فرعون

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



فرعون مصر کے ان بادشاہوں کا لقب ہے جو حضرتِ یوسف علیہ السلام کے دور میں موجود تھے۔


لغوی معنی

[ترمیم]

لفظِ فرعون عجمی لفظ ہے جو گستاخی اور سرکشی و اکڑ دکھانے کی بناء پر اس نام سے موسوم کیا جانے لگا۔ ۔ فرعون لفظ بِرذَون یا فِعۡلَون کے وزن پر ہے جس میں واؤ اور نون زائدہ ہے۔ چونکہ یہ نام غیر عربی یعنی اعجمی اور معرفہ ہے اس لیے عربی زبان میں غیر منصرف ہے۔ اس کی جمع فَرَاعِنَۃ آتی ہے۔ بعید نہیں ہے کہ کلمہِ فرعون لفظ فارغ سے مشتق ہوا ہو، جس کا معنی قتل، انتقام اور غارت گری ہے، یا یہ فرع بمعنی ہرج مرج اور انتشار و بے نظمی سے مشتق ہوا ہو۔ یہ لفظ ظلم و ستم برپا کرنے والے کے لیے استعمال ہونے لگا۔

جس طرح ممالک میں وزیر اعظم یا صدرِ مملکت جیسے القاب ایک ریاست کے رئیس کے لیے بولے جاتے ہیں اسی طرح سے مصر میں قبطیوں کے بادشاہوں کے لیے فرعون بولا جاتا تھا۔ اس طور پر فرعون ایک اسمِ عام ہے جس کا اطلاق مصر کے تمام سلاطین پر ہوتا تھا۔ كہا جاتا ہے یہ سلسلہِ بادشاہت جناب نوح ؑ کے بیٹے سام کی اولاد سے چلا۔ اس فرعون کے اجداد عِملیق بن اَود بن اِرم بن سام بن نوح تھے۔ نیز کہا گیا ہے کہ پہلا بادشاہ جس کو فرعون کہا گیا مصر کا وہ بادشاہ تھا جس نے جناب ابراہیم ؑ کو جناب ہاجر ہدیہ کے طور پر عنایت کیں تھی۔

مختلف بادشاہوں کے سلسلے

[ترمیم]

بادشاہت ظلم و جبر کی تاریخ کا قدیمی ترین سلسلہ ہے جو دنیا کے مختلف خطوں میں ہمیں دکھائی دیتا ہے۔ موجودہ دور میں اسی بادشاہت کی جگہ لفظِ جمہوریت اور ڈکٹیٹر شپ نے لے لی ہے۔ اگرچے یہ سلاطین و بادشاہ کردار میں مشابہ ہیں لیکن خطے اور نسل کے فرق سے ان کے الگ الگ نام پڑتے چلے گئے۔ طبری نے اپنی تفسیر میں نقل کیا ہے کہ
۱۔ عمالقہ کے بادشاہوں کو فرعون کہا جاتا تھا جوکہ مصر میں حکومت کرتے رہے ہیں۔
۲۔ روم کے بادشاہوں کا لقب قیصر رہا ہے اور ان میں سے بعض بادشاہوں کو ھِرَقۡل کہا جاتا ہے۔
۳۔ فارس و ایران کے بادشاہوں کو اَکَاسِرَۃ کہا جاتا تھا۔ اکاسرۃ جمع کا صیغہ ہے جس کی واحد کِسۡرَی آتی ہے۔
۴۔ یمن کے بادشاہوں کو تَابِعَۃ کہا جاتا ہے۔ تابعہ بھی جمع کا صیغہ ہے جس کی واحد تُبَّع ہے۔
۵۔ حبشہ کے بادشاہوں کو نجاشی کہا جاتا تھا۔
۶۔ ہند کے بادشاہوں کو بَطۡلِیۡمُوس کہا جاتا تھا۔
۷۔ ترکی کے بادشاہوں کو خاقان کہا جاتا تھا۔

← فرعونوں کا سلسلہ


دنیا کی قدیم ترین تہذیب کا سراغ جن ممالک میں ملا ہے ان میں سے ایک مصر ہے۔ قرآن کریم کی آیات میں مصر کا تذکرہ وارد ہوا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مصر میں بہت بڑی مملکت آباد تھی جس میں قبطی، یونانی اور عِملیقی آباد تھے۔ ان میں اکثریت قبطیوں کی تھی۔ اکثریت میں ہونے کی وجہ سے زمانہِ قدیم سے مصر میں قبطی قبیلہ کی حکومت تھی جس کے سلسلہِ بادشاہت کو فرعون سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ طوفانِ نوحؑ کے بعد پہلا بادشاہ جس نے مصر میں حکومت کی اس کا نام بیصر بن حام بن نوح ہے۔ اس کے بعد اس کے بیٹے مصر بن بیصر نے حکومت سنبھالی۔ اسی کے نام سے ملکِ مصر کو مصر کہا جاتا ہے۔ کیونکہ اس کی حکومت طویل عرصہ رہی اور اپنی پوری زندگی اس نے حکومت سنبھالی رکھی۔ اس کے بعد اس کا بیٹا قفط بن مصر آیا۔ پھر اس کا بھائی اتریب بن مصر، اس کے بعد صا بن مصر، اس کے بعد تذراس، اس کے بعد مألیق بن تذراس، اس کے بعد اس کا بیٹا حرابا بن مألیق، پھر کلکلی بن حرابا، پھر حربیا نے آ کر بادشاہت کو سنبھالا۔ اس کے بعد طولیس بادشاہ بنا جس نے جناب ہاجر ہبہ کی تھیں۔ طولیس کے بعد اس کی بہن جوریاق بادشاہ بنی۔ اس کے بعد زلفا بادشاہ بنی جو مملکت کو صحیح طرح سے نہیں سنبھال سکی جس کی وجہ سے شام سے عمالقہ نے مصر پر حملہ کیا اور مصر پر قبضہ کر لیا ۔ اس طرح مصر کی حکومت عمالقہ کے ہاتھوں میں آ گئی۔ اس کے بعد جو پہلا بادشاہ بنا اس کا نام الولید بن دومغ عملاقی تھا جو گائے کی پوجا کیا کرتا تھا۔ کہا گیا ہے یہ پہلا بادشاہ تھا جس کو فرعون کہا گیا اور اس کے بعد مصر کے تمام بادشاہوں کو فرعون کے نام سے موسوم کیا گیا۔

قرآن کریم میں جن انبیاء ؑ کا تذکرہ آیا ہے ان میں سے تین انبیاءؑ ایسے ہیں جنہوں نے فرعونوں کا زمانہ بایا:
۱۔ حضرت ابراہیمؑ، آپؑ نے مصر کا سفر کیا تو وہاں کے فرعون سے آمنا سامنا ہوا جس نے جناب ہاجر ہبہ کی۔ اس فرعون کا نام بعض نے سنان اور بعض نے طولیس ذکر کیا ہے۔
۲۔ حضرت یوسفؑ، آپؑ کے دور کے فرعون کا نام الریّان بن الولید العملیقی تھا اور اس کی زوجہ کا نام راعیل تھا۔
۳۔ حضرت موسیؑ، آپؑ کے دور فرعون کا نام الولید بن مصعب تھا اور اس کی کنیت ابو مصعب تھی، جیساکہ امام موسی کاظمؑ سے منقول روایت میں وارد ہوا ہے۔

←← فرعون کو فرعون کہنے کی وجہ


فرعون ایک لقب ہے جو ان تمام بادشاہوں اور سلاطین پر بولا جاتا ہے جن کا تعلق مصر میں قبطی قبیلے تھا۔ یہ سب بادشاہ عملیق کی نسل سے ہیں اس لیے انہیں عمالقہ بھی کہا جاتا ہے۔ اس بادشاہت کے سلسلہ کو فرعون کہنے کی درج ذیل وجوہات وارد ہوئی ہیں:
۱۔ فرعون قبطی زبان میں مگرمچھ کو کہا جاتا ہے۔ ان کے برے اعمال کی وجہ سے ان کا لقب مگرمچھ پڑ گیا۔
۲۔ ہر سرکشی باغی کو فرعون کہا جاتا ہے۔ اسی ہٹ دھرمی و سرکشی کی وجہ سے فراعنہ کا مترادف عُتَاۃ قرار دیا گیا ہے۔
۳۔ فرعون یعنی تکبر و ظلم و جبر۔
۴۔ ہر نبی کے زمانے میں بادشاہ کو فرعون کہا جاتا ہے۔
۵۔ موجودہ غربی تحقیقات کے مطابق قدیمی مصری زبان میں فرعون بڑے گھر کو کہتے تھے۔ کیونکہ مصری بادشاہ بڑے محلوں میں زندگی کی تمام عیش و عشرت کے ساتھ زندگی بسر کرتے تھے۔ دورِ حاضر میں اہرام مصر سے ملنے والے آثار میں قدیمی مصری زبان سے فرعون کے یہی معنی سمجھے گئے ہیں۔ اس کے مطابق فرعون لقب ہوا نہ کہ اسم۔ عصرِ حاضر کے بعض غربی محققین یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ فرعون لقب نہیں تھا بلکہ اسم تھا اور اسی طور پر دینی کتب میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے۔ لیکن دورِ حاضر میں اکثر و بیشتر محققین اس بات کے قائل ہیں کہ فرعون نام نہیں تھا بلکہ بادشاہوں کا لقب رسمی حکومتی لقب تھا۔

←← جناب موسی کے دور کا فرعون


حضرت موسی کے دور میں جو فرعون تھا اس کا نام روایات میں الولید بن مصعب وارد ہوا ہے۔ بعض نے اس کی کنیت ابو مصعب اور بعض نے ابو العباس نقل کی ہے اور بعض نے ابو مرّۃ ذکر کی ہے۔ ۔ جس طرح سے اس فرعون کی مختلف کنیتیں وارد ہوئی ہیں اسی طرح اس کے ناموں کے بارے میں مختلف اقوال ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے:
۱۔ الولید بن مصعب، یہ سب سے معروف ہے اور روایات میں وارد ہونے کی وجہ سے زیادہ رجحان رکھتا ہے۔ اکثر نے اسی کو فرعون کا اصلی نام قرار دیا ہے۔
۲۔ فیطوس
۳۔ مصعب بن ریّان
۴۔ مُغیث۔
۵۔ قابوس، بعض نے اہل کتاب سے اس نام کو نقل کیا ہے۔

قرآن کی نظر میں فرعون

[ترمیم]

قرآن کریم میں لفظِ فرعون ۷۴ مرتبہ آیا ہے۔ جناب موسیؑ اور بنی اسرائیل کے قصص کے ذیل میں فرعون کا تذکرہ وارد ہوا ہے۔ قرآن کریم نے جناب موسیؑ اور فرعون کے درمیان ہونے والی بعض گفتگو کو مختلف آیات میں ذکر کیا ہے۔ فرعون کے مختلف اوصاف قرآن کریم نے ذکر کیے ہیں جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:

← فرعون مصر کا بادشاہ تھا


فرعون کے ہاتھ میں ملکِ مصر کی بادشاہت تھی اور وہ اپنے آپ کو اس بادشاہت کا مالک تصور کرتا تھا۔ سورہ زخرف میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے: وَ نادى‌ فِرْعَوْنُ في‌ قَوْمِهِ قالَ يا قَوْمِ أَ لَيْسَ لي‌ مُلْكُ مِصْرَ وَ هذِهِ الْأَنْهارُ تَجْري مِنْ تَحْتي‌ أَ فَلا تُبْصِرُون‌؛ اور فرعون نے اپنی قوم کو پکار کر کہا: اے میری قوم کیا مصر کی مملکت میری نہیں ہے اور میرے قدموں کے نیچے بہنے والی نہریں کیا میری ملکیت نہیں ہیں ؟! کیا تم لوگوں کو نظر نہیں آ رہا ؟!۔

← فرعون متکبر ظالم انسان تھا


فرعون کے عنوان سے جتنے بادشاہ آئے ان میں سب سے ظالم، متکبر، سرکش اور قسی القلب فرعون وہ تھا جو جناب موسیؑ کے دور میں تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ سے منقول ایک روایت میں وارد ہوا ہے کہ اللہ کی مخلوق میں سب سے بدتر اور شر پسند پانچ افراد ہیں: پہلا ابلیس ہے، دوسرا وہ فرزند آدم ہے جس کو اس کے بھائی نے قتل کیا، تیسرا میخیں گاڑنے والا فرعون ہے۔ سورہ الدخان میں ارشادِ باری تعالی ہوتا ہے: مِنْ فِرْعَوْنَ إِنَّهُ كانَ عالِياً مِنَ الْمُسْرِفين‌؛ فرعون کے شر سے جو ظلم و زیادتی کرنے والوں میں سب سے بالاتر تھا۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ فرعون اپنی مملکت میں لوگوں سے سختی اور ظلم و تشدد کا رویہ اختیار کیا کرتا تھا۔

← فرعون ذو الاوتاد تھا


قرآن کریم نے فرعون کی ایک اہم صفت ذی الاوتاد ہونا ذکر کی ہے۔ سورہ ص میں اللہ تعالی فرماتا ہے: كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوحٍ وَ عادٌ وَ فِرْعَوْنُ ذُو الْأَوْتاد؛ ان سے پہلے قومِ نوح، عاد اور میخوں والے فرعون نے بھی جھٹلایا۔ اوتاد جمع کا صیغہ ہے جس کا مفرد وتد ہے۔ عربی زبان میں میخ یا کیل کو وتد کہتے ہیں جس کی جمع اَوۡتَاد آتی ہے۔ فرعون کو میخوں والا کہنے کی متعدد وجہ بیان ہوئی ہیں۔ امام جعفر صادق ؑ سے روایت میں وارد ہوا ہے کہ فرعون کو اس لیے میخوں والا کہا جاتا تھا کیونکہ وہ کسی شخص پر ظلم و ستم کے ذریعے عذاب ڈھانا چاہتا تو اس کو منہ کے بل زمین پر لیٹا کر اس کے ہاتھ پاؤں پھیلا دیتا اور اس کے دونوں ہاتھوں اور دونوں بازوں پر چار بڑی بڑی کیلیں گاڑ دیتا اور کبھی وہ ایک بڑے تختے پر لٹا کر میخیں گاڑتا اور اس کے بعد اس شخص کو اس کے حال پر چھوڑ دیتا یہاں تک کہ وہ اسی حالت میں موت سے ہمکنار ہو جاتا۔ اس وجہ سے اللہ تعالی نے فرعون کو ذی الاوتاد کہا ہے۔

مفسرین نے فرعون کو ذو الاوتاد کہنے کی دیگر وجوہات بھی ذکر کی ہیں جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:
۱۔ فرعون كو اس لیے ذو الاوتاد کہا جاتا ہے کیونکہ اس نے بڑے بڑے مینار گاڑے تھے جن کے ذریعے وہ آسمان پر چڑھنا چاہتا تھا۔
۲۔ فرعون کے ہاتھ میں بڑی بڑی میخیں یا میخوں سے بنی ہوئی ایک شیء ہوتی تھی جس سے وہ کھیلتا رہتا تھا۔
۳۔ اوتاد سے مراد فرعون کی کثیر فوج اور لشکر کا ہونا ہے۔ عموما کثیر فوج اس وقت ہوتی ہے جب دشمن کے مقابلے میں مسلسل جنگیں ہو رہی ہوں۔ اس لیے بعض نے اس قول کو ضعیف قرار دیا ہے۔ علامہ طباطبائی نے ان تمام احتمالات کو ذکر کرنے کے بعد بیان کیا ہے کہ ان میں سے ایک معنی لینے پر ہمارے پاس کوئی ایسی دلیل نہیں ہے جس پر اعتماد کیا جا سکے۔

← فرعون كا الوہیت کا دعوی


فرعون نے الہ کا دعوی کرتے ہوئے اپنے معبود ہونے کا عقیدہِ فاسد پیش کیا اور واضح طور پر کہا کہ میرے لیے تم لوگوں کا کوئی اور الہ و معبود نہیں ہے۔ قرآن کریم نے الوہیت کے اس دعوی کو قرعون ہی کی زبانی بیان کیا ہے جیساکہ ارشاد باری تعالی ہوتا ہے: وَ قَالَ فِرْعَوْنُ یا أَیهَا الْمَلَأُ مَا عَلِمْتُ لَکم مِّنْ إِلَهٍ غَیرِی؛ اور فرعون نے کہا اے ملأ مجھے تمہارے لیے اپنے علاوہ کسی اور الہ کی خبر نہیں ہے۔

← فرعون كا ربوبیت کا دعوی


ربوبیت سے مراد مالک ہوتے ہوئے تدبیر کرنا ہے۔ فرعون کے گھمبیر جرائم میں سے ایک اس کا ربوبیت کا دعوی کرنا ہے۔ فرعون نے اللہ سبحانہ کی ربوبیت کے مقابلے میں اپنے ربّ ہونے کا دعوی کیا جس کو قرآن کریم نے اسی کی زبانی ذکر کیا ہے: فَقَالَ أَنَا رَبُّکمُ الْأَعْلَی؛ پس اس نے کہا میں تمہارا سب سے اعلی و برتری ربّ ہوں۔

← فرعون كا بنی اسرائیل پر بدترین ظلم ڈھانا


فرعون نے بنی اسرائیل کو شدید مظالم اور انتہائی سختیوں میں رکھا تھا۔ وہ بنی اسرائیل کے بچوں کو ذبح کر دیتا اور ان کی خواتین کو زندہ چھوڑ دیتا اور اگر کے شکم میں بچہ ہوتا تو اس خاتون کا شکم چاک کر دیتا۔ قرآن کریم نے ان مظالم کی طرف متعدد آیات میں اشارہ کیا ہے، جیساکہ فرمانِ الہی ہوتا ہے: إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلا فِي الْأَرْضِ وَ جَعَلَ أَهْلَها شِيَعاً يَسْتَضْعِفُ طائِفَةً مِنْهُمْ يُذَبِّحُ أَبْناءَهُمْ وَ يَسْتَحْيي‌ نِساءَهُمْ إِنَّهُ كانَ مِنَ الْمُفْسِدين‌؛ فرعون زمین پر سرکش بن گیا اور اس نے اہلِ زمین کو مختلف گروہوں میں تقسیم کر دیا جن میں سے ایک گروہ کو ضعیف و کمزور کر دیا، ان کے بیٹوں کو ذبح کر دیا کرتا اور ان کی عورتوں کو زندہ چھوڑ دیتا بے شک وہ فساد برپا کرنے والوں میں سے تھا۔

← فرعون كا الہی تعلیمات کے سامنے تکبر دکھانا


فرعون کے سامنے جب اللہ سبحانہ کی تعلیمات آشکار ہوئیں تو اس نے تکبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے ماننے سے انکار کر دیا اور اپنی الوہیت و ربوبیت کا دعوی کیا۔ فرعون اللہ تعالی کے بھیجے ہوئے نبی جناب موسیؑ و ہارونؑ کے سامنے اکڑ گیا اور ان کی اطاعت کرنے کا انکار کر دیا۔ سورہ یونس میں ارشادِ باری تعالی ہوتا ہے: ثُمَّ بَعَثْنا مِنْ بَعْدِهِمْ مُوسى‌ وَ هارُونَ إِلى‌ فِرْعَوْنَ وَ مَلاَئِهِ بِآياتِنا فَاسْتَكْبَرُوا وَ كانُوا قَوْماً مُجْرِمين‌؛ بھر ہم نے ان کے بعد موسی اور ہارون کو فرعون اور اس کی جماعت (ملأ) کی طرف مبعوث کیا، پس انہوں نے تکبر دکھایا اور وہ مجرم صفت قوم تھی۔

← فرعون کا قوم کو گمراہ کرنا


فرعون کے بڑے جرائم میں سے ایک جرم قوم کو گمراہ کرنا اور سرکشی و بغاوت دکھانا ہے۔ فرعون کے تابع ہوتے ہوئے اس کی قوم اور اس کے پیرو نے بھی حق کے سامنے تکبر کرتے ہوئے حق کا انکار کیا اور ہلاکت سے دوچار ہوئے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: إِلى‌ فِرْعَوْنَ وَ مَلاَئِهِ فَاتَّبَعُوا أَمْرَ فِرْعَوْنَ وَ ما أَمْرُ فِرْعَوْنَ بِرَشيد؛ فرعون اور اس کی جماعت (ملأ) کی طرف، پس انہوں نے فرعون کے امر کی پیروی کی اور فرعون کا امر عقلمندانہ نہیں۔ اسی طرح ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے:وَ أَضَلَّ فِرْعَوْنُ قَوْمَهُ وَ ما هَدى؛ اور فرعون نے اپنی قوم کو گمراہ کر دیا اور وہ ہدایت یافتہ نہیں تھا۔

← فرعون كا جناب موسی کو قتل کرنے کی کوشش کرنا


فرعون نے جناب موسیؑ سے مبارزہ کے لیے تمام مکارانہ منصوبہ بندی کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی اور بالآخر یہ طے پایا کہ یومِ زینت والے دن جناب موسیؑ اور جادوگروں کا مقابلہ ہو گا۔ اس مقابلے میں حضرت موسیؑ کو فتح حاصل ہوئی اور جادوگروں کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس شکست کے سب سے گہرے اثرات یہ مرتب ہوئے کہ تمام جادوگر اللہ تعالی پر ایمان لے آئے جس کی وجہ سے فرعون کو بھرے مجمع میں انتہائی ذلت و خواری کا سامنا کرنا پڑا۔ قرآن کریم نے متعدد آیات میں اس واقعہ کی طرف اشارہ کیا ہے جن میں سے ایک مورد سورہ طہ آیت ۶۰ سے ۷۱ تک آیات کریمہ ہیں۔

اس واقعہ کے بعد فرعون نے حضرت موسیؑ اور ان پر ایمان لانے والوں کے قتل کا فیصلہ کیا۔ کیونکہ اس کو خوف تھا کہ اگر اسی طرح حضرت موسیؑ تبلیغات کرتے رہے اور لوگ حلقہ بگوش اسلام ہوتے رہے تو فرعون کی حکومت اس کے ہاتھ سے نکل جائے گی۔ اس پہلو کو قرآن کریم نے اس طرح بیان کیا ہے: وَ قالَ فِرْعَوْنُ ذَرُوني‌ أَقْتُلْ مُوسى‌ وَ لْيَدْعُ رَبَّهُ إِنِّي أَخافُ أَنْ يُبَدِّلَ دينَكُمْ أَوْ أَنْ يُظْهِرَ فِي الْأَرْضِ الْفَساد؛ اور فرعون نے کہا مجھے تم لوگ چھوڑو میں اس کو قتل کروں اور وہ اپنے ربّ کو پکارے، مجھے ڈر ہے کہ وہ تمہارے دین کو تبدیل کر دے گا یا زمین پر فساد پھیلا دے گا۔ فرعون کی طاغوتیت اس حد تک بڑھ گئی تھی کہ وہ دینِ حق اور اس کے غلبہ کو فساد خیال کیا کرتا تھا۔

← فرعون كا طاغوت بن جانا


انسانی معاشرے اس وقت تباہی و بربادی کا شکار ہو جاتے ہیں جب اس پر طواغیت حاکم ہو جائیں۔ طاغوت کا مطللب معصیت و نافرمانی میں حد سے تجاوز کر جانا ہے۔ فرعون اپنے تمام جرائم میں اس قدر حد سے تجاوز کر چکا تھا کہ اس کے خلاف اللہ تعالی نے جناب موسیؑ و ہارونؑ کو مبعوث کیا۔ انبیاءؑ کی بعثت کا ایک اہم ہدف معاشرے میں اللہ کی بندگی کو غالب کرنا اور طاغوت کا خاتمہ ہے۔ قرآن کریم میں وارد ہوا ہے: اذْهَبا إِلى‌ فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغى‌؛ تم دونوں فرعون کی طرف جاؤ وہ طاغوت بن چکا ہے۔

حضرت موسی کی رسالت

[ترمیم]

اللہ تعالی نے جناب موسیؑ کو آیات و معجزات دے کر فرعون کی طاغوتیت کے خاتمہ، بنی اسرائیل کی آزادی اور ایک انسانی معاشرہ کی تشکیل کے لیے مبعوث فرمایا۔ سورہ طہ میں ارشادِ باری تعالی ہوتا ہے: وَأَنَا اخْتَرْتُكَ فَاسْتَمِعْ لِما يُوحى‌؛ اور میں نے تمہیں چن لیا ہے پس جو وحی کی جائے اس کو توجہ سے سنو۔ حضرت موسیؑ جب نبوت ملی تو اللہ تعالی نے آپؑ کو فرعون کے مقابلے میں بھیجا کیونکہ فرعون کی طاغوتیت سے معاشرہ ظلمت کا شکار ہو چکا تھا، جیساکہ متعدد آیات میں وارد ہوا ہے:اذْهَبْ إِلى‌ فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغى‌؛ تم فرعون کی طرف جاؤ وہ طاغوت بن چکا ہے۔ جناب موسیؑ اپنے بھائی جناب ہارونؑ کو لے کر فرعون کے پاس گئے اور اس کو پہلے اللہ تعالی کی واحدنیت کی دعوت دی اور تقاضا کیا کہ بنی اسرائیل پر ظلم و ستم ختم کر دے اور ان کو ان کے ہمراہ چھوڑ دے۔ ارشادِ باری تعالی ہوتا ہے: فَأْتِياهُ فَقُولا إِنَّا رَسُولا رَبِّكَ فَأَرْسِلْ مَعَنا بَني‌ إِسْرائيلَ وَ لا تُعَذِّبْهُمْ قَدْ جِئْناكَ بِآيَةٍ مِنْ رَبِّكَ وَ السَّلامُ عَلى‌ مَنِ اتَّبَعَ الْهُدى‌؛ پس تم دونوں فرعون کے پاس جاؤ، اس سے جا کر کہو: ہم تیرے ربّ کے رسول ہیں پس ہمارے ساتھ بنی اسرائیل کو آزاد چھوڑ دے اور ان کو مزید عذاب میں مبتلا مت کر، ہم تیرے ربّ کی جانب سے تیرے پاس نشانی لے کر آئے ہیں اور اس پر سلام ہو جس نے ہدایت کی اتباع کی۔

فرعون نے جب حضرت موسیؑ اور جناب ہارونؑ کی خستہ حالت دیکھی تو ان کا تمسخر اڑانے لگا اور طرح طرح کے طعنے دیتے ہوئے حق کے مقابلے میں سرکشی و بغاوت و تکبر سے کام لیا۔ کبھی تو جناب موسیؑ کو مجنون کہا اور کبھی جادوگر و جھوٹا کذاب!! قرآن کریم میں اللہ تعالی فرماتا ہے:وَ قارُونَ وَ فِرْعَوْنَ وَ هامانَ وَ لَقَدْ جاءَهُمْ مُوسى‌ بِالْبَيِّناتِ فَاسْتَكْبَرُوا فِي الْأَرْضِ وَ ما كانُوا سابِقين‌؛ اور قارون و فرعون و ہامان اور موسی واضح نشانیوں کے ساتھ ان کے پاس آئے، پس انہوں نے زمین پر تکبر کیا اور وہ گرفت سے نکل نہیں سکے۔ اس تکبر کی وجہ سے ان کے دلوں پر تالے پڑ گئے اور یہ اعلانیہ طور پر جناب موسیؑ کے مقابلے میں آ گئے اور طرح طرح کے طعنے دینے لگے، جیساکہ قرآن کریم نے بیان کیا ہے: قَالَ إِنَّ رَسُولَکمُ الَّذِی أُرْسِلَ إِلَیکمْ لَمَجْنُونٌ؛ اس (فرعون) نے کہا بے شک تمہارا رسول جو تمہاری طرف بھیجا گیا ہے مجنون دیوانہ ہے۔ اسی طرح انہوں نے آپؑ کو جادو گر اور کذاب کے طعنے دیئے:إِلى‌ فِرْعَوْنَ وَ هامانَ وَ قارُونَ فَقالُوا ساحِرٌ كَذَّاب‌؛ فرعون و ہامان و قابون کی طرف پس انہوں نے کہا جادو گر جھوٹا کذاب ہے۔

جناب موسیؑ الہی تدبیر سے مومنین کی رہبری کرتے رہے اور معاشرے کی بنیادوں کو عملی بنیادوں پر رکھنا شروع کیا اور اس کی تربیت توحید، نبوت، قیامت اور توکل و صبر جیسی اعلی صفات پر شروع کی۔ اللہ تعالی نے جناب موسیؑ کو معاشرہ قائم کرنے کا حکم دیا جس میں اللہ تعالی کی بندگی چھائی ہوئی ہو، جیساکہ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: وَأَوْحَيْنا إِلى‌ مُوسى‌ وَأَخيهِ أَنْ تَبَوَّءا لِقَوْمِكُما بِمِصْرَ بُيُوتاً وَاجْعَلُوا بُيُوتَكُمْ قِبْلَةً وَأَقيمُوا الصَّلاةَ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنين‌؛ اور ہم نے موسی اور ان کے بھائی کی طرف وحی کی کہ وہ دونوں اپنی قوم کے لیے مصر میں گھر بناؤ اور تم لوگ اپنے گھروں کو قبلہ قرار دو اور نماز قائم کرو اور تم مومنین کو بشارت سنا دو۔

فرعون اور اس کے پیرو کا انجام

[ترمیم]

جناب موسیؑ کی تعلیمات اور تبلیغات کا فرعون اور اس کے پیروکاروں پر کوئی اثر نہیں ہوا اور فرعون مزید دشمنی پر اتر آیا اور پورے معاشرے کو حضرت موسیؑ سے دشمنی پر ابھارتا۔ جادوگروں کی شکست کے واقعہ کے بعد فرعون نے پختہ ارادہ کر لیا کہ وہ جناب موسیؑ اور ان پر ایمان لانے والوں پر لشکر کشی کر کے سب کا خاتمہ کر دے گا۔ حضرت موسیؑ کو اس کے ارادوں کی خبر تھی چنانچہ اللہ تعالی نے حکم دیا کہ رات کے پہر تم لوگ نکلو، فرعون اور اس کا لشکر تمہارا پیچھا کرنے آ رہے ہیں، جیساکہ سورہ طہ آیت ۷۷ اور سورہ دخان میں ذکر ہوا ہے: فَأَسْرِ بِعِبادي لَيْلاً إِنَّكُمْ مُتَّبَعُون‌؛ پس تم میرے بندوں کو لے کر رات کے وقت چل نکلو، وہ تم لوگوں کا پیچھا کیا جا رہا ہے۔ اللہ تعالی کے حکم سے جناب موسیؑ تمام مومنین کے ساتھ رات کے وقت سمندر کی طرف چل دیئے۔ فرعون کے لشکر جب اس جگہ پہنچے جہاں جناب موسیؑ رہا کرتے تھے تو وہاں انہوں نے کسی کو نہ پایا۔ انہوں نے اندازہ گیری کی اور سمندر کی طرف انہیں تلاش کرنے چل دیئے۔ رات کے گھپ اندھیرے میں لشکرِ فرعون کو کچھ دکھائی نہیں دیا اور انہوں نے صبح کا انتظار کیا۔ جب صبح کے آثار نمودار ہوئے اور رات کا اندھیرا چھٹنا شروع ہوا تو فرعونی لشکر نے جناب موسیؑ اور ان کے ساتھیوں کو دیکھ لیا اور وہ تیزی سے ان کی طرف لپکے یہاں تک وہ ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ قرآن کریم نے اس کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے: فَأَتْبَعُوهُمْ مُشْرِقين‌ فَلَمَّا تَراءَا الْجَمْعانِ قالَ أَصْحابُ مُوسى‌ إِنَّا لَمُدْرَكُون قالَ كَلاَّ إِنَّ مَعي‌ رَبِّي سَيَهْدين‌ فَأَوْحَيْنا إِلى‌ مُوسى‌ أَنِ اضْرِبْ بِعَصاكَ الْبَحْرَ فَانْفَلَقَ فَكانَ كُلُّ فِرْقٍ كَالطَّوْدِ الْعَظيم‌ وَ أَزْلَفْنا ثَمَّ الْآخَرين‌ وَ أَنْجَيْنا مُوسى‌ وَ مَنْ مَعَهُ أَجْمَعين‌ ثُمَّ أَغْرَقْنَا الْآخَرين‌؛ پس انہوں نے صبح کا اجالا نکلتے ہی ان کا پیچھا کیا پھر جب دونوں جماعتیں ایک دوسرے کو دیکھنے لگیں تو اصحابِ موسی کہنے لگے ہم تو پکڑے گئے موسی نے کہا ہر گز نہیں بے شک میرے ساتھ میرا رب ہے وہ میری ہدایت کرے گا پھر ہم نے موسی کی طرف وحی کی کہ اپنے عصا کو سمندر پر مارو تو سمندر چیرا گیا اور (اس کے دونوں طرف) ہر حصہ ایک بلند پہاڑ کی مانند ہو گیا اور ہم نے دوسرے (مخالف) گروہ کو بھی قریب کیا اور موسی اور جو ان کے ساتھ تھے ان سب کو ہم نے نجات دی پھر ہم نے دوسرے (مخالف گروہ) کو غرق کر دیا۔


فرعون اور اس کا لشکر پانی میں غرق ہو گئے اور عذابِ الہی کا شکار ہوئے جبکہ اللہ تعالی نے جناب موسیؑ اور ان پر ایمان لانے والوں کو نجات عنایت فرمائی۔ سورہ یونس میں وارد ہوا ہے کہ جب فرعون غرق ہونے لگا تو اس نے ایمان کا دعوی کیا اور بنی اسرائیل کے معبود کو اپنا معبود قرار دیا اور اسلام لانے کا دعوی کیا۔ ایمان فرعون کے دعوؤں کو قرآن کریم نے اس طرح بیان کیا ہے: وَجاوَزْنا بِبَني‌ إِسْرائيلَ الْبَحْرَ فَأَتْبَعَهُمْ فِرْعَوْنُ وَ جُنُودُهُ بَغْياً وَ عَدْواً حَتَّى إِذا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ قالَ آمَنْتُ أَنَّهُ لا إِلهَ إِلاَّ الَّذي آمَنَتْ بِهِ بَنُوا إِسْرائيلَ وَ أَنَا مِنَ الْمُسْلِمين‌؛ اور ہم نے بنی اسرائیل کو سمندر پار کر دیا، فرعون اور اس کے لشکر بغاوت اور دشمنی کے بل بوتے پر ان کے پیچھے پیچھے آئے یہاں تک کہ ڈوبنے نے اس کو گھیر لیا تو اس نے کہا میں ایمان لاتا ہوں، بے شک کوئی الہ و معبود نہیں ہے سوائے اس کے جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے اور میں مسلمانوں میں سے ہوں۔ اللہ تعالی نے ایمان فرعون کو قبول نہیں کیا اور فرمایا کہ اب تو ایمان لاتے ہو جبکہ اس سے پہلے تم معصیت کار رہے ہو اور تم فساد برپا کرنے والوں میں سے تھے۔ بعض نے یہ گمان کیا کہ ایمان فرعون بارگاہِ الہی میں قبول ہوا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالی مجبوری اور اضطراری حالت میں ایمان کے دعوؤں کو قبول نہیں فرماتا۔ پس ایمانِ فرعون قابل قبول قرار نہیں پایا۔ اس کے بعد اللہ تعالی نے فرعون کے بدن کو نکال کر زمین پر ایک بلند چٹان پر لا پھینکا تاکہ اس کے بعد آنے والی نسلوں کے لیے فرعون ہمیشہ ہمیشہ کے لیے عبرت کا نمونہ قرار پائے۔ ارشادِ باری تعالی ہوتا ہے: فَالْیوْمَ نُنَجِّیک بِبَدَنِک لِتَکونَ لِمَنْ خَلْفَک آیةً؛ پس آج کے دن ہم تجھ کو تیرے بدن کے ذریعے بچاتے ہیں تاکہ تم اپنے بعد آنے والوں کے لیے عبرت بن جا۔


حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. راغب اصفہانی، حسین بن محمد، المفردات فی غریب القرآن، ج۱، ص۳۷۷۔    
۲. فیومی، احمد بن محمد، المصباح المنیر، ج ۳۷۷، ص ۱۔    
۳. طریحی، فخر الدین، مجمع البحرین، ج ۳، ص ۳۹۲۔    
۴. مصطفوی، حسن، التحقیق فی کلمات القرآن الکریم، ج ۹، ص ۶۷۔    
۵. زبیدی، مرتضی، تاج العروس من جواہر القاموس، ج ۱۸، ص ۴۳۲۔    
۶. طبری، محمد بن جریر، تفسیر الطبری، ج ۲، ص ۳۸۔    
۷. ابن کثیر، اسماعیل بن عمر، تفسیر ابن کثیر، ج ۱، ص ۹۴۔    
۸. فخر الدین رازی، محمد بن عمر، التفسیر الکبیر أو مفاتیح الغیب، ج ۳، ص ۵۰۵۔    
۹. یوسف/سوره۱۲، آیت ۲۱۔    
۱۰. ابو الفداء، اسماعیل بن علی، المختصر فی أخبار البشر، ج ۱، ص ۵۶۔    
۱۱. مدنی شیرازی، سید علی، الریاض السالکین فی شرح صحیفۃ سید الساجدین ع، ج ۱، ص ۱۷۰۔    
۱۲. قیروانی، مکی بن ابی طالب قرطبی، الہدایۃ الی بلوغ النہایۃ فی علم معانی القرآن، ج ۵، ص ۳۵۳۰۔    
۱۳. شیخ صدوق، محمد بن علی، علل الشرائع، ج ۱، ص ۶۷۔    
۱۴. ازہری، محمد بن احمد، تہذیب اللغۃ، ج ۳، ص ۲۳۴۔    
۱۵. جوہری، اسماعیل بن حماد، الصحاح:تاج اللغۃ وصحاح العربیۃ، ج ۶، ص ۲۱۷۷۔    
۱۶. ابن منظور، محمد بن مکرم، لسان العرب، ج ۱۳، ص ۳۲۳۔    
۱۷. شیخ صدوق، محمد بن علی، معانی الاخبار، ص ۵۰۔    
۱۸. قمی نیشاپوری، حسن بن محمد، غرائب القرآن ورغائب الفرقان، ج ۳، ص ۶۰۸۔    
۱۹. حنبلی نعمانی، عمر بن علی، اللباب فی علوم الکتاب، ج ۲، ص ۵۶۔    
۲۰. ابو الفرج ابن جوزی، عبد الرحمن بن علی، زاد المسیر فی علم التفسیر، ج ۱، ص ۶۳ ۔    
۲۱. قرطبی، محمد بن احمد، تفسیر القرطبی، ج ۱، ص ۳۸۳۔    
۲۲. زخرف/سوره۴۳، آیت ۵۱۔    
۲۳. ابن ابی حاتم، عبد الرحمن بن محمد، تفسیر القرآن العظیم، ج ۹، ص ۱۴۹۔    
۲۴. شیخ صدوق، محمد بن علی، الخصال، ص ۳۱۹۔    
۲۵. دخان/سوره۴۴، آیت ۳۱۔    
۲۶. ص/سوره۳۸، آیت ۱۲۔    
۲۷. فجر/سوره۸۹، آیت ۱۰۔    
۲۸. شیخ صدوق، محمد بن علی، علل الشرائع، ج ۱، ص ۷۰۔    
۲۹. قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، ج ۲، ص ۴۲۰۔    
۳۰. طباطبائی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ج ۱۷، ص ۱۸۵۔    
۳۱. قصص/سوره۲۸، آیت ۳۸۔    
۳۲. نازعات/سوره۷۹، آیت ۲۴ ۔    
۳۳. قصص/سوره۲۸، آیت ۴۔    
۳۴. یونس/سوره۱۰، آیت ۷۵۔    
۳۵. ہود/سوره۱۱، آیت ۹۷۔    
۳۶. طہ/سوره۲۰، آیت ۷۹۔    
۳۷. غافر/سوره۴۰، آیت ۲۶۔    
۳۸. ابن فارس، احمد، معجم مقاییس اللغۃ، ج ۳، ص ۴۱۲۔    
۳۹. طہ/سوره۲۰، آیت ۴۳۔    
۴۰. طہ/سوره۲۰، آیت ۱۳۔    
۴۱. نازعات/سوره۷۹، آیت ۱۷۔    
۴۲. طہ/سوره۲۰، آیت ۴۷۔    
۴۳. عنکبوت/سوره۲۹، آیت ۳۹۔    
۴۴. شعراء/سوره۲۶، آیت ۲۷۔    
۴۵. غافر/سوره۴۰، آیت ۲۴۔    
۴۶. یونس/سوره۱۰، آیت ۸۷۔    
۴۷. دخان/سوره۴۴، آیت ۲۳۔    
۴۸. شعراء/سوره۲۶، آیت ۵۲۔    
۴۹. طہ/سوره۲۰، آیت ۷۷۔    
۵۰. شعراء/سوره۲۶، آیت ۶۰-۶۶۔    
۵۱. یونس/سوره۱۰، آیت ۹۰۔    
۵۲. یونس/سوره۱۰، آیت ۹۱۔    
۵۳. غافر/سوره۴۰، آیت ۸۵۔    
۵۴. یونس/سوره۱۰، آیت ۹۲۔    


مأخذ

[ترمیم]

سایٹ پژوہہ۔    
مقالہ کا اکثر و بیشتر حصہ ویکی فقہ اردو کی جانب سے تحریر کیا گیا ہے۔



اس صفحے کے زمرہ جات : فرعون | قرآنی موضوعات




جعبه ابزار