قبض
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
قبض
عربی زبان کا لفظ ہے جوکہ
ثلاثی مجرد کا مصدر ہے۔ لغت میں اس کا مطلب قبضہ میں لینا، گرفت میں لینا، ہاتھ میں پکڑ لینا اور مسلط ہونے کے ہیں۔ اسی طرح یہ
تملیک،
تملّک، تصرّف اور جمع کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔
[ترمیم]
لغت میں قبض مطلق طور پر گرفت میں لینے یا پکڑنے یا ہاتھ میں لینے کے معنی میں آتا ہے۔ اس کا مصدر
قَبۡضٌ ہے۔
[ترمیم]
علم فقہ اور
قضاوت کے باب میں لفظِ قبض ایک معنی میں استعمال ہوا ہے۔ قبض کی اصطلاح
حقیقت شرعیہ نہیں رکھتی چنانچہ یہ لفظ اپنے لغوی اور عرفی معنی میں باقی رہا۔
قرآن،
سنّت یا دینی نصوص میں جہاں لفظِ قبض استعمال ہوا ہے وہاں وہ اپنے اسی عرفی و لغوی معنی میں استعمال ہوا ہے۔ فرق نہیں پڑتا کہ ہاتھ کوئی چیز گرفت میں لی جائے یا چیک یا صفحات پر دستخط کر کے چیز قبضہ میں لی جائے یا کسی چیز پر سوار کر قبضہ کو ظاہر کیا جائے۔
جن اشیاء کو قبضہ اور گرفت میں لیا جاتا ہے وہ یا تو
منقولات ہیں یعنی انہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جا سکتا ہے یا وہ غیر منقولات ہیں جنہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل نہیں کیا جا سکتا۔ علمی اصطلاح میں
غیر منقول اشیاء میں قبض کا معنی
تخلیہ یعنی جگہ خالی کرنا ہے، مثلا کسی ایک گھر یا ایک زمین قبضے میں لینے سے مراد اس گھر کو غیر سے خالی کر کے اپنے کنٹرول میں لینا ہے۔ فقہاء کرام نے
کتاب المکاسب غیر منقول میں قبض بمعنی تخلیہ کو متفقہ طور پر قبول کیا ہے۔
منقول اشیاء میں ماہیتِ قبض میں اختلاف وارد ہوا ہے اور فقہاء کرام نے اس کی مختلف شرحیں بیان کیں ہیں جن میں سے اہم شروح درج ذیل ہیں:
الف: منقول میں قبض چیز کو منتقل کرنا ہے اور
مکیل و
موزون اشیاء میں چیز کا کیل اور وزن کرنا قبض کہلائے گا۔
ب:
حیوان کی خرید و فروخت میں حیوان کو منتقل کرنا قبض کہلائے گا اور جو چیز کیل اور وزن کر کے لی جاتی ہیں ان میں وزن کرنے کے لیے یا گننے کے لیے رکھ دینا قبض کہلائے گا اور لباس میں لباس کا ہاتھ میں ہونا قبض کہلائے گا۔
ج: منقول میں قبض گرفت میں لینا اور منتقل کرنا ہے۔
د: قبض سے مراد مستقل طور پر ہاتھ میں لینا یا اپنے قبضہ میں لینا ہے۔
.
تحقیقی قول کے مطابق ہمیں یہ کہنا چاہیے کہ کسی معاملہ میں کسی شخص کا ایک چیز پر مطلق طور پر تسلط اور قبضہ اس چیز کا اس شخص کے ساتھ خاص ہونے کا باعث بنتا ہے۔
[ترمیم]
[ترمیم]
فرہنگ اصطلاحات فقہ اسلامی (در باب معاملات)، تحقیق و نگارش، محسن جابری عربلو، ص۱۳۹-۱۳۸۔