دبر (شرمگاہ کا پچھلا حصہ)

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



دُبُر عربی زبان کا لفظ ہے جس کا معنی پاخانے کا مقام یا شرمگاہ کا پچھلا حصہ کے ہے۔ عربی اور فارسی زبان میں اس کے مترادف کلمات مقعد اور مخرجِ غائط ہے۔


دبر کا لغوی معنی

[ترمیم]

آگے کے مقابلے میں پیچھے کو دُبُر کہتے ہیں۔ آگے کا حصہ قُبُل اور پیچھے دُبُر کہلاتا ہے۔ یہی سے یہ لفظ انسانی شرمگاہ کے لیے کنایہ کے طور پر استعمال ہونے لگا۔ ضروری نہیں ہے کہ لفظِ دبر سے ہر جگہ شرمگاہ کا معنی مراد لیا جائے بلکہ عربی زبان میں پیچھے کے معنی کو بیان کرنے کے لیے لفظِ دبر کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر یہ لفظ انسانی شرمگاہ کے لیے استعمال ہو تو اس کی جمع أَدۡبَار آتی ہے۔

انسان کی شرمگاہ

[ترمیم]

علم فقہ میں انسانی شرمگاہ کے پچھلے حصہ کے لیے لفظ دُبُر استعمال کیا جاتا ہے۔ علم فقہ کے مطابق خاتون کی شرمگاہ دو حصوں پر مشتمل ہوتی ہے: قُبُل یعنی پیشاب کا مقام اور دُبُر یعنی پاخانے کا مقام۔ جبکہ مرد کی شرمگاہ تین حصوں پر مشتمل ہوتی ہے:
۱۔ آلہ تناسل جسے عربی زبان میں قُبُل یا ذَکَر بھی کہا جاتا ہے۔ فقہی مسائل میں آلہ تناسل کے ابتدائی حصے جو ختنہ کی جگہ کہلاتی ہے کو حشفہ کہا جاتا ہے۔
۲۔ دونوں مثانے
۳۔ پاخانے کی جگہ، جسے دُبُر سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
ٹانگوں میں شرمگاہ کے پاس رانیں اور پیٹھ کا وہ حصہ جو بیٹھتے ہوئے زمین پر لگتا ہے شرمگاہ کا حصہ شمار نہیں ہوتا۔ اسی طرح خاتون کا سینہ اور بقیہ بدن شرمگاہ شمار نہیں ہوتا اگرچے بعض فقہی مسائل میں خاتون کا بدن مثل شرمگاہ کہلاتا ہے۔ مرد اور خاتون کی شرمگاہوں کے اطراف میں اُگے ہوئے بالوں کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ آیا وہ اس کا حصہ شمار ہوں گے اور ان کے متعلق احکام میں شامل ہوں گے یا نہیں؟

فقہی ابواب میں شرمگاہ کے متعلق مسائل

[ترمیم]

علم فقہ میں متعدد ابوابِ فقہی ہیں جن میں انسانی شرمگاہ سے متعلق احکام ذکر کیے گئے ہیں، مثلا باب طہارت، نماز، روزہ، حج، نکاح، طلاق، اور حدود میں شرمگاہ کے آگے اور پیچھے کے حصے جسے دبر کہتے ہیں کے متعلق احکام بیان کیے گئے ہیں۔ ذیل میں دُبُر سے متعلق بعض مسائل کو اجمالی طور پر ملاحظہ کرتے ہیں:

← دُبُر کا شمار شرمگاہ میں ہوتا ہے


علم فقہ کے مطابق دُبُر شرمگاہ کا حصہ شمار ہوتا ہے۔ شرمگاہ کا اطلاق جس طرح سے آگے کے حصے پر ہوتا ہے اسی طرح سے پچھلا حصہ بھی شرمگاہ کہلاتا ہے۔

← شرمگاہ کو چھپانا واجب ہے


شرمگاہ کو ہر دیکھنے والے سے چھپانا واجب ہے۔ اس حکم سے درج ذیل افراد جارج ہیں کہ ان سے شرمگاہ کو چھپانا واجب نہیں ہے:
۱۔ بیوی کے لیے شوہر سے شرمگاہ کو چھپانا واجب نہیں ہے اور شوہر کے لیے بیوی سے۔ پس میاں بیوی ایک دوسرے کی شرمگاہ دیکھ سکتے ہیں۔
۲۔ وہ بچہ جو ابھی ممیز نہیں ہے اور اچھے برے کی تمیز نہیں رکھتا۔
۳۔ کنیز کا اپنے مالک سے۔ اگر کنیز کسی کی زوجہ ہے یا اپنے شوہر کی عدت میں ہے یا محللہ ہے تو مالک سے شرمگاہ کو چھپانا واجب ہے۔ اگر مالکن ہو تو اس کے لیے یہ حکم نہیں ہے، اس لیے کنیز یا غلام کا اپنی مالکن سے اپنی شرمگاہ کا چھپانا واجب ہے۔

الوَطء فِی الدُّبُر یعنی دبر میں دخول کرنا

[ترمیم]

وطی فی الدبر یعنی شرعی طور پر مرد کا نکاح کے بغیر کسی بھی انسان یا حیوان کے مقامِ پاخانہ یعنی دُبُر میں اپنے آلہِ تناسل کو داخل کرنا حرام ہے اور شرائط پوری ہونے پر حد جاری ہونے کا باعث ہے۔

← اپنی زوجہ کے دبر میں دخول کرنا


نکاح کے بعد ہمبستری کے احکام میں وارد ہوا ہے کہ شوہر کے لیے زوجہ کے آگے سے دخول کرنا کسی قسم کی ممانعت نہیں رکھتا۔ لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا مقامِ پاخانہ یعنی دُبُر میں دخول کرنا جائز ہے یا نہیں؟ اس کو اصطلاح میں وَطِئ فِی الدُّبُر کہتے ہیں۔ اس بارے میں اختلاف وارد ہوا ہے۔ مشہور فقہاء شدید کراہت کے ساتھ جائز قرار دیتے ہیں۔ اگر خاتون اس عمل پر راضی نہ ہو یا ناقابل برداشت ضرر کا اندیشہ ہو تو اس صورت میں دُبُر میں دخول کرنا جائز نہیں ہے۔

مشہور کے قول کے برخلاف بعض فقہاء جیسے محقق خوئی دُبُر میں دخول کو حرام قرار دیتے ہیں۔

← حالت حیض میں زوجہ کے دبر میں دخول


مشہور قول کے مطابق اگر زوجہ حالتِ حیض میں ہو تو ایسی صورت میں آگے سے دخول حرام اور گناہِ کبیرہ ہے لیکن دُبُر میں دخول شدید کراہت رکھتا ہے۔ اس کے مقابلے میں بعض فقہاء مثل محقق خوئی نے احتیاطِ واجب کی بناء پر حالتِ حیض میں دُبُر میں دخول کو حرام قرار دیا ہے۔

← دبر میں دخول غسل کا سبب


جس طرح شرمگاہ کے آگے کے حصے میں دخول کرنے سے غسل واجب ہو جاتا ہے اسی طرح سے دُبُر میں بھی دخول غسل کا سبب ہے۔

← لواط


لواط گناہِ کبیرہ اور بدترین جرم ہے جو اس وقت متحقق ہوتا ہے مرد کسی مرد کے دُبُر میں آلہِ تناسل داخل کرے۔ یہ قبیح عمل حدّ جاری ہونے کا سبب قرار پاتا ہے۔ اس صورت لائط یعنی آلہ تناسل داخل کرنے پر اغلام کروانے والے کی ماں ، بہن اور بیٹی حرام ہو جاتی ہے ۔ فرق نہیں پڑتا اس عمل کو انجام دیتے ہوئے اغلام کروانے والا یعنی جس کے دبر میں دخول کیا گیا ہے بالغ تھا یا بالغ نہیں تھا۔ ہر دو صورتوں میں یہ حکم باقی رہے گا۔

← اجنبی خاتون سے لواط


اگر محارم یا نکاح کے بغیر اجنبی خاتون کے دُبُر میں دخول کیا جائے تو مشہور قول کی بناء پر یہ زنا شمار ہو گا اور زنا کی حد جاری ہونے کا باعث قرار پائے گا۔

←← ابو حنیفہ کا تعجب آور قول


فقہاء کرام کے نزدیک دبر میں دخول حد کے جاری ہونے کا سبب ہے۔ لیکن ابو حنیفہ کے نزدیک زوجہ یا بچہ یا اجنبی خاتون کے دبر میں دخول کرنا اگرچے حرام ہے لیکن ایسا کرنے کی صورت میں حد جاری نہیں ہو گی، جیساکہ علاء الدین حنفی تحریر کرتے ہیں: وَكَذَلِكَ الْوَطْءُ فِي الدُّبُرِ فِي الْأُنْثَى أَوْ الذَّكَرِ لَا يُوجِبُ الْحَدَّ عِنْدَ أَبِي حَنِيفَةَ وَإِنْ كَانَ حَرَامًا؛ اور اسی طرح اگر کسی مؤنث یا مذکر کے دبر میں دخول کیا جائے تو ابو حنیفہ کے نزدیک یہ حد جاری ہونے کا باعث نہیں بنے گا اگرچے یہ عمل خود حرام ہے۔

← زوجہ نو سال سے کم ہو تو نزدیکی حرام ہے


فقہاء متفق ہیں کہ اگر زوجہ نو (۹) سال سے کم عمر ہے تو اس کی شرمگاہ قُبُل اور دُبُر ہر دو مقام میں دخول حرام ہے۔

← حیوان کے دبر میں دخول


اگر کوئی شخص کسی مویشی یا حیوان کے قُبُل یا دُبُر میں کوئی دخول کرے تو اس پر وہی احکام لاگو ہوں گے جو اس عمل کو انسانوں کے ساتھ انجام دیتے ہوئے لاگو ہوئے تھے۔ مشہور کے مطابق حالتِ روزہ میں حیوان کے دُبُر میں دخول کرنے اور حالتِ احرام میں ایسا کرنے میں کوئی فرق نہیں ہے اور یکساں احکام جاری ہوں گے۔

اس صورت میں وہ حیوان جس کے قُبُل یا دُبُر میں دخول کیا گیا ہے اگر حلال گوشت جانور ہو تو وہ ہمیشہ کے لیے حرام ہو جاتا ہے، فرق نہیں پڑتا وہ جانور چھوٹا ہو یا بڑا، مذکر ہو یا مؤنث، احکام کو جانتا تھا یا نہیں، تمام صورتوں میں وہ جانور اور اس کے تمام اجزاء حرام ہو جاتے ہیں۔ نیز واجب ہے کہ اس جانور کو ذبح کر کے جلا دیا جائے۔

دبر میں دخول کے نتائج

[ترمیم]

جو آثار قُبُل میں دخول کی صورت میں مترتب ہوتے ہیں وہی آثار و احکام دُبُر میں دخول سے بھی متحقق ہوں گے، مثلا حالتِ جنابت کا طاری ہونا ، ازدواج کا حرام ہونا، پورا مہر کا شوہر کی گردن پر ثابت ہونا، حدِّ زنا کا ثابت ہونا، عدت ، اگر بچہ ہو جائے تو بچہ باپ سے ملحق ہو گا وغیرہ یہ تمام آثار دبر میں دخول ہونے سے لازم آئیں گے۔

البتہ احصان کا متحقق ہونا، خاتون کا تین طلاقوں کے بعد اپنے سابقہ شوہر کے ساتھ حلال ہونے کے لیے، اور ایلاء کی صورت میں رجوع کے لیے دبر میں دخول کرنا کافی نہیں ہے بلکہ ضروری ہے کہ خاتون کے قُبُل میں دخول کیا جائے تو یہ موارد متحقق ہوں گے۔ اسی طرح نکاح کے بعد زوجہ کا حق ہے کہ چار مہینوں میں سے ایک مرتبہ واجب ہے کہ شوہر زوجہ کے قُبُل میں دخول کرے، یہ حق دُبُر میں دخول کرنے سے ادا نہیں ہوتا بلکہ ضروری ہے کہ قُبُل میں دخول کیا جائے۔

دُبُر میں دخول کرانے سے انکار پر ناشزہ ہونا

[ترمیم]

نکاح کے بعد خاتون پر واجب ہے کہ اپنے آپ کو جنسی استفادہ کے لیے شوہر کے سپرد کر دے اور اس مسئلہ میں شوہر کی اطاعت کرے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر شوہر اپنی زوجہ کو دُبُر میں دخول کرانے کا تقاضا کرے اور خاتون یہ بات ماننے سے انکار کر دے تو کیا زوجہ ناشزہ شمار ہو گی یا نہیں؟ اس میں اختلاف وارد ہوا ہے۔
[۴۸] اشتہاردی، علی پناہ، مدارک العروة الوثقی، ج۲۹، ص۱۴۰۔


بعض دیگر اہم احکام

[ترمیم]

۱۔ میت کو جب غسل دیا جاتا ہے تو مستحب ہے کہ میت کے دُبُر میں روئی کا ٹکڑا رکھا جائے تاکہ نجاست نہ نکلنے پائے۔

۲۔ حالتِ وضو میں اگر کوئی شخص دُبُر کو لمس کرتا ہے یا ہاتھ لگاتا ہے تو اس سے وضو باطل نہیں ہوتا۔ اگرچے دُبُر کو ہاتھ لگانے کے بعد دوبارہ سے وضو کرنا مستحب ہے۔ بعض قدماء سے نقل ہوا ہے کہ دُبُر کو لمس کرنے سے وضو باطل ہو جاتا ہے۔ بعض فقہاء کے نزدیک ایسی صورت میں وضو کا مستحب ہونا ثابت نہیں ہے۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. فیومی، احمد بن محمد، المصباح المنیر، ج ۱، ص ۱۰۰۔    
۲. ابن فارس، احمد، معجم مقاییس اللغۃ، ج ۲، ص ۳۲۴۔    
۳. طباطبائی یزدی، سید محمد کاظم، العروۃ الوثقی، ج ۱، ص ۳۲۱۔    
۴. خمینی، سید روح اللہ، تحریر الوسیلۃ، ج ۱، ص ۱۷۔    
۵. سیستانی، سید علی حسینی، منہاج الصالحین، ج ۱، ص ۱۷۴۔    
۶. نجفی جواہری، محمد حسن، جواہرالکلام، ج۲، ص ۶۔    
۷. نجفی جواہری، محمد حسن، جواہر الکلام ج۸، ص ۱۸۲۔    
۸. طباطبائی یزدی، سید محمد کاظم، العروة الوثقی‌، ج۱، ص ۳۲۰۔    
۹. نجفی جواہری، محمد حسن، جواہرالکلام، ج۲،ص ۲- ۶۔    
۱۰. خمینی، سید روح اللہ، تحریر الوسیلۃ، ج ۲، ص ۲۵۹۔    
۱۱. طباطبائی یزدی، سید محمد کاظم، العروۃ الوثقی، ج ۲۹، ص ۴۹۶۔    
۱۲. نجفی جواہری، محمد حسن، جواہرالکلام، ج۲۹، ص۱۰۳- ۱۱۱۔    
۱۳. تبریزی، میرزا جواد، صراط النجاۃ، ج ۲، ص ۳۵۶۔    
۱۴. تمام مراجع عظام، رسالہ توضیح المسائل (مراجع)، ج ۱، ص ۲۶۰۔    
۱۵. نجفی جواہری، محمد حسن، جواہر الکلام، ج ۲۹، ص ۱۰۶۔    
۱۶. خوئی، سید ابو القاسم، منہاج الصالحین، ج ۱، ص ۶۳۔    
۱۷. نجفی جواہری، محمد حسن، جواہرالکلام، ج۳، ص۲۲۸۔    
۱۸. خوئی، سید ابو القاسم، منہاج الصالحین، ج ۱، ص ۴۶۔    
۱۹. نجفی جواہری، محمد حسن، جواہرالکلام، ج۴۱، ص۳۷۴-۳۷۸۔    
۲۰. تمام مراجع، رسالہ توضیح المسائل (مراجع)، ج ۲، ص ۴۷۳۔    
۲۱. نجفی جواہری، محمد حسن، جواہر الکلام، ج۴۱، ص۲۶۰۔    
۲۲. علاء الدین کاسانی، ابو بکر بن مسعود، بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع، ج ۷، ص ۳۴۔    
۲۳. خمینی، سید روح اللہ، تحریر الوسیلۃ، ج ۲، ص ۲۵۹۔    
۲۴. نجفی جواہری، محمد حسن، جواہر الکلام، ج۲۹، ص۴۱۶۔    
۲۵. نجفی جواہری، محمد حسن، جواہر الکلام، ج۳۶، ص۲۸۴۔    
۲۶. نجفی جواہری، محمد حسن، جواہر الکلام، ج۴۱، ص۶۳۶۔    
۲۷. نجفی جواہری، محمد حسن، جواہر الکلام، ج۱۶، ص۲۱۹- ۲۲۰۔    
۲۸. نجفی جواہری، محمد حسن، جواہر الکلام، ج۱۸، ص۲۹۷۔    
۲۹. نجفی جواہری، محمد حسن، جواہر الکلام، ج۲۰، ص۳۴۹-۳۵۱۔    
۳۰. خمینی، سید روح اللہ، تحریر الوسلیۃ، ج ۲، ص ۱۷۱۔    
۳۱. خوئی، سید ابو القاسم، منہاج الصالحین، ج ۲، ص ۳۴۵۔    
۳۲. نجفی جواہری، محمد حسن، جواہر الکلام، ج۳، ص۳۱۔    
۳۳. بحرانی، یوسف، الحدائق الناضرة،ج۳، ص۴۔    
۳۴. نجفی جواہری، محمد حسن، جواہر الکلام، ج۲۹، ص۳۴۹۔    
۳۵. نجفی جواہری، محمد حسن، جواہرالکلام، ج۳۱، ص۷۵۔    
۳۶. حکیم، سید محسن، مستمسک العروۃ الوثقی، ج ۱۴، ص ۶۵۔    
۳۷. نجفی جواہری، محمد حسن، جواہر الکلام، ج۳۲، ص۱۲۰۔    
۳۸. نجفی جواہری، محمد حسن، جواہر الکلام، ج۳۲، ص۲۱۱- ۲۱۳۔    
۳۹. نجفی جواہری، محمد حسن، جواہر الکلام، ج۳۱، ص ۲۲۲۔    
۴۰. نجفی جواہری، محمد حسن، جواہر الکلام، ج۲۹، ص۱۱۰۔    
۴۱. نجفی جواہری، محمد حسن، جواہر الکلام ج۴۱، ص۲۷۲۔    
۴۲. نجفی جواہری، محمد حسن، جواہر الکلام، ج۳۲، ص۱۶۰- ۱۶۱۔    
۴۳. نجفی جواہری، محمد حسن، جواہر الکلام، ج۳۳، ص۳۳۰۔    
۴۴. شہید ثانی، زین الدین، مسالک الافہام، ج۱۰، ص۱۵۸- ۱۵۹۔    
۴۵. طباطبائی یزدی، سید محمد کاظم، العروة الوثقی‌، ج۵، ص۵۰۰۔    
۴۶. حکیم، سید محسن، مستمسک العروة الوثقی، ج۱۴، ص۶۷۔    
۴۷. نجفی جواہری، محمد حسن، جواہر الکلام، ج۳۱، ص ۳۰۳۔    
۴۸. اشتہاردی، علی پناہ، مدارک العروة الوثقی، ج۲۹، ص۱۴۰۔
۴۹. نجفی جواہری، محمد حسن، جواہر الکلام، ج۴، ص۲۰۶- ۲۰۷۔    
۵۰. نجفی جواہری، محمد حسن، جواہر الکلام، ج۱، ص۴۱۷-۴۱۸۔    
۵۱. بحرانی، یوسف، الحدائق الناضرة، ج۲، ص۱۱۲- ۱۱۵۔    


مأخذ

[ترمیم]

فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت علیہم السلام، ج‌۳، ص ۵۸۴۔    
متعدد حوالہ جات اور بعض مطالب محققینِ ویکی فقہ اردو کی جانب سے اضافہ کیے گئے ہیں۔






جعبه ابزار