دلالت ایجادی

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



دلالت ایجادی سے مراد مخاطب کے سامنے مصداقِ خارجی کو پیش کر کے ذہن میں معنی کو منتقل کرنا ہے۔


دلالت ایجادی کی تعریف

[ترمیم]

دلالت حکایتی کے مقابلے میں دلالتِ ایجادی آتا ہے۔ اس سے مراد مخاطب کے ذہن میں معنی کی صورت کو خارج میں معنی ایجاد کر کے ابھارنا ہے، اس طرح سے کہ خارج میں مخاطب کے سامنے مصداق کو حاضر کر دیا جائے اور مصداقِ خارجی کو دیکھ کر مخاطب کے ذہن میں معنی منتقل ہو جائے، مثلاً شیر جوکہ ایک درندہ ہے، آپ کسی شخص کو شیر کا معنی سمجھانا چاہتے ہیں، ایسے میں آپ لفظِ شیر کی بجائے خودِ شیر کو مخاطب کے سامنے لے آئیں اور شیر کو دیکھ کر مخاطب کے ذہن میں معنی منتقل ہو جائے۔ مصداقِ خارجی کی معنی پر دلالت کو دلالتِ ایجادی کہیں گے۔ اس مثال میں خارج میں حاضر ہونے والا شیر دال کہلائے گا اور ذہنِ مخاطب میں ابھرنے والا معنی مدلول کہلائے گا۔

دلالتِ ایجادی میں بغیر واسطہ کے دلالت کا ہونا

[ترمیم]

دلالتِ ایجادی میں براہ راست اصلِ صورت مخاطب کے ذہن میں حاضر ہوتی ہے؛ بغیر اس کے کہ کسی اور صورت یا شیء کا سہارا لیا جائے، بلکہ خود مصداقِ خارجی کو حاضر کر کے براہ راست معنی تک رسائی حاصل کر لی جاتی ہے۔ یعنی دلالتِ ایجادی کا قوام اور اعتماد تلازمِ تکوینی پر ہوتا ہے۔ اس نوعِ دلالت میں مخاطب کے نزدیک سامنے حاضر ہونے والی شیء اور ذہن میں حاضر ہونے والی صورت کے درمیان تلازمِ تکوینی پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے کسی قسم کی اعتبار یا جعل کی حاجت پیش نہیں آتی، مثلا اس امر کی نوبت پیش نہیں آتی کہ مخاطب تک معنی منتقل کرنے کے لیے پہلے لفظ یا کسی علامت کو جعل اور اعتبار کیا جائے اور پھر اس کے ذریعے معنی کو ذہن تک منتقل کر دیا جائے۔ انسان اپنی زندگی میں طبیعی طور اسی طرح سے معلومات کو اکٹھا کرتا ہے اور اشیاء کو سامنے دیکھ ان کے معنی کو حاصل کرتا ہے۔ بس دلالتِ ایجادی وہ پہلی دلالت ہے جو ذہنِ بشری تک معلومات کو منتقل کرتی ہے اور انسان کے علم کے کسب کرنے کا باعث بنتی ہے۔

دلالت ایجادی اور دلالت حکایتی میں فرق

[ترمیم]

دلالتِ ایجادی اور دلالت حکایتی میں چند فروق کو ملاحظہ کیا جا سکتا ہے:
۱ ـ دلالتِ حکایتی میں ذہنِ انسانی براہ راست اور بغیر کسی واسطہ کے معنی تک منتقل نہیں ہوتا بلکہ وہ معنی تک پہنچنے کے لیے کسی تصور (تصورِ لفظ) کا محتاج ہے تاکہ اس کے ذریعے سے معنی تک پہنچے۔ جبکہ دلالتِ ایجادی میں بغیر کسی توسط اور واسطے کے ذہن میں معنی حاضر ہو جاتا ہے۔
۲ ـ دلالتِ ایجادی میں فقط امورِ جزئی ذہن میں آتے ہیں اور ان کا تصور قائم ہوتا ہے۔ مفاہیمِ کلی چونکہ براہ راست خارج سے حاصل نہیں کیے جاتے اس لیے وہ دلالتِ ایجادی کے دائرے میں نہیں آتے۔ اس کے برخلاف دلالتِ حکایتی میں جہاں مفاہیمِ جزئی کا تصور ممکن ہے وہاں مفاہیم کلی کا تصور بھی کیا جا سکتا ہے۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. بحوث فی علم الاصول، صدر، سید محمد باقر، ج۱، ص۱۴۳-۱۴۴۔    


مأخذ

[ترمیم]

فرہنگ‌ نامہ اصول فقہ، تدوین توسط مرکز اطلاعات و مدارک اسلامی، ص۴۵۷،، مقالہِ دلالت ایجادی سے یہ تحریر لی گئی ہے۔    






جعبه ابزار