طلبہ بھی ملا عمر سے اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں؛ بالخصوص اس موقع پر کہ جب ملا عمر نے حضرت محمدؐ سے منسوب عبا زیب تن کی اور اپنے ساتھیوں کے ہمراہ اس شہر کی سڑکوں پر مارچ کیا۔
اسی طرح مدرسہ حقانیہ سے ہزاروں کی تعداد میں طلبہ افغانستان میں جہاد کیلئے روانہ ہوتے تھے۔ مولانا سمیع الحق جو طالبان کے روحانی باپ کی حیثیت سے معروف تھے؛ نے احمد رشید کے ساتھ اپنے انٹرویو میں کہا: ملا عمر نے بذات خود سنہ ۱۹۹۷ء میں مجھے ٹیلیفون کیا اور درخواست کہ مدرسہ حقانیہ کے فارغ التحصیل طلبہ کو افغانستان روانگی کی اجازت دوں۔ میں نے بھی ملا عمر کی ضرورت کے پیش نظر درس کو ترک کر کے طلبہ کی افغانستان روانگی کا فرمان صادر کر دیا۔ سمیع الحق طالبان کے ساتھ افغانستان جہاد میں شریک اسی ہزار پاکستانیوں کا مسئول تھا۔

← القاعدہ سے تعلقات


مدرسہ حقانیہ کا طالبان کے علاوہ القاعدہ اور اسامہ بن لادن کے ساتھ بھی قریبی تعلق تھا۔ اس مدرسہ نے سنہ ۱۹۹۸ میں بن لادن کے فتوے کی حمایت کی۔ بن لادن نے یہ مسئلہ اٹھایا کہ امریکہ اعلانیہ طور پر خدا، رسولؐ اور مسلمانوں کے خلاف جنگ میں کود پڑا ہے؛ لہٰذا اس کے خلاف فتویٰ جاری کر دیا۔ جہاد کے اصول سے استفادہ کرتے ہوئے اس فتوے میں استدلال کیا گیا کہ امریکہ کے حملے کے بعد مسلح جہدوجہد کی جائے اور امریکہ کے فوجیوں اور غیر فوجیوں کو نشانہ بنانا، ہر مسلمان پر واجب ہے۔ اس بیان میں یہودیوں کے خلاف جہاد کا ایک عالمی محاذ تشکیل دینے پر زور دیا گیا ہے کہ جس میں خطے کی جہادی تنظیمیں از قبیل جہاد اسلامی مصر اور جمیت علمائے پاکستان (جس کے سیکرٹری جنرل مولانا سمیع الحق تھے) شامل ہوں۔ مدرسہ حقانیہ کے طلاب بن لادن کو ایک عظیم مسلمان کے عنوان سےیاد کرتے تھے کہ جس نے اسلام کو کفار کی گزند سے دور رکھا۔
سمیع الحق نے دنیا کو دو حصوں دار الحرب اور دار الاسلام میں تقسیم کرنے کے بعد یہ خیال ظاہر کیا کہ امریہ کو دار الحرب میں تبدیل کرنے کی وجہ امریکی امپیریل ازم ہے کہ جس کے تحت وہ اسلامی دنیا کے خلاف نبرد آزما ہے۔ اس کے نزدیک اسرائیل ، روس ، ہندوستان ، امریکہ اور شمالی اتحاد (جو زیادہ تر تاجیکستانیوں اور افغانی شیعوں پر مشتمل ہے) اور تمام طالبان دشمنوں کے خلاف جہاد ایک مقدس جنگ ہے۔ مولانا سمیع الحق اور اس کے بیٹے رشید الحق کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ مدرسہ حقانیہ دہشت گردوں کی تربیت گاہ نہیں ہے؛ تاہم مدرسہ کے افکار سے یہ پتہ چلتا ہے کہ دہشت گردی کی کاروائیاں اور سلفی جہادی گروہوں کی حمایت یہاں کے طلاب کیلئے ایک جہادی امر اور ایک مقدس کام ہے۔
آخر میں یہ کہنا چاہئے کہ پاکستانی اور افغان طالبان کی تحریک اور بہت سے دیگر شدت پسند گروہ جیسے لشگر طیبہ، لشگر جهنگوی، حزب المجاهدین، لشگر رعد، حقانی نیٹ ورک، تحریک نفاذ شریعت محمدی، لشکر اسلام، پنجابی طالبان ، طالبان کا ملا نذیر گروپ، محسودی طالبان ، وزیرستان کے گل بہادری طالبان‌ ، انصارالاسیر، فقیر محمد کے طالبان، سوات کے طالبان ، جماعت الاحرار اور دیگر تمام دہشت گرد گروہ جو سلفی جہادی گروہوں کے عنوان سے خطے میں سرگرم عمل ہیں؛ پاکستان کے دیوبندی مدارس کے فارغ التحصیل ہیں۔ آج بھی دینی مدارس بالخصوص مولانا سمیع الحق کے مدرسہ حقانیہ کی اہمیت اور اثر و رسوخ اس قدر زیادہ ہے کہ افغانستان کے سیاسی عہدیدار طالبان کو جنگ بندی کیلئے مذاکرات کی طرف راغب کرنے کیلئے انہیں درخواست بھیجتے تھے۔

مربوط مقالات

[ترمیم]

پاکستان کی دیوبندی شخصیات اور مراکز؛ دیوبندی؛ دیوبندیت کے دینی افکار؛ دیوبندی علما کے عقائد؛ دیوبندی مشہور شخصیات؛ دارالعلوم دیوبند؛ دیوبندیت کا وہابیت سے امتیاز

ماخذ

[ترمیم]

مجله مطالعات راهبردی جهان اسلام، زمستان ۱۳۹۶ - شماره ۷۲ (‌۲۸ صفحه - از ۱۴۹ تا ۱۷۶)، ماخوذ از مقالہ «ساختار دیوبندیه در شبه قاره هند»، تاریخ نظر ثانی ۱۴۰۰/۰۹/۱۴۔    






جعبه ابزار