سید ہادی خسرو شاہی

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



حجۃ الاسلام والمسلمین سید ہادی خسرو شاہی، آیت اللہ سید مرتضیٰ خسرو شاہی کے فرزند اور معاصر علما و محققین میں سے تھے۔ آپ ۸ اسفند ۱۳۹۸شمسی بروز جمعرات کو کہولت سن کی وجہ سے انتقال کر گئے۔
KhosroShahi


ولادت

[ترمیم]

حجۃ الاسلام والمسلمین سید ہادی خسرو شاہی سنہ ۱۳۱۷ شمسی کو تبریز کے ایک دین ، علم اور فقاہت سے آراستہ گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ کے اجداد کی تین صدیوں پر محیط علمی اور فقہی کاوشیں اس حقیقت کو بخوبی ظاہر کرتی ہیں۔ آپ کے اجداد ایران اور عراق میں اپنے اپنے وقت کے عظیم عالم اور فقیہ تھے۔
آپ کے والد آیت اللہ سید مرتضیٰ خسرو شاہی آذر بائیجان کے بزرگ عالم اور صاحب رسالہ فقیہ تھے کہ جنہوں نے نجف اشرف سے تعلیم حاصل کی۔

طالب علمی کا زمانہ

[ترمیم]

آپ نے ابتدائی تعلیم تبریز میں حاصل کی اور اپنے والد بزرگوار کی رحلت کے بعد سنہ ۱۳۴۲شمسی کو پندرہ سال کی عمر میں قم تشریف لائے اور حوزہ علمیہ کے اندر حصول علم میں مشغول ہو گئے۔ آپ نے فلسفہ ، تفسیر ، فقہ اور اصول فقہ کی تعلیم آیات عظام آیت ‌الله بروجردی (چار ماہ تک)، امام خمینی رحمۃ ‌اللہ ‌علیہ، آیت‌ اللہ شریعتمداری، علامہ طباطبائی جیسے بزرگ اساتذہ سے حاصل کی۔ آپ کو امور حسبیہ (جو فقہا کے اذن پر موقوف ہوتے ہیں) کا اجازہ ملنے کے علاوہ نجف ، قم اور مشہد کے علما منجملہ امام خمینی رحمۃ ‌اللہ ‌علیہ، سید ابو القاسم خوئی، سید شھاب الدین نجفی مرعشی، سید محمد کاظم شریعتمداری، سید محمد ھادی میلانی، سید محمد صادق روحانی، شیخ آقا بزرگ تھرانی، شیخ مرتضیٰ حائری، سید احمد زنجانی، مرزا عبدالجواد جبل عاملی اور مرزا ابو الفضل زاہدی قمی کی جانب سے اجتہاد اور نقل حدیث کے اجازے بھی عطا ہوئے۔

آثار

[ترمیم]

آپ کی تالیفات اور آثار عربی اور فارسی زبان میں چھپ کر منظر عام پر آ چکی ہیں۔ اس کے علاوہ ایران اور اسلامی دنیا کے مجلات میں آپ کے سینکڑوں مقالات شائع ہو چکے ہیں۔ آپ کی کتب لگ بھگ اسی جلدوں پر مشتمل ہیں۔ ان میں سے چالیس سے زائد جلدیں اب تک بارہا اندرون و بیرون ملک شائع ہو چکی ہیں۔ تالیفات اور تراجم کے علاوہ ۱۲۰ جلدوں پر مشتمل کتابیں آپ کی تحقیق، توضیحات، مقدمہ نویسی اور زیر نگرانی؛ ایران، اٹلی اور مصر میں شائع ہو چکی ہیں۔
ان کتب میں سے استاد جارج جرداق کی تالیف کردہ ’’کتاب امام علیؑ عدالت انسانی کی آواز‘‘ کا ترجمہ؛ سید جمال الدین حسینی افغانی کی تمام تالیفات ، معاصر اسلامی تحریکوں کے مجموعے، ایران کی اسلامی تحریکوں کی اسناد، علامہ طباطبائی کے آثار کے مجموعے کی تحقیق اور اشاعت شامل ہیں۔ آپ نے اپنی تالیفات اور تراجم کے علاوہ آیت ‌اللہ کاشف الغطاء، علامہ طباطبائی، حاج سراج انصاری، سید محمد محیط طباطبائی، سید غلام رضا سعیدی، محمد نخشبو جیسے اساتذہ کی تصنیفات کی فصل بندی، تہذیب اور اشاعت میں کوشاں رہے اور اسلامی افکار کی حفاظت اور حقیقی اسلامی تعلیمات کی اشاعت میں مصروف عمل رہے۔ اسی وجہ سے استاد محمد رضا حکیمی نے آپ کو ’’علمی میراث کے محافظ‘‘ کا لقب دیا۔

علمی اور تربیتی سرگرمیاں

[ترمیم]

آپ نے سنہ ۱۳۳۲شمسی سے اب تک بہت سے اسلامی مجلات اور اخبارات منجملہ مکتب اسلام، مکتب تشیع، معرف جعفری، راه حق، ندائے حق، وظیفہ، مجموعہ حکمت، نور دانش آئین اسلام، مسلمین، آستان قدس، نسل نو، نسل جوان، استوار پیکار، اندیشہ، مھد آزادی اور... سے علمی تعاون کیا اور ان میں آپ کے تالیف کردہ مقالات کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔
ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد آپ نے روزنامہ اطلاعات کے ساتھ سب سے زیادہ تعاون کیا اور عالمی سطح پر یورپی اور اسلامی ممالک منجملہ: پاکستان، مصر، الجزائر، سعودی عرب، شام، قطر، ترکی، لبنان، اٹلی، برطانیہ، جرمنی، سوئزرلینڈ وغیرہ میں منعقدہ سیمیناروں اور کانفرنسوں میں امام خمینیؒ کے نمائندے یا حوزہ علمیہ قم کے سفیر کے عنوان سے شرکت کی۔
آپ نے سنہ ۱۳۵۲شمسی میں ’’مرکز بررسی‌های اسلامی قم‘‘ کو حوزہ علمیہ قم کی ایک شاخ کے عنوان سے تاسیس کیا اور اس کا اندراج کروایا۔ پھر سنہ ۱۳۶۱شمسی میں ’’مرکز فرھنگی اسلامی اروپا‘‘ کو اٹلی کے شہر روم میں تعمیر کیا اور ان دونوں مراکز نے اسلامی موضوعات میں دسیوں کتابیں منجملہ قرآن مجید اور نہج البلاغہ کے عربی، انگلش، اطالوی، جرمنی وغیرہ میں ترجمے کیے اور انہیں شائع کیا۔ یہ اقدام عالمی سطح پر اسلامی علمی میراث کی اشاعت میں انتہائی قابل قدر ہے۔

سیاسی سرگرمیاں

[ترمیم]

استاد کی سیاسی سرگرمیاں سنہ ۱۳۳۲ کے بعد آیت اللہ کاشانی ، آیت اللہ طالقانی اور شہید نواب صفوی کے ساتھ آشنائی کے بعد شروع ہوئیں۔ اسی وجہ سے اس زمانے سے اسلامی انقلاب کی کامیابی تک آپ کو کئی مرتبہ قم، تہران اور تبریز میں گرفتار یا جلا وطن کیا گیا کہ جن میں سے آخری جلا وطنی ’’انارک‘‘ میں تین سال پر محیط تھی اور اسلامی انقلاب کی کامیابی پر آپ دوسرے لوگوں کے ساتھ آزاد ہوئے۔ (انارک میں جلاوطنی کے موقع پر آپ آیت اللہ پسندیدہ اور آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی کے ہمراہ تھے)

انقلاب کے بعد کی سرگرمیاں

[ترمیم]

اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد آپ وزارت ارشاد اسلامی میں دو سال تک امام خمینیؒ کے نمائندے کے طور پر کام کرتے رہے۔ پھر ویٹیکن میں ایران کے سفیر کے عنوان سے منتخب ہوئے اور پانچ سال تک بیرون ملک فعالیت انجام دیتے رہے۔ مرکز فرھنگی اسلامی اروپا کی روم میں تاسیس، انگلش ماہنامے انکوائری کا اجرا اور عربی زبان میں ہفت روزہ العالم کی اشاعت (وزارت ارشاد اسلامی) کے تعاون سے اس زمانے کی علمی سرگرمیاں ہیں۔
اٹلی میں قرآن مجید اور نہج البلاغہ کی اطالوی زبان میں اشاعت اور اطالوی زبان میں ماہنامہ جہان نو کی اشاعت اور مجموعی طور پر پانچ سال کی مدت میں فارسی، عربی، انگریزی، اطالوی اور فرانسیسی زبانوں میں ۱۶۲ کتابوں اور مجلات کی اشاعت کر کے انہیں دنیا بھر میں ارسال کیا۔ قاہرہ میں تین سالہ اقامت کے دوران بھی علمی و سیاسی محافل میں شرکت کے علاوہ جامعہ الازہر کے شیخ کے ساتھ دسیوں ملاقاتیں، ٹیلی وژن اور دیگر ذرائع ابلاغ پر تقاریر اور انٹرویوز، ایران، تشیع اور اہل بیتؑ کے بارے میں پچاس جلدوں پر مشتمل کتب اور نشریات کی اشاعت آپ کے نمایاں اقدامات میں سے ہیں کہ جن سے اتحاد اور تقریب بین المذاہب کے مشن کی تقویت ہوئی۔ ان آثار میں سے اہم یہ ہیں: نہج البلاغہ کہ جس کی شرح شیخ محمد عبدہ کی تھی اور مقدمہ خود استاد نے لکھا، صحیفہ سجادیہ، حقیقة علاقة عبدالناصر بالثورة الاسلامیة فی ایران، عبد اللہ بن سبا بین الواقع و الخیال، ادعیة اھل البیت علیہ ‌السّلام، الامام علی بن ابی طالب علیہ ‌السّلام، الامام الحسین علیہ ‌السّلام، الامام جعفر الصادق علیہ ‌السّلام اور الطریق الی مذهب آل البیت علیه‌السّلام و عقیدتنا وغیرہ۔
آپ ترکی (آذری اور استنبولی) کے علاوہ فارسی و عربی، انگریزی اور اطالوی زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ ویٹیکن سے ایران واپسی کے بعد آپ وزارت خارجہ میں تہران کی یونیورسٹیوں کے امور میں مشیر مقرر ہوئے اور اس کے ساتھ ساتھ دانشکدہ حقوق، دانشکدہ روابط بین الملل وغیرہ میں درس و تدریس سے منسلک رہے۔ آپ تین برس تک مصر میں اسلامی جمہوریہ ایران کے سفارت خانے کے سربراہ رہے اور سنہ ۱۳۸۲شمسی میں ایران واپس آئے اور سیاسی و بین الاقوامی مطالعات کے مرکز میں تحقیقات کی انجام دہی میں مشغول ہو گئے۔ آپ وزارت خارجہ کے افسران کی ترقی کے شعبہ میں بعض افسروں کے تحقیقی مقالات کے نگران بھی رہے اور چھ سال کی مدت تک تاریخ و فرھنگ معاصر کے نام سے ایک گرانقدر فصل نامے کی اشاعت کر کے معاصر ایرانی تاریخ کے تاریک پہلوؤں کو اجاگر کرتے رہے۔

وفات

[ترمیم]

حجۃ الاسلام خسروشاہی جمعرات کی صبح بمطابق ۸ اسفند ۱۳۹۸شمسی کو کہولت سن کے باعث انتقال کر گئے۔

ماخذ

[ترمیم]
کتابخانہ مھدویت (اسلامک سافٹ وئیر)، مرکز تحقیقات کامپیوتری علوم اسلامی۔



جعبه ابزار