دیوبندی فرقے کے مذہبی نظریات

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



مکتبِ دیوبند یا اہل سنت کے حنفی مسلک کا ایک فرقہ بر صغیر میں برطانیہ کی استعماری حکومت کے خلاف جدوجہد ، دین اسلام کے احیا اور دینی حیات کی تجدید کی غرض سے وجود میں آیا۔ہندوستان کی تقسیم کے بعد اس کا مرکز پاکستان کے دارالعلوم حقانیہ میں منتقل ہو گیا ۔ اس مدرسہ نے سلفی جہادی گروہوں کی تاسیس اور تربیت میں نمایاں کردار ررہا ہے۔یہ فرقہ فقہی اعتبار سے حنفی اور کلام میں ماتریدی ہے جبکہ شاہ ولی اللہ دہلوی کے افکار اور نظریات سے متاثر ہے۔
اس گروہ نے وہابیت سے گہرا تعلق قائم رکھا ، حالانکہ عقائد کے اعتبار سے ان کے درمیان گہرے اختلافات موجود ہیں۔ برصغیر کی تقسیم سے پہلے دیوبندی مکتب کی مضبوط علمی بنیادیں تھیں اور یہ اعتدال پسند تصوف کی طرف مائل تھا نیز اس مکتب نے بڑے علماء کی تربیت کی جبکہ موجودہ دور میں یہ تصوف کا مخالف حتی سخت دشمن ہے۔ برصغیر کی تقسیم کے بعد، اس فرقہ نے علمی اعتبار سے اپنا مقام کلی طور پر کھو دیا ہے اور صرف سیاسی اور سماجی اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے۔ اس وقت پاکستان میں موجود دیوبندی مدارس مذہبی علماء کی تربیت کی بجائے طالبان یا دیگر عناوین کے تحت نوجوانوں کو داخلہ دیتے ہیں۔


عظیم نظریاتی شخصیت

[ترمیم]

دیو بند فرقے کے نظریات کی بنیاد، «شاہ ولی اللہ دہلوی» کے افکار اور نظریات سے ماخوذ ہے اور « شاہ ولی اللہ دہلوی» کو پچھلی چند صدیوں کے دوران برصغیر کے مسلمانوں کی عظیم ترین مذہبی شخصیت قرار دیا جا سکتا ہے۔ دارالعلوم دیوبند کے بانی نانوتوی کے بقول دیوبند ، مسلک اور روایت کے اعتبار سے «شاہ ولی اللہ دہلوی» کے خط پر ہے اور ان سے منسوب ہے۔ درحقیقت پاکستان اور ہندوستان کے تمام معاصر مذہبی گروہوں پر ان کے عقائد او ر نظام فکر کے کم وبیش اثرات نمایاں ہیں۔

سب سے اہم مقصد

[ترمیم]

اس فرقے کا سب سے اہم مقصد، دین اسلام کا احیاء اور دینی حیات کی تجدید تھا ۔ شاہ ولی اللہ کی وہ کوششیں اور اقدامات قابل تعریف ہیں کہ جن کا ہدف مذاہب اور مختلف فقہی، کلامی اور صوفیانہ مکاتب کے مابین صلح و ہم آہنگی کا قیام نیز مسلمان افراد اور معاشروں کی مادی و روحانی زندگی کو منظم کرنے کیلئے ایک مربوط نظام فکر پیش کرنا تھا۔ «دار العلوم دیوبند»یہ سمجھتا ہے کہ تمام میدانوں اور موضوعات میں دین کا دفاع کر رہا ہے۔یہ کہتا ہے:
اگر عقل کی جانب سے کوئی فتنہ ہو اور آزاد اندیشی یا اجتہاد کے نام پر سلف کی پیروی سے منع کرے یا تصوف کے نام پر لوگوں میں بدعت یا ضعیف روایات کو رائج کرنے کی کوشش ہو تو دار العلوم دیوبند اس کے خلاف قیام، جدوجہد اور دین کے دفاع کو اپنی ذمہ داری سمجھتا ہے۔
دار العلوم دیوبند اپنے فہم اور پروگراموں کو ہی دین سمجھتا ہے اور اس کے علاوہ ہر طرح کی فکر اور سوچ کو بدعت اور دین سے انحراف تصور کرتا ہے۔اسی لئے دارالعلوم دیوبند کے فارغ التحصیل صرف اپنے طرز فکر کو دین سمجھتے ہیں اور یہ نہیں کہتے ہیں کہ یہ میرا یا ہمارا تصور ہے۔فکری جمود، خود کو سب کچھ سمجھنا اور دوسروں کی نفی ؛ اس گروہ کی نمایاں خصوصیت ہے۔ اب «طالبان» کے نام پر جنہوں نے « افغانستان» میں حکومت سنبھالی اور جو کچھ کیا ؛ یہ بالکل دیوبندیت سے جنم لینے والے افکار کے مطابق تھا۔

دہلوی کے افکار کا مرہون منت

[ترمیم]

دیوبند ی مکتب کہ جس کا مرکز پاکستان میں ہے «مدرسہ دارالعلوم» کی تاسیس سے لے کر اب تک، دوسرے گروہوں سے زیادہ خود کو« شاہ ولی اللہ دہلوی» کے افکار اور نظریات کا مرہون منت اور ان کے فروغ کا باعث تصور کرتا ہے۔ اسلامی حکومت یا وہی (امارت اسلامی) کی تشکیل، «شاہ ولی اللہ دہلوی» کے سیاسی افکار کی امنگوں میں سے ایک ہے کہ جسے قائم کرنے کے لئے بہت سی دیوبندی جماعتیں سر گرم عمل ہیں۔

جمیعت علمائے ہند

[ترمیم]

ہندوستان اور پاکستان کی تاسیس اور برصغیر کی تقسیم سے پہلے دیوبندی علماء نے « جمعیت علماء ہند » کی سنہ ۱۹۱۹ ء میں اس وقت بنیاد رکھی جب ہندوستان میں « تحریک خلافت» چلائی جا رہی تھی۔ جمعیت علمائے ہند اور تمام دیوبندی علماء، ہندوستان سے مسلمانوں کی علیٰحدگی اور مسلمانوں کے ایک آزاد ملک کی تاسیس کے مخالف تھے کہ جس کی تحریک سنہ ۱۹۳۰ ء اور ۱۹۴۰ء کی دہائیوں میں محمد علی جناح اور «مسلم لیگ ہندوستان » کی قیادت میں جاری تھی۔ اس مخالفت کی وجہ یہ تھی کہ وہ لوگ مسلمانوں کیلئے آزاد ملک کے قیام کو انگریزوں کا استعماری ایجنڈا سمجھتے تھے۔
[۱] احمدی‌منش، محمد، نگاہی بہ‌ تاریخ‌ مکتب‌ دیوبندی، از آغاز تا امروز، (۱۳۹۲)، نشر مرکز اسناد مجلس شورای‌ اسلامی۔


ہندوستان کی تقسیم سے پہلے اور بعد میں

[ترمیم]

بر صغیر کی تقسیم سے پہلے، دیوبندی فرقہ کی چڑیں مضبوط تھیں اور یہ ایک مضبوط فرقہ تھا۔ اس دوران دیوبندی فرقہ اعتدال پسند تصوف کی طرف مائل تھا اور بنیادی طور پریہ لوگ مکتبِ چشتیہ کے پیروکار تھے جبکہ عصر حاضر میں دیوبندی گروہ تصوف بالخصوص بریلوی مکتب کا مخالف ہے بلکہ ان کے ساتھ شدید دشمنی رکھتا ہے۔
پاکستان کے موجودہ دیوبندی فرقے کا قیامِ پاکستان سے قبل کے دیوبندی فرقے کے ساتھ کچھ امور میں فرق ہے۔ البتہ صوفیانہ رسومات و آداب جو برصغیر کے مسلمانوں میں ہمیشہ رائج رہی ہیں؛ میں زیادہ روی کی مخالفت اور فرقہ واریت کی رگوں کے باوجود مسلمانوں کی ایک متحد حکومت کا قیام ایسے امور ہیں جو دونوں ادوار میں موجود رہے ہیں۔
برصغیر کی تقسیم کے بعد یہ فرقہ اپنے علمی مقام سے کلی طور پر محروم ہو چکا ہے اور صرف سیاسی اور سماجی اہمیت کا حامل رہ گیا ہے۔ یہی امر باعث بنا کہ اس سلفی دیوبندی گروہ نے نہ صرف اپنی مستقل حیثیت اور ذاتی تشخص کو بڑی حد تک کھو دیا ہے بلکہ حالیہ دہائیوں میں یہ وہابیت کے اثر و رسوخ کا شکار ہو چکا ہے اور یہاں تک کہ غیر ملکی بالخصوص «مغربی انیٹلی جنس ایجنسیاں » بھی دیوبندی سلفی جماعتوں پر غلبہ حاصل کر چکی ہیں۔

وہابیت کے ساتھ رابطہ

[ترمیم]

برصغیر کی تقسیم اور مسلمانوں کی پاکستان میں محوریت کے بعد اس گروہ کا اصل مرکز پاکستان میں منتقل ہو گیا اور دیوبندیت اور وہابیت کے درمیان قوی رابطہ قائم ہو گیا حالانکہ دیوبندیت اور وہابیت کے درمیان عقائد کے اعتبار سے گہرا اختلاف پایا جاتا ہے۔تاہم دیوبندیوں کے مذہبی مدارس کی جانب سے «وہابیت» سے مالی امداد اور ہتھیار دریافت کرنے کے سبب یہ گروہ وہابیت سے متاثر ہوا ہے۔ پاکستان کے موجودہ دیوبندی فرقے کا قیامِ پاکستان سے قبل کے دیوبندی فرقے کے ساتھ کچھ امور میں فرق ہے۔
اس وقت پاکستانی معاشرے میں دیوبندی فرقہ سلفی ادبیات سے پرورش پا رہا ہے اور بصورت حلقہ وار کام کر رہا ہے۔یہ اپنے علاوہ دیگر اقوام و مذاہب کے خلاف یکساں شدید موقف رکھتا ہے۔ بر صغیر اور پاکستان کی دیوبندیت؛ وہابی اور سلفی افکار کو پروان چڑھا رہی ہے جو سلفی جہادی گروہوں کے اہداف اور امنگوں کی جانب حرکت کرتے ہیں کہ جس کے لئے خاص دینی تعلیم کی ضرورت نہیں ہے ۔ یہ لوگ انٹیلی جنس ایجنسیوں کے زیر اثر ہیں۔ آج کل پاکستان کی دیوبندی جماعتوں اور ان سے وابستہ دینی مدارس کا تعارف نامور علمی شخصیات اور بڑے علماء کے نام سے نہیں ہوتا بلکہ انہیں مسلح، انتہا پسند اور دہشت گرد تکفیری تنظیموں یا انہی سلفی جہادی گروہوں کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔
اگر کسی وقت مکتبِ دیوبند کا اصل وطن ہندوستان تھا اور اس نے ممتاز علماء کی تربیت کی تھی لیکن اب اس کا مرکز پاکستان کے قبائلی علاقوں (شمال مغربی صوبہ سرحد) کی طرف منتقل ہو چکا ہے۔ آج اس مکتب فکرسے تعلق رکھنے والے اکثر علماء اور دینی رہنماؤں کا تعلق «پشتون» قبائلی علاقوں سے ہے اور ان کے نظریات اصل اور قدیم دیوبندی نظریات سے مکمل مطابقت نہیں رکھتے۔
دیوبندیوں کے موجودہ عقائد کی رو سے کفرو شرک بالخصوص شیعہ مذہب اور مقدس اولیاء کے خلاف جدوجہد کا واحد راستہ جہاد ہے۔ پس اس اعتبار سے دیوبندیت ؛ منحرف وہابیت کے ساتھ مشترک ہے۔
[۲] شفیعی، نوذر، ریشہ خشونت‌ہای پاکستان‌ در‌ دیوبندیسم و وہابیسم، (۱۳۹۲)، سایت پیام آفتاب۔


مربوط مقالات

[ترمیم]

پاکستان کی دیوبندی شخصیات اور مراکز؛ دیوبندی؛ دیوبندیت کے دینی افکار؛ دیوبندی علما کے عقائد؛ دیوبندی مشہور شخصیات؛ دارالعلوم دیوبند؛ دیوبندیت کا وہابیت سے امتیاز

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. احمدی‌منش، محمد، نگاہی بہ‌ تاریخ‌ مکتب‌ دیوبندی، از آغاز تا امروز، (۱۳۹۲)، نشر مرکز اسناد مجلس شورای‌ اسلامی۔
۲. شفیعی، نوذر، ریشہ خشونت‌ہای پاکستان‌ در‌ دیوبندیسم و وہابیسم، (۱۳۹۲)، سایت پیام آفتاب۔


ماخذ

[ترمیم]

مجلہ مطالعات راہبردی جہان اسلام، زمستان ۱۳۹۶ - شمارہ ۷۲ (‌۲۸ صفحہ - از ۱۴۹ تا ۱۷۶ )، ماخوذ از مقالہ «ساختار دیوبندیہ در شبہ قارہ ہند»، تاریخ نظر ثانی ۱۴۰۰/۰۹/۱۴۔    






جعبه ابزار