مفہوم غایت

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



مفہوم غایت کے عنوان سے یہ بحث کی جاتی ہے کہ غایت مفہوم رکھتا ہے یا نہیں رکھتا؟ نیز آیا غایت مغیّی کے حکم میں داخل ہے یا داخل نہیں ہے؟ کس مورد میں غایت مغیی کے حکم میں داخل ہوتی ہے اور کس مورد میں داخل نہیں ہوتی ؟


اصطلاح کی وضاحت

[ترمیم]

اس بحث میں مفہوم کا شمار منطوق کے مقابلے میں ہوتا ہے۔ اصول فقہ میں جن مفاہیم سے بحث کی جاتی ہے ان میں سے ایک مفہومِ غایت ہے۔ مفہوم غایت کا مطلب یہ ہے کہ غایت سے پہلے مغیی جس حکم پر مشتمل ہے آیا وہ حکم غایت کے ما بعد سے منتفی ہے یا اس کو شامل ہے؟ مثلا قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے: فَاغْسِلُوا وُجُوهَکُمْ وَاَیْدِیَکُمْ اِلَی الْمَرافِقِ؛ پس تم اپنے چہروں کو اور ہاتھوں کو کہنیوں تک دھو۔ اس آیت کریمہ میں وضو میں ہاتھوں کو کہنیوں تک دھونے کا تذکرہ ہے۔ آیت کریمہ میں اَیْدِیَکُمْ مغیّی اور الْمَرافِقِ غایت ہے اور دھونے کا واجب ہونا حکمِ مُغَیَّی ہے۔ اگر مفہوم غایت ثابت ہو تو اس کا مطلب یہ نکلے گا کہ کہنیوں سے بالاتر حصے کو دھونا واجب نہیں ہے۔

← غایت پر مشتمل جملات


اس طرف توجہ رہنی چاہیے کہ غایت پر مشتمل جملات سے دو صورتوں میں بحث کی جاتی ہے:
ا) آیا غایت مغیّی میں داخل ہے یا نہیں ؟ بالفاظِ دیگر آیا حکمِ مغیّی غایت کے لیے ثابت ہے یا ثابت نہیں ہے؟ اس بارے میں درج ذیل پانچ اقوال موجود ہیں:
۱. غایت مطلقا مغیّی میں داخل ہے؛
۲. غایت مطلقا مغیّی میں داخل نہیں ہے؛
۳. اگر غایت مغیّی کی جنس سے تعلق رکھتا ہے تو وہ مغیّی میں داخل ہے ورنہ نہیں؛
۴. اگر غایت کلمہ إلَی کے بعد آئے تو مغیّی میں داخل نہیں ہے اور اگر کلمہ حَتَّی کے بعد آئے تو وہ مغیّی میں داخل ہے؛
۵. جملہِ غایت میں غایت خود بخود مغیّی میں داخل ہونے پر دلالت نہیں کرتا۔ البتہ اگر جملہ سے خارج کوئی دلیل موجود ہے تو دلالت ہو سکتی ہے۔

ب) دوسری بحث یہ کی جاتی ہے کہ آیا جملاتِ غایت مفہوم رکھتے ہیں یا نہیں رکھتا؟ اس بارے میں تین نظریات پائی جاتے ہیں:
۱. اکثر و بیشتر قدماء و متأخرین قائل ہیں کہ جملاتِ غایت مفہوم رکھتے ہیں؛
۲. شیخ طوسی اور سید مرتضی کی مانند بعض علماءِ اصول قائل ہیں کہ جملاتِ غایت مفہوم نہیں رکھتے؛
۳. بعض علماء تفصیل کے قائل ہیں کہ اگر غایت حکمِ شرعی کی قید بن رہا ہے تو وہ مفہوم رکھتا ہے اور اگر قید موضوعِ حکم کو لگ رہی ہے تو وہ مفہوم نہیں رکھتا۔ اس تیسرے نظریے کی وضاحت ایک معروف ضابطہ سے کی جاتی ہے جس سے علم فقہ میں استفادہ کیا جاتا ہے:كُلُ‌ شَيْ‌ءٍ طَاهِرٌ حَتَّى تَعْلَمَ أَنَّهُ قَذِرٌ؛ ہر شیء پاک و طاہر ہے حتی آپ کو یقین ہو جائے کہ وہ نجس ہے۔ اس فقہی ضابطہ میں دقت کریں تو معلوم ہو گا کہ اس میں حکم شرعی طہارت ہے اور موضوعِ حکم کل شیء ہے۔ اس جملہ میں دو احتمال دیئے جا سکتے ہیں:
۱. قید حَتَّى تَعْلَمَ أَنَّهُ قَذِرٌ حکم شرعی یعنی طہارت کو لگ رہی ہے؛
۲. قید حَتَّى تَعْلَمَ أَنَّهُ قَذِرٌ کا تعلق طہارت سے نہیں بلکہ کل شیء جوکہ موضوع ہے سے ہے۔
جب قید حکمِ شرعی کے لیے ثابت ہو تو اس صورت میں غایت مفہوم رکھتا ہے؛ کیونکہ طہارت کا یہ علم اس وقت ثابت ہے جب نجاست کے ہونا یقینی طور پر ثابت نہ ہو۔ اگر علم ہو کہ ایک شیء نجس ہے تو اس وقت یہ حکمِ طہارت اس کے لیے ثابت نہیں ہو گا۔ ذیل چند نکات پیش کیے جاتے ہیں جو مفہومِ غایت کو مزید سمجھنے میں ہمیں مدد دے گا:

پہلا نکتہ

[ترمیم]

اگر غایت مغیّی میں داخل ہو تو غایت کے بعد والے حصے کو مفہوم شامل ہو گا اور غایت منطوق سے ملحق قرار پائے گا۔ لیکن اگر غایت مغیّی سے خارج ہو تو خود غایت اور جو اس سے پہلے ہے وہ مفہوم کے دائرے میں شامل ہو گا اور غایت کے بعد والے کو مفہوم شامل نہیں ہو گا۔ اس بناء پر غایت کا مغیّی میں داخل ہونا یا نہ ہونا جملہِ غایت کے مفہوم کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی ربط و تعلق نہیں رکھتا بلکہ اس صورت میں فقط مفہوم کے دائرہ کا وسیع اور تنگ ہونا کا اثر موجود ہو گا۔

دوسرا نکتہ

[ترمیم]

لفظِ حَتَّی کی دو قسمیں ہیں:
۱۔ حتی جوکہ حرفِ جر ہے؛
۲۔ حتی جوکہ حرفِ عطف ہے۔
ان دونوں قسموں میں سے یہ بحث کہ غایت آیا مغیّی میں داخل ہے یا نہیں صرف اس صورت میں جاری ہو گی جب حتی حرفِ جرّ ہو۔ اگر حتی عاطفہ ہو تو غایت یقینی طور پر مغیی میں داخل ہے۔ اس صورت میں کسی قسم کا شک اور احتمال نہیں اس لیے حتی عاطفہ کی صورت میں بحث نہیں، مثلا مات‌ الناس‌ حَتَّى‌ الأنبياء؛ لوگ موت کا شکار ہوں گے حتی انبیاءؑ بھی۔ اس مثال میں حتی دلالت کر رہا ہے کہ انبیاء بھی موت کے حکم میں شامل ہیں۔ یہاں حتی عاطفہ ہے اس لیے یہاں بلا شک و شبہ غایت مغیی میں شامل ہے۔

تیسرا نکتہ

[ترمیم]

غایت کا مغیی کے حکم میں داخل ہونے کی بجث اس جگہ متصور ہے جہاں قدرِ مشترک ہو۔ یعنی یہ بحث تب ممکن ہے جب غایت مغیی کے حکم میں داخل ہونے کی صلاحیت رکھتا ہو یا قبل از غایت جو حکم موجود ہے اس میں شامل نہ ہونے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ اگر یہ قدرِ مشترک نہ ہو تو غایت کا مغیی کے حکم میں داخل ہونے کی بحث اصلًا متصور نہیں ہے، مثلا آیتِ وضو پر دقت کریں: فَاغْسِلُوا وُجُوهَکُمْ وَاَیْدِیَکُمْ اِلَی الْمَرافِقِ؛ اس آیت میں ممکن ہے کہ کہنی پر بھی دھونے کے وجوب کا حکم جاری کیا جائے کیونکہ کہنی میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ مغیی کے حکم میں شامل ہو سکے جوکہ دھونے کا واجب ہونا ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ غایت یعنی بازو سے پہلے جو حکم موجود ہے اس میں شامل نہ کیا جائے کہ اس صورت میں دھونا واجب نہیں ہو گا۔ پس یہاں چونکہ غایت میں صلاحیت ہے کہ وہ مغیی کے حکم میں داخل ہو یا نہ ہو اس لیے اس مورد میں مفہومِ غایت کی بحث جاری ہو گی۔
[۵] اصول الفقہ، ابو زہره، محمد، ص۱۴۱۔
[۱۲] اصول الفقہ، خضری، محمد، ص۱۴۲۔
[۱۶] شرح اصول فقہ، محمدی، علی، ج۱، ص۲۶۸۔
[۱۷] مبادی فقہ و اصول، فیض، علی رضا، ص۱۴۶۔
[۱۹] کفایۃ الاصول، فاضل لنکرانی، محمد، ج۳، ص۳۲۷۔


حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. مائده/سوره۵، آیت ۶۔    
۲. محدث نوری، حسین بن محمد تقی، مستدرک الوسائل، ج ۲، ص ۵۸۳۔    
۳. مائده/سوره۵، آیت ۶۔    
۴. درر الفوائد، حائری، عبد الکریم، ص۱۷۲ - ۱۷۳۔    
۵. اصول الفقہ، ابو زہره، محمد، ص۱۴۱۔
۶. کفایۃ الاصول، آخوند خراسانی، محمد کاظم بن حسین، ص۲۰۸۔    
۷. اصول الفقہ، مظفر، محمد رضا، ج۱، ص۱۲۵۔    
۸. انوار الاصول، مکارم شیرازی، ناصر، ج۲، ص۶۳۔    
۹. فوائد الاصول، نائینی، محمد حسین، ج۱، ص ۵۰۵-۵۰۴۔    
۱۰. تہذیب الاصول، خمینی، روح الله، ج۲، ص۱۴۳۔    
۱۱. اصطلاحات الاصول، مشکینی، علی، ص۲۵۱۔    
۱۲. اصول الفقہ، خضری، محمد، ص۱۴۲۔
۱۳. الموجز فی اصول الفقہ، سبحانی تبریزی، جعفر، ص ۱۷۰-۱۶۷۔    
۱۴. محاضرات فی اصول الفقہ، خوئی، ابو القاسم، ج۵، ص۱۳۵۔    
۱۵. نہایۃ الافکار، عراقی، ضیاء الدین، ج۱، ص۴۹۷۔    
۱۶. شرح اصول فقہ، محمدی، علی، ج۱، ص۲۶۸۔
۱۷. مبادی فقہ و اصول، فیض، علی رضا، ص۱۴۶۔
۱۸. مناہج الوصول الی علم الاصول، خمینی، روح الله، ج۲، ص۲۱۹۔    
۱۹. کفایۃ الاصول، فاضل لنکرانی، محمد، ج۳، ص۳۲۷۔


مأخذ

[ترمیم]

فرہنگ‌نامہ اصول فقہ، تدوین توسط مرکز اطلاعات و مدارک اسلامی، ص۷۶۷، مقالہِ مفهوم غایت سے اس تحریر کو لیا گیا ہے۔    


اس صفحے کے زمرہ جات : اصول فقہ | مباحث الفاظ | مفاہیم




جعبه ابزار