روایت کافر

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



روايتِ كافر علم حدیث كى اىك اصطلاح ہے جس سے مراد وہ حديث ہے جو کافر كے توسط سے نقل كى گئى ہو۔


اصطلاح كى وضاحت

[ترمیم]

علومِ حدىث كے ماہرىن نے اىك راوى مىں جن شرائط كو معتبر قرار دىا ہے ان مىں سے اىك راوی ميں اسلام كا ہونا ہے۔ ىعنى ضرورى ہے كہ راوى مسلمان ہو۔ پس كافر كى رواىت قبول نہىں ہے۔
بعض محققىن كا كہنا ہے كہ آئمہِ حدیث اور علماءِ اصول فقہ متفق ہىں كہ راوى كا مسلمان ہونا اس وقت شرط ہے جب وہ كوئى رواىت نقل كرے اگرچے جب اس نے رواىت كو تحمل كىا تھا اور حدىث كو اخذ كىا تھا تو اس وقت وہ مسلمان نہىں تھا، مثلًا اىك شخص نے جب رواىت كو لىا تو وہ اس وقت مسلمان نہىں تھا، لىكن بعد وہ مسلمان ہو گىا اور حالتِ اسلام مىں اس نے رواىت كو نقل كىا۔ اىسى صورت مىں اس كى رواىت پر رواىتِ كافر كا اطلاق نہىں ہو گا كىونكہ راوى مىں اسلام و مسلمان ہونا رواىت كو نقل كرنے كى شرط ہے نہ كہ يہ رواىت كو تحمل كرنے كى شرط ہے۔

روايتِ كافر كا غىر معتبر ہونا

[ترمیم]

كافر كى رواىت قابل قبول نہىں ہے۔ اگر اس كى رواىت سے علم حاصل ہوتا ہو تو اس كى رواىت غىر معتبر قرار پائے گى۔ كىونكہ جھوٹ سے اجتناب كرنا جزءِ دین ہے۔ اس بارے مىں چند دلائل پىش خدمت ہىں:
دليل ۱: آیت كرىمہ مىں ارشادِ بارى تعالى ہوتا ہے: «ان جائکم فاسق بنبأ»۔ آىت مىں فاسق كى خبر كى تحقىق كے بارے مىں حكم دىا گىا ہے جس كا لازمہ ىہ ہے كہ بدرجہ اولى كافر كى رواىت قابل قبول نہىں ہے۔ فسق كافر كو بھى شامل ہے اور جب فاسق كى خبر جانچ پڑتال اور تحقىق كے بغير لىنے سے منع كىا گىا ہے تو بدرجہ اولى ىہ حكم كافر كى رواىت كو بھى شامل ہو جائے گا۔

← اس ضابطہ پر اعتراض اور جواب


ممكن ہے كہ ىہاں كوئى ىہ اعتراض كرے كہ وصیت كے مورد مىں کافر کی گواہی قبول كى گئى ہے اور اگر مقامِ روايت كا مقاىسہ مقامِ شہادت سے كيا جائے تو تو معلوم ہو گا كہ مقامِ شہادت قوى اور مقامِ رواىيت اس كے مقابلے ميں كمزور ہے۔ لہذا كىسے كہا جا سكتا ہے كہ رواىتِ كافر قابل قبول نہىں !!
اس كے جواب مىں كہا جائے گا كہ راوى كے اسلام و مسلمان ہونے كى شرط خصوصى طور پر نص مىں وارد ہوئى ہے۔ اگر اس عموم سے كوئى مورد خارج ہو جاتا ہے تو صرف وہ خاص مورد اس ضابطہ سے خارج ہو گا جبكہ بقيہ موارد عمومى حكم كے تحت آئيں گے اور اس طرح دىگر موارد مىں اس ضابطہ كا اعتبار باقى رہے گا۔
دليل ۲: کافر ظالم ہے اور ظالم كى خبر قبول كرنا جائز نہىں ہے ۔ پس كافر كى خبر قبول نہىں كى جائے گى۔
دليل ۳: كافر كى گواہى كى عدمِ قبولىت اور اس كى وصىت كے عدمِ جواز كى دلىل سے استفادہ ہوتا ہے كہ كافر كى خبر قابل قبول نہىں ہے۔
دليل ۴: اگر كافر كى خبر كو قبول كر لىا جائے تو اس كا لازمہ ىہ نكلے گا كہ مسلمان اور كافر برابر ہىں جبكہ آىت كرىمہ كے مطابق اللہ كے نزدىك دونوں برابر نہىں ہيں جىساكہ ارشادِ بارى تعالى ہوتا ہے: «افمن کان مؤمناً کمن کان فاسقاً لا یستوون» ، كىا جو شخص مومن ہے وہ اس كى مانند ہو جو فاسق ہے ؟! دونوں برابر نہىں ہىں۔ پس آيت كرىمہ مومن اور فاسق كى مساوات كى نفى كر رہى ہے ۔
رواىتِ كافر كى عدم قبولىت پر دلالت كرنے والے ان دلائل پر بعض نے اعتراض كىا ہے جن كو طولانىت كے باعث ىہاں درج كرنے سے گرىز كىا گىا ہے۔

اصطلاح كے مترادفات

[ترمیم]

اس اصطلاح كو روايتِ كافر، خبرِ كافر اور حديثِ كافر سے تعبىر كىا جاتا ہے۔
[۵] سخاوی، محمد بن عبدالرحمن، فتح المغیث، ج۱، ص۳۱۵۔


حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. احمد بن ابی سہل، سرخسی، اصول السرخسی، ج۱، ص۳۷۱۔    
۲. آمدی، علی بن محمد، الاحکام فی اصول الاحکام، ج۱، ص۳۰۵-۳۰۶۔    
۳. شہید ثانی، زین‌الدین، الرعایہ فی علم الدرایہ، ص۱۸۱-۱۸۲۔    
۴. رازی، محمد بن عمر، المحصول فی علم اصول الفقہ، ج۴، ص۳۹۶۔    
۵. سخاوی، محمد بن عبدالرحمن، فتح المغیث، ج۱، ص۳۱۵۔
۶. مامقانی، عبدالله، مقباس الہدایہ، ج۲، ص۱۳-۱۸۔    


مأخذ

[ترمیم]
پایگاه مدیریت اطلاعات علوم اسلامی، ماخوذ از مقالہ روایت کافر، تاریخِ لنک:۱۳۹۶/۹/۲۲۔    


اس صفحے کے زمرہ جات : حدیث | حدیثی اصطلاحات | علم جرح وتعدیل




جعبه ابزار