ضرورت کی اقسام

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



ضرورت کا مطلب جدا نہ ہونا اور عدم انفکاک کے ہیں۔ علمی دنیا میں اس سے مراد ایک قضیہ میں محمول کا اپنے موضوع سے جدا نہ ہونا ہے۔ ضرورت کے مقابلے میں سلبِ ضرورت ہے جس کو اصطلاح میں امکان بھی کہا جاتا ہے۔ سلبِ ضرورت سے مراد یہ ہے کہ یہ محمول اس موضوع کے لیے ضروری نہیں ہے۔ یعنی یہ محمول اس موضوع سے جدا ہو سکتا ہے۔


ضرورت کے لغوی معنی

[ترمیم]

لفظ ضرورت (ض-ر-ر) سے مشتق ہے جس کا معنی کسی امر میں جدائی ڈالنے کی قدرت کا نہ ہونا، لزوم اور محتاج ہونے کے ہیں۔ لفظ ضرورت عوام الناس کے نزدیک محتاجی و احتیاج کے معنی میں زیادہ استعمال ہوتا ہے۔ جبکہ ضرورت بمعنی لزوم اور جدائی کا نہ ہونا علمی مباحث میں کثرت سے استعمال ہوتا ہے۔ راغب نے ضرورت اور ضروری کے تین معنی ذکر کیے ہیں: ۱۔ مجبوری اور قہری طور پر ایک شیء کا ہونا، جیسے درخت کا شدید ہوا سے ہلنا ضروری ہے۔ ۲۔ جس کا وجود اس شیء کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا اس شیء کو ضرورت یا ضروری کہا جائے گا، جیسے بدنِ انسانی کی حفاظت کے لیے غذا ضروری ہے۔ ۳۔ ضرورت اس شیء کے لیے بولا جاتا ہے جس کا برخلاف واقع نہیں ہو سکتا، جیسے ایک بدن ایک حالت میں دو جگہوں میں نہیں ہو سکتا۔ان تینوں معانی میں مشترک معنی لزوم اور ایک دوسرے سے جدا نہ ہونے کے موجود ہیں۔ لغات میں ضرورت کا دوسرا معنی احتیاج اور محتاجی کے ذکر ہوئے ہیں۔

فلسفہ میں ضرورت کا معنی

[ترمیم]

لفظِ ضرورت یا ضروری وہاں استعمال کیا جاتا ہے جہاں ایک محمول مثلا الف کا ایک موضوع مثلا ب سے جدا اور علیحدہ ہونا ممکن نہ ہو۔ جس قضیہ میں محمول اپنے موضوع سے جدا نہیں کیا جا سکتا وہاں اس کو ضرورت سے تعبیر کیا جاتا ہے یعنی یہ محمول اپنے مضووع کے لیے ضروری ہے۔ لفظِ ضرورت کو جب ہم وجود کی طرف اضافہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں: ایک شیء کے لیے ضرورتِ وجود، اس کا مطلب وجوب ہوتا ہے۔ اسی طرح جب لفظِ ضرورت کو عدم کی طرف اضافہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: ضرورتِ عدم، اس کو اصطلاح میں امتناع کہتے ہیں۔

مفہومِ ضرورت اور مفہومِ لا ضرورت یعنی ضرورت کا نہ ہونا ہر دو بدیہی مفہوم ہیں۔ مواد ثلاث میں ہر ایک اسی مفہوم ضرورت سے تشکیل پایا ہے۔ وجوب، امتناع اور امکان تینوں ضرورت سے تشکیل پائے ہیں۔ اس لیے موادِ ثلاث بھی بدیہی شمار ہوتے ہیں۔ لہذا ان کی جو تعریف بھی لائی جائے اس تعریف سے دَور لازم آئے گا۔

ضرورت کی اقسام

[ترمیم]

حکماءِ اسلامی نے ضرورت کی متعدد اقسام ذکر کی ہیں جن میں سے ہر ایک کو سلب کر کے امکان کے مختلف معانی حاصل کیے جاتے ہیں۔ پس امکان کے مختلف معانی سمجھنے کے لیے ہمیں ضرورت کی اقسام کا مختصر جائزہ لینا چاہیے جوكہ درج ذیل ہیں:

ضرورت ازلی

[ترمیم]

بعض اوقات ایک محمول ذاتِ موضوع کے لیے ضرورت ہوتا ہے، یعنی محمول کا ذاتِ موضوع کے لیے ثبوت ضروری و واجب ہے۔ اس ضرورت کے لیے کسی قسم کی قید و شرط حتی قیدِ وجود بھی معتبر نہیں ہے، لہذا یہ ضرورت ہر قسم کی قید و شرط سے آزاد ہے۔ اس نوعِ ضرورت کو ضرورتِ ازلی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہ ضرورت اس موضوع کے ساتھ مختص ہے جس کی ذات خود وجودِ صِرف ہے، وہ اپنے وجود میں کسی غیر کی احتیاج نہیں باتا۔ یہ نوعِ ضرورت واجب الوجود بالذات یعنی اللہ سبحانہ کے ساتھ مختص ہے۔ بالفاظ دیگر اس ضرورت کا موضوع ہمیشہ واجب الوجود بالذات ہو گا۔ اللہ تعالی کا غیر اس ضرورت سے متصف نہیں ہو سکتا۔

ضرورت ذاتی

[ترمیم]

بعض واقات ایک محمول ذاتِ موضوع کے لیے ضروری ہے لیکن اس شرط و قید کے ساتھ کہ موضوع موجود ہو۔ اگر موضوع وجود نہ رکھتا ہو تو محمول کو اس کے لیے ثابت نہیں کیا جا سکے گا۔ پس اگر موضوع موجود ہے تو ضروری ہے کہ محمول اس کے لیے ثابت ہو، اس نوعِ ضرورت کو ضرورتِ ذاتی سے تعبیر کیا جاتا ہے، مثلا ہر انسان حیوان بالضرورۃ ہے، یعنی حیوانیت انسان کے لیے ذاتی ہے، لہذا جب بھی ماہیتِ انسان موجود ہو اور وجود کے ساتھ ہو اس کے لیے محمول یعنی حیوانیت کا ثابت ہونا ضروری ہے۔ لیکن اگر موضوع موجود نہیں ہے تو اس کے لیے محمول بھی ضروری نہیں ہے۔

ضرورت وصفی

[ترمیم]

بعض اوقات ایک محمول ایک موضوع کے لیے اس وقت ضروری قرار پاتا ہے جب وہ موضوع کسی خاص صفت کے ساتھ متصف ہو۔ اگر موضوع اس صفت کے ساتھ متصف نہیں ہے تو محمول بھی اس موضوع کے لیے ضروری نہیں ہو گا۔ یہ محمول اس موضوع کے لیے علت نہیں بنا رہا ہوتا بلکہ موضوع چونکہ خاص صفت کے ساتھ متصف ہے اس لیے محمول کو اس موضوع پر حمل کرنا ضروری ہے۔ اس ضرورت کو اصطلاح میں ضرورتِ وصفی کہتے ہیں۔ مثلا ہر لکھنے والا انگلیوں کو حرکت دینے والا ہوتا ہے جب تک وہ کاتب ہے۔ اس مثال میں انگلیوں کا حرکت کرنا کاتب بننے کی علت و سبب نہیں ہے لیکن جب بھی کاتب ہو گا اور کتابت و لکھنے کی صفت اس کے لیے ثابت ہو گی محمول کا اس کے لیے ثبوت ضروری قرار پائے گا۔ پس اس مثال میں وصف لکھنا یا کتابت بن رہا ہے۔ جب بھی موضوع اس وصف کے ساتھ متصف ہو گا محمول کو اس کے لیے ثابت کرنا ضروری ہو گا۔

ضرورت وقتی

[ترمیم]

اسی طرح اگر ایک محمول کسی موضوع کے لیے کسی خاص وقت میں ضروری قرار پائے تو اس ضرورت کو ضرورتِ وقتی کہتے ہیں، مثلا چاند کا گرہن کے وقت بالضرورۃ گھٹ جانا۔ اس مثال میں محمول یعنی گھٹنا موضوع کے لیے خاص وقت کے داخل ہونے کے بعد ضروری ہے۔ اگر یہ وقت نہ ہو تو محمول کا موضوع کے لیے ثابت ہونا ضروری نہیں ہے۔ پس محمول ایک خاص وقت میں موضوع کے لیے ضروری الثیبوت ہے۔

ضرورت بشرط محمول

[ترمیم]

بعض قضایا ایسے ہوتے ہیں جن میں محمول اپنے موضوع کے لیے قید بن رہا ہوتا ہے، اس قید کو بعنوان محمول ذکر کیا جاتا ہے جسے میں اصطلاح میں ضرورت بشرط محمول کہا جاتا ہے، مثلا انسان جب تک ہنستا ہے ہنسنے والا ہے، اس مثال میں ہنسنے کی صفت محمول واقع ہو رہی ہے لیکن حقیقت میں یہی صفت موضوع کے لیے قید بھی بن رہی تھی۔

← ضرورت بشرط محمول منطقی کی نظر میں


ضرورت بشرط محمول کی اصطلاح منطقی اور فلسفی کی نظر میں فرق کرتی ہے۔ اہل منطق کے نزدیک اگر محمول اپنے موضوع کے لیے قید و شرط بن رہا ہو تو اس صورت میں محمول کو موضوع پر حمل کرنا ضروری ہو گا۔ اس ضرورت کو اصطلاح میں ضرورت بشرط محمول کہتے ہیں۔ منطقی کی نظر میں ضرورت بشرط محمول ماضی یا حال کے اعتبار سے مختلف نہیں ہوتا۔ نیز اس معنی میں ایک جہت سے یہ ضرورتِ ذاتی سے شباہت رکھتا ہے اور ایک جہت سے ضرورتِ وصفی سے لیکن نہ عینِ ضرورت ذاتی ہے اور نہ ضرورت وصفی۔ وہ شباہت یہ ہے کہ ضرورت بشرط محمول میں محمول کو موضوع کی قید ہونے کی وجہ سے حمل کرنا ضروری قرار پاتا ہے۔

← ضرورت بشرط محمول کی فلسفی اصطلاح


فلسفی کا تعلق چونکہ خارج اور اور عینِ واقعیت کے ساتھ ہوتا ہے اس لیے وہ فقط ذہنی اعتبار سے جائزہ نہیں لیتا بلکہ وجود اور متنِ واقعیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ماضی اور حال اور مستقل میں فرق کو ملاحظہ کرتا ہے۔ فلسفی کی نظر میں ضرورت بشرط محمول سے مراد ہر وہ ماہیت ہے جو وجود کے ساتھ وابستہ اور متصف ہے جس کی بناء پر وجود کی اس ماہیت کی طرف نسبت دینا ضروری اور واجب ہے۔ کیونکہ ماہیت نے جب وجود پا لیا تو اس کے لیے وجود کو ثابت کرنا ضروری قرار پائے گا۔ ماہیت اس وقت تک وجود میں نہیں آتی جب تک اس کا وجود واجب نہ ہو حائے۔ چنانچہ ماہیت کے غیر کی جانب سے وجودِ ماہیت کے لیے علت تامہ مہیا ہوتی ہے اور اس کے بعد ماہیت کا وجود میں آنا واجب ہو جاتا ہے۔ نیز ماہیت کے وجود میں آنا جب واجب ہوتا ہے تو ماہیت کو واجب بالغیر کہتے ہیں اور اسی وقت دوسرے قسم کا واجب بھی اس کے لیے ضروری قرار پاتا ہے اور وہ ماہیت کے لیے وجود کا ثابت کیے رہنا ہے۔ اس کو اصطلاحِ فلسفی میں ضرورت بشرط محمول سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. مدنی شیرازی، علی خان بن احمد، الطراز الأول، ج ۸، ص ۲۹۰۔    
۲. راغب اصفہانی، حسین بن محمد، المفردات فی غریب القرآن، ص ۵۰۵۔    
۳. طریحی، فخر الدین نجفی، مجمع البحرین، ج ۳، ص ۱۵۔    
۴. شیرازی، صدرالدین محمد بن ابراہیم، الحاشیۃ علی‌ الإلہیات، ص‌۳۰۔    
۵. شیرازی، صدر الدین محمد بن ابراہیم، الاسفار الاربعۃ، ص‌۸۳۔    
۶. طباطبائی، محمد حسین، نہایۃ الحکمۃ، ص‌۵۶۔    
۷. شہید مطہری، مرتضی، مجموعہ آثار استاد شہید مطہری، ج ۶، ص ۵۵۲۔    
۸. شیرازی، صدر الدین محمد بن ابراہیم، الحاشیۃ علی‌ الالہیات، ص‌۲۸۔    
۹. طباطبائی، سید محمد حسین، نہایۃ الحکمۃ، ص ۶۰۔    
۱۰. شہید مطہری، مرتضی، مجموعہ آثار استاد شہید مطہری، ج ۶، ص ۵۵۱۔    
۱۱. شہید مطہری، مرتضی، مجموعہ آثار استاد شہید مطہری، ج ۵، ص ۳۷۵۔    
۱۲. علامہ طباطبائی، سید محمد حسین، نہایۃ الحکمۃ، ص۷۸۔    
۱۳. شہید مطہری، مرتضی، مجموعہ آثار استاد شہید مطہری، ج ۵، ص ۳۷۵۔    
۱۴. ملا صدرا، محمد بن ابراہیم، الاسفار الاربعۃ، ج ۳، ص ۳۳۔    
۱۵. سبزواری، ملا ہادی، شرح المنظومۃ، ج۲، ص۲۶۵-۲۷۵۔    


مأخذ

[ترمیم]

یہ مقالہ ویکی فقہ اردو کی جانب سے تحرير کیا گیا ہے۔






جعبه ابزار