عطیہ عوفی
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
عطیہ بن سعد بن جنادۃ عوفی معروف تابعی ہیں جو
امام علیؑ کے دور میں پیدا ہوئے۔ بعض روایات کے مطابق وہ ان اولین افراد میں سے ہیں جو جناب جابر بن عبد اللہ انصاری کے ہمراہ
امام حسینؑ کی قبر کی زیارت کے لیے تشریف لائے۔ آپ کے علمی آثار میں سے
تفسیر عطیہ عوفی اور شیعہ و سنی ذخیرہ حدیث میں کثیر روایات ہیں جو آپ نے متعدد صحابہ کرام سے نقل کی ہیں۔
[ترمیم]
آپ کا نام عطیہ بن سعد بن جُنادۃ عوفی، جدلی، قیسی اور کنیت ابو الحسن ہے۔
آپ کی والدہ آزاد کردہ کنیز تھیں جن کا تعلق روم سے تھا۔ وارد ہوا ہے کہ امام علیؑ کے دور میں جب آپ کی ولادت ہوئی تو آپ کے والد سعد امام علیؑ کے پاس تشریف لائے اور بچے کی ولادت کی خبر دی اور نام تجویز کرنے کی درخواست کی۔ امامؑ نے بچے کو آغوش میں لیا اور فرمایا: هذا عطیة الله؛ یہ اللہ کا عطیہ ہے۔ اس وجہ سے عطیہ نام پڑ گیا۔
نام تجویز کرنے کے بعد
امام علیؑ نے عطیہ کے لیے ماہانہ وظیفہ مقرر کیا جس سے سعد عطیہ کے لیے خوراک کا اہتمام کیا کرتے۔
عطیہ بن سعد کی تاریخِ ولادت کتب میں وارد نہیں ہوئی لیکن ان واقعات سے اتنا معلوم ہو جاتا ہے کہ عطیہ امام علیؑ کے زمانے میں کوفہ میں متولد ہوئے۔ یہ زمانہ ۳۶ ھ سے ۴۰ ھ کے درمیان کا دور بنتا ہے۔
[ترمیم]
ابن سعد اور
طبری نے نقل کیا ہے کہ اموی دور میں حجاج بن یوسف کے خلاف جب شورشیں اٹھیں اور عبد الرحمن بن محمد اشعث نے حجاج کے خلاف خروج کیا تو عطیہ نے ابن اشعث کا ساتھ دیا۔ اس معرکہ میں ابن اشعث کو
حجاج کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس موقع پر عطیہ نے جان بچانے کے لیے ایران کی طرف فرار کیا۔ اس وقت
ایران کا حاکم محمد بن قاسم ثقفی تھا۔ حجاج نے
محمد بن قاسم ثقفی کو حکم دیا کہ عطیہ کو حاضر کرو اور اس کو گرفتار کر کے حکم دو کہ وہ امام علیؑ کو نعوذ باللہ گالم گلوچ اور لعن طعن کرے۔ اگر وہ علی ابن ابی طالبؑ کو لعن طعن کرتا ہے تو اس کو چھوڑ دو ورنہ اس کو چار سو کوڑے مارو اور اس کا سر اور داڑھی منڈوا دو۔ محمد بن قاسم نے عطیہ کو بلایا اور حجاج کا حکم پڑھ کر سنایا۔ عطیہ نے چار سو کوڑے اور سر و داڑھی کا منڈوانا قبول کیا لیکن امام علیؑ کو لعن طعن کرنے سے انکار کر دیا۔
[ترمیم]
جب قتیبہ خراسان کا حاکم بنا تو عطیہ
خراسان مننتقل ہو گئے اور اس وقت تک خراسان رہے یہاں تک خراسان کا حاکم تبدیل ہو گیا اور عمر بن ہبیرہ نے نیا والی قرار پایا۔ عطیہ نے اسے نامہ لکھا اور واپس کوفہ جانے کے لیے مالی مدد کا تقاضا کیا۔
[ترمیم]
عطیہ نے متعدد صحابہ کرام کے توسط سے
رسول اللہؐ سے احادیث نقل کی ہیں۔ بہت سے شیعہ منابع
اور
اہل سنت منابع
میں عطیہ سے نقل کردہ روایات نقل کی گئی ہیں۔ البتہ بعض اہل سنت علماء نے اس کو
ضعیف راوی شمار کیا ہے۔
شاید عطیہ کو ضعیف قرار دینے کی وجہ اس کا
شیعہ ہونا ہے۔
اہل سنت اور مکتب تشیع کے اکابر محدثین نے عطیہ عوفی کی نقل کردہ احادیث کو اپنی کتبِ احادیث میں نقل کیا ہے اور ترمذی کی مانند بعض محدثین نے عطیہ کی احادیث کو حسن درجے کی مقبول احادیث قرار دیا ہے۔ اہل سنت میں جن محدثین نے عطیہ کی روایات نقل کی ہیں میں سرفہرست امام
بخاری ہیں جنہوں نے اپنی کتاب الادب المفرد میں عطیہ کی احادیث نقل کی ہیں۔ اسی طرح
ابو داؤد نے اپنی سنن میں، نسائی نے
سنن نسائی میں ،
ابن ماجہ نے سنن ابن ماجہ میں،
ترمذی نے جامع ترمذی میں، ابو یعلی موصلی نے مسند میں، احمد بن حنبل میں اپنی تمام کتابوں میں، امام حاکم نے المستدرک اور
ابو جعفر طحاوی نے عطیہ کی احادیث کو متعدد ابواب میں نقل کیا ہے۔
امام ترمذی نے باقاعدہ عطیہ کی احادیث کو حسن اور مقبول قرار دیا ہے جیساکہ جامع ترمذی کی متعدد احادیث کو ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔
اسی طرح حاکم نیشاپوری نے آپ کی روایات نقل کر کے اس پر صحیح کا حکم لگایا ہے۔
عطیہ عوفی نے جن متعدد صحابہ کرام سے احادیث کو نقل کیا ہے ان میں جناب
ابو سعید خدری،
ابو ہریرہ، عبد اللہ ابن عباس،
عبد اللہ ابن عمر،
زید بن ارقم سرفہرست ہیں۔
شیعہ و سنی منابع احادیث کے مطابق عطیہ نے جناب جابر بن عبد اللہ انصاری سے بھی روایات نقل کی ہیں جیساکہ احمد بن حنبل نے فضائل الصحابۃ میں بعض روایات کو درج کیا ہے۔
تابعین اور اکابر محدثین کی ایک بڑی تعداد نے عطیہ عوفی سے احادیث کو نقل کیا ہے۔ ان میں عطیہ کے دو بیٹے حسن، عمر،
ابان بن تغلب، عمرو الاعمش، حجاج بن أرطاة،
فضیل بن مرزوق، مسعر، اسماعیل بن ابی خالد وغیرہ شامل ہیں۔
عطیہ عوفی کی
توثیق اور تضعیف میں اختلاف وارد ہوا ہے۔ اہل سنت علماء و محدثین کی ابک بڑی تعداد میں صریح الفاظ میں عطیہ کی توثیق بیان کی ہے جبکہ بعض اکابر اہل سنت نے آپ کو ضعیف قرار دیا ہے۔ البتہ بعض بزرگان کی طرف سے
جرح عطیہ عوفی کی وثاقت کو ضرر نہیں پہنچاتی کیونکہ عطیہ کے حق میں وارد ہونے والی جرح
جرح مبہم ہے نہ کہ جرح مفسر۔ ذیل میں توثیق اور تضعیف کرنے والے بعض علماء کا تذکرہ کیا جاتا ہے:
اہل سنت کے طرازِ اول کے علماءِ رجال و محدثین نے عطیہ عوفی کو ثقہ اور صالح قرار دیا ہے جن میں نامور شخصیات درج ہیں:
۱۔
یحیی ابن معین نے صالح قرار دیا۔
۲۔ ابن جریر طبری نے ثقہ لکھا ہے۔
۳۔
ابن سعد نے طبقات میں توثیق کی ہے۔
۴۔
ابن عدی نے الکامل میں تحریر کیا ہے کہ عطیہ کی احادیث کو لکھا اور نقل کیا جائے گا۔
۵۔ یزید بن ہیثم نے تصریح کی ہے کہ عطیہ کی احادیث سے استدلال کیا جا سکتا ہے۔
۶۔ ملا علی قاری نے جلیل القدر تابعی قرار دیا ہے۔
۶۔ ابن حجر عسقلانی نے صدوق قرار دیا ہے۔ البتہ بہت سے موارد میں عطیہ سے خطائیں وارد ہوئی ہیں۔
۷۔ ابو بکر بزّار نے تصریح کی ہے کہ عطیہ شیعہ تھے اور تمام بزرگان عطیہ سے حدیث لیتے اور نقل کرتے ہیں۔
۸۔
عجلی نے ثقہ قرار دیا ہے۔
۹۔
سبط ابن جوزی نے اپنی کتاب مرآۃ الزمان میں عطیہ کو صرف ابن سعد كا قول كر كـ عطيہ کی وثاقت کو بیان کیا ہے۔
بعض اہل سنت علماءِ جرح و تعدیل نے عطیہ عوفی کو ضعیف قرار دیا ہے جن میں نامور علماء درج ذیل ہیں:
۱۔ ابن ابی حاتم نے ایسا ضعیف قرار دیا ہے جس کی احادیث کو لکھا اور نقل کیا جا سکتا ہے۔ نیز
ابو زرعۃ نے لین قرار دیا ہے۔
۲۔
احمد بن حنبل اور نسائی نے ضعیف لکھا ہے۔
۳۔ جوزجانی نے کہا ہے کہ حق سے رو گردان تھا۔
۴۔ بخاری کے مطابق اس کے بارے میں کلام ہے۔
۵۔
سفیان ثوری ضعیف ہونے اور بعض بزرگان تے تدلیس کرنے کا الزام لگایا ہے۔
عطیہ عوفی کے شیعہ ہونے اور
اہل بیتؑ سے محبت کرنے کی تصریح تمام اہل سنت علماء رجال نے کی ہے۔ عطیہ عوفی امام علیؑ کی محبت میں چار سو کوڑے کھائے لیکن امامؑ کو لعن کرنے پر آمادہ نہ ہوئے۔ یہی چیز وجہ بنی کہ بہت سے متعصب افراد نے عطیہ عوفی کو ضعیف قرار دیا۔ اگر علماء رجال کے بیانات پر دقت کریں تو درج ذیل وجوہات عطیہ عوفی کی تضعیف کی سامنے آتی ہیں:
۱۔ عطیہ عوفی کا تعلق کوفہ کے شیعوں سے تھا۔
۲۔ عطیہ عوفی مدلس تھا اور تدلیس کیا کرتا تھا۔
۳۔ بعض چیزیں جن کی بناء پر ضعیف قرار دیا گیا ہے لیکن اس کا تذکرہ موجود نہیں۔
اگر ہم ان الزامات پر غور کریں تو معلوم ہو گا کہ یہ کلام اس لیے قابل قبول نہیں ہے کہ کیونکہ
تدلیس جرحِ مبہم بنتی ہے اور کلبی کے علاوہ تدلیس کی بات کسی نے ذکر نہیں جس واضح ہوتا ہے کہ کلبی نے تعصب کی بناء پر یہ الزام تراشی کی ہے۔ نیز جرح مبہم کو
عدالت اور وثاقت پر مقدم نہیں کیا جاتا بلکہ جرحِ مبہم کی صورت میں راوی ثقہ قرار پاتا ہے، جیساکہ
ابن حجر عسقلانی اور دیگر بزرگانِ اہل سنت نے نقل کیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ عطیہ عوفی کو اگر قبول کر لیا جائے آئمہ اہل بیتؑ کے حق میں خصوصا
جناب فاطمہؑ سے متعلق مسئلہ جیسے
فدک کا
ہبہ ہونا اور اس طرح کے دیگر مسائل اہل سنت معتبر کتب سے ثابت ہو جاتے ہیں اور اس طرح شیخین اور بعض بڑی شخصیات تنقید کی زد میں آ جاتیں ہیں۔
[ترمیم]
جناب جابر بن عبد اللہ اور عطیہ کے درمیان خاص ربط اور تعلق پر کوئی خاص مطلب موجود نہیں ہے۔ اتنا وارد ہوا ہے کہ عطیہ نے جابر سے روایات نقل کی ہیں۔
منابعِ احادیث میں تفصیل کے ساتھ آیا ہے کہ عطیہ کا شمار ان افراد میں سے ہوتا ہے جو سب سے پہلے جناب جابر بن عبد اللہ انصاری کے ہمراہ امام حسینؑ کی قبر کی زیارت کے لیے تشریف لے گئے تھے۔
[ترمیم]
معروف قول کے مطابق عطیہ عوفی کی وفات ۱۱۱ ھ کو ہوئی۔ بعض نے کہا ہے کہ ۱۲۷ ھ کو وفات ہوئی لیکن اس قول کو علماء رجال نے ردّ کیا ہے۔
[ترمیم]
[ترمیم]
پایگاه اسلام کوئست، مقالہ عطیہ عوفی سے یہ تحریر لی گئی ہے، سایٹ مشاہدہ کرنے کی تاریخ:۱۳۹۵/۱۲/۰۹۔ متعدد حوالہ جات اور بعض مطالب گروہِ محققین ویکی فقہ اردو کی جانب سے اضافہ کیے گئے ہیں۔