بنی اسرائیل کے ایمان میں رکاوٹ
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
قرآن کریم نے متعدد آیات کریمہ میں بنی اسرائیل کا تذکرہ کیا ہے اور
عبرت کے لیے ان کے جرائم اور بُرے اعمال کا تعارف کروایا ہے۔ آیاتِ قرآنیہ کے مطابق
بنی اسرائیل کے ایمان میں جو چیزیں حائل ہوئیں اور رکاوٹ بنیں وہ درج ذیل فاسد امور ہیں:
[ترمیم]
انسانی نفس میں برپا ہونے والی مختلف حالتوں میں سے ایک حالت خوف اور ڈر ہے۔
خوف کا تعلق جس شیء سے ہو اس سے خوفزدہ انسان کے کمال و پستی کا تعین کیا جاتا ہے۔
دنیا کی اشیاء کا ہاتھ سے نکل جانے ور اپنے وظیفہ کی انجام دہی کے وقت آنے والی مشکلات سے خوفزدہ ہونا اور گھبراہٹ کا شکار ہو کر پیچھے ہٹ جانا انتہائی مذموم اور پست عمل ہے جو انسان کو گمراہی اور پستیوں کی ذلتوں کے حوالے کر دیتا ہے۔ بنی اسرائیل کے جن جرائم کا تذکرہ
قرآن کریم نے کیا ہے ان میں سے ایک
فرعون اور معاشرے کے با اثر طبقہ کی طرف سے انواع و اقسام کی مشکلات سے گھبرانا اور ڈرنا ہے۔ یہی خوف باعث بنا کہ وہ ایمان نہیں لا سکے۔
فرعون کے جرائم کی فہرست طویل ہے جس میں سے ایک جرم اپنی حاکمیت کو برقرار رکھنے کے لیے ظلم و ستم کے ذریعے لوگوں پر اپنا خوف قائم کرنا اور اپنی دھاک بٹھانا تھی۔ ظلم و ستم اور بدترین انتقام نے بنی اسرائیل کے دلوں پر خوف ایجاد کر دیا تھا جس کی وجہ سے وہ
حضرت موسیؑ کا ساتھ دینے سے کتراتے اور یہی خوف بالآخر ان کے ایمان میں رکاوٹ اور بڑی مشکل بن گیا۔ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:
فَمَا آمَنَ لِمُوسَى إِلاَّ ذُرِّيَّةٌ مِّن قَوْمِهِ عَلَى خَوْفٍ مِّن فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِمْ أَن يَفْتِنَهُمْ ...؛ پس موسی پر کوئی ایمان نہیں لایا سوائے ان کی
قوم میں سے ان کی
ذریت کے، کیونکہ وہ فرعون اور اپںے ملأ سے خوفزدہ ہو گئے کہ وہ انہیں سخت آزمائشوں میں مبتلا کریں گے۔
لہذا آغاز میں حضرت موسیؑ پر ایمان لانے والے چند گنے چنے افراد تھے جو ان کی قوم و ذریت میں سے تھے۔ بقیہ خوفزدہ ہو گئے کہ اگر ہم نے حضرت موسیؑ کی نبوت و رسالت کو قبول کیا اور ان کی تعلیمات پر ایمان لائے تو فرعون اور معاشرے میں رہنے والے با اثر قدرت مند امراء و منصب دار انہیں سخت تکلیفوں میں مبتلا کریں گے اور انہیں جیل و زندان میں تشدد کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اسی خوف نے انہیں
ایمان سے دور رکھا اور وہ آغاز میں جناب موسیؑ پر ایمان نہیں لائے۔
احتمال کے مطابق آیت کریمہ میں
مِنۡ قَوۡمِہِ سے مراد موسیؑ کی قوم یعنی بنی اسرائیل مراد ہے۔
[ترمیم]
فسق و فجور
اللہ تعالی سے دوری کا باعث اور ایمان کے دائرہ سے باہر نکل آنا ہے۔ بنی اسرائیل کے ایمان نہ لانے کے اسباب میں سے ایک سبب ان کا فسق و فجور کی زندگی بسر کرنا تھا اور یہی فسق و فجور ان کے اور ایمان کے درمیان رکاوٹ بن گیا۔ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:
لُعِنَ الَّذِينَ كَفَرُواْ مِن بَنِي إِسْرَائِيلَ ... وَلَوْ كَانُوا يُؤْمِنُونَ بِالله والنَّبِيِّ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْهِ مَا اتَّخَذُوهُمْ أَوْلِيَاء وَلَكِنَّ كَثِيرًا مِّنْهُمْ فَاسِقُونَ؛ بنی اسرائیل میں سے جنہوں نے
کفر کیا ان پر
لعن کی گئی ہے ۔۔۔ اور اگر وہ اللہ اور
نبی پر ایمان لے آتے تو ان (کافروں) کو اپنے اولیاء اور قریبی دوست نہ بناتے، لیکن ان میں سے کثیر فاسق ہیں۔
یہود یعنی بنی اسرائیل نے انبیاءؑ کی تعلیمات سے منہ موڑ لیا اور ان کی دعوت پر سر تسلیم خم نہیں کیا جس کی وجہ ان کا اپنے انبیاءؑ کی نافرمانی اور
معصیت کرنا تھی اور وہ مسلسل اس دشمنی اور فسق و فجور پر ڈٹے رہے۔
[ترمیم]
[ترمیم]
مرکز فرہنگ و معارف قرآن، فرہنگ قرآن، ج۶، ص۳۱۷، یہ تحریر مقالہِ موانع ایمان بنیاسرائیل سے مأخوذ ہے۔