شب چار محرم کے مصائب
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
محرم کی راتوں کے نام
تعینی طور پر اور وقت گزرنے کے ساتھ رکھے گئے ہیں۔ یہ کام
اہل بیتؑ کے ذاکرین کی جانب سے مخصوص راتوں جیسے
عاشورا اور
تاسوعا کے پیش نظر انجام پایا ہے۔ محرم کے مصائب کی چوتھی رات کو کربلا کے ایک سربلند شہید جناب
حر بن یزید ریاحی کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔ تاہم یہ رات حضرت زینبؑ کے بیٹوں کی مصیبت سے بھی منسوب ہے۔
[ترمیم]
حر
توبہ اور حقیقت کے متلاشیوں کیلئے نمونہ ہیں۔ ابتدا میں
امام حسینؑ کے ساتھ ملاقات پر آپ کا یہ مقام نہیں تھا اور خود ان کے بقول وہ مامور ہیں اور معذور! تاہم سید الشہدا کے سامنے ادب اور تواضع آپ کی رہائی کا سبب بنا۔ حر نے دقت نظر کے ساتھ حق کو باطل پر ترجیح دی اور توبہ کے سجدہ گاہ پر ندامت کی پشیمانی کو جھکا دیا۔ حر، خطاکاروں کیلئے پرکشش ترین توبہ کا نمونہ ہے۔ وہ عرب کے ایک نامی گرامی سپہ سالار تھے۔ انہیں ہزار جنگجوؤں کے ساتھ امام حسینؑ کا مقابلہ کرنے اور ان کا راستہ بند کرنے کیلئے بھیجا گیا تھا۔ جب
روز عاشور امامؑ نے فریاد بلند کی:
اما مِنْ مُغیثٍ یغیثُنا لِوَجْهِ اللَّهِ تَعالی؟ اما مِنْ ذابٍّ یَذُبُّ عَنْ حَرَمِ رَسُولِ اللَّهِ کیا کوئی فریاد رس ہے جو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کیلئے ہماری فریاد کو پہنچے؟! کیا کوئی ہے جو رسول اللہ کے حرم کا دفاع کرے۔»
تو امامؑ کی فریاد سن کر حر کا قلب مضطرب اور اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ لرزہ براندام حالت میں وہ امام حسینؑ کے خیموں سے نزدیک ہونے لگے اور اپنے ایک ساتھی سے کہا: خدا کی قسم! میں خود کو
جنت اور
دوزخ کے درمیان دیکھ رہا ہوں اور میں بہشت کا انتخاب کر رہا ہوں؛ خواہ مجھے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائے اور جلا دیا جائے۔ پھر اپنا گھوڑا دوڑاتے ہوئے امامؑ کی خدمت میں پہنچ گئے۔
سر پر ہاتھ رکھ کر یہ کہہ رہے تھے:
اللَّهُمَّ الَیْکَ انبْتُ فَتُبْ عَلَیَّ فَقَدْ ارْعَبْتُ قُلُوبَ اوْلِیائِکَ وَاوْلادِ بِنْتِ نبِیِّکَ اے خدا! میں تیری طرف پلٹ آیا ہوں، میری توبہ قبول کر لے کہ میں نے تیرے محبوب بندوں اور تیرے نبیؐ کی اولاد کے دلوں میں ڈر اور خوف پیدا کیا ہے۔
پھر اپنی ڈھال کو الٹا دیا
اور انتہائی شرمساری کے ساتھ عرض کرنے لگے:
جُعِلْتُ فِداکَ یَابْنَ رَسُولِ اللّه ِ اَنَا صاحِبُکَ الَّذی حَبَسْتُکَ عَنِ الرُّجُوعِ وَ سایَرْتُکَ فِی الطَّریقِ وَ جَعْجَعْتُ بِکَ فی هذَا الْمَکانِ وَ ما ظَنَنْتُ اَنَّ الْقَوْمَ یَرُدُّونَ عَلَیْکَ ما عَرَضْتَهُ عَلَیْهِمْ وَ لایَبْلُغُونَ مِنْکَ هذِهِ الْمَنْزِلَةَ، وَ اللّه ِ لَوْ عَلِمْتُ اَنَّهُمْ یَنْتَهُونَ بِکَ اِلی ما اَری ما رَکِبْتُ مِثْلَ الَّذی رَکِبْتُ، فَانّی تائِبٌ اِلَی اللّه ِ مِمّا صَنَعْتُ، فَتَری لی مِنْ ذلِکَ تَوْبةاے فرزند رسول! میں آپ پر قربان جاؤں، میں وہی ہوں جس نے آپؑ کو وطن واپس پلٹنے سے روکا اور راستے میں ہر مقام پر آپ کے ساتھ ساتھ رہا اور نگرانی کرتا رہا کہ مبادا آپ راستے سے ادھر ادھر ہو جائیں اور آپ کو اس وحشت ناک جگہ تک لے آیا اور میرا یہ خیال نہیں تھا کہ وہ آپ کی بات کو رد کر دیں گے اور آپؑ کے ساتھ اس حد تک کینہ توزی کریں گے۔ خدا کی قسم! اگر مجھے علم ہوتا کہ وہ آپ کے ساتھ ایسا کریں گے جو اب دیکھ رہا ہوں تو ہرگز آپ کے ساتھ ایسا سلوک نہ کرتا۔ اب میں جو کچھ کر چکا ہوں اس پر خدا کی بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں۔ کیا خدا میری توبہ قبول کرے گا؟! امامؑ نے اس کیلئے
استغفار کیا اور فرمایا: تو دنیا اور
آخرت میں آزاد ہے۔
کچھ مورخین نے لکھا ہے کہ حر نے کہا: چونکہ میں وہ پہلا شخص ہوں کہ جس نے آپ کا راستہ بند کیا تو مجھے اجازت دیجئے کہ سب سے پہلے آپ کے راستے میں شہید ہو جاؤں؛ شاید میرا شمار ان لوگوں میں سے ہو جائے کہ جو
قیامت کے دن آپ کے جد کے ساتھ
مصافحہ کریں گے۔
مگر مرحوم
سید بن طاؤس کہتے ہیں: حر کا مقصود ان لحظات کا پہلا شہید تھا؛ ورنہ اس سے قبل بھی ایک جماعت
شہید ہو چکی تھی۔
حر نے امام حسینؑ سے اجازت لی اور میدان کارزار میں وارد ہو گئے اور بے نظیر شجاعت کے جوہر دکھانے کے بعد آپ کا خون آلود اور زخمی پیکر زمین پر گرا۔ ابھی آپ کے بدن میں جان باقی تھی کہ انہیں اس خیمے کے سامنے لٹا دیا گیا کہ جہاں پر شہدا کو جمع کیا گیا تھا۔
امامؑ نے فرمایا: ان مقتولین کا مقام پیغمبروں اور ان کی اولاد کی مانند ہے۔
پھر امامؑ ان کے پاس تشریف فرما ہوئے اور ان کے چہرے پر ہاتھ پھیرا اور ان کے نیم جان جسد کو تھپکی دی اور فرمایا:
اَنْتَ الْحُرُّ کَما سَمَّتْکَ اُمُّکَ وَ اَنْتَ الْحُرُّ فِی الدُّنیا وَ اَنْتَ الْحُرُّ فِی الآْخِرَة تو اسی طرح حر ہے جیسے تیری ماں نے تیرا نام حر رکھا۔ تو دنیا میں بھی آزاد ہے اور آخرت میں بھی آزاد ہے۔
پھر امامؑ نے اپنا مبارک رومال نکالا اور حر کے سر کا زخم باندھ دیا۔
شیخ صدوقؒ امالی میں اس طرح روایت کرتے ہیں: جب امام حسینؑ حر کے سرہانے حاضر ہوئے تو ان کے پیکر سے خون جاری تھا۔ امامؑ نے انہیں خطاب کرتے ہوئے فرمایا: آفرین حر! تو دنیا و آخرت میں حر ہے، جیسا کہ تیرا نام حر رکھا گیا ہے۔ جی ہاں، امام حسینؑ نے حر کے بدن کو تھپکی دی اور ان کے چہرے سے خاک کو صاف کیا اور ان کے سر کا زخم باندھا اور اس طرح حر امامؑ کے سامنے مقام شہادت پر فائز ہوئے۔
مگر اے کاش! جب امام حسینؑ کا سر
خولی کے تنور میں خاک آلودہ ہوا اس وقت بھی کوئی آن پہنچتا اور اس نورانی سر کو صاف کرتا۔
زیارت ناحیہ مقدسہ میں جناب حر کو ان الفاظ میں یاد کیا گیا ہے:
السَّلامُ عَلی الحُرِّ بْنِ الرِّیاحِیّ[ترمیم]
حضرت زینب کبریٰ عاشور کے معرکے میں بھائی کے شانہ بشانہ تھیں اور آپ نے لمحہ بھر کیلئے ایثار و فداکاری سے دریغ نہں کیا۔
کربلا کے سفر میں
عبد اللہ بن جعفر کی یادگار آپؑ کے دونوں فرزند
عون بن عبد اللہ اور
محمد بن عبد اللہ موجود تھے اور دونوں امام حسینؑ کے ہمرکاب شہادت پر فائز ہوئے۔ جب عبد اللہ سمجھ گئے کہ امام حسینؑ کا کربلا کی جانب سفر قطعی ہے تو انہوں نے اپنے دونوں بیٹوں کو اپنی والدہ کی مدد کیلئے امام حسینؑ کے قافلے کے ہمراہ روانہ کر دیا اور انہیں نصیحت کی کہ جنگ کی صورت میں امام حسینؑ کی حمایت کریں اور ان کا دفاع کریں۔
وہ دونوں
مکہ سے
کربلا کی طرف نکلتے ہوئے حضرتؑ کے ساتھ ملحق ہو گئے اور اپنے والد عبد اللہ کا خط بھی امامؑ تک پہنچا دیا۔
منقول ہے کہ زینبؑ کبریٰ نے اپنے دونوں بیٹوں کو جنگ کیلئے آمادہ کیا اور انہیں یہ کہا کہ اگر اجازت نہ ملی جیسا کہ امام مظلوم حتی اپنے
غلام کو بھی جنگ سے دور رکھے ہوئے تھے؛ تو اپنے ماموں کو ماں
حضرت فاطمہؑ کی قسم دے کر میدان میں جانے کی اجازت طلب کریں۔
حضرت زینبؑ کے ایک فرزند جناب محمد جب عاشور کے دن میدان میں گئے تو انہوں نے یہ رجز پڑھا:
اشْکو اِلَی الله مِنَ العُدْوانِ•••فِعالَ قَومٍ فی الرَّدی عِمیانِ••• قَدْ بَدَّلوا مَعالِمَ القُرآنِ•••وَ مُحکمِ التَّنزیلِ و التَّبیان•••وَ اَظهَروا الکفرَ مَعَ الطُّغیانِمیں خدا کی بارگاہ میں اس قوم کی شکایت کروں گا جو اندھا دھند ہلاکت کی طرف جا رہی ہے؛ وہی کہ جنہوں نے قرآن کی نشانیوں کو بدل دیا ہے اور تنزیل کے محکم بیان میں رد و بدل کر دیا ہے اور کفر و طغیان و سرکشی کو آشکار کر دیا ہے۔
مشہور نقل کی بنا پر وہ دس مردوں کو قتل کرنے کے بعد
عامر بن نہشل تمیمی کے ہاتھوں درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔
حضرت زینب کبریٰ کے دوسرے فرزند عون، اپنے بھائی محمد کی شہادت کے بعد میدان کی طرف روانہ ہوئے اور دوران جنگ یہ رجز پڑھ رہے تھے:
انْ تُنْکِرُونی فَانا ابْنُ جَعْفرٍ••• شهید صِدْقٍ فِی الجنانِ ازْهَرِ•• • یَطیر فیها بِجَناح اخْضَرِ••• کفی بِهذا شَرَفاً فِی الْمَحْشَرِاگر مجھے نہیں پہچانتے تو میں
جعفر طیار کا فرزند ہوں جو سچائی پر شہید ہوئے اور نورانی بہشت میں ہیں؛ سبز پروں کے ساتھ
بہشت میں پرواز کر رہے ہیں اور
محشر میں میرے لیے یہی شرافت کافی ہے۔
مورخین کی روایت کے مطابق عون
بنو ہاشم کے تیسرے شہید ہیں۔
انہوں نے اپنی جنگ میں دشمن کے تین سواروں اور اٹھارہ پیادوں کو ہلاک کیا اور آخر کار
عبد اللہ بن قطبہ طائی کے ہاتھوں شہید ہوئے۔
امام حسینؑ نے ان دونوں جوانوں کی شہادت کے بعد ان کے خون آلود پیکر کو اس طرح آغوش میں اٹھایا کہ ان کے پاؤں زمین پر خط کھینچ رہے تھے، انہیں خیموں میں لائے۔ حضرت زینبؑ نے انتہائی بردباری کا مظاہرہ کیا؛ یوں کہ تمام مخدرات خیموں سے باہر نکلیں مگر وہ نہ آئیں۔ پہلی بات، تاکہ بے تاب نہ ہوں اور دوسری یہ کہ مبادا
بھائی کی نظر ان پر پڑے اور وہ شرمندہ و پریشان نہ ہوں۔
زیارت ناحیہ مقدسہ میں عون بن عبد اللہ کے بارے میں یہ کلمات ہیں:
السَّلامُ عَلی عَوْنِ بْنِ عَبْدَاللَّهِ بْنِ جَعْفَر الطَّیَّار فِی الْجَنانِ، حَلیفِ الایمانِ، ومُنازِلِ الاقْرانِ، النَّاصِحِ لِلرَّحمانِ، التَّالی لِلْمَثانی والْقُرانِ... زیارت رجبیہ اور ناحیہ میں محمد بن عبد اللہ کو ان الفاظ میں یاد کیا گیا ہے:
السّلامُ عَلی مُحمَّد بن عبدالله بن جعفر، الشاهد مکان ابیه والتالی لاخیه، و واقیه ببدنه، لعن الله قاتله عامر بن نهشل التمیمیسلام ہو محمد بن عبد اللہ بن جعفر پر، جو کربلا میں اپنے والد کی جگہ پر حاضر ہوئے اور بھائی کے بعد شہید ہوئے اور اپنے بدن کو امام حسینؑ کیلئے سپر قرار دیا۔ خدا لعنت کرے ان کے قاتل عامر بن نہشل تمیمی پر۔
[ترمیم]
[ترمیم]
پایگاه اطلاعرسانی حوزه، ماخوذ از مقالہ «شبهای دهه محرم»، از سرنو تحریر:ویکی فقہ ریسرچ بورڈ۔