سورۃ الناس

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



سورۃ الناس قرآن کریم کی آخری ایک سو چودہویں سورہ (۱۱۴) ہے جوکہ مدینہ منورہ میں نازل ہوئی اور تیسویں (۳۰) جزء (پارے) میں ہے۔


سورۃ الناس کا شان نزول

[ترمیم]

سورۃ الناس کے شان نزول کے بارے میں مختلف اقوال پائے جاتے ہیں۔ اہل سنت تفاسیر میں وارد ہوا ہے کہ ایک یہودی نے رسول اللہ ﷺ پر جادو کر دیا جس کے توڑ کے لیے حضرت جبریلؑ الْمُعَوِّذَتَيْن‌ِ (سورۃ الناس اور سورۃ العلق) لے کر نازل ہوۓ۔ علامہ طباطبائی نے اس قول کو رد کرتے ہوئے ذکر کیا ہے کہ قرآن کریم کی بعض آیات اس امر پر واضح دلیل ہیں کہ سحر اور جادو آپ ﷺ پر اثر انداز نہیں ہو سکتا۔ اس سورہ میں اللہ تعالی نے رسول اللہ ﷺ کو جنّ و انس میں سے وسوسہ ڈالنے والوں سے پناہ مانگنے کا حکم دیا ہے۔ اس سورہ کے شان نزول میں وارد ہونے والی روایات سے علم ہوتا ہے کہ يہ سورہ مدینہ میں نازل ہوئی ۔ ان احادیث سے یہ بات بھی عیاں ہوتا ہے کہ سورۃ الناس اور سورہ الفلق دونوں ایک ساتھ نازل ہوئیں۔ علوم قرآن پر لکھی گئی کتابوں میں ذکر ہوا ہے کہ ان دونوں سورتوں کو الْمُعَوِّذَتَانِکے علاوہ مُشَقۡشِقَتَانِ بھی کہا جاتا ہے۔

سورۃ الناس کی وجہ تسمیہ

[ترمیم]

سورۃ الناس کے دو نام ذکر کیے گئے ہیں: ۱۔ معوذ، ۲۔ مشقشقۃ۔ لفظِ مشقشۃ عربی زبان کا لفظ ہے جوکہ قَشۡقَشَ سے مشتق ہے۔ اس کے لغوی معنی صحیح ہونے اور پاک و مبرأ ہونے کے ہیں۔ ابن اثیر جزری نے نقل کیا ہے:المُقَشْقِشَتان‌، أى المبرئتان من النّفاق والشّرك، كما يبرأ المريض من علّته. يقال: قد تَقَشْقَشَ‌ المريض:إذا أفاق وبرأ؛ مقشقشتان یعنی نفاق اور شرک سے بَری ہونا جیساکہ مریض بیماری سے صحتیاب ہوتا ہے، جب مریض کو افاقہ ہو جائے اور وہ مرض سے چھٹکارا پا لے تو کہا جاتا ہے: قد تَقَشْقَشَ‌ المريض۔ جو شخص اس سورہ پر ایمان لے آۓ گویا اس سے ہر قسم کا شرک دور ہو جاتا ہے۔ قرطبی و زمخشری اپنی تفاسیر میں لکھتے ہیں کہ يہ سورہ نفاق سے شفاء دیتی ہے اور وجود بشریت کو توحید سے پیوست کرتی ہے۔ اس وجہ سے سورۃ الناس اور سورۃ الفلق کو مُشَقۡشِقَتَانِ کہا جاتا ہے۔ ابن اثیر جزری اور ابن عاشور نے نقل کیا ہے کہ سورہ توبہ، سورہ کافرون، سورہ فلق اور سورہ ناس کو مقشقشہ کہا جاتا ہے۔ اللہ تعالی نے اس سورہ میں اپنے حبیب رسول اللہ ﷺ کو حکم دیا ہے کہ جنّ و انس کے شر اور وسوسوں سے بچنے کے لیے اپنے ربّ کی پناہ مانگیں۔ وارد ہوا ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ عثمان بن مظعون کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے تو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ سورہ اخلاص اور اس کے بعد والی دو سورتوں کی تلاوت کرو اور اس بیماری سے اللہ تعالی کی پناہ میں محفوظ ہو جاؤ۔

مُشَقۡشَقَۃ

[ترمیم]

مُشَقۡشَقَۃ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی گوشت نما لوتھڑے کے ہیں۔ عرب کہتے ہیں: شقشق شقشقه الجمل یعنی اونٹ نے فریاد بلند کی۔ اونٹ جب غضبناک ہوتا ہے تو اس کے منہ سے ایک لوتھڑا نما بلبہ باہر آتا ہے اور تھوڑی دیر میں اس سے ہوا نکل جاتی ہے اور وہ لوتھڑا نما گوشت کا ٹکڑا اونٹ کے منہ میں واپس چلا جاتا ہے۔ عرب میں کسی قوم کے جوشیلے خطیب و سخنور کو خطیب مُشَقۡشِق کہتے ہیں۔ ابن عاشور لکھتے ہیں کہ ان دو سورتوں کو مشقشقتان کا نام دینے کی وجہ معلوم نہیں ہو سکی۔ اس کے بعد احتمال دیتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ ان دو سورتوں کو شاید اس لیے مشقشقتان کہا جاتا ہے کیونکہ يہ دونوں سورتیں باطل کے خلاف فریاد بلند کرتی ہیں اور بہترین زبان میں انسان کو حق کی طرف بلاتی ہیں۔

سوره ناس کی خصوصیات

[ترمیم]

۱. اس سورہ کی آیت نمبر ۶ میں کوفی، بصری اور مدنی عدد ہے جبکہ آیت نمبر ۷ میں مکی و شامی عدد ہیں جوکہ ۲۰ یا ۲۱ کلمات اور ۷۸ یا ۷۹ حرف بنتے ہیں۔
۲. قرآن کریم کی ترتیب نزول کے اعتبار سے يہ ۲۱ نمبر سورہ بنتی ہے جبکہ قرآن کریم کے موجودہ مصحف کے مطابق ۱۱۴ نمبر سورہ ہے۔
۳. بعض مفسرین کی نظر میں یہ سورہ مکہ میں قبل از ہجرت سورۃ الفلق کے بعد اور سورۃ الاخلاص سے پہلے نازل ہوئی ۔ بعض مفسرین نے اس سورہ کو مدنی سورہ قرار دیا ہے۔
۴. اس سورہ کا شمار سور مفصلہ میں ہوتا ہے۔
۵. یہ سورہ ان سورتوں میں سے ہے جو سور جمعی النزول ہیں۔ یعنی جن سورتوں کی سب آیات ایک ساتھ نازل ہوئیں ہیں۔
۶. یہ سورہ ان پانچ سورتوں میں سے ایک ہے جو فعل امر قُلۡ سے شروع ہوتی ہیں اور ان کو سورہ قل کہا جاتا ہے۔
۷. کہا جاتا ہے کہ اس سورہ میں کسی قسم کا نسخ موجود نہیں ہے۔

سورہ ناس کے اہم نکات

[ترمیم]

۱. اس سورہ میں لفظ ناس پانچ مرتبہ تکرار ہوا ہے۔ اس مناسبت سے اس کا نام سورۃ الناس قرار دیا گیا ہے۔
۲. اس سورہ کے دیگر نام سورہ المُعَوِّذَۃ و سورۃ المُشَقۡشِقَۃ ہیں۔
۳. اس سورہ کے موضوعات استعاذہ یعنی انسانوں اور جنّوں کے شرور اور وسوسوں سے اللہ تعالی کی پناہ مانگنا اور خدا شناسی ہیں۔
[۹] سخاوی، علی بن محمد، جمال القراء و کمال الاقراء، ج۱، ص۱۸۶۔
[۱۳] رامیار، محمود، تاریخ قرآن، ص۵۹۱۔
[۱۴] ہاشم زاده ہریسی، ہاشم، شناخت سوره‌ہای قرآن، ص۶۳۵۔
[۱۸] قرطبی، محمد بن احمد، الجامع لاحکام القرآن، ج۲۰، ص۲۵۱۔
[۱۹] قرطبی، محمد بن احمد، الجامع لاحکام القرآن، ج۲۰، ص۲۲۵۔


حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. طباطبائی، محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ج۲۰، ص۳۹۴۔    
۲. سیوطی، عبد الرحمن، الاتقان فی علوم القرآن، ج ۱، ص ۱۵۶۔    
۳. ابن اثر جزری، مبارک، النہایۃ فی غریب الحدیث والاثر، ج ۴، ص ۶۶۔    
۴. فرہنگ نامہ علوم قرآن، ج۱، ص۳۰۸۶۔    
۵. ابن اثر جزری، مبارک، النہایۃ فی غریب الحدیث والاثر، ج ۴، ص ۶۶۔    
۶. ابن عاشور، محمد طاہر، التحریر والتنویر، ج۳۰، ص۶۱۰۔    
۷. دفتر تبلغات اسلامی، فرہنگ نامہ علوم قرآن، ج۱، ص۲۷۳۳۔    
۸. ابن عاشور، محمد طاہر، تفسیر التحریر و التنویر، ج۳۰، ص۶۳۱۔    
۹. سخاوی، علی بن محمد، جمال القراء و کمال الاقراء، ج۱، ص۱۸۶۔
۱۰. طباطبائی، محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ج۲۰، ص۳۹۵۔    
۱۱. فیروز آبادی، محمد بن یعقوب، بصائر ذوی التمییز فی لطائف الکتاب العزیز، ج۱، ص۵۵۷۔    
۱۲. مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، ج۲۷، ص۴۶۷۔    
۱۳. رامیار، محمود، تاریخ قرآن، ص۵۹۱۔
۱۴. ہاشم زاده ہریسی، ہاشم، شناخت سوره‌ہای قرآن، ص۶۳۵۔
۱۵. زرکشی، محمد بن بہادر، البرہان فی علوم القرآن، ج۱، ص۱۹۳۔    
۱۶. سیوطی، عبد الرحمن بن ابی بکر، الاتقان فی علوم القرآن، ج۱، ص۱۹۷۔    
۱۷. زمخشری، محمود بن عمر، الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل، ج۴، ص۸۲۴۔    
۱۸. قرطبی، محمد بن احمد، الجامع لاحکام القرآن، ج۲۰، ص۲۵۱۔
۱۹. قرطبی، محمد بن احمد، الجامع لاحکام القرآن، ج۲۰، ص۲۲۵۔


مأخذ

[ترمیم]
فرہنگ نامہ علوم قرآنی، اس تحریر کو مقالہ سوره ناس سے لیا گیا ہے۔    






جعبه ابزار