عصر غیبت

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



عصر غیبت
عصر غیبت سے مراد وہ زمانہ ہے جس میں امام معصوم (علیہ السلام) لوگوں کی نظروں سے غائب ہوں۔


عصر غیبت کا اطلاق

[ترمیم]

عصر غیبت کا اطلاق امام مہدی(علیہ السلام) کے زمانہ غیبت پر ہوتا ہے۔ امام(علیہ السلام) کی غیبت ان کی ولادت کے ساتھ ہی ۲۵۵ ہجری کو شروع ہوئی اور آج تک جاری ہے۔

عصر غیبت کی اقسام

[ترمیم]

عصر غیبت کو غیبت صغری و غیبت کبری میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ غیبت صغری ۷۴ سال (۲۵۵ - ۳۲۹ ه۔ق) پر مشتمل ہے۔ اس دور میں امام (علیہ السلام کے بالترتیب چار نائب موجود تھے جو امام اور عوام کے مابین واسطہ تھے۔ ان چار نائبین کے نام مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔ عثمان بن سعید
۲۔ محمد بن عثمان
۳۔ حسین بن روح
۴۔ علی بن محمد سمری
چوتھے نائب کی رحلت کے بعد سال ۳۲۹ (ہجری قمری) غیبت کبری کا آغاز ہوتا ہے۔ علی بن محمد سمری کے نام آخری خط میں امام نے اس طرح سے حکم صادر فرمایا: آپ ایک ہفتہ میں دنیا سے رخصت ہو جائیں گے، اپنے بعد (امر نیابت) کسی کے متعلق وصیت مت کرنا کہ زمانہ غیبت تامہ کا وقت ہوا چاہتا ہے۔

عصر غیبت میں دینی امور کا مرجع

[ترمیم]

عصر غیبت میں شیعہ اپنے دینی امور کے لیے فقط واجد الشرائط فقہاء کی طرف رجوع کر سکتے ہیں جو علوم اہل بیت(علیہم السلام) میں مہارت رکھتے ہیں۔ امام عصر(علیہ السلام) نے اپنی توقیع مبارک میں فرمایا: پیش آنے والے حادثات میں ہماری احادیث کے راویان کی طرف رجوع کریں کہ وہ میری طرف سے تم پر حجت ہیں اور میں حجت خدا ہوں۔
زمانہ غیبت میں مسلمانوں کے لیے اپنے اجتماعی امور کی مدیریت کے حوالے سے کیا ذمہ داری بنتی ہے اس بارے میں امام خمینیؒ اپنی کتاب ولایت فقیہ میں لکھتے ہیں: اب جبکہ اللہ تعالی کی طرف سے معین شخص امر حکومت کے لیے موجود نہیں تو ایسے میں تکلیف کیا ہے؟ کیا اسلام کو ترک کر دیں؟ اسلام کی اب ضرورت نہیں رہی؟ کیا اسلام کی ضرورت صرف دو سو سال کے لیے تھی؟ یا اسلام نے تکلیف تو معین کر دی ہے لیکن حکومتی تکلیف ہم پر نا ہو؟ کیونکہ حکومت نا ہونے کا مطلب یہ ہوگا کہ اسلام کی تمام حدود و مقررات معطل ہو جائیں اور ہم بے حال ہو کر ہاتھوں پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں اور جو کچھ ہمارے ساتھ ہوتا ہے، ہوتا رہے۔
یہ سب کیا ہمیں قبول ہے؟ یا دوسری صورت میں ہم کہیں کہ حکومت ضروری ہے اگرچہ اس زمانے میں ہمارے لیے معین شخص تو موجود نہیں لیکن وہ حکومتی خاصیت جو صدر اسلام سے تا زمان امام مہدی (علیہ السلام) موجود تھی وہی خاصیت زمانہ غیبت کے لیے بھی قرار دی جاۓ۔ یعنی قانون الہی کا علم، اور عدالت کی خاصیت جو ہمارے معاصر فقہاء میں بھی موجود ہے۔ اگر ہم آپس میں متحد ہو جائیں تو ایک عمومی عدل کی حکومت تشکیل دے سکتے ہیں۔
زمانہ غیبت امام مہدی (عجل اللہ فرجہ الشریف) میں جس طرح جامع الشرائط فقیہ ایتام، سفہاء، مجانین، فاقد ولی قہری پر ولایت رکھتا ہے اسی طرح تمام صورتوں میں اسلامی معاشرے پر بھی ولایت رکھتا ہے۔ وہی ولایت جو حضرت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور آئمہ معصومین ( علیہم السلام) کو حاصل ہے وہی ولایت جامع الشرائط فقیہ کو بھی حاصل ہے۔
ممکن ہے ان باتوں سے کچھ لوگوں کے ذہن میں شبہات پیدا ہوں کہ امام خمینی نے جامع الشرائط کی ولایت کو بیان کرنے میں غلو سے کام لیا۔ یا بہت زیادہ افراط سے کام لیا ہے تو ان باطل خیالات سے محفوظ رکھنے کے لیے امام خمینی ایک جگہ ارشاد فرماتے ہیں: جب ہم کہتے ہیں کہ جو ولایت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور آئمہ معصومین (علیہم السلام) کو حاصل ہے وہی ولایت جامع الشرائط فقیہ کو بھی حاصل ہے تو اس سے کسی کو یہ توہم نا ہو جاۓ کہ جو مقام رسول اکرم اور آئمہ معصومین علیہم السلام کا ہے وہی مقام فقیہ کو بھی حاصل ہے۔ کیونکہ یہاں بات مقام و منزلت کی نہیں ہو رہی بلکہ وظیفہ کی انجام دہی کے متعلق بات ہو رہی ہے۔ ہماری یہاں پر ولایت سے مراد حکومت، معاشرے کی مدیریت کرنا اور شریعت مقدس کے احکام کا اجراء کرنا ہے۔ یہ بہت سنگین و اہم وظائف ہیں۔ پس ہم یہ نہیں کہتے کہ فقیہ کا بھی وہی غیر عادی مقام و منزلت ہے جو عام انسانوں کو حاصل نہیں اور صرف رسول اکرم اور آئمہ معصومین علیہم السلام کو حاصل ہے۔ ہمارے مورد بحث ولایت سے مراد حکومت و مدیریت و اجراء ہے۔ جبکہ اس کے برخلاف بہت سے افراد یہ گمان کرتے ہیں کہ شاید فقیہ کی ولایت سے مراد بھی وہی شان و منزلت ہے جبکہ ہماری مراد وظیفہ ہے۔
ولایت فقیہ عقلائی و اعتباری امور میں سے ایک امر ہے اور جس کی واقعیت سواۓ جعل کے کچھ نہیں۔ جیسے قیم کو صغار کے لیے جعل کیا جاتا ہے اسی طرح سے ولی فقیہ بھی ہے۔ فرق نہیں پڑتا کوئی قیم ملت ہو اور کوئی قیم صغار۔ فریضہ اور وظیفہ کی انجام دہی کے اعتبار سے دونوں ایک جیسے ہیں۔ مثال کے طور پر امام (علیہ السلام) کسی کو حضانت یا حکومت کے امر میں منصب عطا فرماۓ۔ اس مورد میں کسی کا رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی جانب سے متعین ہونا یا کسی امام کی جانب سے متعین ہونے میں عقلی طور پر کوئی فرق نہیں۔»
امام خمینی فرماتے ہیں کہ اگرچہ فقیہ کو تمام صورتوں میں اسلامی معاشرے پر ولایت حاصل ہے لیکن امور کی ولایت اور تشکیل حکومت ایک ایسا امر ہے جو مسلمین کی اکثریتی راۓ سے مربوط ہے۔ صدر اسلام میں اسے ولی مسلمین کی بیعت سے تعبیر کیا جاتا تھا۔ روح اللَّه الموسوی الخمینی۔‌
اس بنا پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ فقیہ کی ولایت فی نفسہ لوگوں کی اکثریتی راۓ پر منوط نہیں ہے۔ یعنی اگر لوگوں کی اکثریت حتی فقیہ کے خلاف ہو تب بھی شرعی طور پر ولایت اسی کے لیے ہی ثابت ہے۔ لیکن اس کے باوجود مسلمانوں کے امور کی ولایت اور تشکیل حکومت جیسے اوامر مسلمانوں کی اکثریتی راۓ سے مربوط ہیں۔البتہ اس میں یہ شرط نہیں ہے کہ حتما اعلم فقیہ کی طرف رجوع کیا جاۓ۔ لیکن تقلید کے مورد میں احوط یہ ہے کہ اگر ممکن ہو تو صرف اعلم کی تقلید کی جاۓ۔ اسی طرح قضاوت کے باب میں بھی اعلمیت شرط ہے۔
[۹] [https://lib.eshia.ir/۱۱۱۷۶/۲/۴۳۵/والاعلمیة موسوعة الامام الخمینی، ج۲۳، تحریرالوسیلة،

عصر غیبت بالمقابل عصر حضور

[ترمیم]

عصر غیبت کے مقابلے میں وہ عصر ہے جس میں امام معصوم(علیہ السلام) لوگوں کے مابین موجود ہوں اس عصر کو عصر حضور کہا جاتا ہے۔

عصر غیبت سے مربوط احکام

[ترمیم]

فقہ کے مختلف ابواب میں عصر غیبت سے مربوط احکام سے بحث کی جاتی ہے۔ ان ابواب فقہی میں صلات، زکات، خمس، انفال، جہاد، تجارت، احیاء موات، ارث، قضاء و حدود کے ابواب شامل ہیں۔

← عصر غیبت میں دین کے اجتماعی احکام


امام معصوم(علیہ السلام) کی لوگوں کے درمیان عدم موجودگی دین کے اجتماعی احکام میں تحولات و تغییرات کا باعث بنی۔ اس بنا پر امام کے بعض وظائف واجد الشرائط فقہاء کے سپرد ہو گئے جن کی طرف اس تحریر میں مختصر اشارہ کیا جا رہا ہے۔

← صلات کا باب


عصر حضور امام زمان(علیہ السلام) میں نماز جمعہ واجب عینی ہے۔ لیکن عصر غیبت میں اکثر فقہاء نماز جمعہ کو واجب قرار نہیں دیتے۔ بلکہ بعض فقہاء کا یہ دعوی ہے کہ عصر غیبت میں نماز جمعہ کے واجب نا ہونے پر شیعہ فقہاء کا اجماع ہے۔ قلیل شیعہ فقہاء نے عصر غیبت میں نماز جمعہ کی عدم مشروعیت کا بھی فتوی دے رکھا ہے۔نجفی جواهری، محمدحسن، جواهر الکلام، ج۱۱، ص۱۵۱۔    
[[ نماز عید فطر اور نماز عید قربان بھی عصر حضور میں واجب ہے۔ لیکن عصر غیبت میں مشہور قول کی بنا پر مستحب ہے۔

← زکات کا باب


عصر حضور میں اگر امام(علیہ السلام) زکات کا مطالبہ کریں تو اس کی ادائیگی واجب ہے۔ لیکن عصر غیبت میں جامع الشرائط فقیہ کے مطالبہ پر زکات کی ادائیگی مشہور قول کی بنا پر مستحب ہے۔

← خمس کا باب


عصر حضور میں امام کے اذن کے بغیر خمس میں تصرف کرنا جائز نہیں ہے اور واجب ہے کہ سب اپںا خمس امام کی خدمت میں پیش کریں۔ لیکن عضر غیبت میں خمس کے متعلق شدید اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ کہ سارا خمس شیعوں پر مباح ہے یا آدھا خمس (سہم امام) شیعوں پر مباح ہے۔ جبکہ اس کے برعکس دیگر فقہاء اس بات کے قائل ہیں کہ خمس کے دونوں حصے ادا کرنا واجب ہے۔

← انفال کا باب


انفال امام(علیہ السلام) کی ملکیت ہے اور اس میں تصرف جائز نہیں۔ لیکن زمانہ غیبت میں مشہور قول کی بنا پر شیعوں کے لئے انفال کا استعمال حلال ہے۔

← جہاد کا باب


جہاد ابتدائی کے وجوب کی شرط اور اس کی مشروعیت صرف امام یا ان کے نائب خاص کے ساتھ مشروط ہے۔ اس بنا پر عصر غیبت میں جہاد ابتدائی کو مشروعیت بھی حاصل نہیں ہے اور واجب بھی نہیں ہے۔ تاہم بعض فقہاء نے جواز کا فتوی دیا ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ عصر غیبت میں اگر کوئی شخص دشمنان اسلام کے خلاف لڑتے ہوۓ مارا جاۓ تو آیا اس پر شہید کے احکام جاری ہونگے یا نہیں؟ اس مسئلہ میں فقہاء کا اختلاف ہے۔

← تجارت کا باب


زمین مفتوح عنوہ (ایسی زمین جو اسلامی حکومت کے اندر ہو اور کفار سے غنیمت کے طور پر مسلمانوں کو ملی ہو) پر تمام مسلمانوں کا برابر کا حق ہوتا ہے۔ عصر حضور میں اس زمین کو استعمال کرنے کے لیے امام(علیہ السلام) سے اذن لینا ضروری ہوتا ہے لیکن عصر غیبت میں یہ مسئلہ اختلافی ہے۔

← ولایت فقیہ کا باب


بغیر کسی شک و شبہ کے امام معصوم(علیہ السلام) کی ولایت عمومی اور زندگی کے تمام امور کو شامل ہے۔ لیکن فقیہ کی ولایت آیا سیاست و حکومت کو شامل ہے اور اس کی ولایت کو وہی عمومیت حاصل ہے یا نہیں جو امام کو حاصل ہوتی ہے اس میں اختلاف ہے۔

← احیاء موات کا باب


عصر حضور میں اگر بنجر زمینوں کو کوئی آباد کرتا ہے تو امام(علیہ السلام) کے اذن سے اس کا مالک بن سکتا ہے۔ لیکن عصر غیبت میں مشہور قول کی بنا پر جو بھی جس جگہ کو آباد کرے گا اس کا مالک ہوگا۔ اسی طرح عصر حضور میں اقطاع کے جائز ہونے میں سب کا اتفاق ہے۔ لیکن عصر غیبت میں اس کے متعلق فقہاء کا اختلاف ہے۔

← ارث کا باب


اگر کسی میت کا نسبی وارث اور سببی وارث موجود نا ہو تو وہ اس کے اموال کا مالک امام ہوتا ہے۔ لیکن عصر غیبت میں اس کے اموال کا مالک کون ٹھہرے گا اس بارے میں اختلاف ہے۔ بعض فقہاء اس بات کے قائل ہیں کہ اس کے اموال کو امام کے ظہور تک چھپا لیا جاۓ گا اور جب امام ظہور فرمائیں گے تو ان کے حوالے کر دیا جاۓ گا۔ لیکن مشہور قول یہ ہے کہ اس کے اموال کو فقراء میں تقسیم کر دیا جاۓ گا۔ البتہ فقہاء کی تصریح کے مطابق عصر غیبت میں اس شخص کے اموال کا متولی جامع الشرائط فقیہ ہوگا۔

← قضاوت کا باب


قضاوت کا منصب من جانب خدا صرف امام معصوم(علیہ السلام) کو حاصل ہے۔ عصر غیبت میں یہ منصب واحد الشرائط فقہاء کو تفویض ہوا ہے۔

← حدود کا باب


امام معصوم(علیہ السلام) کے وظائف میں سے ایک وظیفہ حدود الہی کو قائم کرنا ہے۔ مشہور قول کی بنا پر عصر غیبت میں یہ وظیفہ جامع الشرائط فقیہ پر عائد ہوتا ہے۔ عصر غیبت میں باپ کے بیٹے پر حد جاری کرنے اور شوہر کے بیوی پر حد جاری کرنے میں فقہاء کا اختلاف ہے۔

← اصول فقہ کے ابواب


اصول فقہ میں عصر غیبت کے متعلق انسداد کی بحث کی جاتی ہے۔ جس میں فقہاء ذکر کرتے ہیں کہ عصر حضور میں دین کے احکام کے متعلق علم حاصل کرنے کا دروازہ سب پر کھلا ہے۔ لیکن عصر غیبت میں دین کے شرعی احکام کے متعلق علم حاصل کرنے کا دروازہ سب پر کھلا ہے یا بند ہے اس متعلق فقہاء کا اختلاف ہے۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۵۱، ص۳۶۰ – ۳۶۶۔    
۲. مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۵۱، ص۳۶۱۔    
۳. حرعاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعة، ج۲۷، ص۱۴۰۔    
۴. موسوعة الامام الخمینی، ج۲۱، ولایت فقیه حکومت اسلامی، ص۵۰۔    
۵. موسوعة الامام الخمینی، ج۲۱، ولایت فقیه حکومت اسلامی، ص۵۱۔    
۶. موسوعة الامام الخمینی، ج۴۱، استفتائات امام خمینی ج۱۰، ص۷۷۱، سؤال ۱۲۸۲۸۔    
۷. موسوعة الامام الخمینی، ج۲۴، العروة الوثقی مع تعالیق الامام الخمینی، ج۱، ص۱۶، الاجتهاد و التقلید، مسالة ۶۸۔    
۸. موسوعة الامام الخمینی، ج۲۲، تحریرالوسیلة، ج۱، ص۴، المقدمة، مسالة ۵۔    
۹. [https://lib.eshia.ir/۱۱۱۷۶/۲/۴۳۵/والاعلمیة موسوعة الامام الخمینی، ج۲۳، تحریرالوسیلة،

عصر غیبت بالمقابل عصر حضور

[ترمیم]

عصر غیبت کے مقابلے میں وہ عصر ہے جس میں امام معصوم(علیہ السلام) لوگوں کے مابین موجود ہوں اس عصر کو عصر حضور کہا جاتا ہے۔

عصر غیبت سے مربوط احکام

[ترمیم]

فقہ کے مختلف ابواب میں عصر غیبت سے مربوط احکام سے بحث کی جاتی ہے۔ ان ابواب فقہی میں صلات، زکات، خمس، انفال، جہاد، تجارت، احیاء موات، ارث، قضاء و حدود کے ابواب شامل ہیں۔

← عصر غیبت میں دین کے اجتماعی احکام


امام معصوم(علیہ السلام) کی لوگوں کے درمیان عدم موجودگی دین کے اجتماعی احکام میں تحولات و تغییرات کا باعث بنی۔ اس بنا پر امام کے بعض وظائف واجد الشرائط فقہاء کے سپرد ہو گئے جن کی طرف اس تحریر میں مختصر اشارہ کیا جا رہا ہے۔

← صلات کا باب


عصر حضور امام زمان(علیہ السلام) میں نماز جمعہ واجب عینی ہے۔ لیکن عصر غیبت میں اکثر فقہاء نماز جمعہ کو واجب قرار نہیں دیتے۔ بلکہ بعض فقہاء کا یہ دعوی ہے کہ عصر غیبت میں نماز جمعہ کے واجب نا ہونے پر شیعہ فقہاء کا اجماع ہے۔ قلیل شیعہ فقہاء نے عصر غیبت میں نماز جمعہ کی عدم مشروعیت کا بھی فتوی دے رکھا ہے۔نجفی جواهری، محمدحسن، جواهر الکلام، ج۱۱، ص۱۵۱۔    
۱۰. عاملی جبعی، علی بن احمد، مسالک الافهام، ج۱، ص۲۵۰۔    
۱۱. موسوی عاملی، محمد، مدارک الاحکام، ج۳، ص۹.    
۱۲. نجفی جواهری، محمدحسن، جواهر الکلام، ج۱۱، ص۳۳۲ – ۳۳۶۔    
۱۳. طباطبایی حیکم، محسن، مستمسک العروة، ج۹، ص۳۱۳ – ۳۱۵۔    
۱۴. نجفی جواهری، محمدحسن، جواهر الکلام، ج۱۵، ص۴۲۳ – ۴۲۴۔    
۱۵. نجفی جواهری، محمدحسن، جواہر الکلام، ج۳۸، ص۹ - ۱۵۔    
۱۶. نراقی، احمد، مستند الشیعة، ج۱۹، ص۴۳۳۔    
۱۷. نجفی جواهری، محمدحسن، جواهر الکلام، ج۳۹، ص۲۶۳۔    
۱۸. نجفی جواهری، محمدحسن، جواهر الکلام، ج۴۰، ص۳۱۔    


ماخذ

[ترمیم]

•فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت علیہم‌السلام، ج۵، ص۳۹۰۔]
• ساعدی، محمد، (مدرس حوزہ و پژوہشگر)، موسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی۔
رده:دیدگاہ ہای فقہی امام خمینی



جعبه ابزار