دلالت جعلی

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



دلالتِ جعلی جسے دلالتِ وضعی بھی کہا جاتا ہے سے مراد واضع کے توسط سے دو اشیاء کے درمیان تلازم ایجاد ہونے کی بناء پر دلالت کا ہونا ہے۔ یہ دلالت واضع کے وضع کرنے کی بناء پر وجود میں آتی ہے۔


اصطلاح کی وضاحت

[ترمیم]

دلالتِ ذاتی کے مقابلے میں دلالتِ وضعی شمار کی جاتی ہے۔ یہ دلالت اس جگہ ہوتی ہے جہاں واضع کے وضع کرنے کی وجہ سے دو اشیاء میں تلازم ایجاد ہوتا ہے اور ایک شیء دوسری پر دلالت کرتی ہے، مثلا الفاظ کو معانی کے لیے وضع کیا جائے اور ان میں تلازم ایجاد ہونے کے بعد الفاظ کی معانی پر دلالت دلالتِ وضعی کہلائے گی۔ دلالتِ وضعی میں لفظ دال اور معنی مدلول کہلائے گا۔ اسی طرح اشارات اور رموز ہیں جیسے علم ریاضی اور علم ہندسہ میں مختلف قسم کی اشکال اور رموز ہیں یا رہنمائی کے لیے مختلف قسم کے اشارات وضع کیے جاتے ہیں، ان میں دلالتِ وضعی پائی جاتی ہے۔ رمز یا اشارہ دال اور جس معنی کو بیان کر رہا ہے وہ مدلول کہلائے گا۔

دلالت وضعی کی شرائط

[ترمیم]

دلالتِ وضعی کے وجود اور دلالت کے لیے درج ذیل شرائط ہونا ضروری ہے:
۱۔ واضع نے دال کو وضع کیا ہو تاکہ وہ مدلول پر دلالت کرے۔
۲۔ واضع کے وضع کرنے کے بعد اس وضع کا علم انسان کو ہونا چاہیے۔
۴۔ علم اس درجہ پر ہو کہ دال اور مدلول کے درمیان تلازم ایجاد ہو تاکہ دال کے تصور سے مدلول کا تصور ذہن میں آئے۔

دلالتِ وضعی کس نوع کی دلالت ہے؟

[ترمیم]

دلالتِ وضعی کا تعلق آیا دلالتِ تصوری سے ہے یا دلالتِ تصدیقی سے؟ اس بارت مین علماءِ اصول میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ مشہور قائل ہیں کہ دلالتِ وضعی کا تعلق دلالتِ تصوری سے ہے اور اس کے مدلول کو مدلول تصوری کہا جاتا ہے جس میں لفظ سنتے ساتھ ذہن مدلول تک پہنچ جاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں بعض علماء ہیں جو قائل ہیں کہ دلالتِ وضعی کا تعلق دلالتِ تصدیقی سے ہے۔
[۳] شرح المنظومۃ - منطق، سبزواری، ہادی بن مہدی، ص ۱۰۳۔
[۴] رہبرخرد، شہابی، محمود، ص ۱۷۔
[۵] الکبری فی المنطق، جرجانی، علی بن محمد، ص ۱۷۲۔
[۶] منطق صوری، خوانساری، محمد، جزء۱، ص ۵۸۔
[۸] درة التاج، منطق، قطب الدین شیرازی، محمود بن مسعود، جزء۲، ص ۱۴۔
[۹] فرصت اشکال المیزان، شیرازی، محمد نصیر بن جعفر، ص ۸۔
[۱۰] منطق مقارن، گرامی، محمد علی، ص ۴۵۔
[۱۱] تحریر القواعد المنطقیۃ فی شرح رسالۃ الشمسیۃ، قطب الدین رازی، محمد بن محمد، ص ۲۹۔


حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. الجوہر النضید، علامہ حلی، حسن بن یوسف، ص ۸۔    
۲. اساس الاقتباس، نصیر الدین طوسی، محمد بن محمد، ص ۶۳۔    
۳. شرح المنظومۃ - منطق، سبزواری، ہادی بن مہدی، ص ۱۰۳۔
۴. رہبرخرد، شہابی، محمود، ص ۱۷۔
۵. الکبری فی المنطق، جرجانی، علی بن محمد، ص ۱۷۲۔
۶. منطق صوری، خوانساری، محمد، جزء۱، ص ۵۸۔
۷. المنطق، مظفر، محمد رضا، ص ۳۷-۳۸۔    
۸. درة التاج، منطق، قطب الدین شیرازی، محمود بن مسعود، جزء۲، ص ۱۴۔
۹. فرصت اشکال المیزان، شیرازی، محمد نصیر بن جعفر، ص ۸۔
۱۰. منطق مقارن، گرامی، محمد علی، ص ۴۵۔
۱۱. تحریر القواعد المنطقیۃ فی شرح رسالۃ الشمسیۃ، قطب الدین رازی، محمد بن محمد، ص ۲۹۔


مأخذ

[ترمیم]

فرہنگ‌ نامہ اصول فقہ، تدوین توسط مرکز اطلاعات و مدارک اسلامی، ص۴۶۶، مقالہِ دلالتِ وضعی سے یہ تحریر لی گئی ہے۔    






جعبه ابزار