عکس مستوی حملیہ موجبہ کلیہ
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
عکس مستوی حملیہ موجبہ کلیہ کا مطلب موضوع اور
محمول کو قضیہ حملیہ موجبہ کلیہ میں جا بجا کرنا ہے بشرطیکہ
کیف اور صدقِ قضیہ کو باقی رکھا جائے۔
[ترمیم]
قضیہ حملیہ کا
عکس مستوی موضوع اور محمول کے تبدیل ہونے سے بنتا ہے اس شرط کے ساتھ کہ صدق و کیف میں عکسِ قضیہ اصل قضیہ کی اتباع کرے۔ البتہ کمّیت کے لحاظ سے اصلِ قضیہ سے مختلف ہو سکتا ہے۔ قضیہ حملیہ سے عکس مستوی بنانے کا طریقہ کار یہ ہے کہ جس
قضیہ سے آپ عکس مستوی بنا رہے ہیں وہ قضیہ اصل قرار دیں اور اس اصل کے اجزاء یعنی طرفین کو تبدیل کر کے مدمقابل قضیہ بنا دیں جسے عکس مستوی کہا جائے گا۔ عکسِ مستوی بناتے ہوئے دو اہم شرائط کی رعایت ضروری ہے : ۱۔ اصلِ قضیہ صادق ہو ، فقط اس صورت میں فرع یعنی اس کا عکس مستوی صادق ہو گا، ۲۔ کیف میں موافقت ہو، یعنی اصل قضیہ میں جو کیفیت ہے وہی فرع میں باقی رہے، مثلا اگر پہلا موجبہ ہے تو فرع بھی موجبہ ہو، اگر اصل
قضیہ سالبہ ہے تو فرع یعنی عکس مستوی بھی سالبہ ہو گأ۔ ان دو شرائط کی پاسداری کی جائے تو جب بھی اصل قضیہ صادق ہو گا اس کا عکسِ مستوی بھی صادق ہو گا۔ قضیہ حملیہ موجبہ کلیہ کا عکس مستوی
موجبہ جزئیہ بنے گا، مثلا: اصل قضیہ ہے: ہر پانی بہنے والی چیز ہے، اس کا فرع (عکس مستوی) بنے گا: بعض بہنے والی اشیاء پانی ہیں۔
[ترمیم]
اصل قضیہ کے محمول کو اس کے موضوع سے مقایسہ کریں تو اصلِ قضیہ کا یہ محمول موضوع سے یا تو اعم ہو گا یا موضوع کے مساوی ہو گا، ہر دو صورتوں میں اس کا عکس موجبہِ جزئیہ کی صورت میں صادق ہو گا۔ کیونکہ محمول کے اعم اور مساوی ہونے کی صورت میں موضوع یقینًا محمول کے بعض افراد پر
صدق کرے گا، مثلا
کلّ ماءٍ سَائِلٌ؛ ہر پانی بہنے والی شیء ہے، اس کا عکس مستوی موجبہ جزئیہ کی صورت میں بنائیں تو عکس صادق ہو گا ورنہ کاذب ہو گا، پس اس کا عکسِ مستوی بنے گا:
بَعۡضُ السَّائل ماء؛ بعض بہنے والی اشیاء پانی ہیں۔ اگر ہم یہاں عکس کو موجبہ کلیہ بنائیں تو عکس کاذب ہو گا جوکہ بنے گا: ہر بہنے والی شیء پانی ہے، یہ درست نہیں ہے۔ اس لیے قضیہ حملیہ موجبہ کلیہ کا عکس موجبہ جزئیہ بنایا جاتا ہے تاکہ وہ تمام موارد میں صادق ہو۔ اسی طرح ایک اور مثال لےلیں:
کلّ انسان ناطقٌ، اس کا عکس مستوی بنے گا:
بعض الناطق انسانٌ۔ عکس ہم نے اس لیے موجبہ کلیہ نہیں بنایا کیونکہ اگر ہم عکس کو موجبہ کلیہ بنائیں تو اس صورت میں موضوع جو اپنے محمول سے اخص ہے وہ محمول کے تمام افراد پر صادق نہیں آئے گا بلکہ بعض افراد پر صادق آتا ہے۔ اس لیے موجبہ جزئیہ جوکہ بعض پر
دلالت کرتا ہے کو قاعدہ کی صورت میں اختیار کیا گیا ہے۔
[ترمیم]
اس مقالہ کو منظم کرنے اور تحریر کرنے کے لیے درج ذیل منابع و مصادر سے استفادہ کیا گیا ہے:
• خوانساری، محمد، منطق صوری۔
•
مظفر، محمد رضا، المنطق۔ • ابن سینا، حسین بن عبدالله، الشفاء (منطق)۔
• مجتہد خراسانی (شہابی)، محمود، رہبر خرد۔
• فرصت شیرازی، میرزا محمد، اشکال المیزان۔
•
ابنسینا، حسین بن عبدالله، النجاة۔ • ابو الحسن سالاری، بہمنیار بن مرزبان، التحصیل۔
•
علامہ حلی، حسن بن یوسف، الجوہر النضید۔ • تفتازانی، عبد الله بن شہاب الدين، الحاشیۃ علی تہذیب المنطق۔
•
سبزواری، ملا ہادی، شرح المنظومۃ۔ • قطب الدین رازی، محمد بن محمد، تحریر القواعد المنطقیۃ فی شرح رسالۃ الشمسیۃ۔
•
مشکوة الدینی، عبد المحسن، منطق نوین مشتمل بر اللمعات المشرقیۃ فی الفنون المنطقیۃ۔ [ترمیم]
[ترمیم]
پایگاه مدیریت اطلاعات علوم اسلامی، یہ تحریر مقالہِ عکس مستوی حملیہ موجبہ کلیہ سے مأخوذ ہے،لنک کو مشاہدہ کرنے کی تاریخ:۱۳۹۶/۲/۱۸۔