زمانہ غیبت اور علماء کی قیادت

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



غیبت صغری (۲۶۰-۳۲۹ ق) اور غیبت کبری (۳۲۹ ق سے آج تک) کے آغاز سے شیعہ معصوم امام کی خدمت میں حضوریابی سے محروم ہو گیا۔ غیبت امام کے بعد شیعہ مختلف نشیب و فراز سے گزرا لیکن کسی بھی دور میں اپنی بلند پروازی سے پیچھے نا ہٹا بلکہ تاریخ بشریت کو متاثر کرتا رہا اور خود کو عالمی حکومت کے لیے آمادہ کرتا رہا۔


دینی قیادت کی تشکیل

[ترمیم]

آئمہ معصومین(علیہم السلام) کے دور سے ہی وقت کے تقاضے کے مطابق ایک خاص طبقہ علماء کے نام سے تشکیل پا گیا جن کے وجود آنے میں مختلف دلائل موجود تھے۔

← امام تک لوگوں کی عدم رسائی


امام حسن عسکری(علیہ السلام) کی شہادت کے بعد شیعہ کے لیے ایک نیا دور شروع ہوا۔ شیعیان اس بات کے منتظر تھے کہ گیارہویں امام کی شہادت کے بعد مہدی(علیہ السلام) ظہور فرمائیں گے لیکن ان کو قیام کی بجاۓ صبر و انتظار کے لیے آمادہ ہونا پڑا۔ غیبت امام کے بعد شیعہ کو خود انحصاری کے لیے آمادہ ہونا تھا، البتہ بقیہ آئمہ معصومین(علیہم السلام) نے شیعہ کو اس کے لیے کامل طور پر آمادگی رکھنے کا حکم دیا ہوا تھا۔ شیعہ کو اس امر کی آمادگی کے لیے آئمہ معصومین(علیہم السلام) نے پہلے سے ہی مشقیں کروا رکھی تھیں اس بنا پر وہ بہت جلد اس کے لیے تیار ہو گیا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ غیبت کے بحران سے بخوبی باہر نکل آیا اور اپنے پاؤں پر خود کھڑا ہوا۔ ان کی ایسی تربیت کی گئی تھی کہ وہ زمانہ ظہور سے ہی جانشینی و نیابت آئمہ کے نظام سے آشنائی رکھتے تھے۔ علماء نے زمانہ ظہور میں ہی وہ حیثیت حاصل کر لی تھی کہ اگر کہیں لوگوں کی امام تک رسائی نہیں تو وہاں کے لوگ علماء کی طرف رجوع کریں اور اپنے مسائل ان سے پوچھیں۔ امام صادق(علیہ السلام) نے بہت منظم و زیرکانہ فکر کے ساتھ مرجعیت اور قضاوت کا نظام کھڑا کیا اور علماء و صاحبان نظر کو یہ منصب عطا کیا کہ وہ لوگوں کے مسائل حل کریں، بعد میں اسی عنوان کو مرجع سے تعبیر کیا جانے لگا۔ اس عمل سے شیعہ علماء کو ایک نوع مشروعیت حاصل ہوئی اور یہی مشروعیت وجہ بنی کہ علماء شیعہ ثقافت میں بطور مرجع مقبول ہونے لگے۔

← زمانہ امام صادقؑ اور علماء کی مرجعیت


علماء کی مرجعیت کی ترویج درحقیقت زمانہ امام صادق(علیہ السلام) سے شروع ہوئی۔ عبداللہ بن ابی یعفور نے امام صادق(علیہ السلام) سے عرض کی: میں آپ سے ہر وقت ملاقات نہیں کر سکتا درحالیکہ شیعہ مجھ سے ملتے ہیں تو سوالات پوچھتے ہیں جبکہ مجھے ان کے جواب معلوم نہیں ہوتے۔ امام نے اسے فرمایا: ایسے میں محمد بن مسلم کی طرف رجوع کیوں نہیں کرتے؟
بعض روایات میں امام(علیہ السلام) نے حارث بن مغیرہ کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا۔ اس کے علاوہ بعض روایات میں ملتا ہے کہ امام(علیہ السلام) نے شیعہ علماء کے بارے میں فرمایا کہ یہ وہ ہیں جنہوں نے امام باقر(علیہ السلام) کا نام زندہ رکھا ہوا ہے اور یہی وہ لوگ ہیں جو اصحاب سر ہیں اور لوگوں کو حلال و حرام کے متعلق علم دیتے ہیں۔ جب پوچھا جاتا کہ ان علماء سے آپ کی مراد کون کون سی شخصیات ہیں تو آپؑ نے فرمایا: یزید عجلی، ابوبصیر، زرارہ اور محمد بن مسلم۔
امام رضا (علیہ السّلام) بھی اس مطلب پر اصرار فرمایا کرتے تھے کہ ہماری عدم موجودگی میں شیعہ علماء کی طرف رجوع کیا جاۓ۔ امام کے وکیل نے جب سوال کیا کہ جب میں آپ سے ملاقات نا کر سکوں تو دین میں ہدایت کے لیے کس کی طرف رجوع کروں؟ امامؑ نے اسے جواب میں فرمایا: یونس بن عبدالرحمن سے ہدایت لو۔
[۳] حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، ج۱۸، ص۱۹۷، ‌روایت ۳۳، ‌۳۴، ۳۵۔


← علماء کو اجتہاد کا اجازہ دینا


آئمہ معصومین(علیہم السلام) نے اپنے دور میں ہی بعض شاگردوں کو نوعی اجتہاد کا اجازہ دے دیا تھا تاکہ وہ لوگوں کی دینی مشکلات کو حل کر سکیں۔ امام صادق(علیہ السلام) نے ہشام بن سالم کو فرمایا: انما علینا اَن نلقی الیکم الاصول و علیکم اَن تفرّعوا؛ ہمارا وظیفہ یہ ہے کہ تمہیں اصول کی تعلیم دیں اور تمہارا وظیفہ یہ ہے کہ ان اصولوں سے فروعات کو خود کشف کرو۔ امام رضا(علیہ السلام) نے بھی اپنے شاگردوں کو یہی فرمایا: علینا القاء الاصول و علیکم بالتفریع؛
آئمہ معصومین(علیہم السلام) کی جانب سے شیعہ علماء کو اجتہاد کا اجازہ دینا درحقیقت مرجعیت کے نظام استقلالی حیثیت دے گیا۔ اس سے نا صرف شیعہ فقہ مضبوط ہوئی بلکہ شیعہ علماء کو بھی مشروعیت مل گئی جس سے وہ لوگوں کی دینی مشکلات میں مدد کرنے کے لیے مجاز ٹھہرے۔ اس کے بعد شیعہ علماء کا شیعی ثقافت میں اثر و رسوخ بھی بڑھ گیا۔
اگرچہ مکتب تشیع میں علم دین کو وسیلہ بنا کر روزی روٹی کمانے کی نہی وارد ہوئی ہے تاہم شیعہ عوام اپنے علماء کی نسبت مختلف روش سے پیش آتے۔ علماء کا خاص احترام کرتے اور ان کو ہدیہ و صلہ دیتے اور اس روش کو خود آئمہ معصومین(علیہم السلام) نے بھی مثبت قرار دیا۔ امام صادق(علیہ السلام) نے فرمایا: من استاکل بعلمه افتقر؛ جو شخص علم کو ذریعہ بنا کر کھاتا ہے وہ فقر میں مبتلا ہوگا۔ ایک صحابی نے عرض کی کہ آیا اس قول میں وہ علماء بھی شامل ہیں جو آپ کی طرف سے عطا کیے علوم کو حامل ہیں اور شیعوں میں ان علوم کی ترویج کرتے ہیں؟(کیا آپ کی مراد یہ والے علماء بھی ہیں؟) امامؑ نے فرمایا: نہیں! یہ لوگ میری مراد نہیں ہیں بلکہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو عالم نہیں ہیں اور بغیر الہی دلیل کے دین کے نام پر فتوی دیتے ہیں تاکہ کچھ مال ان کو حاصل ہو یا کسی حق کو باطل قرار دیں۔
یہ سب عوامل مل کر وجہ بنے کہ آئمہ معصومین(علیہم السلام) کے دور سے ہی ایک خاص طبقہ وجود میں آ گیا تھا جن کو علماء کہا جاتا، آئمہ نے بھرپور کوشش کی کہ ان کو حکومتی وابستگی سے محفوظ رکھا جاۓ اور کسی دنیوی امر کی طرف ان کو مائل نا ہونے دیا جاۓ۔ اس بنا پر ہمارے یہاں علماء کے متعلق پے در پے روایات وارد ہوئی ہیں جن میں ان کا مقام و منزلت بیان ہوا ہے۔ بعد میں علماء نے بھی اپنے معنوی نفوذ کے ذریعے عوام میں بھرپور مقام حاصل کیا اور بعنوان جانشین امام خود کو منوایا۔ شیعہ علماء کا شیعی ثقافت میں بھرپور اثر و رسوخ باعث بنا کہ شیعہ غیبت امام کے بحران سے نجات حاصل کریں اور اپنے مسائل کے حل کے لیے نائبین امام کی طرف رجوع کر کے خود کو مشکلات سے باہر نکال سکیں۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، ج۱۸، ‌ص۱۰۵۔    
۲. حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، ج۱۸، ‌ص۱۰۵۔    
۳. حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، ج۱۸، ص۱۹۷، ‌روایت ۳۳، ‌۳۴، ۳۵۔
۴. حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، ج۱۸، ص۴۰، روایت ۵۱۔    
۵. حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، ج۱۸، ص۴۱، روایت ۵۲۔    
۶. حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، ج۱۸، ص۱۰۲، روایت ۱۲۔    


ماخذ

[ترمیم]

سایٹ اندیشہ قم، ماخوذ از مقالہ «رہبری دینی عالمان شیعی در آغاز دورہ غیبت»۔    



جعبه ابزار