استمناء

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



مرد يا خاتون کا ہاتھ یا اس کی مانند کسی دوسری چیز سے اپنی شرمگاہ کو اس نیت سے چھیڑنا تاکہ منی خارج ہو جائے کو استمناء کہا جاتا ہے۔ علم فقہ میں مختلف ابوابِ فقہی میں اس سے بحث کی جاتی ہے۔ روایات سے استفادہ کرتے ہوئے فقہاء نے بدونِ زوجہ اس عمل کو حرام قرار دیا ہے۔ استمناء کی انسانی زندگی پر انتہائی مضر اور نقصان دہ اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس عمل کے نتیجے میں مختلف فقہی احکام انسان پر لاگو ہوتے ہیں جن کی رعایت کرنا ضروری ہے۔


استمناء کا معنی

[ترمیم]

کلمہِ اِسۡتِمۡنَاء عربی زبان کا لفظ ہے جس کے اصلی حروف م-ن-ی ہیں۔ عربی لغات میں اس کے معنی مرد کا اپنی زوجہ سے مقاربت کے بغیر شرمگاہ سے منی کا خارج کرنا ذکر کیے ہیں۔ علم فقہ میں استمناء سے مراد انسان کو کسی شیء سے اپنی شرمگاہ کو اس نیت سے چھیڑنا ہے تاکہ منی خارج ہو جائے۔ علم فقہ میں اس موضوع سے مختلف فقہی ابواب میں بحث ہوتی ہے، مثلا روزہ، اعتکاف، حج اور حدود کے ابواب اس کے متعلق احکام ذکر کیے جاتے ہیں۔

استمناء اور امناء میں فرق

[ترمیم]

اِمۡنَاء کا مطلب منی کا خارج کا ہونا ہے، جبکہ اِسۡتِمۡنَاء کا مطلب انزال کی نیت سے منی کا نکالنا ہے۔ پس استنماء کا مفہوم اِمۡنَاء کے مقابلے میں اخص اور تنگ ہے۔ کیونکہ امناء کا اطلاق استمناء پر بھی ہوتا ہے اور اس مورد پر بھی ہوتا ہے جہاں بغیر نیت کے منی خارج ہو جائے۔ پس امناء کا مفہوم قدرے جامع ہوا اور مطلقًا منی نکلنے کو شامل ہے چاہے انزالِ منی کی نیت سے منی خارج ہو یا اس نیت اور ارادے بغیر اخراج ہو۔

فقہی طور پر لفظ استمناء کا مترادف الخَضۡخَضَۃ

[ترمیم]

مکتب تشیع اور مکتب اہل سنت میں استمناء یعنی منی نکالنے کے ارادہ سے شرمگاہ کو چھیڑنا کا مترادف کلمہ الخَضۡخَضَۃ ہے۔ لفظِ خَضۡخَضَۃ اس معنی میں روایات میں بھی وارد ہوا ہے اور فقہی کتب میں بھی وارد ہوا ہے۔

مکتب تشیع میں استمناء کا فقہی حکم

[ترمیم]

زوجہ اور کنیز کے بغیر کسی بھی طریقے سے استمناء کو انجام دینا حرام ہے۔ اکثر و بیشتر فقہاءِ امامیہ کے نزدیک زوجہ کے ذریعے سے استمناء جائز اور حلال ہے۔ البتہ بعض متأخر فقہاء نے اپنی زوجہ یا کنیز کے ہاتھ یا جسم کے ذریعے سے بھی استمناء حرام قرار دیا ہے۔

استمناء گناہ کبیرہ ہے

[ترمیم]

متعدد روایاتِ اہل بیتؑ سے استفادہ کرتے ہوئے فقہاءِ امامیہ نے اس قبیح عمل کو گناہ کبیرہ قرار دیا ہے۔ عمار بن موسی ساباطی سے وارد ہونے والی حدیث مؤثق میں امام جعفر صادقؑ فرماتے ہیں: الرَّجُلِ يَنْكِحُ بَهِيمَةً أَوْ يَدْلُكُ فَقَالَ كُلُّ مَا أَنْزَلَ بِهِ الرَّجُلُ مَاءَهُ مِنْ هَذَا وَشِبْهِهِ فَهُوَ زِنًا؛ وہ مرد جو مویشی سے نکاح کرتا ہے یا چھیڑ چھاڑ کرتا ہے اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ امامؑ نے فرمایا: ہر وہ چیز کے ذریعے سے ایک شخص نے اپنے مادہِ منی کو ان (قبیح) اعمال میں سے یا اس سے مشابہ کسی عمل کو انجام در کے نکالا وہ عمل عملِ زنا ہے۔

← تعجب آور بات: اہل سنت کے نزدیک استمناء کا حلال ہونا اور نکاح متعہ کا حرام ہونا


استمناء کو ہاتھ کے ذریعے اپنے آپ سے نکاح قرار دیا گیا ہے اور بعض روایات میں اس شخص پر لعنت کی گئی ہے جو اپنی آپ کے ساتھ نکاح کرے۔ لیکن اس کے باوجود حنفی اور حنبلی مکاتبِ فقہی میں سے اکثر و بیشتر فقہاء بعض موارد میں استمناء کے مباح ہونے کے قائل ہیں۔ تعجب آور امر یہ ہے کہ نکاحِ متعہ جس کے حلال ہونے پر مسلمانوں کا اتفاق ہے اور بعد میں اس کا حکم منسوخ ہوا یا نہیں، اس پر اہل سنت کے درمیان اختلاف پای جاتا ہے، کیونکہ مکہ سے تعلق رکھنے والے فقہاءِ اہل سنت کے نزدیک نکاحِ متعہ حلال تھا اور ابو خالد مکی جیسے اہل سنت ثقہ اور موردِ اعتماد فقیہ نے ستّر(۷۰) کے قریب خواتین کے ساتھ نکاحِ متعہ کیا جیساکہ ذہبی اور دیگر علماءِ رجال نے تصریح کی ہے۔ لیکن اکثریت فقہاءِ اہل سنت متعہ کو حرام قرار دیتے ہیں!! اہل سنت نکاحِ متعہ جوکہ شرعی صیغوں اور احکام کے ساتھ برپا ہوتا ہے اور خاتون زوجہ قرار پاتی ہے اس کو حرام قرار دیتے ہیں لیکن اپنی ذات سے نکاح کرنے اور اپنے آپ سے جنسی استفادہ کرنے کو حلال قرار دیتے ہیں!!!

اہل سنت فقہاء کے درمیان استمناء کے حلال اور حرام ہونے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اختیاری حالت میں اکثر فقہاءِ اہل سنت نے اس عمل کو ممنوع قرار دیا ہے۔ لیکن احمد بن حنبل اس کو حجامت کی مانند سمجھتے تھے کہ جس طرح فاسد خون کمر سے نکالا جاتا ہے اسی طرح یہ انسانی جسم میں فاسد مواد ہے جسے انسان نکال سکتا ہے۔ حسن کا قول ہے کہ یہ تمہارے جسم کا پانی ہے اس کو تم اپنی مرضی سے بہا سکتے ہو، جبکہ مجاہد کا قول نقل کیا گیا ہے کہ وہ کہا کرتے تھے کہ زنا سے بچنے کے لیے ہمارے اصحاب بچوں کو استنماء کرنے کی تعلیم دیا کرتے تھے۔ پس معلوم ہوا کہ اس مسئلہ میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ حنفی و حنبلی فقہاء ضرورت پڑنے پر اس کو جائز قرار دیتے ہیں۔ لیکن مالکی اور شافعی فقہ سے تعلق رکھنے والے فقہاء نے استمناء کو بدونِ زوجہ مطلقًا حرام قرار دیا ہے۔

←← مالکی اور شافعی فقہ کے مطابق حرمتِ استمناء


فقہ مالکی سے تعلق رکھنے والے بزرگان ابن العربی نے احکام القرآن میں اور شہاب الدین زروق نے تصریح کی ہے: أن مذهب مالك والشافعي تحريم الاستمناء قال وأحمد على جلالة قدره يقول بإباحته وأنه كالفصادة؛ مالک اور شافعی کے مذہب کے مطابق استمناء حرام ہے، اور احمد بن حنبل اپنے قدر و منزلت کی جلالت کے باوجود استمناء کو مباح قرار دیتا ہے اور استمناء کو حجامت (کمر سے فاسد خون کا نکالنا) کی مانند قرار دیتا ہے۔

←← حنفی فقہ کے مطابق ضرورت پڑنے پر استمناء کا حلال ہونا


ابن نجیم حنفی تحریر کرتے ہیں: وَإِنْ أَرَادَ تَسْكِينَ الشَّهْوَةِ يُرْجَى أَنْ لَا يَكُونَ عَلَيْهِ وَبَالٌ؛ اگر وہ شہوت کے دباؤ کو سکون دینے کے لیے استمناء کرنے تو اس پر کوئی وبال و سزا نہیں۔

←← حنبلی فقہ کے مطابق ضرورت پڑنے پر استمناء کا حلال ہونا


حنبلی فقہ سے تعلق رکھنے والے فقہاء نے تصریح کی ہے کہ ضرورت پڑنے کے وقت استمناء حلال ہے اور بغیر ضرورت کے حلال نہیں۔ ضرورت سے مراد یہ ہے کہ اگر زنا کے انجام دینے کا خدشہ ہو یا نکاح کی قدرت نہیں رکھتا اور شہوت کا دباؤ بہت زیادہ ہے تو شہوت کے دباؤ سے سکون اور تسکین حاصل کرنے کے لیے استمناء جائز ہے۔ مرداوی حنبلی فقہاءِ حنابلہ کا قول تحریر کیا ہے:لَا بَأْسَ بِهِ إذَا قَصَدَتْ بِهِ إطْفَاءَ الشَّهْوَةِ وَالتَّعَفُّفَ عَنْ الزِّنَا؛ اگر شہوت کی آگ بجھا مقصد ہو یا زنا سے بچنا تو اس صورت میں استمناء کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

←← حنبلی فقہ کے مطابق خاتون کا استمناء کرنے کے طریقے کا بیان


برہان الدین حنبلی نے یہاں تک لکھا ہے کہ ضرورت پڑنے پر خاتون کے لیے استمناء کرنا جائز ہے اور وه مرد كے آلہِ تناسل کی مانند کوئی شیء استعمال کر کے استمناء کر سکتی ہے، جیساکہ وہ تحریر کرتے ہیں: وَيَجُوزُ فِي هَذِهِ الْحَالَةِ، وَهَذَا إِذَا لَمْ يَقْدِرْ عَلَى نِكَاحٍ، وَلَوْ أَمَةً، نَصَّ عَلَيْهِ، وَعَنْهُ: يُكْرَهُ، وَالْمَرْأَةُ كَالرَّجُلِ، فَتَسْتَعْمِلُ شَيْئًا مِثْلَ الذَّكَرِ؛ زنا انجام پانے کا خوف ہو تو استمناء جائز ہے، اور اس وقت بھی نکاح کی استطاعت نہیں ہے اگر کنیز سے نکاح میسر آ سکتا ہے، اس پر نص ہے، اور خاتون اس مسئلہ میں مرد کی مانند ہے، پس خاتون مرد کے آلہ تناسل کی مانند کسی شیء کو استعمال کر کے استمناء کر سکتی ہے۔

آئمہ اہل بیتؑ کے مطابق استمناء کے نتیجے میں جاری ہونے والے احکام

[ترمیم]

فقہِ اہل بیتؑ اگر کوئی مرد یا خاتون استمناء کے عمل کو انجام دے تو شریعت کی نگاہ میں درج ذیل احکام اس پر جاری ہوں گے:
۱. جنابت: منی کا نکلنا غسلِ جنابت کا سبب ہے۔ پس اگر کوئی مرد یا خاتون استمناء کرے تو اس پر غسلِ جنابت کے احکام جاری ہوں گے اور ان تمام واجبات جن میں طہارت شرط ہے کو انجام دینے کے لیے غسل جنابت کرنا واجب ہو جائے گا۔ پس وہ امور جن کو انجام دینے کے لیے طہارت شرط ہے انہیں غسل کے بغیر انجام دینا حرام ہے، مثلا قرآن کریم کے کلمات کو ہاتھ لگانا، طواف بیت اللہ، نمازوں کی ادائیگی، مسجد میں ٹھہرنا وغیرہ۔
۲. روزہ کا باطل ہونا: اگر مرد یا خاتون روزے کی حالت میں جان بوجھ کر منی نکالنے کی نیت سے ایسا عمل انجام دیا جائے جس سے استمناء ہو جائے تو روزہ باطل ہو جائے گا، فرق نہیں پڑتا کہ استمناء حلال طریقے یعنی زوجہ کے ذریعے کیا گیا ہے یا حرام طریقے سے ہر دو صورتوں میں روزہ باطل ہو جائے گا۔ اگر ماہِ رمضان کے روزے استمناء کے ذریعے توڑے جائیں تو یہ قضاء اور کفارہ ہر دو کا سبب قرار پاتا ہے۔
۳. اعتکاف کا باطل ہونا: ہر وہ شیء جو روزہ کو باطل کرتی ہے اس سے اعتکاف بھی باطل ہو جاتا ہے بشرطیکہ استمناء دن میں انجام دیا جائے۔ اگر رات کے وقت استمناء کا عمل انجام دیا جائے تو آیا اس سے اعتکاف باطل ہوتا ہے یا نہیں ؟ اس میں اختلاف وارد ہوا ہے۔ اگرچے اعتکاف میں انجام دیئے جانے والے حرام افعال میں سے ایک استمناء ہے۔

حج کے دوران حالتِ احرام میں استمناء کا حکم

[ترمیم]

فقہاءِ امامیہ نے تصریح کی ہے کہ حالتِ احرام میں استمناء کرنا حرام ہے اور کفارہ کے عائد ہونے کا سبب بنتا ہے اگرچے حلال طریقے سے استمناء کیا ہو۔ اس صورت میں کفارہ ایک اونٹ ہے۔ لیکن اس سے حج اس معنی میں باطل نہیں ہوتا کہ اگلے سال دوبارہ سے حج کو انجام دے کر تمام کیا جائے۔ لیکن اگر مشعر الحرام میں رات گزارنے کے لیے جو ٹھہرا جاتا ہے اس سے پہلے استمناء کیا ہے تو اس مورد میں فقہاء میں اختلاف وارد ہوا ہے۔ بعض فقہاء نے اس مسئلہ میں توقف کیا ہے۔

استمناء کے جرم کا ثابت ہونا

[ترمیم]

فقہاءِ امامیہ کے مطابق استمناء کا جرم دو عادل مردوں کی گواہی سے یا خود شخص کا اپنے بارے میں دو مرتبہ یا ایک مرتبہ اس گناہ کو انجام دینے کا اقرار کرنے کی صورت میں ثابت ہوتا ہے۔ خواتین اگر متعدد مل کر بھی گواہی دیں تب بھی یہ جرم ان کی گواہی سے ثابت نہیں ہو گا۔ بعض فقہاء قدماء نے ایک مرتبہ اقرار کو کافی نہیں سمجھتے بلکہ استمناء کا جرم اس وقت ان کی نظر میں ثابت ہو گا جب ایک مرتبہ سے زائد بار ایک شخص اس گناہ کی انجام دہی کا اقرار کرے۔

استمناء کے جرم کی سزا

[ترمیم]

فقہاءِ امامیہ کے مطابق اگر استمناء کا جرم ثابت ہو جائے تو حاکمِ شرع جو حدود اور تعزیر کو جاری کرنے کی قدرت رکھتا ہے مجرم کے لیے تعزیر کا حکم جاری کرے گا اور تعزیر کی مقدار خود طے کرے گا۔ تعزیر کی کوئی معین مقدار وارد نہیں ہوئی بلکہ حاکم شرع کے ذمے تعزیر کی مقدار معین کرنا ہے۔

شیخ کلینی نے اپنی سند سے امام جعفر صادقؑ سے روایت نقل کی ہے کہ وہ فرماتے ہیں: إِنَّ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ ع أُتِيَ بِرَجُلٍ عَبِثَ بِذَكَرِهِ فَضَرَبَ‌ يَدَهُ‌ حَتَّى‌ احْمَرَّتْ‌ ثُمَّ زَوَّجَهُ مِنْ بَيْتِ الْمَال‌؛ امیر المؤمنینؑ کے پاس ایک شخص لایا گیا جو اپنی شرمگاہ سے چھیڑ چھاڑ کرتا تھا، امامؑ نے اس کے ہاتھ پر اتنی ضربیں لگائیں کہ وہ ہاتھ سرخ ہو گیا، پھر امامؑ نے بیت المال سے ان کا نکاح اور شادی کر دی ۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. فیومی، احمد بن محمد، المصباح المنیر، ص ۳۰۰۔    
۲. ابن اثیر، مبارک بن محمد، النہایۃ فی غریب الحدیث والاثر، ج ۴، ص ۳۶۹۔    
۳. مؤسسۃ دائرة المعارف الفقہ الاسلامی، الموسوعۃ الفقہیۃ، ج۱۲، ص۲۱۸۔    
۴. کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۵، ص ۵۴۰۔    
۵. رزوق، احمد بن احمد، شرح رزوق علی متن الرسالۃ، ج ۲، ص ۹۹۸۔    
۶. نجفی جواہری، محمد حسن، جواہر الکلام، ج۴۱، ص۶۴۷-۶۴۹۔    
۷. علامہ حلی، حسن بن یوسف، تذکرة الفقہاء (ق)، ج۲، ص۵۷۷۔    
۸. فاضل لنکرانی، محمد، تفصیل الشریعۃ، ص ۷۲۸۔    
۹. نجفی جواہری، محمد حسن، جواہر الکلام، ج۴۱، ص۶۴۷-۶۴۹۔    
۱۰. کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۵، ص ۵۴۱۔    
۱۱. ابن عابدین، محمد امین بن عمر، رد المحتار علی الدر المختار، ج ۲، ص ۳۹۹۔    
۱۲. ذہبی، محمد بن احمد، میزان الاعتدال، ج ۲، ص ۶۵۹۔    
۱۳. رزوق، احمد بن احمد، شرح رزوق علی متن الرسالۃ، ج ۲، ص ۹۹۸۔    
۱۴. ابن العربی، محمد بن عبد اللہ، احکام القرآن، ج ۳، ص ۳۱۵۔    
۱۵. رزوق، احمد بن احمد، شرح رزوق علی متن الرسالۃ، ج ۲، ص ۸۸۴۔    
۱۶. ابن نجیم مصری، زین الدین بن ابراہیم، البحر الرائق شرح کنز الدقائق    
۱۷. مرداوی حنبلی، علی بن سلیمان، الانصاف فی معرفۃ الراجح من الخلاف، ج ۱۰، ص ۲۵۲۔    
۱۸. برہان الدین حنبلی، ابراہیم بن محمد، المبدع فی شرح المقنع، ج ۷، ص ۴۲۷۔    
۱۹. نجفی جواہری، محمد حسن، جواہر الکلام، ج۱۶، ص۲۵۲-۲۵۷۔    
۲۰. نجفی جواہری، محمد حسن، جواہر الکلام، ج۲۰، ص۳۶۷-۳۶۹۔    
۲۱. محقق سبزواری، محمد باقر، ذخیرة المعاد، ج۳، ص۶۱۹۔    
۲۲. نجفی جواہری، محمد حسن، جواہر الکلام، ج۴۱، ص۶۴۹۔    
۲۳. شیخ مفید، محمد بن نعمان، المقنعۃ، ص ۷۹۱۔    
۲۴. ابن ادریس حلی، محمد بن احمد، السرائر الحاوی لتحریر الفتاوی، ج۳، ص۴۷۱۔    
۲۵. نجفی جواہری، محمد حسن، جواہر الکلام، ج۴۱، ص۶۴۷-۶۴۹۔    
۲۶. خمینی، سید روح اللہ، تحریر الوسیلۃ، ج ۲، ص ۵۳۱۔    
۲۷. فاضل لنکرانی، محمد، تفصیل الشریعۃ، ص ۷۳۰۔    
۲۸. کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۷، ص ۲۶۵۔    


مأخذ

[ترمیم]

فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت علیہم السلام، جلد۱، صفحہ ۴۸۸-۴۸۹۔    
بعض مطالب اور حوالہ جات محققینِ ویکی فقہ اردو کی جانب سے اضافہ کیے گئے ہیں۔






جعبه ابزار