موضوع حکم
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
موضوعِ حکم اصول فقہ کی ایک اصطلاح ہے جس سے مراد
مکلف کو
تکلیفِ شرعی کا مخاطب قرار دینا ہے یا شرعی قضایا میں حکم شرعی کے فعلی اور عملی ہونے کی شرائط کا مجموعہ ہے۔
[ترمیم]
موضوع حکم سے مراد ان اشیاء کا مجموعہ ہے جن پر
حکمِ مجعول کا فعلی ہونا موقوف ہے، مثلا
حج کا فعلی طور پر
وجوب اس وقت ہو گا جب مکلف میں حج کی استطاعت ہو گی، پس وجوبِ حج فعلی طور پر استطاعتِ مکلف پر موقوف ہے۔ اس مثال میں وجوبِ حج حکم شرعی کہلائے گا اور استطاعتِ مکلف اس کا موضوع کہلائے گا۔
[ترمیم]
ایک حکم شرعی جب مکلف کے حق میں جعل ہو جاتا ہے اور مولی مصلحت و مفسدہ کی بناء پر
حکم شرعی کو اعتبار کر لیتا ہے تو پھر اس کا فعلی طور پر مکلف پر عائد ہونا باقی رہ جاتا ہے۔ مقامِ قعلیت میں حکم شرعی اس وقت مکلف کے کندھوں پر عائد ہوتا ہے جب اس کا موضوع متحقق ہو۔ اگر موضوع متحقق نہ ہو تو حکم شرعی جاری نہیں ہوتا۔ موضوعِ حکم کا اطلاق اس مکلف پر بھی ہوتا ہے جس میں
تکلیف کی شرائطِ عامہ پائی جاتی ہیں اور وہ خاص شرائط بھی جو ہر حکم کے ساتھ خاص ہیں، مثلا مولی عبد سے خارج میں ایک فعل کے انجام دینے کو طلب کرتا ہے یا ایک فعل کو ترک کرنے کا حکم دیتا ہے تو یہ اس وقت ممکن ہو گا جب مکلف میں
شرائطِ تکلیف پائی جائیں۔ چنانچہ
عقل و
بلوغت وغیرہ وہ شرائط عامہ ہیں جو موجود ہوں تو فعل کو طلب کیا جا سکتا ہے یا کسی فعل کے ترک کرنے کا تقاضا کیا جا سکتا ہے۔ پس یہ شرائط موضوعِ تکلیف شمار ہوں گی۔
[ترمیم]
کتاب
فوائد الاصول میں
محقق نائینی بیان کرتے ہیں:
لا اشکال فی ان کل حکم له متعلق وموضوع والمراد من المتعلق هو ما یطالب به العبد من الفعل او الترک کالحج والصلوة والصوم وغیر ذلک من الافعال، والمراد بالموضوع هو ما اخذ مفروض الوجود فی متعلق الحکم، کالعاقل البالغ المستطیع مثلا وبعبارة اخری المراد من الموضوع هو المکلف الذی طولب بالفعل او الترک بما له من القیود والشرائط من العقل والبلوغ وغیر ذلک؛ بلا اشکال ہر حکم (شرعی) کا متعلق اور موضوع ہوتا ہے۔ متعلقِ حکم شرعی سے مراد وہ شیء ہے جس کے انجام دینے یا ترک کرنے کا عبد سے مطالبہ کیا گیا ہے، جیسے افعال میں سے حج،
نماز،
روزہ وغیرہ ہیں۔ نیز موضوع سے مراد وہ امور ہیں جن کا
متعلقِ حکم میں ہونا فرض کیا گیا ہے، جیسے عاقل،
بالغ،
مستطیع، بالفاظِ دیگر موضوع سے مراد وہ مکلف ہے جس سے فعل کی انجام دہی یا اس کا ترک کرنا اس طور پر طلب کیا گیا ہے کہ
عقل و بلوغت وغیرہ جیسی شرائط اور قبود اس کے لیے موجود ہیں۔
[ترمیم]
مذکورہ سطور سے یہ بات ہمارے سامنے آئی کہ بعض اوقات موضوعِ حکم کہہ کر موضوعِ تکلیف مراد لے لیا جاتا ہے جس سے مراد وہ مکلف ہے جو شرائطِ تکلیف کا حامل ہے۔ اسی طرح شرعی قضایا میں موضوعِ حکم کی تعبیر ان امور کے لیے استعمال ہوتی ہے جو موجود ہوں تو حکم شرعی مکلف پر عائد ہو گا، مثلا
الخمر حرام؛ شراب حرام ہے۔ اس مثال میں دقت کریں تو معلوم ہو گا کہ خارج میں خمر (شراب) کا ہونا یا عنوانِ خمریت کا ہونا موضوعِ حکم ہے،
شرب خمر (شراب کا پینا) جوکہ مکلف کا عمل ہے متعلقِ حکم ہے، جبکہ
حرمت حکمِ شرعی ہے۔ اس اعتبار سے اصول فقہ میں بہت سے موارد میں موضوعِ حکم اس معنی میں آیا ہے۔ لہذا موضوعِ تکلیف یا حکم جوکہ مکلف ہے میں اور شرعی قضایا میں موضوعِ حکم کے درمیان فرق کرنا ضروری ہے۔
[ترمیم]
[ترمیم]
فرہنگنامہ اصول فقہ، تدوین توسط مرکز اطلاعات و مدارک اسلامی، ص ۸۱۸، مقالہِ موضوع حکم سے یہ تحریر لی گئی ہے۔