شب چھ محرم کے مصائب

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



محرم کی راتوں کے نام تعینی طور پر اور وقت گزرنے کے ساتھ رکھے گئے ہیں۔ یہ کام اہل بیتؑ کے ذاکرین نے مخصوص راتوں جیسے عاشورا اور تاسوعا کو مدنظر رکھتے ہوئے انجام دیا ہے۔ چھٹی محرم کی شب عاشورائی نوجوانوں اور قاسم بن الحسنؑ کے مصائب پڑھے جانے کی رات ہے۔


قاسم بن الحسن کا نسب

[ترمیم]

قاسم بن امام حسنؑ سنہ ۴۷ ہجری کو مدینہ میں پیدا ہوئے۔
[۱] موسوی زنجانی، ابراهیم، وسیلة الدارین، ص۲۵۳۔
آپ کی والدہ ام ولد تھیں کہ جن کا نام ’’نفیلہ‘‘ یا ’’رملہ‘‘ یا ’’نجمہ‘‘ تھا۔ دو سال میں آپ کے والد بزرگوار کی شہادت ہو گئی تھی۔
[۵] موسوی زنجانی، ابراهیم، وسیلة الدارین، ص۲۵۳۔
آپ شہادت تک اپنے عموئے گرامی امام حسینؑ کی عطوفت و محبت کے زیر سایہ رہے اور واقعہ کربلا میں اپنی والدہ اور دیگر برادران و خواہران کے ساتھ حاضر تھے۔

شب عاشور میں قاسم

[ترمیم]

ایک روایت کے مطابق شب عاشور جب امام حسینؑ نے خطبہ دیا اور اپنے ساتھیوں سے فرمایا: کل میں اور تم سب شہید ہو جائیں گے۔ قاسم نے سمجھا کہ یہ افتخار صرف مردوں اور بڑی عمر کے اصحاب کو ملے گا اور نوجوانوں کو نصیب نہ ہو گا، اس لیے پوچھا: کیا میں بھی کل قتل کیا جاؤں گا؟! امامؑ نے عطوفت بھرے لہجے میں پوچھا: میرے بیٹے! موت تیرے نزدیک کس طرح ہے؟! عرض کیا: احلیٰ من العسل؛ شہد سے شیرین تر۔ حضرتؑ نے فرمایا: خدا کی قسم! تیرے عمو تجھ پر قربان جائیں، تم ان شہدا میں سے ہو جنہیں سخت مصیبت اٹھانے کے بعد قتل کیا جائے گا۔

میدان جنگ میں رجز

[ترمیم]

عاشور کے دن جب قاسم نے جہاد کیلئے جانا چاہا تو اجازت مانگنے کیلئے امام حسینؑ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضرتؑ نے انہیں آغوش میں لیا اور دونوں نے گریہ کیا۔ قاسم نے دوبارہ اجازت مانگی۔ امام حسینؑ نے انکار فرمایا۔ قاسم امام کے دست و بازو کو بوسہ دے رہے تھے اور اپنی خواہش پر اصرار کر رہے تھے۔ مگر امامؑ اجازت نہیں دے رہے تھے یہاں تک کہ آپ کو اجازت مل گئی۔ ملا حسین کاشفی حضرت قاسمؑ کے اذن مانگنے اور حضرتؑ کے اذن نہ دینے کی کیفیت کے بارے میں لکھتے ہیں: آخرکار حضرت قاسمؑ نے اپنے والد امام حسنؑ کا تعویذ اپنے بازو سے کھول کر دکھایا کہ جس میں امام حسنؑ کی وصیت تھی کہ ہرگز اپنے عمو حسینؑ کی نصرت سے دستبردار نہیں ہونا ۔۔ پھر انہیں اجازت ملی۔ آپ اس حال میں میدان جنگ کیلئے روانہ ہوئے کہ آپؑ کی والدہ خیمہ کے دروازے پر کھڑی یہ منظر دیکھ رہی تھیں۔
ابن شہر آشوب کی روایت کے مطابق قاسم میدان جنگ میں یہ رجز پڑھ رہے تھے:
انی انا القاسُم من نسل علی•••نحن و بیت الله اولی بالنبی•••من شمر ذی الجوشن او ابن الدعی
میں قاسم، علی کی نسل سے ہوں، خدا کی قسم! ہم شمر بن ذی الجوشن یا مشکوک النسب (ابن زیاد)، کے مقابلے میں پیغمبرؐ کے اصل حقدار ہیں۔ آپ کئی دشمنوں کو واصل جہنم کرنے کے بعد شہادت کے بلند مقام پر فائز ہو گئے۔
[۱۰] موسوی زنجانی، ابراهیم، وسیلة الدارین، ص۲۵۳۔


حضرت قاسمؑ کی شہادت

[ترمیم]

طبری اور ابوالفرج اصفہانی نے حمید بن مسلم کی روایت کے مطابق حضرت قاسمؑ کی شہادت کا ان الفاظ میں ذکر کیا ہے:
ہماری طرف ایک ایسا نوجوان آیا کہ جس کا چہرہ چاند کی مانند چمک رہا تھا، ایک شمشیر ہاتھ میں، دو کپڑے تن پر اور پاؤں میں نعلین پہنے ہوئے تھا کہ ایک نعلین کا تسمہ ٹوٹ گیا؛ مجھے نہیں بھولتا کہ بایاں تسمہ تھا۔ عمرو بن سعید ازدی نے مجھے کہا: بخدا اس پر حملہ کروں گا! میں نے کہا: سبحان اللہ! خدا کی پناہ، اس کام سے کیا کرنا چاہتے ہو، اتنے بڑے لشکر نے اسے گھیر رکھا ہے وہ اس کا کام تمام کر دیں گے۔ کہنے لگا: خدا کی قسم، اس پر حملہ کروں گا! اس نے حملہ کیا اور قاسم کے سر پر تلوار کا وار کیا۔ قاسم منہ کے بل زمین پر آئے اور فریاد بلند کی: اے عمو جان! میری مدد کو آئیں۔ خدا کی قسم! حسینؑ عقاب کی مانند لپکے اور غضب آلود شیر کی مانند قاسم کے قاتل پر حملہ آور ہوئے اور اس کو ایک سخت ضربت لگائی۔ اس نے اپنا ہاتھ آگے کیا مگر اس کا ہاتھ کہنی تک قطع ہو گیا، وہ چیخ کر ایک طرف بھاگ گیا۔ کوفیوں کی ایک جماعت نے حملہ کیا تاکہ اسے نجات دیں مگر قاسم ان کے نیچے آ گئے اور گھوڑوں کے سموں تلے پامال ہو گئے یہاں تک کہ ان کی شہادت ہو گئی۔
[۱۱] سپهر کاشانی، محمدتقی، ناسخ التواریخ، ج۲، ص۳۲۸۔

کچھ دیر کے بعد جب گرد و غبار بیٹھ گیا تو میں نے دیکھا کہ امام حسینؑ اس جوان کے سرہانے کھڑے ہیں، وہ ایڑھیاں رگڑ رہا ہے، امامؑ کہہ رہے ہیں: بعداً لقوم قتلوک و من خصمهم یوم القیامة فیک جدک وہ قوم خدا کی رحمت سے دور ہو جس نے تجھے قتل کیا قیامت کے دن تیرے جد تیرے حق میں ان کے خلاف کھڑے ہوں گے۔
پھر فرمایا: عزّ والله علی عمّک ان تدعوه فلا یجیبک فلا ینفعک صوت والله کثر واتروه و قلّ ناصروه خدا کی قسم! تیرے عمو کیلئے بہت سخت ہے کہ تو انہیں پکارے مگر وہ تجھے جواب نہ دے سکیں اور تجھے فائدہ نہ پہنچا سکیں، آج خدا کی قسم! اس کے دشمن بہت زیادہ ہیں اور مددگار بہت کم ہیں۔ حمید بن مسلم کہتا ہے: پھر انہیں اٹھا کر چل دئیے، میں نے جوان کے دونوں پاؤں دیکھے کہ زمین پر خط کھینچتے جا رہے تھے اور حسینؑ نے اس کے سینے کو سینے سے لگا رکھا تھا۔ میں نے خود سے کہا: انہیں کہاں لے جا رہے ہیں؟! آپؑ نے انہیں لے جا کر اپنے بیٹے علی اکبرؑ اور دیگر شہدا کے ساتھ لٹا دیا۔ میں نے اس جوان کا نام پوچھا تو مجھے کہا گیا: یہ قاسم بن الحسنؑ ہیں۔
زیارت ناحیہ مقدّسہ میں حضرت قاسمؑ کو ان الفاظ میں یاد کیا گیا ہے:
السَّلامُ عَلَى الْقاسِمِ بْنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيِّ، الْمَضْرُوبِ عَلى‌ هامَتِهِ، الْمَسْلُوبِ لأمَتُهُ‌، حِينَ نادَى الْحُسَيْنَ عَمَّهُ، فَجَلى‌ عَلَيْهِ عَمُّهُ كَالصَّقْرِ، وَ هُوَ يَفْحَصُ‌ بِرِجْلَيْهِ التُّرابَ، وَ الْحُسَيْنُ يَقُولُ: بُعْداً لِقَوْمٍ قَتَلُوكَ، وَ مَنْ خَصْمُهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ جَدُّكَ وَ أَبُوكَ.
سلام ہو قاسم بن حسن بن علی پر کہ جن کے فرق پر شمشیر کا وار کیا گیا، زرہ کو لوٹ لیا گیا، جب انہوں نے اپنے چچا حسینؑ کو صدا دی تو حسینؑ شکاری پرندے کی طرح قاسم تک پہنچے۔ دیکھا کہ قاسم جان کنی کے عالم میں ایڑھیاں رگڑ رہے ہیں۔ فرمایا: خدا کی رحمت سے دور ہوں وہ لوگ جنہوں نے تجھے قتل کیا اور قیامت میں تیرے جد اور تیرے پدر ان کے خلاف دادخواہی کیلئے کھڑے ہوں گے! جو بھی زمین پر گرتا، امامؑ کو آواز دیتا اور امامؑ جلدی سے اس کے سرہانے پہنچ جاتے؛ مگر ہائے، وہ لمحہ جب امام حسینؑ خون میں غرق بدن کے ساتھ مقتل کے نشیب میں گرے، زینب کبریٰ نے فریاد بلند کی:
وا مُحَمَّداه! وا عَلیّاه، وا جَعْفَراه!

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. موسوی زنجانی، ابراهیم، وسیلة الدارین، ص۲۵۳۔
۲. ابوالفرج اصفهانی، علی بن حسین، مقاتل الطالبیین، ص۵۷-۵۸۔    
۳. شریف قریشی، باقر، حیاة الامام الحسن بن علی (علیهما‌السّلام) دراسة وتحلیل، ج۲، ص۴۶۰۔    
۴. سماوی، محمد بن طاهر، ابصار العین فی انصار الحسین علیه‌السلام، ص۷۲۔    
۵. موسوی زنجانی، ابراهیم، وسیلة الدارین، ص۲۵۳۔
۶. بحرانی، ‌هاشم، مدینة المعاجز، ج۴، ص۲۱۵۔    
۷. قمی، شیخ عباس، نفس المهموم، ص۲۰۸۔    
۸. کاشفی، ملا حسین، روضة الشهداء، ج۱، ص۴۰۰۔    
۹. ابن شهرآشوب، محمد بن علی‌، مناقب آل ابی‌طالب (علیهم‌السّلام)، ج۳، ص۲۵۵۔    
۱۰. موسوی زنجانی، ابراهیم، وسیلة الدارین، ص۲۵۳۔
۱۱. سپهر کاشانی، محمدتقی، ناسخ التواریخ، ج۲، ص۳۲۸۔
۱۲. شیخ مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفه حجج الله علی العباد، ج۲، ص۱۰۸۔    
۱۳. ابن طاووس، علی بن موسی، الملهوف علی قتلی الطفوف، ص۱۶۸۔    
۱۴. شیخ مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفه حجج الله علی العباد، ج۲، ص۱۰۸۔    
۱۵. ابن طاووس، علی بن موسی، الملهوف علی قتلی الطفوف، ص۱۶۸۔    
۱۶. طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، ج۵، ص۴۴۸۔    
۱۷. ابوالفرج اصفهانی، علی بن حسین، مقاتل الطالبیین، ص۵۸۔    
۱۸. شیخ مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفه حجج الله علی العباد، ج۲، ص۱۰۸۔    
۱۹. خوارزمی، موفق بن احمد، مقتل الحسین (علیه‌السّلام)، ج۲، ص۳۱۔    
۲۰. ابن طاووس، علی بن موسی، الاقبال بالاعمال الحسنه، ج۳، ص۷۵۔    
۲۱. علامه مجلسی، مجمدباقر، بحار الانوار، ج۴۵، ص۶۷۔    


ماخذ

[ترمیم]
پایگاه اطلاع‌رسانی حوزه، ماخوذ از مقالہ «شب‌های دهه محرم»، نظرثانی واضافات:ویکی فقہ ریسرچ بورڈ۔    


اس صفحے کے زمرہ جات : عشرہ محرم کے مصائب




جعبه ابزار