امام جعفر صادق
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
جعفری مذہب کے سربراہ اور
شیعوں کے چھٹے امام، ۱۷
ربیع الاول سنہ ۸۳ ہجری قمری کو
مدینہ میں پیدا ہوئے۔
آپؑ کا اسم گرامی "جعفر" اور سب سے زیادہ مشہور کنیت "ابوعبداللہ" اور مشہورترین لقب "صادق" ہے۔
آپؑ کے والد گرامی "
امام باقرؑ" اور آپؑ کی والدہ "
ام فروہ"، قاسم بن محمد بن ابوبکر کی بیٹی ہیں
کہ جن کے بارے میں امام صادقؑ نے فرمایا:
کانت امی ممن آمنت واتقت واحسنت والله یحب المحسنین "میری والدہ مومن،
متقی اور نیک
خواتین میں سے تھیں اور اللہ نیک کام کرنے والوں سے محبت کرتا ہے"۔
[ترمیم]
امام صادقؑ ایک منفرد اور بے مثال شخصیت کے مالک تھے۔ آپ کے نورانی وجود کو دیکھنے والوں کی نگاہیں خیرہ ہو کر رہ جاتی تھیں۔ اہل علم و دانش آپؑ کی مدح و ثنا کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
مالک بن انس جو
اہل سنّت کے چار اماموں میں سے ایک ہیں؛ کا کہنا ہے: ہرگز کسی آنکھ نے جعفر بن محمد کی مثل کو نہیں دیکھا اور نہ کسی کان نے ان کی نظیر کے بارے میں سنا اور
علم،
عبادت اور تقویٰ میں جعفر بن محمد سے افضل، کا کسی انسان کے دل میں کبھی خیال پیدا نہیں ہوا۔
[ترمیم]
امامت سے قبل آپ اپنے
والد ماجد کی دینی تعلیمات کی اشاعت اور وفادار و صاحبِ
بصیرت شاگردوں کی تربیت پر مبنی جدوجہد کے شاہد رہے۔
امام باقرؑ مختلف مواقع پر اپنے بیٹے جعفر صادقؑ کی امامت اور
ولایت کو واضح طور پر بیان فرماتے تھے اور
شیعوں کو اپنے بعد حضرتؑ کی پیروی کی تلقین فرماتے تھے۔
لہذا بہت سی
احادیث حضرت صادقؑ کی امامت پر
نصّ کے طور پر نقل ہوئی ہیں۔ امام صادقؑ سنہ ۱۱۴ ہجری قمری میں اپنے والد کی
شہادت کے بعد ۳۱ سال کی عمر میں مقام امامت پر فائز ہوئے۔ آپؑ کی امامت، بنی امیہ کی حکومت کے سنہ ۱۳۲ میں اختتام اور بنی عباس کی حکومت کے آغاز سے متصل ہے۔
[ترمیم]
ابتدائے امامت میں کچھ شیعہ اور حتی بعض رشتہ دار بھی آپؑ کی امامت کو تسلیم نہیں کر رہے تھے۔ لہذا آپؑ نے مختلف طریقوں سے انہیں حق کے سامنے سر تسلیم خم کرنے پر آمادہ کرنے کی سعی فرمائی؛ چنانچہ اسی پس منظر میں آپؑ نے
اللہ کے اذن سے کچھ کرامات بھی پیش کیں۔
امام جعفر صادقؑ کا زمانہ، دیگر
ائمہ معصومینؑ کی نسبت ایک انوکھا دور تھا اور آپؑ کے دور جیسی معاشرتی اور فکری صورتحال، کسی دوسرے امامؑ کے زمانے میں موجود نہیں تھی۔ یہ حالات
بنو امیہ کے زوال اور
بنو عباس کے برسر اقتدار آنے کی وجہ سے درپیش تھے۔
بنو امیہ اور بنو عباس کی باہمی چپقلش ایک طولانی مدت پر محیط رہی۔ یہ
تنازعہ آخر کار سنہ ۱۲۹ ہجری میں مسلح جنگ کی شکل اختیار کر گیا۔
حصول اقتدار کی اس کشمکش کے دوران بنو امیہ اور بنو عباس آئمہؑ کی جدوجہد پر خاطر خواہ توجہ دینے سے قاصر رہے۔ اسی لیے یہ دور، امام صادقؑ اور شیعوں کے لئے کچھ حد تک
امن و امان کا زمانہ تھا اور انہیں اپنے علمی اور تربیتی پروگرام کو فروغ دینے کے لئے بہت مناسب مواقع فراہم ہوئے۔
[ترمیم]
سیاسی اور معاشرتی حالات کے باعث
امامؑ کو یہ موقع ملا کہ آپؑ اسلامی علوم و افکار کی اشاعت اور شاگردوں کی تربیت کے ذریعے اپنی الہٰی ذمہ داریاں پوری کریں۔ مختلف وجوہات کی بنا پر متعدد گروہ اور فرقے
اسلام میں ظاہر ہو رہے تھے۔
جبر،
تفویض اور غلو جیسے افکار جنم لے چکے تھے۔ امامؑ کے لئے ضروری تھا کہ فرصت کے لمحات کو غنیمت شمار کرتے ہوئے ایک مستند مدرسہ قائم کریں۔ امامؑ نے تین طریقوں سے اپنے شاگردوں کی تربیت کی:
اول: تمام اہل اسلام کیلئے ایک عمومی درس کا اہتمام کہ جس میں
شیعہ اور اہل سنّت سب شرکت کرتے تھے۔
دوّم: خاص اصحاب کیلئے خصوصی درس کا اہتمام کہ جس کی نشستیں اکثر و بیشتر امامؑ کے گھر میں منعقد ہوتی تھیں۔
سوّم:
ہشام بن حکم،
مفضل بن عمر،
محمد بن مسلم ثقفی،
ابان بن تغلب،
ہشام بن سالم،
مومن طاق،
جابر بن حیان ۔۔۔ جیسے شاگردوں کی تربیت؛ آپؑ کے شاگردوں کی تعداد چار ہزار تک منقول ہے۔
ابوحنیفہ جو اہل سنّت کے چار میں سے ایک فرقے کے امام ہیں؛ انہوں نے بھی کچھ عرصہ تک آپؑ کی شاگردی اختیار کی اور وہ اس پر فخر کیا کرتے تھے۔
[ترمیم]
امامؑ کا زمانہ، فکری اعتبار سے مختلف فرقوں اور
مذاہب کے ٹکراؤ کا دور بھی تھا۔
رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے بعد سے ایسا موقع میسر نہیں آیا تھا کہ اسلام کی حقیقی تعلیمات کی تبلیغ کی جا سکے، خاص کر نقلِ
حدیث کی ممانعت کے
قانون اور اموی حکام کے دباؤ نے حالات کو مزید گھمبیر بنا دیا تھا۔
لہذا
علم و
معرفت کے تشنہ اس معاشرے میں ایک عظیم خلا دکھائی دے رہا تھا۔
امام صادقؑ نے سازگار حالات اور معاشرے کی اشد ضرورت کے پیش نظر، اپنے والد گرامی کی فکری و علمی جدوجہد کا سلسلہ آگے بڑھایا اور ایک عظیم حوزہ علمیہ کی بنیاد رکھی۔ آپؑ نے مختلف علمی اور حدیثی موضوعات میں بڑے بڑے شاگردوں کی
تربیت کی۔
[ترمیم]
امامؑ؛
دین کے
دفاع،
تشیع کی حقانیت اور
اسلام کی صحیح تعلیمات کی اشاعت کے لئے مختلف مناسبتوں کو بروئے کار لاتے تھے۔ آپؑ کے مختلف فرقوں کے رہنماؤں کے ساتھ ان موضوعات میں متعدد مناظرے بھی ہوئے کہ جن میں آپؑ کے مستحکم دلائل کے ذریعے، ان کے
عقائد کا کھوکھلا پن اور حقیقی اسلام کی برتری ثابت ہوئی۔
آپؑ نے علم
فقہ کو بھی نہایت ترقی دی، یہاں تک کہ اس میدان میں نئے ابواب کھل گئے کہ جن کا سلسلہ اب تک جاری و ساری ہے۔ اسی طرح، حالات سازگار ہوتے چلے گئے اور
اسلامی تعلیمات بہت بڑے پیمانے پر علم و فضل کے الہٰی سرچشمے سے جاری ہوئیں؛ یوں کہ شیعہ کی ہر علم میں سب سے زیادہ احادیث امام صادقؑ سے ہی نقل ہوئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شیعہ مذہب کو
جعفری اور شیعہ فقہ کو
فقہ جعفریہ کہا جاتا ہے۔
[ترمیم]
امام صادقؑ سنہ ۱۱۴ ہجری میں مقام امامت پر فائز ہوئے۔ آپؑ کے زمانہ
امامت میں
بنو امیہ کے خلفا میں سے
ہشام بن عبدالملک، ولید بن زید، یزید بن ولید، ابراہیم بن ولید اور مروان حمار جبکہ بنو عباس کے
ابوالعباس سفاح اور
منصور دوانیقی نے حکومت کی۔
لگ بھگ ایک
صدی تک اسلام و
مسلمین، بنی امیہ کے تسلط پسندانہ مقاصد کا بازیچہ بنے رہے۔
حضرت علیؑ پر سبّ و شتم ان کے منشور میں سرفہرست اور
کربلا کے خون آشام سانحے میں
امام حسینؑ کی شہادت، ان کے ظلم و ستم کی انتہا تھی نیز بے شمار شیعہ اور علوی،
اہل بیتؑ کی حمایت کے جرم میں شہید کیے گئے یا سالہا سال تک کال کوٹھریوں میں قید رہے۔ بنو امیہ کے ہولناک جرائم اور دیگر عوامل و اسباب جیسے ائمہؑ کی جدوجہد اور بصیرت افروزی، بھاری ٹیکس کی وجہ سے معاشی دباؤ اور بنو امیہ کے حکومتی نظام میں غیر عربوں کے حقوق سے چشم پوشی؛ اس امر کے باعث بنے کہ
عراق،
ایران اور شمالی
افریقہ کے مسلمان اموی خاندان کے خلاف قیام کریں اور
ظلم و ستم پر مشتمل ان کی ایک
صدی پر محیط
حکومت کا خاتمہ کردیں۔
انقلابی رہنماؤں نے
شہدائے کربلا کے انتقام کا نعرہ بلند کر کے لوگوں کو جمع کیا اور امویوں کے خلاف قیام کیا۔ تاہم بنو امیہ کا تختہ الٹنے کے بعد امت کی بہترین شخصیت یعنی امام صادقؑ کے ہاتھ بیعت کرنے کی بجائے وہ خود تخت
حکومت پر قابض ہو گئے۔ انہوں نے ماضی کے ظالمین کی طرح اپنی حکومت کے دوام کی خاطر امام صادقؑ اور آپؑ کے اصحاب پر سختی شروع کر دی۔ ان کی پوری کوشش تھی کہ
معاشرے کو خاندانِ نبوت سے دور رکھا جائے تاکہ آل
پیغمبرؐ اور
اسلام کے نام پر حاصل کردہ حکومت سے کہیں ہاتھ نہ دھونا پڑیں۔ پہلے عباسی خلیفہ سفاح نے چار
سال جبکہ دوسرے خلیفہ منصور دوانیقی نے بائیس سال یعنی امام صادقؑ کی شہادت کے دس سال بعد تک حکومت کی۔
[ترمیم]
آپؑ کا زمانہ امامت سیاسی اور فکری و تربیتی لحاظ سے بہت نازک اور خصوصی اہمیت کا حامل دور تھا:
اسلامی معاشرے کو اُس زمانے میں سیاسی اور معاشرتی لحاظ سے اہم نشیب و فراز اور تبدیلیوں کا سامنا تھا۔
حکام وقت کے خلاف بہت سی تحریکوں کا ظہور اس دور کی اہم خصوصیات میں سے ہے۔
۱۔
حارث بن سریج کہ جو آزادی پسند تھا؛ نے سنہ ۱۱۶ ہجری میں مروانی حکومت کے خلاف
خراسان میں قیام کیا۔ اس نے لوگوں کو
اللہ کی کتاب،
پیغمبرؐ کی سنّت اور "الرضا من آل محمد" کے نام پر
بیعت کی دعوت دی۔ فاریاب، بلخ، جوزجان،
طالقان اور
مرو تک اپنے قیام کی توسیع کے باوجود، وہ سنہ ۱۲۸ ہجری کو مرو میں حکومتی فوج کے ہاتھوں مارا گیا۔
۲۔
زید بن علی کا قیام جو سنہ ۱۲۱ ہجری کو
کوفہ میں ہوا۔ انہوں نے اپنا
ہدف اللہ کی کتاب، پیغمبرؐ کی سنّت، ظالموں سے نبرد، مظلوموں کی حمایت اور
امامت کا تحفظ قرار دیا۔
بنو عباس نے اگرچہ علویوں والا نعرہ بلند کر کے امویوں کے
ظلم سے اکتائے ہوئے لوگوں کی حمایت سے حکومت پر قبضہ کیا تھا، مگر حکومت حاصل کرنے کے تھوڑے ہی عرصے کے بعد ان کی اسلام و مسلمین دشمنی عیاں ہو گئی؛ جس کی وجہ سے عوامی مخالفت اور بغاوتیں زور پکڑنے لگیں۔ ان میں سے اہل
جزیرہ کی بغاوت، اہل
موصل کی شورش،
مدینہ سے
نفس زکیہ کا قیام اور
بصرہ سے ابراہیم بن عبداللہ بن حسین کا قیام قابل ذکر ہیں۔
اس زمانے کی اسلامی امت حقیقی
اسلام اور اس کی سچی تعلیمات سے آگاہی کے حوالے سے انتہائی نچلی سطح پر تھی؛ اور اس کی وجوہات درج ذیل ہیں:
۱) اس دور کا ظہورِ اسلام سے فاصلہ ایک
صدی سے زائد عرصے پر محیط تھا؛
۲) نو مسلم افراد کی اگلی نسل کے ہاتھ میں معاشرے کی باگ ڈور تھی؛
۳) اموی اور عباسی حکمران جبر و تشدد کے زور پر مسلط تھے؛
۴) ائمہ معصومینؑ کو حکومت کے منصب سے الگ کر دیا گیا تھا؛
۵) اموی حکمران اور درباری ملاں بہت سے اسلامی اصولوں اور تعلیمات کو الٹ پلٹ کرنے میں مصروف تھے؛
شام کے کچھ لوگوں نے عباسی خلیفہ سفاح کے سامنے یہ اعتراف کیا کہ ابھی تک انہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ بنو امیہ کے علاوہ
رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے کوئی اور قرابتدار بھی ہیں؛ ہمیں آپ کے
قیام سے ان حقائق کا پتہ چلا ہے۔
اس امر سے اس دور کے حالات کی سنگینی کا ادراک کیا جا سکتا ہے۔
[ترمیم]
امام صادقؑ نے اموی خلافت کی خراب صورتحال سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے اصلاحی منشور اور علمی و فکری جدوجہد کا آغاز کیا۔ آپؑ نے اپنا پیغام احسن انداز سے ابلاغ کرنے کے لئے دو رہنما اصول اختیار کیے:
۱۔ سیاسی تنازعات سے کنارہ کشی اور
تقیے سے بہرہ مندی؛
۲۔
امامت کی دعوت اور اس کی حفاظت؛
امامؑ کی جدوجہد کا یہ مرحلہ دو پہلوؤں پر مشتمل تھا:
۱۔ معاصر حکمرانوں کی امامت کا انکار: اس سلسلے میں آپؑ نے مختلف طریقوں سے خلفاء اور ان کے کارندوں کے باطل اور خلاف اسلام موقف کے بارے میں خبردار کیا اور اپنے پیروکاروں کو ان سے تعاون اور ان کی عدالتوں کی طرف رجوع سے منع کرتے ہوئے ان کی خلافت کے قانونی جواز کو مسترد کر دیا۔
۲۔ اپنی امامت کا اثبات: امام صادقؑ اس اعتبار سے خود کو
پیغمبر صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کا جانشین،
امت کا پیشوا اور حکومت کا حقیقی مالک سمجھتے تھے۔ امامؑ کی جدوجہد کا یہ پہلو
معاشرے کے سیاسی حالات، حاضرین کی صورتحال اور ضرورت کے مطابق مختلف طریقوں سے وقوع پذیر ہوتا تھا۔ کبھی خلفا اور طاغوتوں کے سامنے، بعض اوقات عوام کے سامنے اور کبھی نجی سطح پر خاص افراد کے سامنے۔
[ترمیم]
منصور دوانیقی، امام صادقؑ کی جدوجہد سے بہت پریشان تھا اور ہمیشہ آپؑ کو تکلیف دیتا رہتا تھا۔ اس نے
مدینہ اور
مکہ کے والی "حسن بن زید" کو پیغام دیا کہ جعفر بن محمدؑ کا گھر جلا دو! اس نے بھی اس حکم پر عملدرآمد کرتے ہوئے امامؑ کے گھر کو
آگ لگا دی۔ یہ آگ گھر کے داخلی راستے تک جا پہنچی تھی۔
[ترمیم]
یہ تصور نہ کیا جائے کہ امامؑ نے اپنے آپ کو
سیاسی مسائل اور امور سے بالکل دور رکھا ہوا تھا۔ آپؑ ہمیشہ اپنی حقانیت کی ترویج اور حکومتی سسٹم کے بطلان کو واضح کرنے کیلئے مناسب اوقات سے بہرہ مند ہوتے تھے۔ اس حوالے سے آپؑ کچھ نمائندوں کو دور دراز کے اسلامی شہروں کی طرف روانہ کرتے تھے۔
عباسی،
حکومت ہتھیانے اور لوگوں کے دلوں میں مقبولیت حاصل کرنے کے لئے پیغمبرؐ کی
اہل بیتؑ کے مقام سے استفادہ کرتے تھے اور حتی انہوں نے "الرضا من آل محمد" کا نعرہ بلند کر رکھا تھا۔
وہ ہمیشہ ایسی آبرو مند عوامی شخصیات کی تلاش میں رہتے تھے کہ جو پیغمبرؐ کے قرابتداروں میں سے بھی ہوں اور لوگوں میں ان کی مقبولیت بھی ہو۔ لہذا اس حوالے سے عباسیوں کی نظر میں بہترین شخص امام صادقؑ تھے۔
امام صادقؑ نے ان کی پیشکش کو ٹھکرا دیا اور فرمایا: نہ تم میرے مددگار ہو، نہ ہی یہ زمانہ میرا زمانہ ہے۔ حتی حضرتؑ کے بعض قرابتدار، ان تجاویز کے فریب میں آنے ہی والے تھے مگر آپؑ نے اپنی خاص بصیرت افروزی کے ذریعے انہیں یہ سمجھایا کہ ظاہر کو نہ دیکھیں۔ آپؑ جانتے تھے کہ عباسیوں کا مقصد، حکومت کو ہتھیانا ہی تھا اور اگر اہل بیتؑ کی حمایت کرنے کا
نعرہ لگاتے ہیں تو یہ اہل بیتؑ کے حبداروں کی حمایت حاصل کرنے کے لئے ہے۔ امامؑ دیکھ رہے تھے کہ عباسیوں کے سیاسی اور فوجی سربراہ،
اسلام اور اہل بیتؑ کے راستے پر نہیں ہیں تو اسی لیے آپؑ نہیں چاہتے تھے کہ ان سے تعاون کرتے ہوئے ان کے اقدامات کو مشروعیت دیں۔ جیسا کہ ہم تاریخ میں دیکھتے ہیں کہ انہوں نے کیسے کیسے ظلم کیے اور خون بہائے تاکہ عباسی سلطنت کی بنیادیں مضبوط ہو جائیں۔
آپؑ کی امامت کے دوران رونما ہونے والے اہم حادثات میں سے ایک آپؑ کے چچا
زید بن علی کا قیام ہے کہ جسے شکست ہوئی اور یہ قیام زید کی
شہادت کے ساتھ اختتام پذیر ہو گیا۔
[ترمیم]
ایک رات منصور نے اپنے دربار کے وزیر "ربیع" کو حکم دیا کہ ابھی جعفر بن محمد کو یہاں حاضر کرو۔ ربیع نے منصور کے حکم پر عمل کیا، حضرت امام صادقؑ کو آدھی رات کے وقت عمامے اور عبا کے بغیر لے جایا گیا۔ منصور نے انتہائی گستاخی اور سختی کے ساتھ آپؑ سے کہا: ابا جعفر! کیا تمہیں اس عمر میں
عار نہیں آتی کہ حکومت کے طالب ہو اور مسلمانوں کے درمیان
فتنہ اور افراتفری پیدا کرنا چاہتے ہو؟! اللہ مجھے مار ڈالے اگر میں تمہیں قتل نہ کروں، کیا میری
بادشاہت پر اعتراض کرتے ہو...؟ امامؑ نے فرمایا:
"جس نے تمہیں ایسی خبر دی ہے وہ جھوٹا ہے..."۔
پھر منصور نے امامؑ کا سر تن سے جدا کرنے کی غرض سے اپنی
تلوار نکالی۔ اتنے میں اس نے
رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو اپنے سامنے دیکھا تو تلوار کو غلاف میں رکھ دیا۔ یہ واقعہ تین مرتبہ پیش آیا پس منصور نے امامؑ کو
قتل کرنے کا ارادہ ترک کر دیا۔
ربیع کہتا ہے: میں نے امام صادقؑ کو دیکھا کہ داخل ہوتے وقت آپؑ کے ہونٹ حرکت کر رہے تھے، جب آپؑ منصور کے پاس بیٹھے تو لمحہ بہ لمحہ منصور کا
غصہ کم ہوتا جارہا تھا۔ جب امام صادقؑ منصور کے پاس سے چلے گئے تو میں نے امامؑ کے پیچھے جا کر عرض کیا: جب آپؑ منصور کے پاس پہنچے تو وہ آپؑ پر بہت غضبناک تھا۔ جب آپؑ اس کے پاس گئے تو آپؑ کے ہونٹ حرکت کر رہے تھے اور اس کا غصہ کم ہوتا چلا گیا؛ آپؑ زیر لب کیا ورد کر رہے تھے؟!
امام صادقؑ نے فرمایا:
"میں زیر لب اپنے جد
امام حسینؑ کی دعا پڑھ رہا تھا اور وہ یہ ہے:
"
یا عدتی عند شدتی و یا غوثی عند کربتی، احرسنی بعینک التی لا تنام واکفنی برکنک الذی لایرام"اے دشواری کے وقت مجھے طاقت دینے والے! اے پریشانی کے وقت میری پناہ میری پناہ! میری حفاظت فرما اپنی اس آنکھ سے جو نہیں سوتی اور مجھے اپنے استوار اور ناقابل خلل رکن کے زیر سایہ قرار دے"۔
سرانجام منصور نے زہر آلود انگوروں سے امام صادقؑ کو مسموم کر دیا۔ امام عالی مقام نے پینسٹھ برس کے سن میں جام شہادت نوش فرمایا۔ آپؑ کے پاکیزہ بدن کو
جنت البقیع میں آپؑ کے والد
امام محمد باقرؑ کے جوار میں دفن کیا گیا۔
[ترمیم]
شہادت کے وقت، آپؑ نے دو باتوں کی تاکید فرمائی:
۱۔
صلہ رحم۲۔
نمازقال الصادقؑ:
"ان شفاعتنا لاتنال مستخفاً بالصلوة"۔
"یقیناً ہماری
شفاعت، نماز کو ہلکا سمجھنے والے شخص تک نہیں پہنچے گی"۔
[ترمیم]
[ترمیم]
[ترمیم]
سایت پژوهه، برگرفته از مقاله «امام جعفر صادق علیهالسلام»، تاریخ بازیابی۱۳۹۵/۰۱/۲۸۔ دانشنامه رشد۔