شیعہ سنی مسائل اور موضوع احادیث

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



رسول اللہ ﷺ کی رحلت کے بعد امت اسلامیہ میں متعدد مسائل ابھر آئے جن کی بنیاد صحابہ کرام میں سیاسی رہبریت اور خلافت کے مسئلہ میں اٹھنے والا نزاع تھا۔ امام علیؑ مدعی تھے کہ وہ خلافت کے حقدار اور امامت کے عہدہ پر فائز ہیں اور آپؑ کی فکر و نظر کی اتباع کرنے والے مستقبل میں شیعہ اثنا عشر ی امامیہ کہلائے۔ ان کے مقابلے میں مہاجرین میں بعض قائل تھے کہ پہلے خلیفہ حضرت ابو بکر ہیں۔ جو اس فکر کا قائل ہوئے وہ مستقبل اہل سنت و الجماعت کہلائے۔ انہی مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ جو رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں ہی پیش آیا وہ بعض افراد کا حدیث گھڑ کے اس کی نسبت رسول اللہ ﷺ کی طرف دے دینا ہے۔ رحلتِ رسولؐ کے بعد یہ بدعت بڑھتی چلی گئی یہاں تک اپنے مفاد کو حاصل کرنے اور سیاسی کشمکش میں اپنے موقف کے اثبات کے لیے مختلف احادیث گھڑ کے آئمہ اہل بیتؑ کی طرف منسوب کی جانے لگیں۔ شیخ کشی نے ایک روایت اپنی سند سے نقل کی ہے جس میں امام صادقؑ کے سامنے موضوع احادیث آپؑ کی طرف نسبت کر بیان کی گئی۔ امام صادقؑ نے ان احادیث کو سن ان سب کو ردّ کیا۔ بعض متعصب فتنہ گر اہل سنت امام صادقؑ کی خدمت میں بیان کردہ موضوع حدیث کو دلیل بنا کر شبہات ایجاد کرتے ہیں اور ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ شیعہ و سنی اختلافی موضوعات میں اہل سنت کے حق میں خود شیعہ کتب میں روایت موجود ہے۔ موضوع کی حساسیت کی بناء پر ہم تمام حدیث اور اس کے متن کو قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں اور اٹھائے گئے شبہات کا جائزہ لیتے ہیں۔


رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں حدیث کا گھڑا جانا

[ترمیم]

شیعہ و سنی کتب میں تواترِ لفظی کے ساتھ حدیث مبارک آئی ہے جس میں رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:يَا عَلِيُّ مَنْ‌ كَذَبَ‌ عَلَيَ‌ مُتَعَمِّداً فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّار اے علیؑ ! جس نے بھی جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ باندھا اس کا ٹھکانہ نارِ جہنم ہے۔اسی طرح سے رحلتِ رسول ﷺ کے بعد حدیثیں گھڑ کے آئمہ اہل بیتؑ کی طرف منسوب کی جاتیں تھیں جس کا ایک نمونہ ہمیں کشی کی نقل کردہ روایت میں موجود واقعہ میں ملتا ہے جس سے بعض متعصب اہل سنت شبہات ایجاد کرتے ہیں۔

روایت کی سندی تحقیق

[ترمیم]
چوتھی صدی ہجری کے بزرگ عالمِ رجال محمد بن عمر کشی اپنی کتاب رجال الکشی میں امام جعفر صادقؑ سے روایت نقل کرتے ہیں جس کی سند کشی نے اس طرح بیان کی ہے:وَجَدْتُ فِي كِتَابِ أَبِي مُحَمَّدٍ جَبْرَئِيلَ بْنِ أَحْمَدَ الْفَارَيَابِيِّ بِخَطِّهِ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْفُضَيْلِ الْكُوفِيِّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنِ الْهَيْثَمِ بْنِ وَاقِدٍ عَنْ مَيْمُونِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ... میں نے ابو محمد جبرئیل بن احمد فاریابی کی انہی کے خط کے ساتھ لکھی کتاب میں پڑھا ہے، مجھے سے محمد بن عیسی، انہوں نے محمد بن فضیل کوفی سے، انہوں نے عبد اللہ بن عبد الرحمن سے، انہوں نے ہیثم بن واقد سے، انہوں نے میمون بن عبد اللہ سے نقل کیا ہے اور میمون نے امام جعفر صادقؑ کی خدمت میں واقعہ کو نقل کیا ہے۔

← راویوں کی رجالی حیثیت


کسی بھی حدیث کی جانچ پڑتال اور تحقیق و جستجو کے لیے سند، متن اور مضمونِ خبر کی دلالت کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ ممکن ہے ایک حدیث جب تک سند کے اعتبار سے قبولیت کا درجہ حاصل نہیں کر لیتی یا قرائن کی مدد سے سندی جبران نہیں ہو جاتی اس وقت تک اس حدیث کی نسبت معصوم کی طرف نہیں دی جا سکتی۔ پس ضروری ہے کہ کسی بھی حدیث کو لینے سے پہلے ہم صدورِ حدیث کو ثابت کریں جس کے لیے سند کی جانچ پڑتال ضروری قرار پاتی ہے۔ زیرِ نظر حدیث کو محمد بن عمر کشی نے اپنی رجال میں نقل کیا ہے جس کی سند کے تمام راویوں کا اجمالی جائزہ پیش خدمت ہے:
۱. جبرئیل بن احمد فاریابی: شیخ طوسی نے آپ کے بارے میں تحریر کیا ہے کہ آپ کی کنیت ابو محمد تھی اور کش کے علاقہ میں مقیم تھے۔ آپ نے عراق، قم اور خراسان کے علماء سے کثیر روایات نقل کی ہیں۔ کتب رجال میں آپ کی توثیق یا تضعیف وارد نہیں ہوئی۔
۲. محمد بن عیسی: نجاشی نے ان کی توثیق کی ہے۔
۳. محمد بن الفضیل کوفی: شیخ طوسی نے اپنی رجال میں ان کو غلو سے متہم کیا ہے جبکہ اپنی کتاب فہرست کتب الشیعۃ میں توثیق و تضعیف ہر دو ذکر نہیں کی۔ پس رجالِ طوسی کی بناء پر یہ راوی ضعیف شمار ہو گا۔
۴. عبد اللہ بن عبد الرحمن: کتب رجالیہ میں یہ نام چند راویوں میں مشترک ہے۔ رجال النجاشی میں عبد اللہ بن عبد الرحمن الاصم، عبد اللہ بن عبد الرحمن الزبیری، عبد اللہ بن عبد الرحمن الاسدی جبکہ رجال الطوسی میں عبد اللہ بن عبد الرحمن المدینی اور عبد اللہ بن عبد الرحمن الانصاری کا عنوان وارد ہوا ہے۔ اگر ان تمام راویوں کا مطالعہ کریں تو معلوم ہو گا کہ وہ عبد اللہ بن عبد الرحمن جسے محمد بن الفضیل روایت نقل کرتا ہے اس کا تذکرہ کتبِ رجالیہ میں وارد نہیں ہوا ہے۔
۵. ہیثم بن واقد: نجاشی نے آپ کا تذکرہ اپنی رجال میں کیا ہے اور آپ کو امام جعفر صادقؑ کا صحابی قرار دیا ہے جبکہ ابن داؤد حلی نے آپ کو ثقہ قرار دیا ہے۔
۶. میمون بن عبد اللہ: کشی نے اپنی رجال میں ان سے جو روایات نقل کی ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ میمون امام صادقؑ کے صحابی ہیں لیکن کتبِ رجالیہ میں ان کا تذکرہ وارد نہیں ہے۔ علم رجال کی اصطلاح کے مطابق میمون بن عبد اللہ مہمل راوی شمار ہوں گے۔

← حدیث کا سندی حکم اور شبہ کا ازالہ


سندی تحقیق سے ہمارے لیے روشن ہو گیا کہ یہ حدیث مجہول اور مہمل راویوں کی وجہ سے سندی طور پر قابل قبول نہیں ہے۔ بالخصوص محمد بن الفضیل پر جرح بھی وارد ہوئی ہے اور اس کو علماء رجال نے ضعیف اور غالی قرار دیا ہے۔ چنانچہ اگر ہم سندی طور پر حدیث کا جائزہ لیں تو یہ ضعیف حدیث کہلائے گی اور اس سے استدلال نہیں کیا جا سکتا۔ یہاں سے بعض اہل سنت کی طرف سے ایجاد کردہ شبہ کا جواب میسر آ جاتا ہے۔

متنِ روایت کی تحقیق

[ترمیم]

اگر سند سے ہٹ کر متنِ حدیث کا جائزہ لیا جائے اور بالفرض سند کو قبول کر لیا جائے تو بھی اس متنِ حدیث سے مکتب تشیع کی حقانیت اور متعصب عناصر کی طرف سے احادیث کو وضع کر کے آئمہؑ کی طرف نسبت دینا ثابت ہوتا ہے۔ اس روایت کے مکمل ترجمہ کو مطالعہ کریں تو معلوم ہو گا کہ امام جعفر صادقؑ کے دور میں معروف علمی شخصیات نے خلفاء کی مدح میں کیسے کیسے احادیث کو وضع کیا اور انہیں گھڑ کر معاشرے میں ہر جگہ پھیلایا اور اس کی جھوٹی نسبت آئمہ اطہارؑ کی طرف دی۔ یہی وجہ ہے کہ مکتب تشیع اور مکتب اہل تسنن کی کتب کے نتائج مختلف سامنے آتے ہیں۔ اس حدیث کا متن طویل ہے لہذا اس کو مختلف عناوین میں ڈھال کر بیان کیا جاتا ہے۔

حدیث کا ترجمہ

[ترمیم]

امام صادقؑ سے منقول اس حدیث کو کشی نے اپنی رجال میں اور ان سے علامہ مجلسی نے بحار الانوار میں نقل کیا ہے۔ حدیث کے عربی کلمات حذف کر کے فقط ترجمہ ذکر کیا جا رہا ہے تاکہ پہلے ترجمہ پڑھ لیا جائے اور اس کے بعد اس حدیث کے عناوین کے تحت تجزیہ و تحلیل کو ملاحظہ کیا جا سکے۔ حدیث کا ترجمہ درج ذیل ہے۔ میمون بن عبداللہ کہتے ہیں:
امام صادقؑ کی خدمت میں مختلف علاقوں سے آئے ہوئے افراد پر مشتمل ایک جماعت آئی جو امامؑ سے حدیث لینا چاہتے تھے، میمون کہتے ہیں کہ میں بھی خدمتِ امامؑ میں موجود تھا۔ امامؑ نے مجھ سے دریافت کیا تم اس جماعت میں کسی ایک کو جانتے ہو؟ میں نے کہا: نہیں۔ امامؑ نے فرمایا: پھر یہ میرے پاس کیسے آ پہنچے ہیں؟ میں نے کہا: ان لوگوں کو جہاں سے حدیث لینے کا موقع ملتا ہے وہاں سے حدیث لے لیتے ہیں، انہیں اس کی پروا نہیں ہوتی کہ وہ کس سے حدیث لے رہے ہیں۔ امامؑ نے ان میں سے ایک شخص سے پوچھا: کیا تم نے میرے علاوہ کسی اور سے بھی حدیث سنی ہے؟ اس نے کہا: جی، سنی ہے۔ امامؑ نے فرمایا: جو احادیث تم نے سنی ہے اس میں سے بعض میرے سامنے بیان کرو۔ اس نے کہا: میں آپ سے حدیث لینے آیا ہوں نہ کہ اس لیے آیا ہوں کہ آپ کے سامنے حدیث بیان کروں۔ امامؑ نے دوسرے شخص کو مخاطب کر کے فرمایا: اس نے جو احادیث سنی ہیں اسے مجھ سے بیان کرنے اس اسے کیا چیز منع کر رہی ہے؟ امامؑ نے فرمایا: براہ مہربانی تم نے جو کچھ احادیث سے سنا ہے اس میں سے کچھ مجھے سناؤ ؟ کیا جس سے تم نے حدیث لی ہے اس نے اپنی حدیث کو تمہارے لیے امانت قرار دیا تھا کہ تم وہ کبھی کسی سے بیان نہ کرنا ؟! دوسرے شخص نے کہا: نہیں، ایسا نہیں ہے، امامؑ نے فرمایا: پھر جو تم نے علم کسب کیا ہے اس میں سے بعض ہمیں بھی سناؤ تاکہ ہم ان شاء اللہ تم سے استفادہ کریں۔ اس شخص نے کہا: سفیان ثوری نے مجھ سے بیان کیا ہے کہ جعفر بن محمدؑ نے فرمایا: نبیذ تمام کی تمام حلال ہے سوائے وہ جو شراب سے تیار کی جائے۔ یہ کہہ کر وہ خاموش ہو گیا۔ امام صادقؑ نے فرمایا: ہمیں مزید سناؤ، اس نے بیان کیا : سفیان نے مجھ سے بیان کیا ، اس کو اس شخص نے بیان کیا ہے جس سے اس نے نقل کیا ہے، اس نے محمد بن علی الباقرؑ سے نقل کیا ہے کہ وہ فرماتے ہیں: جو جورابوں پر مسح نہیں کرتا وہ بدعتی ہے، اور جو نبیذ نہیں پیتا وہ بدعتی ہے، جو (سانپ نما ایک خاص نوع کی مچھلی) جریث نہیں کھاتا اور اہل کتاب کا کھانا اور ان کا ذبیحہ نہیں کھاتا وہ گمراہ ہے۔ جہاں تک نبیذ کا تعلق ہے تو عمر (بن خطاب) کشمش کی نبیذ پیتے تھے اور اس پر پانی کا چھڑکاؤ کرتے تھے، جہاں تک مسح کرنے کا تعلق ہے تو عمر سفر کے دوران جوراب پر اور حالتِ حضر میں دن و رات میں تین مرتبہ مسح کرتے تھے، جہاں تک ذبیحہ کا تعلق ہے تو علیؑ (اہل کتاب کا) ذبیحہ تناول کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ اس کو کھایا کرو کیونکہ اللہ تعالی فرماتا ہے: آج کے دن تمہارے لیے طیبات حل کر دیئے گئے ہیں اور ان لوگوں کا کھانا جنہیں کتاب دی گئی ہے تمہارے لیے حلال ہے اور تمہارا کھانا ان کے لیے حلال ہے (المائدۃ: ۵) ۔ یہ بیان کر کے وہ خاموش ہو گیا۔ امام صادقؑ نے فرمایا: ہمارے لیے مزید بیان کرو۔اس شخص نے کہا: جو میں نے سنا تھا وہ آپ کی خدمت میں بیان کر دیا ہے۔ امامؑ نے فرمایا: بس اتنا تھا جو تم نے سنا تھا؟
اس نے کہا: نہیں، امام صادقؑ نے فرمایا: ہمیں مزید سناؤ، اس شخص نے بیان کیا: عمرو بن عبید نے ہم سے بیان کیا ہے، انہوں نے حسن (بصری) سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں: بعض ایسے نظریات ہیں جن کی لوگ تصدیق کرتے ہیں جبکہ کتابِ الہی میں ان کی کوئی اساس و بنیاد نہیں ہے۔ ان نظریات میں سے ایک (نظریہ) قبر کا عذاب، (روزِ قیامت) میزان کا ہونا، حوض (کوثر کا ہونا)، شفاعت کا ہونا ہے اور کسی شخص کا خیر اور شر میں سے کسی عمل کو انجام دینے کی نیت کرنا ہے لیکن (نیت کرنے کے بعد) اس نے عمل انجام نہیں دیا تو اس کو (نیت کا ) ثواب نہیں ملے گا، انسان کو فقط اس وقت ثواب ملتا ہے جب وہ عمل انجام دیتا ہے، اگر اس نے خیر کو انجام دیا ہے تو اس کی جزاء خیر ہے اور اگر اس نے شر کو انجام دیا ہے تو اس کی جزاء شر ہے۔ راوی (عبد اللہ بن میمون) کہتے ہیں: میں اس کی اس حدیث پر ہنس پڑا ، امام صادقؑ نے مجھے خاص اشارہ کیا کہ میں ہنسی روکو تاکہ ہم اس کی حدیثیں سن سکیں۔ (حدیث سنانے والے) نے کہا کہ تمہیں حق کی کسی بات نے ہنسنے پر مجبور کیا ہے یا کسی باطل بات نے تمہیں ہنسا دیا ہے؟ میں نے اس کو کہا: اللہ تمہاری اصلاح فرمائے اور مجھے رولائے ، مجھے تمہاری ان احادیث سے متاثر ہوا ہوں جس کی وجہ سے مجھ ہنسی آ گئی کہ تم نے اتنی احادیث کیسے حفظ کر لیں !! پھر وہ خاموش ہو گیا۔ پھر امام صادقؑ نے فرمایا: مزید احادیث مجھے سناؤ۔ اس شخص نے کہا : سفیان ثوری نے مجھ سے بیان کیا ہے اور اس نے محمد بن منکدر سے بیان کیا ہے کہ محمد نے محمد بن قاسم نے امام علیہ السلام کو کوفہ کے ممبرز کیوں کر کہ وہ فرما رہے تھے کہ اگر کوئی شخص میرے پاس مجھے کسی شخص کے پاس لایا جائے جو آپ نے مجھے کسی ایسے شخص کے پاس لے جایا جائے کہ جو میرے اوپر جو مجھے ابوبکر اور عمر کے اوپر فضیلت دیتا ہے تو میں اس کو اس طرح اور جھوٹ باندھنے والے کی اس پر حد جاری کرتے ہوئے کپڑے لگا امام صادقؑ نے اس سے کہا مزید مجھے بیان کرو اس نے کہا کہ سفیان مجھے یعنی سفیان ثوری نے مجھے عمر سے بیان کیا ہے اور اس نے جعفر طیار امام جعفر صادقؑ سے نقل کیا ہے کہ امام جعفرؑ فرماتے ہیں ابو بکر کی محبت اور عمر کی محبت ایمان ہے اور ان دونوں سے بغض اور نفرت رکھنا کفر ہے ہے امام صادقؑ نے فرمایا: مزید بیان کرو، اس شخص نے کہا کہ بیان کیا یونس بن عبید نے مجھ سے بیان کیا ہے اور اس نے حسن بصری سے نقل کیا ہے کہ حسن بصری کہتے ہیں کہ علیؑ نے ابوبکر کی بیعت کرنے میں میں سستی اور دیر کی تو عتیق ابوبکر نے امام علیؑ سے کہا کس چیز نے آپ سے اس قدر دور رکھا یعنی اتنی تاخیر رکھا قسم بخدا اگر میں چاہتا تو قسم بخدا میں نے یہ ارادہ کیا تھا کہ میں تمہیں تمہاری گردن اڑا دیتا امامؑ نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ سے کہا تھا تصدیق کے ایسا نہ کرو رو کرو تم مجھے اس نے تم مجھے اس بات کی پر ملامت نہ کرو امام صادق علیہ السلام نے اس سے کہا ہم جدوجہد بیان کرو اس شخص نے کہا کہ سفیان ثوری میں مجھ سے بیان کیا ہے کہ اس نے حسن بصری سے نقل کیا ہے کہ حسن بصری کہتے ہیں ابوبکر نے خالد بن ولید کو حکم دیا تھا کہ علی علیہ السلام کی گردن کو اڑا دیا جائے جب نماز صبح کا سلام پڑھا تو ابوبکر نے سلام پڑھتے ہوئے آپ نے مذاق اور خالد بن ولید کو جو حکم دیا تھا اس لئے تو اشارہ کرنے کے درمیان جو ہے وہ توقف کیا اور پھر کہا کہ ایک خالد جو میں نے تجھے حکم دیا ہے اسے انجام مت دو و امام جعفر صادق علیہ السلام نے اس شخص کو کہا ہم جدوجہد بیان کروں تو اس شخص نے کہا ۔

نبیذ کے حلال ہونے کی تہمت

[ترمیم]

اس حدیث میں امام جعفر صادقؑ کے اصرار پر جب احادیث کو نقل کیا تو حدیث نقل کرنے والے امام صادقؑ کے سامنے ان کی طرف جھوٹی نسبت دیتے ہوئے کہا: حَدَّثَنِي سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ قَالَ: النَّبِيذُ كُلُّهُ حَلَالٌ إِلَّا الْخَمْرَ ثُمَّ سَكَتَ؛ مجھ سے سفیان ثوری نے نقل کیا اور سفیان ثوری کہتا ہے کہ مجھ سے جعفر بن محمدؑ نے بیان کیا ہے کہ تمام قسم کی نبیذ حلال ہے سوائے شراب کے، یہ کہہ کر وہ شخص خاموش ہو گیا۔

← نبیذ حرام ہے


امام صادقؑ کی طرف نبیذ کے حلال ہونے کی نسبت دینا ان پر تہمت ہے اور ایسی تمام احادیث ضعیف السند ہیں جن میں آئمہ اہل بیتؑ کی طرف نبیذ کی حلیت کی نسبت دی گئی ہے۔ معتبر احادیث میں وارد ہوا ہے کہ امام صادقؑ نے نبیذ کو حرام قرار دیا ہے۔ شیخ محمد بن یعقوب کلینی نے صحیح السند حدیث نقل کی ہے جس میں برید بن معاویہ کہتے ہیں کہ میں امام صادقؑ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: إِنَّ فِي كِتَابِ عَلِيٍّ ع يُضْرَبُ شَارِبُ الْخَمْرِ ثَمَانِينَ وَ شَارِبُ‌ النَّبِيذِ ثَمَانِينَ کتابِ علیؑ میں موجود ہے کہ شراب پینے والے کو اسی (۸۰) کوڑے لگائے جائیں گے اور نبیذ پینے والے کو اسی (۸۰) کوڑے مارے جائیں گے۔

← خلیفہ دوم کا نبیذ کو حلال سمجھنا


حقیقت یہ ہے کہ صحابہ کرام میں حضرت عمر بن خطاب نبیذ پیا کرتے تھے۔ جو نبیذ عمر بن خطاب پیتے اگر اس سے کسی کو نشہ ہو جاتا تو اہل سنت معتبر احادیث کے مطابق خلیفہ دوم اس پر حد جاری کرتے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ وہی نبیذ وہ خود پیتے تو انہیں نشہ نہ ہوتا لیکن اگر کوئی اور پیتا تو اس کو نشہ ہو جاتا اور نشہ ہونے کی وجہ سے اس پر حدّ جاری کی جاتی!! طحاوی نے کتاب شرح معانی الآثار میں حدیث نمبر ۶۴۶۲ اور ۶۴۶۳ میں سعید سے نقل کیا ہے: أُتِيَ عُمَرُ بِرَجُلٍ سَكْرَانَ فَجَلَدَهُ فَقَالَ: إِنَّمَا شَرِبْتُ مِنْ شَرَابِكَ فَقَالَ: وَإِنْ كَانَ عمر کے پاس ایک شخص لایا گیا جو نشے کی حالت میں تھا، عمر نے اس کو کوڑے لگائے۔ اس شخص نے کہا کہ جو آپ پیتے ہیں وہ میں نے پیا ہے، عمر نے کہا: اگرچے تم نے اس کو پیا ہو۔ معروف حنفی فقیہ جصاص نے ان احادیث کے تواتر کی تصریح کی ہے جس میں درج ہے کہ عمر بن خطاب شدید نبیذ پیتے تھے کہ اگر کوئی اور پیتا تو وہ نبیذ اس کی عقل کو زائل کر دیتی۔ اسی طرح ابو بکر جصاص نے تواتر کے ساتھ بیان کیا ہے کہ عبد اللہ بن مسعود بھی نبیذ کو پیتے جس کا آخر مسکر اور نشہ آور ہوتا ہے۔ یہاں سے یہ شبہ بھی دور ہو جاتا ہے کہ مکتب تشیع کی کتب میں جس نبیذ کی نسبت آئمہ اہل بیتؑ کی طرف دی گئی ہے وہ اصلًا نشہ آور نہیں ہوتی تھی اور اس کی ماہیت ہی شراب سے جدا ہوتی تھی جیساکہ اہل سنت کتب احادیث اور کتب فتاوی میں ایسی نبیذ کے تناول کرنے کی نسبت رسول اللہ ﷺ کی طرف بھی گئی ہے۔ جبکہ عمر بن خطاب اور عبد اللہ بن مسعود جس نوعیت کی نبیذ بیتے وہ شدید اور نشہ آور ہوتی جیساکہ تواتر کے ساتھ احادیث اہل سنت کتب میں وارد ہوئی ہیں۔

جراب پر مسح کرنے کی تہمت

[ترمیم]

حدیث کے مطابق امام صادقؑ نے مزید بیان کرنے کا تقاضا کیا تو امام باقرؑ کی طرف جھوٹی نسبت دیتے ہوئے یہ موضوع حدیث بیان کی گئی:حَدَّثَنِي‌ سُفْيَانُ عَمَّنْ حَدَّثَهُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ ع أَنَّهُ قَالَ مَنْ لَمْ يَمْسَحْ عَلَى خُفَّيْهِ فَهُوَ صَاحِبُ بِدْعَةٍ

رجال الکشی کی روایت کا متن

[ترمیم]

فَقَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع زِدْنَا قَالَ حَدَّثَنِي‌ سُفْيَانُ عَمَّنْ حَدَّثَهُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ ع أَنَّهُ قَالَ مَنْ لَمْ يَمْسَحْ عَلَى خُفَّيْهِ فَهُوَ صَاحِبُ بِدْعَةٍ وَ مَنْ لَمْ يَشْرَبِ النَّبِيذَ فَهُوَ مُبْتَدِعٌ وَمَنْ لَمْ يَأْكُلِ الْجِرِّيثَ وَطَعَامَ أَهْلِ الذِّمَّةِ وَذَبَائِحَهُمْ فَهُوَ ضَالٌّ، أَمَّا النَّبِيذُ فَقَدْ شَرِبَهُ عُمَرُ نَبِيذُ زَبِيبٍ فَرَشَحَهُ بِالْمَاءِ وَأَمَّا الْمَسْحُ عَلَى الْخُفَّيْنِ فَقَدْ مَسَحَ عُمَرُ عَلَى الْخُفَّيْنِ ثَلَاثاً فِي السَّفَرِ وَ يَوْماً وَلَيْلَةً فِي الْحَضَرِ وَأَمَّا الذَّبَائِحُ فَقَدْ أَكَلَهَا عَلِيٌّ ع وَقَالَ كُلُوهَا، فَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى يَقُولُ: {الْيَوْمَ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّباتُ وَ طَعامُ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتابَ حِلٌّ لَكُمْ وَ طَعامُكُمْ حِلٌّ لَهُمْ}، ثُمَّ سَكَتَ فَقَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع زِدْنَا، فَقَالَ: فَقَدْ حَدَّثْتُكَ بِمَا سَمِعْتُ فَقَالَ أَ كُلُّ الَّذِي سَمِعْتَ هَذَا قَالَ لَا قَالَ زِدْنَا قَالَ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُبَيْدٍ عَنِ الْحَسَنِ قَالَ أَشْيَاءُ صَدَّقَ النَّاسُ بِهَا وَأَخَذُوا بِمَا لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ لَهَا أَصْلٌ مِنْهَا عَذَابُ الْقَبْرِ وَمِنْهَا الْمِيزَانُ وَمِنْهَا الْحَوْضُ وَمِنْهَا الشَّفَاعَةُ وَمِنْهَا النِّيَّةُ يَنْوِي الرَّجُلُ مِنَ الْخَيْرِ وَالشَّرِّ فَلَا يَعْمَلُهُ فَيُثَابُ عَلَيْهِ، وَلَا يُثَابُ الرَّجُلُ إِلَّا بِمَا عَمِلَ، إِنْ خَيْراً فَخَيْراً وَإِنْ شَرّاً فَشَرّاً، قَالَ: فَضَحِكْتُ مِنْ حَدِيثِهِ، فَغَمَزَنِي أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع أَنْ كُفَّ حَتَّى نَسْمَعَ، قَالَ فَرَفَعَ رَأْسَهُ إِلَيَّ، فَقَالَ، وَمَا يُضْحِكُكَ مِنَ الْحَقِّ أَمْ مِنَ الْبَاطِلِ قُلْتُ لَهُ أَصْلَحَكَ اللَّهُ وَ أَبْكِي وَ إِنَّمَا يُضْحِكُنِي مِنْكَ تَعَجُّباً كَيْفَ حَفِظْتَ هَذِهِ الْأَحَادِيثَ فَسَكَتَ فَقَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع زِدْنَا قَالَ حَدَّثَنِي سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ أَنَّهُ رَأَى عَلِيّاً ع عَلَى مِنْبَرٍ بِالْكُوفَةِ وَ هُوَ يَقُولُ لَئِنْ أُتِيتُ بِرَجُلٍ يُفَضِّلُنِي عَلَى أَبِي بَكْرٍ وَ عُمَرَ لَأَجْلِدَنَّهُ حَدَّ الْمُفْتَرِي فَقَالَ لَهُ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع زِدْنَا فَقَالَ حَدَّثَنِي سُفْيَانُ عَنْ جَعْفَرٍ أَنَّهُ قَالَ حُبُّ أَبِي بَكْرٍ وَ عُمَرَ إِيمَانٌ وَ بُغْضُهُمَا كُفْرٌ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع زِدْنَا قَالَ حَدَّثَنِي يُونُسُ بْنُ عُبَيْدٍ عَنِ الْحَسَنِ أَنَّ عَلِيّاً ع أَبْطَأَ عَلَى بَيْعَةِ أَبِي بَكْرٍ فَقَالَ لَهُ عَتِيقٌ مَا خَلَّفَكَ عَنِ الْبَيْعَةِ وَ اللَّهِ لَقَدْ هَمَمْتُ أَن‌ أَضْرِبَ عُنُقَكَ فَقَالَ عَلِيٌّ ع خَلِيفَةَ رَسُولِ اللَّهِ لَا تَثْرِيبَ فَقَالَ لَهُ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع زِدْنَا قَالَ حَدَّثَنِي سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ عَنِ الْحَسَنِ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ أَمَرَ خَالِدَ بْنَ الْوَلِيدِ أَنْ يَضْرِبَ عُنُقَ عَلِيٍّ ع إِذَا سَلَّمَ مِنْ صَلَاةِ الصُّبْحِ وَ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ سَلَّمَ بَيْنَهُ وَ بَيْنَ نَفْسِهِ ثُمَّ قَالَ يَا خَالِدُ لَا تَفْعَلْ مَا أَمَرْتُكَ فَقَالَ لَهُ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع زِدْنَا قَالَ حَدَّثَنِي نُعَيْمُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ع أَنَّهُ قَالَ وَدَّ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ ع أَنَّهُ بِنُخَيْلَاتِ يَنْبُعَ يَسْتَظِلُّ بِظِلِّهِنَّ وَ يَأْكُلُ مِنْ حَشَفِهِنَّ وَ لَمْ يَشْهَدْ يَوْمَ الْجَمَلِ وَ لَا النَّهْرَوَانِ وَ حَدَّثَنِي بِهِ سُفْيَانُ عَنِ الْحَسَنِ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع زِدْنَا قَالَ حَدَّثَنَا عَبَّادٌ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ أَنَّهُ قَالَ لَمَّا رَأَى عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ ع يَوْمَ الْجَمَلِ كَثْرَةَ الدِّمَاءِ قَالَ لِابْنِهِ الْحَسَنِ يَا بُنَيَّ هَلَكْتُ قَالَ لَهُ الْحَسَنُ يَا أَبَتِ أَ لَيْسَ قَدْ نَهَيْتُكَ عَنْ هَذَا الْخُرُوجِ فَقَالَ عَلِيٌّ ع يَا بُنَيَّ لَمْ أَدْرِ أَنَّ الْأَمْرَ يَبْلُغُ هَذَا الْمَبْلَغَ فَقَالَ لَهُ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع زِدْنَا قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ع أَنَّ عَلِيّاً ع لَمَّا قَتَلَ أَهْلَ صِفِّينَ بَكَى عَلَيْهِمْ ثُمَّ قَالَ جَمَعَ اللَّهُ بَيْنِي وَ بَيْنَهُمْ فِي الْجَنَّةِ قَالَ فَضَاقَ بِيَ الْبَيْتُ وَ عَرِقْتُ وَ كِدْتُ أَنْ أَخْرُجَ مِنْ مَسْكِي فَأَرَدْتُ أَنْ أَقُومَ إِلَيْهِ فَأَتَوَطَّأَهُ ثُمَّ ذَكَرْتُ غَمْزَ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع فَكَفَفْتُ فَقَالَ لَهُ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع مِنْ أَيِّ الْبِلَادِ أَنْتَ قَالَ مِنْ أَهْلِ الْبَصْرَةِ قَالَ هَذَا الَّذِي تُحَدِّثُ عَنْهُ وَ تَذْكُرُ اسْمَهُ جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ تَعْرِفُهُ قَالَ لَا قَالَ فَهَلْ سَمِعْتَ مِنْهُ شَيْئاً قَطُّ قَالَ لَا قَالَ فَهَذِهِ الْأَحَادِيثُ عِنْدَكَ حَقٌّ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَمَتَى سَمِعْتَهَا قَالَ لَا أَحْفَظُ قَالَ إِلَّا أَنَّهَا أَحَادِيثُ أَهْلِ مِصْرِنَا مُنْذُ دَهْرِنَا لَا يَمْتَرُونَ فِيهَا قَالَ لَهُ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع لَوْ رَأَيْتَ هَذَا الرَّجُلَ الَّذِي تُحَدِّثُ عَنْهُ فَقَالَ لَكَ هَذِهِ الَّتِي تَرْوِيهَا عَنِّي كَذِبٌ وَقَالَ لَا أَعْرِفُهَا وَلَمْ أُحَدِّثْ بِهَا هَلْ كُنْتَ تُصَدِّقُهُ قَالَ لَاں قَالَ: لِمَ ؟ قَالَ: لِأَنَّهُ شَهِدَ عَلَى قَوْلِهِ رِجَالٌ لَوْ شَهِدَ أَحَدُهُمْ عَلَى عِتْقِ رَجُلٍ لَجَاز قَوْلُهُ. فَقَالَ: اكْتُبْ > بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ جَدِّي، قَالَ: مَا اسْمُكَ؟ قَالَ: مَا تَسْأَلُ عَنِ اسْمِي إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ص، قَالَ خَلَقَ اللَّهُ الْأَرْوَاحَ قَبْلَ الْأَجْسَادِ بِأَلْفَيْ عَامٍ ثُمَّ أَسْكَنَهَا الْهَوَاءَ فَمَا تَعَارَفَ مِنْهَا ثَمَّ ائْتَلَفَ هَاهُنَا وَمَا تَنَاكَرَ ثَمَّ اخْتَلَفَ هَاهُنَا وَمَنْ كَذَبَ عَلَيْنَا أَهْلَ الْبَيْتِ حَشَرَهُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَى يَهُودِيّاً وَإِنْ أَدْرَكَ الدَّجَّالَ آمَنَ بِهِ وَإِنْ لَمْ يُدْرِكْهُ آمَنَ بِهِ فِي قَبْرِهِ، يَا غُلَامُ ضَعْ لِي مَاءً وَغَمَزَنِي، وَقَالَ: لَا تَبْرَحْ، وَقَامَ الْقَوْمُ فَانْصَرَفُوا وَقَدْ كَتَبُوا الْحَدِيثَ الَّذِي سَمِعُوا مِنْهُ، ثُمَّ إِنَّهُ خَرَجَ وَوَجْهُهُ مُنْقَبِضٌ، فَقَالَ: أَ مَا سَمِعْتَ مَا يُحَدِّثُ بِهِ هَؤُلَاءِ، قُلْتُ: أَصْلَحَكَ اللَّهُ مَا هَؤُلَاءِ وَمَا حَدِيثُهُمْ، قَالَ: أَعْجَبُ حَدِيثِهِمْ كَانَ عِنْدِي الْكَذِبُ عَلَيَّ وَالْحِكَايَةُ عَنِّي مَا لَمْ أَقُلْ وَلَمْ يَسْمَعْهُ عَنِّي أَحَدٌ وَقَوْلُهُمْ لَوْ أَنْكَرَ الْأَحَادِيثَ مَا صَدَّقْنَاهُ مَا لِهَؤُلَاءِ؟! لَا أَمْهَلَ اللَّهُ لَهُمْ وَلَا أَمْلَى لَهُمْ، ثُمَّ قَالَ لَنَا: إِنَّ عَلِيّاً ع لَمَّا أَرَادَ الْخُرُوجَ مِنَ الْبَصْرَةِ، قَالَ عَلَى أَطْرَافِهَا، ثُمَّ قَالَ: لَعَنَكِ اللَّهُ يَا أَنْتَنَ الْأَرْضِ تُرَاباً وَ أَسْرَعَهَا خَرَاباً وَ أَشَدَّهَا عَذَاباً فِيكِ الدَّاءُ الدَّوِيُّ قِيلَ مَا هُوَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ قَالَ كَلَامُ الْقَدَرِ الَّذِي فِيهِ الْفِرْيَةُ عَلَى اللَّهِ وَ بُغْضُنَا أَهْلَ الْبَيْتِ وَ فِيهِ سَخَطُ اللَّهِ وَ سَخَطُ نَبِيِّهِ ص وَ كَذِبُهُمْ عَلَيْنَا أَهْلَ الْبَيْتِ وَ اسْتِحْلَالُهُمُ الْكَذِبَ عَلَيْنَا

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. شیخ صدوق، محمد بن علی، من لا یحضرہ الفقیہ، ج ۴، ص ۳۶۴۔    
۲. کشی، محمد بن عمر، رجال الکشی، ج ۱،ص ۳۹۳۔    
۳. خوئی، سید ابو القاسم، معجم رجال الحدیث، ج ۱، ص ۱۹۔    
۴. شہید صدر، سید محمد باقر، دروس فی الاصول، ج ۱، ص ۱۰۷۔    
۵. طوسی، محمد بن حسن، رجال الطوسی، ص ۴۱۸۔    
۶. نجاشی، احمد بن علی، رجال النجاشی، ج ۱،ص ۳۳۸۔    
۷. طوسی، محمد بن حسن، رجال الطوسی، ج ۱،ص ۳۸۹۔    
۸. ابن داؤد حلی، حسن بن علی، الرجال، ص ۲۰۱۔    
۹. کشی، محمد بن عمر، رجال الکشی، ج ۱،ص ۳۹۵۔    
۱۰. مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج ۴۷، ص ۳۵۵۔    
۱۱. کشی، محمد بن عمر، رجال الکشی، ج ۱،ص ۳۹۴۔    
۱۲. کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۷، ص ۲۱۴۔    
۱۳. طحاوی، احمد بن محمد، شرح معانی الآثار، ج ۴، ص ۲۱۸۔    
۱۴. جصاص، احمد بن علی، شرح مختصر الطحاوی، ج ۶، ص ۳۷۰۔    


مأخذ

[ترمیم]

محققین گروہِ ویکی فقہ کی طرف سے یہ مقالہ ایجاد کیا گیا ہے۔


اس صفحے کے زمرہ جات : اہل سنت کے شبہات | تحریف حدیث




جعبه ابزار