شرط ارتکازی

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



شرطِ ارتکازی سے مراد شرطِ ضمنی ہے۔ معاملہ کرتے ہوئے دونوں فریقوں کے ذہن میں جو شرط موجود ہو اس کو شرطِ ارتکازی کہتے ہیں۔ معاصر فقہاء اور علماء کے کلمات میں ہمیں یہ اصطلاح دکھائی دیتی ہے۔


ارتکاز کا معنی

[ترمیم]

ارتکاز کا مطلب عقلاء (عرفِ عام) یا متشرعہ ( عرف خاص) کے ذہن میں خاص مفہوم کا راسخ ہونا یا خاص مفہوم کا پایا جانا ہے۔ .

شرطِ ارتکازی کا معنی

[ترمیم]

شرطِ ارتکازی سے مراد وہ شرط ہے جو معاملات کو انجام دیتے ہوئے عقلاء کے اذہان میں پائی جائے، مثلا خرید و فروخت کرتے ہوئے چیز کا عیب دار نہ ہونا وغیرہ۔

شرطِ ارتکازی کے احکام

[ترمیم]

شرط ارتکازی کی رعایت ضروری ہے اور اس کو وفا کرنا اور پورا کرنا واجب ہے۔ کیونکہ عقد کرتے ہوئے ضمنی طور پر یہ شرط صریح طور پر موجود تھی جو واجب الوفاء ہے۔ ایسے مورد میں شرطِ ارتکازی کی خلاف ورزی کرنا جس میں ثمن اور مثمن قیمت کے اعتبار سے مساوی نہ ہوں خیارِ غبن کا باعث ہو گا۔ اسی طرح اگر ایسا مورد ہو جس میں ثمن اور مثمن معیوب کہلائیں تو یہ خیارِ عیب کا باعث قرار پائے گا۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. مصباح الفقاہۃ، خوئی، سید ابو القاسم، ج۷، ص۳۳۷۔    
۲. التنقیح فی شرح العروۃ الوثقی، خوئی، سید ابو القاسم، ج ۹، ص۳۵۷۔    
۳. تحریر الوسیلۃ، خمینی، سید روح اللہ، ج ۲، ص ۶۶۱۔    
۴. المستند فی شرح العروة الوثقی، خوئی، سید ابو القاسم، ج ۱۶، ص ۱۴۸۔    


مأخذ

[ترمیم]

فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت ع، ج۴، ۶۴۰۔    


اس صفحے کے زمرہ جات : بیع | شروط متعاقدین | فقہ




جعبه ابزار