قاعدہ الجمع مھما أمکن أولی من الطرح
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
قاعدہ
الجمع مھما أمکن أولی من الطرح سے مراد دو متعارض دلیلوں کے مابین
امکان کی صورت میں لازمی طور پر
جمعِ دلالی کرنا ہے۔
[ترمیم]
مشہور علماءِ اصول کے درمیان قاعدہ
الجمع مھما أمکن أولی من الطرح کافی پہلے سے مشہور و معروف ہے۔ اس کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ
ابن ابی جمہور نے اپنی کتاب
عوالی اللئالی میں اس قاعدہ کے متعلق
اجماع کا دعوی کیا ہے۔
[ترمیم]
اس قاعدہ کا معنی یہ ہے کہ دو متعارض دلیلوں کے مدلول کے درمیان جب تک جمع کرنا ممکن ہو تب تک دونوں میں جمع کرنا لازم ہے۔ یہ دو دلیلیں کسی عمل یا فعلِ مکلف پر مشتمل ہوں، ایسی صورت میں ان دونوں دلیلیوں میں جمع کرنے کی حتی الامکان کوشش کی جائے گی۔ کیونکہ ہر دو دلیل کے عمل کو ترک کرنا اور اس کو نظر انداز کرنے سے بہتر انہیں جمع کر کے دونوں پر عمل بیرا ہونا ہے۔
[ترمیم]
دو متعارض دلیلوں کے درمیان جمع کی دو اقسام ہیں:
۱.
جمع عرفی: اس کو
جمع مقبول اور
جمع دلالتی بھی کہا جاتا ہے۔ علماءِ اصول نے
جمع عرفی کے قواعد سے تفصیلی بحث کی ہے۔
۲.
جمع تبرعی: اس کو جمع عقلی یا جمعِ اعتباطی بھی کہا جاتا ہے۔
اصولیوں میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ آیا یہ قاعدہ فقط جمعِ عرفی کے ساتھ مختص ہے یا ایسا نہیں ہے بلکہ یہ قاعدہ جمعِ تبرعی کو بھی شامل ہے۔ بعض علماءِ اصول معتقد ہیں کہ یہ قاعدہ جمع عقلی و عرفی ہر دو کو شامل ہے۔ مشہورِ علماء اصول قائل ہیں کہ یہ قاعدہ فقط جمعِ عرفی کو شامل ہے جوکہ جمعِ تبرعی پر جاری نہیں ہوتا۔
[ترمیم]
اس قاعدہ کا تنہا مدرک
حکمِ عقل ہے۔
[ترمیم]
قاعدہ میں جمع لفط آیا ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قاعدہ میں جمع سے کیا مراد ہے؟ علماءِ اصول نے تصریح کی ہے کہ جمع سے مراد جمعِ دلالی ہے نہ کہ
جمعِ سندی۔ نیز قاعدہ میں
أولی سے مراد رجحان اور برتری نہیں ہے کہ یہ گمان پیدا ہو کہ اس کو ترک کیا جا سکتا ہے۔ بلکہ اس سے مراد
وجوب اور لزوم ہے۔
[ترمیم]
[ترمیم]
فرہنگنامہ اصول فقہ، تدوین توسط مرکز اطلاعات و مدارک اسلامی، ص۶۰۸، مقالہِ قاعده الجمع مهما امکن اولی من الطرح سے یہ تحریر لی گئی ہے۔