ایمان فرعون
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
قرآن کریم کے مطابق جب
فرعون پانی میں ڈوب رہا تھا تو اس نے
اللہ تعالی پر ایمان لانے اور سر تسلیم خم کرنے کا دعوی اور اعتراف کیا۔ لیکن اللہ تعالی نے اس کے اس دعوی کو قبول نہیں کیا اور اگلی نسلوں کے لیے اس کے بدن کو عبرت کا نمونہ بنا دیا۔
[ترمیم]
قرآن کریم نے
فرعون کے طرح طرح کے بھیانک اور انتہائی پست جرائم کا تذکرہ متعدد آیات کریمہ میں کیا ہے۔ ان جرائم میں سے سرفہرست اس کا
ما عَلِمْتُ لَكُمْ مِنْ إِلهٍ غَيْري کہہ کر الوہیت اور
فَقالَ أَنَا رَبُّكُمُ الْأَعْلى کہہ کر ربوبیت کا دعوی کرنا ہے، مظلوم بچوں عورتوں کو قتل کرنا،
اللہ تعالی کی تعلیمات کا انکار
اور انبیاء علیہم السلام کے خلاف لشکر کشی کرنا ہے۔
یہاں تک اس کا خاتمہ سمندر میں ڈوب کر ہوا اور اس کو ذلت کی موت نصیب ہوئی۔
قرآن کریم نے اس کے ڈوبنے کے واقعات کو بیان کرتے ہوئے اس کا دعوی ایمان و اسلام نقل کیا ہے جس کی بناء پر بعض نے اختلاف کیا ہے کہ آیا
فرعون مومن مرا یا کافر؟
فرعون کے ڈوبنے کو ہم قرآن کریم کی آیات سے ملاحظہ کرتے ہیں اور اس کے دعوی ایمان کا جائزہ لیتے ہیں۔
سورہ یونس آیت ۹۰ میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:
وَجاوَزْنا بِبَني إِسْرائيلَ الْبَحْرَ فَأَتْبَعَهُمْ فِرْعَوْنُ وَ جُنُودُهُ بَغْياً وَ عَدْواً حَتَّى إِذا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ قالَ آمَنْتُ أَنَّهُ لا إِلهَ إِلاَّ الَّذي آمَنَتْ بِهِ بَنُوا إِسْرائيلَ وَ أَنَا مِنَ الْمُسْلِمين؛ اور ہم نے
بنی اسرائیل کو بحر پار کرا دیا، پس
فرعون اور اس کے لشکر سرکشی اور دشمنی کرتے ہوئے ان کے پیچھے ہو لیے یہاں تک کہ جب ڈوبنے نے اس کو گھیر لیا تو اس نے کہا: میں ایمان لاتا ہوں کہ کوئی الہ نہیں ہے سوائے اس کے جس پر بنی اسرائیل
ایمان لائے اور میں مسلمین میں سے ہوں۔
اس آیت کریمہ میں
فرعون اور اس کے تمام لشکروں کا سمندر میں ڈوبنا وارد ہوا ہے اور
فرعون کا دعوی ایمان واضح طور پر مذکور ہے۔
مذکورہ آیت کریمہ میں اتنا تذکرہ وارد ہوا ہے کہ بنی اسرائیل کو
اللہ تعالی نے سمندر پار کرا دیا اور فرعون کو لشکر سمیت اس میں ڈوبو دیا گیا۔ اللہ تعالی کے حکم بنی اسرائیل جناب موسی علیہ السلام کی قیادت رات کی تاریکی میں سمندر کی طرف نکلے تھے
اور صبح کے اجالے میں
فرعون اور اس کے لشکر نے ان کو پا لیا۔ جب فرعونی لشکر اور اصحابِ موسیؑ ایک دوسرے کو نظر آنے لگے تو
اللہ تعالی کے حکم سے جناب موسیؑ نے سمندر پر عصا مارا اور سمندر کے درمیان میں راستہ بن گیا اور پانی دو طرف سے بلند و بالا پہاڑ کی مانند نظر آنے لگا۔
اللہ تعالی نے اس راستے میں گیلی اور دلدلی زمین کو خشک اور محکم بنا دیا تاکہ بنی اسرائیل وہاں سے گزر سکیں جس کی وجہ سے اصحاب موسیؑ کا غم و خوف دور ہو گیا اور وہ آسانی کے ساتھ سمندر کو پار کر گئے۔
قرآن کریم کے مطابق
فرعون اور اس کے لشکر نے جب دیکھا کہ بنی اسرائیل سمندر میں داخل ہو گئے اور ان کے لیے راہ ہموار ہے تو سرکشی اور دشمنی کی تاریکی میں اندھا فرعونی لشکر بھی ان کے پیچھے پیچھے سمندر میں داخل ہو گیا۔ یہاں تک بنی اسرائیل امن و امان سے ساحل پر پہنچ گئے اور
فرعون اپنے لشکر سمیت سمندر میں غرق ہو گیا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہاں
بحر سے مراد سمندر ہے یا دریا ہے؟ مفسرین میں اس بارے میں اختلاف وارد ہوا ہے کہ آیا جناب موسیؑ سمندر کی طرف گئے تھے یا دریا کی طرف؟ متعدد مفسرین مثل
سمرقندی نے تحریر کیا ہے کہ قرآنی آیت کے مطابق بنی اسرائیل سمندر کی طرف گئے تھے جس کے قریب دریائے نیل بہتا ہے اور اسی میں
فرعون اور اس کا لشکر غرق ہوا۔ پس دریائے نیل کہا جائے یا
بحر القلزم کہا جائے ایک ہی بات ہے۔
شیخ صدوق نے
اہل بیت علیہم السلام سے جو روایات نقل کی ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ
فرعون اور اس کا لشکر
بحر القلزم میں غرق ہوا تھا۔
البتہ مرحوم طبرسی نے نقل کیا ہے کہ یہاں بحر سے مراد دریائے نیل ہے۔
دریائے نیل بحر القلزم سے چونکہ متصل ہے اور اس سے کچھ فاصلے پر ہے اس لیے دریائے نیل کی سمت کو بحر القلزم کی سمت سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔
بعض علماء قائل ہیں کہ
فرعون جب مرا تو وہ مومن مرا تھا اور اس کے ایمان کی تصدیق
قرآن کریم نے اس طرح کی ہے کہ جب وہ مرا تو اس نے ایمان اور
اسلام کا اعتراف کیا۔ معروف
صوفی بزرگ محیی الدین
ابن عربی نے مختلف مقامات پر
فرعون کے مومن ہونے کا اعتراف کیا ہے اور قرآنی آیات سے شواہد پیش کیے ہیں ۔
ابن عربی کی اتباع متعدد علماء نے ایمانِ
فرعون کا نظریہ اختیار کیا جن میں سرفہرست
محقق دوانی ہیں جنہوں نے اس نظریہ کو قبول کرتے ایمانِ فرعون کے عنوان سے ایک رسالہ تحرير کیا۔ جمہور علماءِ اسلام کا نظریہ اس کے برعکس رہا ہے کہ
فرعون اضطراری حالت میں مجبوری کے تحت ایمان لایا اور اس حالت میں
اللہ تعالی ایمان کو قبول نہیں کرتا اس لیے
فرعون کافر مرا اور اس کا شمار اہل جہنم میں ہوتا ہے۔
ابن عربی کی پہلی رائے علماءِ اسلام کے عین موافق تھی اور انہوں نے
فرعون کو مشرک، مجرم اور اہل جہنم میں سے قرار دیا جیساکہ فتوحات مکیہ میں ابن عربی نے تحریر کیا ہے:
هؤلاء المجرمون أربع طوائف كلها في النار لاٰ يُخْرَجُونَ مِنْهٰا و هم المتكبرون على اللّٰه كفرعون و أمثاله ممن ادعى الربوبية لنفسه و نفاها عن اللّٰه فقال يٰا أَيُّهَا الْمَلَأُ مٰا عَلِمْتُ لَكُمْ مِنْ إِلٰهٍ غَيْرِي و قال أَنَا رَبُّكُمُ الْأَعْلىٰ يريد أنه ما في السماء إله غيري و كذلك نمرود و غيره؛ یہ مجرمین چار قسم کے گروہ ہیں جو سب کے سب دوزخ میں ہوں گے جس سے وہ نکل نہیں سکیں گے، اور ان میں سے پہلا گروہ اللہ پر
تکبر کرنے والوں کا ہے، جیسے
فرعون اور اس کی مانند دیگر متکبرین جنہوں نے اپنی ذات کے لیے ربوبیت کا دعوی کیا اور اللہ سے ربوبیت کا انکار کیا، پس
فرعون نے کہا: اے ملأ مجھے تو اپنے علاوہ کسی الہ کی خبر نہیں، اور
فرعون نے کہا تھا: میں تمہارا سب سے برتر و اعلی ربّ ہوں، وہ یہ سمجھتا تھا کہ آسمان میں میرے علاوہ کوئی الہ نہیں ہے اور اسی طرح نمرود اور اس دیگر سمجھتے تھے۔
لیکن فتوحات مکیہ اور دیگر کتب میں
ابن عربی نے اس کے برخلاف
فرعون کے مومن ہونے کو قبول کیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن عربی کی آخری رائے یہی تھی کہ فرعون مومن مرا۔ ابن عربی قرآن آیات سے استفادہ کرتے ہوئے اس طرح سے استدلال قائم کیا ہے کہ
اللہ تعالی نے اپنے اس قول کے ذریعے
فرعون کے ایمان کی تصدیق کی ہے:
آلْآنَ وَ قَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ وَ كُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدين؛ اب تم ایمان لاتے ہو جبکہ اس سے پہلے تم معصیت کار تھے اور فساد برپا کرنے والوں میں سے تھے۔
اگر
فرعون کا دعویِ ایمان خالص نہ ہوتا تو
اللہ تعالی اس طرح سے اس کے لیے بھی فرما دیتا:
قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَ لكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنا وَ لَمَّا يَدْخُلِ الْإيمانُ في قُلُوبِكُمْ؛ عرب بدوں نے کہا ہم ایمان لے آئے، آپ کہہ دیجیے تم ایمان نہیں لائے بلکہ کہو ہم اسلام لے آئے، ایمان تو ابھی تک تمہارے قلوب میں داخل بھی نہیں ہوا۔
ہم دیکھتے ہیں کہ یہاں اللہ تعالی نے الآن کہہ کر تصدیق کی کہ تم ایمان لے آئے ہو ۔ نیز جب
کافر اسلام قبول کرتا ہے تو اس پر غسل واجب ہوتا ہے اس لیے اللہ تعالی نے
فرعون کو دعویِ ایمان و اسلام کے بعد پانی میں غسل دے کر باہر نکال دیا۔
اسی طرح ایک دلیل
قرآن کریم کی اس آیت سے قائم کی ہے:
وَ قالَتِ امْرَأَتُ فِرْعَوْنَ قُرَّتُ عَيْنٍ لي وَ لَك؛ فرعون کی زوجہ نے کہا یہ میرے اور تمہاری لیے آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔
پس جناب موسیؑ فرعون کے لیے اس ایمان کی وجہ سے آنکھوں کی ٹھنڈک قرار پائے جو ایمان اللہ نے فرعون کو ڈوبتے ہوئے عنایت کیا تھا۔
محقق دوانی نے ابن عربی کی اتباع میں اسی نظریہ کو اختیار کیا ہے کہ
اللہ تعالی نے فرعون کا دعویِ ایمان قبول کر لیا تھا۔ چنانچہ وہ اپنے رسالہ میں اس آیت کریمہ:
قَالَ آمَنتُ أَنَّهُ لا إِلِـهَ إِلاَّ الَّذِی آمَنَتْ بِهِ بَنُو إِسْرَائِیلَ وَأَنَاْ مِنَ الْمُسْلِمِینَ،
کے ذیل میں لکھتے ہیں:
صدقّت وتيقّنت أنه لا معبود بالحق في الوجود إلا الله الذي آمنت به بنو إسرائيل؛ والذي آمنت بن بنو إسرائيل: هو المعبود بالحق الذي جاء به موسى وهارون عليهما السلام، ... فمن له طبع سليم، وعقل مستقيم، يعلم أن هذا القول؛ إنما قاله عند استقامة العقل؛ لا أنه حالة الغرق عند غمر الماء أو غشيانه؛ میں تصدیق کرتا ہوں اور یقین سے کہتا ہوں کہ اس وجود میں کوئی معبودِ حقیقی نہیں ہے سوائے اس اللہ کے جس پر بنو اسرائیل ایمان لائے اور وہ جس پر بنو اسرائیل ایمان لائے ہیں وہ وہی معبودِ بالحق ہے جس پر موسی اور
ہارون علیہما السلام ایمان لائے تھے۔۔۔
فرعون کے اس قول کو کوئی شخص پڑھے تو جو بھی طبعِ سالم رکھتا ہے اور عقلِِ مستقیم کا مالک ہے وہ اس قول سے جان لے گا کہ ان نے یہ باتیں سالم عقل کے ساتھ کی ہیں نہ پانی میں غرق ہوتے ہوئے جب اس کو ڈوپکیاں لگیں یا اس کے ہوش و حواس اڑ گئے تو اس نے یہ دعوی کیا !!
ملا صدرا نے بھی
ابن عربی کا اس موضوع پر تمام کلام ذکر کرنے کے بعد ان الفاظ میں تبصرہ نقل کیا ہے: ويفوح من هذا الكلام رائحة الصدق، و قد صدر من مشكوة التحقيق و موضع القرب و الولاية؛ ابن عربی کے اس کلام سے سچائی کی بو سنگھائی دیتی ہے، اور ابن عربی سے یہ سب مشکاۃِ تحقیق اور قرب و ولایت کے مقام سے صادر ہوا ہے۔
اگرچے ملاصدرا کے کلام سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ
فرعون مومن مرا بلکہ اس کے برعکس
فرعون کے گمراہ مرنے پر مختلف شواہد ملا صدرا کے کلام میں موجود ہیں۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگرچے ملا صدرا خود فرعون کے مومن ہونے کے قائل نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود انہوں نے ابن عربی کے نظریے کو تحقیق کا نتیجہ قرار دیا ہے۔
[ترمیم]
آیاتِ قرآنی، روایاتِ اہل بیت علیہم السلام اور علماء و مفسرین کی آراء سے ظاہر ہوتا ہے کہ
فرعون گمراہ اور کافر مرا اور اس کا دعویِ ایمان اللہ تعالی نے قبول نہیں فرمایا۔ ذیل میں
فرعون کے گمراہ مرنے اور مومن نہ ہونے کے دلائل پیش کیے جاتے ہیں:
عیون اخبار الرضاؑ میں امام رضاؑ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے اس لیے
فرعون کا دعویِ ایمان قبول نہیں کیا کیونکہ اس نے عذاب اور مصیبت کو دیکھنے کے بعد ایمان کا اظہار کیا تھا اور
عذاب و مصیبت کے نزول کے بعد ایمان کا دعوی قابل قبول نہیں۔ یہ اللہ تعالی کا اگلوں اور پچھلوں سب کے لیے ضابطہ و
قانون ہے جیساکہ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
فَلَمَّا رَأَوْا بَأْسَنا قالُوا آمَنَّا بِاللَّهِ وَحْدَهُ وَ كَفَرْنا بِما كُنَّا بِهِ مُشْرِكِينَ فَلَمْ يَكُ يَنْفَعُهُمْ إِيمانُهُمْ لَمَّا رَأَوْا بَأْسَنا؛ پس جب انہوں نے ہماری مصیبت کو دیکھا تو کہنے لگے ہم
اللہ وحدہ پر ایمان لاتے ہیں اور اس کا انکار کرتے ہیں جس کا ہم
شرک کیا کرتے تھے، لیکن ان کا ایمان انہیں کوئی نفع و فائدہ نہیں دے گا جب انہوں نے عذاب و بلاء کو دیکھ لیا۔
اسی طرح فرعون کا بھی انجام ہوا کہ جب اس نے عذاب کی ہولناکی کو دیکھا تو فورا ایمان کا دعوی کرنے لگا۔
قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:
يَوْمَ يَأْتي بَعْضُ آياتِ رَبِّكَ لا يَنْفَعُ نَفْساً إيمانُها لَمْ تَكُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ أَوْ كَسَبَتْ في إيمانِها خَيْراً؛ جس دن اس کی بعض نشانیاں (سامنے) آ جائیں گی تو جس نفس نے پہلے
ایمان نہیں لایا تو (ایسی صورت میں) کسی
نفس کو اس کا ایمان فائدہ نہیں بہنچائے گا، یا اپنے ایمان کے اس نے کسی خیر و بھلائی کو انجام نہیں دیا۔
امام رضاؑ نے اس آیت کریمہ سے استدلال کرتے ہوئے
فرعون کے لفظی دعوے کو باطل قرار دیا اور ثابت کیا ہے کہ اللہ تعالی نے اس کے دعوی کو قبول نہیں کیا۔
قرآن کریم نے واضح طور پر یہ ضابطہ بیان کیا ہے کہ جب انسان پر حالتِ
احتضار طاری ہو جائے اور وہ امرِ آخرت کا مشاہدہ کر لے تو پھر اس کی توبہ قبول نہیں، جیساکہ ارشادِ باری تعالی ہوتا ہے:
وَ لَيْسَتِ التَّوْبَةُ لِلَّذينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئاتِ حَتَّى إِذا حَضَرَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قالَ إِنِّي تُبْتُ الْآنَ وَ لاَ الَّذينَ يَمُوتُونَ وَ هُمْ كُفَّارٌ أُولئِكَ أَعْتَدْنا لَهُمْ عَذاباً أَليما؛ اور ان لوگوں کے لیے
توبہ نہیں ہے جو برائیاں انجام دیتے رہے ہیں یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی ایک کے سامنے موت آ جاتی ہے تو کہہ اٹھتا ہے: اب میں توبہ کرتا ہوں، اور (اسی طرح) نہ ہی ان لوگوں کے لیے توبہ ہے جو حالتِ کفر میں مر گئے ان کے لیے ہم نے دردناک
عذاب رکھا ہے۔
اس آیت کے ذیل میں امام جعفر صادقؑ سے منقول ہے کہ آپؑ فرماتے ہیں:
ذَاكَ إِذَا عَايَنَ أَمْرَ الْآخِرَةِ؛ یہ اس وقت ہے جب وہ شخص آخرت کے امر کا معاینہ و مشاہدہ کر لے۔
فرعون کا
جرم صرف الوہیت و ربوبیت کا دعوی کرنا نہیں تھا بلکہ اس نے جناب موسیؑ کی
نبوت و رسالت کو قبول نہیں کیا اور ان کی بیان کردہ تعلیمات کا تمسخر اڑایا۔ سورہ یونس آیت ۹۰ میں صرف اتنا بیان ہے کہ اس نے بنی اسرائیل کے معبود پر ایمان کا اظہار کیا اور سر تسلیم خم کرنے کا دعوی کیا لیکن اس کی دشمنی جناب موسیؑ سے باقی رہی اور اس کو جناب موسیؑ سے اس قدر دشمنی تھی کہ اس نے بنی اسرائیل کہنا قبول کیا لیکن موسی کلیم اللہؑ کا نام لانا قبول نہیں۔ پس کہا جا سکتا ہے کہ نبوت کے
عقیدہ کا انکار کرنے کی وجہ سے وہ
کافر شمار ہو گا۔
سورہ یونس آیت ۹۱ میں ہے:
آلْآنَ وَ قَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ وَ كُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدين؛ اب تم ایمان لاتے ہو جبکہ اس سے پہلے تم معصیت کار تھے اور تم مفسدین میں سے تھے۔
مفسرین کے درمیان اس بارے میں اختلاف ہے کہ آیا یہ کلمات اللہ سبحانہ کے ہیں یا
اللہ تعالی نے جناب جبرئیلؑ کے الفاظ یہاں نقل کیے ہیں؟
اہل سنت کی
صحیح السند روایات میں وارد ہوا ہے کہ جناب جبرئیلؑ کو
فرعون سے اس کے دعوی الوہیت و ربوبیت اور ظلم و ستم کی وجہ سے شدید نفرت تھی، جب
فرعون نے ایمان کا دعوی شروع کیا تو جناب جبرئیلؑ کو خدشہ لاحق ہوا کہ کہیں یہ اللہ تعالی کی رحمت سے امید قائم نہ کر لے چنانچہ قبل اس کے کہ فرعون مزید گڑگڑاتا اور اللہ تعالی کی رحمت اس کو شاملِ حال ہوتی اس سے پہلے ہی جناب جبرئیلؑ نے سمندر کی سیاہ بدبو دار کیچڑ والی مٹی اس کے منہ میں ڈال دی تاکہ یہ مر جائے اور زیادہ التجاء نہ کر سکے۔
ترمذی نے اس روایت کو دو طرق سے بیان کیا ہے جن کو ترمذی کے علاوہ البانی نے بھی
صحیح لغیرہ اور
صحیح الإسناد قرار دیا ہے۔
اسی طرح مکتبِ اہل بیتؑ میں بھی اس مضمون کی روایات وارد ہوئی ہیں، جیسے تفسیر القمی میں مذکور ہے کہ جناب جبرئیلؑ ہمیشہ غمگین و حزین رہتے تھے، جب سورہ یونس آیت ۹۱ لے کر جناب جبرئیلؑ تشریف لائے تو ہنستے مسکراتے خوشی سے سرشار تھے،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ نے وجہ دریافت کی تو انہوں نے بتایا کہ جب فرعون نے دعوی ایمان کیا تھا تو میں نے یہ کہتے ہوئے اس کے منہ میں سمندر کی سیاہ بدبو دار مٹی ڈال دی تھی کہ اب تم ایمان لاتے ہو جبکہ پہلے تم معصیت کار رہے ہو اور فساد کرنے والوں میں سے تھے۔ کیونکہ جناب جبرئیلؑ کو یہ خدشہ تھا کہ کہیں اللہ تعالی کی رحمت فرعون کو شاملِ حال نہ ہو جائے۔ البتہ انہوں نے یہ اقدام اللہ تعالی کے اذن کے بغیر کیا تھا اس لیے وہ غمگین حزین رہتے تھے کہ شاید اللہ تعالی اس پر ان کا مؤاخذہ کرے گا لیکن اس آیت کے نازل ہونے سے معلوم ہو گیا کہ اللہ تعالی اس پر راضی تھا۔
امام رضاؑ سے منقول روایت میں بھی وارد ہوا ہے کہ فرعون نے جناب موسیؑ کو ڈوبتے ہوئے پکارا کہ مجھے نجات دو لیکن جناب موسیؑ نے اس پر رحم نہیں کیا اور دشمنی برتتے ہوئے اس کی آواز پر کان نہیں دھرے، اس پر اللہ عز و جل نے
وحی نازل کی: اے موسیؑ! تم نے فرعون کی مدد نہیں کی کیونکہ تم نے اس کو خلق نہیں کیا، اگر اس نے مجھ سے مدد مانگی ہوتی تو میں اس کی ضرور مدد کرتا۔
اس روایت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگر فرعون رحمتِ الہی سے تعلق قائم کر لیتا اور اللہ سبحانہ کو پکارتا تو ممکن تھا کہ اللہ تعالی کی
رحمت اس کو شامل حال ہو جاتی لیکن اس کی مہلت فرعون کو میسر نہ آئی اور وہ اسی گمراہی کی حالت میں عذابِ الہی کا شکار ہو گیا۔
سورہ یونس میں
اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
رَبَّنَا اطْمِسْ عَلى أَمْوالِهِمْ وَ اشْدُدْ عَلى قُلُوبِهِمْ فَلا يُؤْمِنُوا حَتَّى يَرَوُا الْعَذابَ الْأَليم؛ اے ہمارے رب! ان کے اموال کو ختم کر دے اور ان کے دلوں پر مزید سختی و شدت نازل فرما، پس یہ اس وقت تک ایمان نہیں لائیں گے جب تک دردناک عذاب کو دیکھ نہ لیں۔
علامہ طباطبائی بیان کرتے ہیں کہ جناب موسیؑ نے یہ دعا اس وقت کی جب وہ فرعون کے ایمان لانے سے مایوس ہو گئے اور انہیں یقین ہو گیا کہ فرعون اور اس کے پیرو اسی ضلالت و گمراہی میں قائم دائم رہیں گے اور اس وقت ایمان لانے کی باتیں کریں گے جب دردناک
عذاب کا مزہ چکھیں گے۔ پھر ہوا بھی ایسا ہی اور
فرعون جب عذاب میں گھیرا گیا اور بچنے کی کوئی راہ باقی نہ رہی تو مجبوری اور اضطراری حالت میں ایمان کے دعوے کرنے لگا۔
یہاں ہمارے پاس سورہ یونس کی اگلی آیت کی صورت میں ایک مضبوط قرینہ موجود ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ
فرعون کی ہلاکت گمراہی می حالت میں ہوئی۔ وہ مضبوط قرینہ یہ ہے کہ آیا جناب موسیؑ کی دعا قبول ہوئی یا نہیں؟ سورہ یونس اس کا جواب دیتے ہوئے بیان کرتی ہے کہ اللہ تعالی نے ان کی
دعا کو قبول فرما لیا، جیساکہ ارشادِ باری تعالی ہوتا ہے:
قالَ قَدْ أُجِيبَتْ دَعْوَتُكُما فَاسْتَقِيما وَ لا تَتَّبِعانِّ سَبِيلَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُون؛ اس نے کہا: تم دونوں (موسیؑ و ہارونؑ) کی
دعا مستجاب کر لی گئی ہے، پس تم دونوں استقامت کے ساتھ ڈٹے رہو اور ان لوگوں کی اتباع مت کرنا جو علم نہیں رکھتے۔
یہ آیت واضح طور پر بتاتی ہے کہ اللہ تعالی نے جناب موسیؑ اور جناب ہارونؑ کی دعا قبول کر لی اور اس
دعا کی قبولیت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی ان کے دلوں پر تالے لگا دے اور ان کے لیے کوئی ایسی راہ نہ قرار دے جس سے وہ رحمتِ الہی میں آ سکیں اور عذاب سے بچ جائیں۔ پس یہ سیاقِ آیات واضح دلالت کرتی ہیں کہ فرعون گمراہ مرا اور اس کا دعویِ ایمان مجبوری اور اضطراری حالت میں تھا جس کو اللہ تعالی نے قبول نہیں کیا۔
قرآن کریم کی متعدد آیات میں آل
فرعون پر سخت ترین عذاب کا تذکرہ وارد ہوا ہے اور اس دنیا سے اٹھ جانے کے بعد بھی وہ عذاب میں مبتلا رہیں گے جیساکہ ارشادِ باری تعالی ہوتا ہے:
وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذاب؛ اور وہ دن جب قیامت قائم ہو گی تو فرشتوں کو حکم دیا جائے گا کہ آلِ فرعون کو شدید ترین عذاب میں داخل کر دو۔
آل فرعون کے اس حکم میں
فرعون بدرجہ اولی شریک ہے کیونکہ آل فرعون وہ ہیں جنہوں نے
فرعون کی اتباع کی۔ یقینا اتباع کرنے والوں کو جو سزا دی جائے گی وہ بدرجہ اولی ان کے رئیس کو بھی شامل ہو گی۔
قرآن کریم میں ارشادِ باری تعالی ہوتا ہے:
اذْهَبا إِلى فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغى فَقُولا لَهُ قَوْلًا لَيِّناً لَعَلَّهُ يَتَذَكَّرُ أَوْ يَخْشى؛ تم دونوں فرعون کے پاس جاؤ، بے شک وہ طاغوت بن چکا ہے، پس تم دونوں اس سے نرم کلام کرنا، شاید وہ تذکر کر لے یا خوفزدہ ہو جائے۔
اس آیت کریمہ کے ذیل میں امام صادقؑ سے منقول ہے: اللہ عز و جل کو علم تھا کہ فرعون نہ یاد دہانی کرے گا اور نہ ہی وہ ڈرے گا، سوائے اس وقت جب وہ مصیبت و عذاب کو دیکھ نہ لے، ۔۔۔ پس اللہ نے ان کے ایمان کو قبول نہیں کیا۔
آیت کریمہ کے ذیل میں اس روایت سے واضح معلوم ہو گیا کہ فرعون کے ایمان کو اللہ تعالی نے قبول نہیں کیا تھا۔
[ترمیم]
تمام مفسرین اور دیگر علماءِ اسلام کا
اجماع ہے کہ فرعون گمراہ حالت میں مرا اور اس کے دعویِ ایمان کو
اللہ تعالی نے قبول نہیں کیا۔ نیز
اہل کتاب بھی فرعون کی گمراہی کے قائل ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ گذشتہ آسمانی کتب بھی اس کی گمراہی پر دلالت کرتی ہیں۔
فرعون نے چونکہ حالتِ مجبوری میں ایمان قبول کیا اور عذاب کے نزول کے بعد یہ دعوی قابل قبول نہیں ہے۔
ڈوبتے ہوئے ایمان و اسلام کے دعوے واضح طور پر حالت اضطرار کو بیان کرتے ہیں کیونکہ اس وقت وہ
مایوس ہو گیا تھا کہ اب وہ اس مصیبت و مشکل سے بچ نہیں سکتا۔
علامہ طباطبائی سورہ یونس آیت ۹۱ کی تفسیر کے ذیل میں تحریر کرتے ہیں کہ اس آیت سے مراد یہ ہے کہ اب تم ایمان لاتے جبکہ تمہیں عذاب نے گھیر لیا ہے اور عذاب میں گِھر جانے اور ہر طرف سے موت کے آ جانے کے بعد نہ ایمان قبول ہے اور نہ توبہ۔ تو نے اپنی زندگی کے سال اللہ کی معصیت میں گزار دیے اور اپنے وقت پر توبہ نہیں کی۔ اب جبکہ توبہ کا وقت گزر چکا ہے تو اس وقت ایمان لانے کا کیا فائدہ۔ یہی وہ سخت ترین عذاب تھا جس کا سوال جناب موسیؑ اور جناب ہارونؑ نے اپنے ربّ سے کیا اور ایمان تک رسائی حاصل کرنے کے تمام موقع بند کرنے کی دعا کی۔ لہذا جناب موسی و ہارون علیہما السلام کی دعا پوری ہوئی اور فرعون کو جب
عذاب نے گھیر لیا تو اس کو نہ کسی ایمان نے فائدہ پہنچایا اور نہ ہی توبہ اس کو کسی طور پر عذاب سے چھٹکارا دے سکی۔
[ترمیم]
[ترمیم]
مرکز فرہنگ و معارف قرآن، فرہنگ قرآن، ج۴، ص۱۵۴، برگرفتہ از مقالہ اقرار فرعون۔ ویکی فقہ اردو کی جانب سے اکثر و بیشتر مطالب اضافہ کیے گئے ہیں۔