حدیث بالمعنی

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



حدیث بالمعنی سے مراد کلامِ معصوم ؑ کا مضمون ان کے الفاظ کے بغیر نقل کیا جانا ہے۔


اصطلاح کی وضاحت

[ترمیم]

سندی مرجَّحات کی اقسام میں سے ایک حدیث کو معنی کے اعتبار سے نقل کرنا ہے۔ اس کے مقابلے میں حدیث بالفظ ہے جس میں معصوم ؑ کے الفاظ اور معنی ہر دو کی رعایت کی جاتی ہے اور نقل کیا جاتا ہے۔ حدیث بالمعنی سے مراد کلامِ معصوم ؑ کو معنی کے اعتبار سے نقل کرنا ہے جبکہ الفاظ معصوم ؑ کے نہیں ہوتے۔ عموما یہ تب ہوتا ہے جب راوی اپنے الفاظ میں کلامِ معصوم ؑ کو پیش کرے۔

اگر دو ایسی روایات میں ٹکراؤ اور تعارض ہو جائے جن میں سے ایک روایت لفظ اور معنی ہر دو لحاظ سے معصوم ؑ سے نقل کی گئی ہو اور اس دوسری روایت میں صرف معنی کی رعایت کرتے ہوئے روایت کو نقل کیا گیا ہو یعنی حدیث بالمعنی بیان کی گئی ہو تو اس روایت کو ترجیح دی جائے گئی جس میں لفظ بھی معصوم کے ہیں، یعنی حدیث بالفظ ہے۔

کتاب معالم الاصول میں بیان

[ترمیم]

کتاب معالم الاصول میں مذکور ہے:
ومنها الترجیح باعتبار الروایة فیرجح المروی بلفظ المعصوم علی المروی بمعناه وحکی المحقق رحمه الله عن الشیخ أنه قال: إذا روی احد الراویین اللفظ و الآخر المعنی وتعارضا، فان کان راوی المعنی معروفا بالضبط والمعرفة فلا ترجیح بینهما وان لم یوثق منه بذلک ینبغی أن یوخذ المروی لفظا ثم قال المحقق رحمه الله وهذا حق لانه أبعد من الزلل؛ مرجحات میں سے ایک روایت کے اعتبار سے ترجیح ہے، پس معصوم ؑ سے صادر ہوئے الفاظ کے ساتھ جس کو روایت کیا گیا ہے اس کو روایت بالمعنی پر ترجیح دی جائے گی، محقق رحمہ اللہ نے شیخ سے حکایت کی ہے کہ وہ کہتے ہیں: اگر دو روایتوں میں سے ایک لفظ کے اعتبار سے اور دوسری فقط معنی کے اعتبار نقل کی جائے اور دونوں میں تعارض و ٹکراؤ ہو جائے اور معنی کے اعتبار سے روایت نقل کرنے والا راوی معروف ہو، اس کی یاداشت و حافظہ صحیح ہو اور اچھی طرح جاننے والا ہو تو ٹکراؤ کی صورت میں کسی روایت کو ترجیح نہیں دی جائے گی، لیکن اگر ان خصوصیات کے ساتھ اس کی توثیق نہ کی گئی ہو تو ضروری ہے کہ وہ روایت جس میں لفظ بھی معصوم ؑ کے ہیں اس کو دوسری پر ترجیح دی جائے۔ پھر محقق رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہ بات حق ہے کیونکہ یہ پھسلن اور ڈگمگاہٹ سے بہت دور ہے۔
[۳] عزیز برزنجی، عبد اللطیف عبد الله، التعارض و الترجیح بین الادلۃ الشرعیۃ، ج۲، ص۱۸۸۔
[۵] جزائری، محمد جعفر، منتہی الدرایۃ فی توضیح الکفایۃ، ج۸، ص۲۰۸۔
[۶] محمدی، علی، شرح رسائل، ج۷، ص۱۵۹۔


حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. صاحب معالم، حسن بن زین الدین، معالم الدین و ملاذ المجتہدین، ص ۲۵۲-۲۵۱۔    
۲. طوسی، محمد بن حسن، عدة الاصول، ص۳۸۳۔    
۳. عزیز برزنجی، عبد اللطیف عبد الله، التعارض و الترجیح بین الادلۃ الشرعیۃ، ج۲، ص۱۸۸۔
۴. انصاری، مرتضی بن محمد امین، فرائد الاصول، ج۴، ص۷۶۔    
۵. جزائری، محمد جعفر، منتہی الدرایۃ فی توضیح الکفایۃ، ج۸، ص۲۰۸۔
۶. محمدی، علی، شرح رسائل، ج۷، ص۱۵۹۔


مأخذ

[ترمیم]

فرہنگ‌نامہ اصول فقہ، تدوین توسط مرکز اطلاعات و مدارک اسلامی، برگرفتہ از مقالہ نقل بہ معنا۔    






جعبه ابزار