قضایا متباین
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
قضایا متباین
علم منطق کی ایک اصطلاح ہے جس سے مراد وہ قضایا ہیں جو
موضوع و
محمول میں وحدت ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے جدا ہوتے ہیں اور قابل جمع نہیں۔
[ترمیم]
دو مفہومِ کلی کو جب ایک دوسرے سے مقایسہ کیا جائے تو ان میں چار نسبتوں
تساوی،
تباین،
عموم و خصوص مطلق، اور
عموم و خصوص من وجہ میں سے کوئی ایک نسبت ضرور پائی جائے گی۔ تساوی سے مراد دو مفہومِ کلی کا صدق میں مساوی ہونا ہے کہ جس جس پر پہلا مفہوم صدق کر رہا ہے دوسرا مفہوم بھی اس پر صدق کر رہا ہے۔ جبکہ تباین سے مراد دو مفہوم کلی کا الگ الگ مصداق ہونا ہے، یعنی پہلا مفہوم کلی جس پر صدق کر رہا ہے اس پر اصلًا دوسرا مفہوم صدق نہیں کر رہا۔
اسی طرح سے قضیہ کی دنیا میں جب دو قضایا کو باہمی طور پر ایک دوسرے سے مقایسہ کیا جائے تو ان کے درمیان معین نسبت پائی جائے گی۔ بعض قضایا میں عموم و خصوص مطلق کی نسبت پائی جاتی ہے، مثلا قضیہ دائمہ مطلقہ کہ یہ ضروریہ مطلقہ سے اعم تر ہے۔ بعض دیگر قضایا میں عموم و خصوص من وجہ کی نسبت پائی جاتی ہے، جیسے
دائمہ مطلقہ با نسبت
ضروریہ مطلقہ کے۔ اسی طرح بعض قضایا میں تباین کی نسبت پائی جاتی ہے، جیسے قضیہ
ضروریہ مطلقہ با نسبت
ممکنہ خاصہ۔
[ترمیم]
دو قضایا متباین جو ایک دوسرے کے ساتھ موافق نہ ہو میں سببِ اختلاف سورِ فضیہ یا کیفِ قضیہ یا جہتِ قضیہ کا مختلف ہونا ہے۔ دو متباین قضایا آبس میں موضوع و محمول کے اعتبار سے ایک ہوتے ہیں لیکن کمیت و کیفیت و جہت میں اختلاف دونوں میں
تناقض و تباین کا سبب بنتا ہے اور وہ قابل جمع نہیں رہتے۔
[ترمیم]
قضایا متباین کی چار قسمیں ہیں:
۱. متداخلتان؛
۲. متضادتان؛
۳. داخلتان تحت التضاد؛
۴. متناقضتان؛
[ترمیم]
قضایا کو بعض اوقات مادہِ قضیہ اور اس کی خصوصیات کے اعتبار سے ملاحظہ کیا جاتا ہے اور بعض اوقات دو قضایا میں نسبت یا کمیت یا کیف یا جہت کے اعتبار سے ملاحظہ کیا جاتا ہے۔ اگر ہم قضیہ کو مادہ اور اس کی خصوصیات کے اعتبار سے ملاحظہ نہ کریں بلکہ قضایا میں نسبتِ تساوی کا جائزہ لینا چاہیں تو ہمیں کہیں ایسے دو قضایا نظر نہیں آئیں گے جو ایک دوسرے کے مساوی ہوں۔ کیونکہ علوم اور محاورات میں مقدار اور کمیت قضایا کا معلوم و معین ہونا ضروری ہے۔ اگر دو قضیہ صدق میں یکساں اور مساوی ہوں تو چار ناچار ان میں سے ایک قضیہ عبث و لغو ہو گا۔
اس کی اگر دقیق وجہ بیان کرنا چاہیں تو کہہ سکتے ہیں کہ صرف اس صورت میں دو مفہوم متساوی ہو سکتے ہیں جب ان کے درمیان کامل ارتباط موجود ہو۔ اگر یہ کامل ارتباط موجود نہ ہو تو کبھی دو مفہوم متساوی نہیں ہو سکتے، مثلا ان میں سے ایک قضیہ دوسرے کی
علت بن رہا ہو، جیسے تعجب کرنا اور ہنسنا ہے، یا ان دونوں مفہوموں میں سے ایک مفہوم کاملا دوسرے مفہوم پر مشتمل ہو، جیسے انسان و ناطق۔ لیکن اگر ایسی صورت نہ تو ان قضایا میں تساوی کی نسبت نہیں پائی جائے گی اور ایک قضیہ کی نسبت دوسرے کی نسبت سے کاملا جدا ہو گی۔
البتہ قضایا متباینہ میں مواد کے اعتبار سے ممکن ہے دو قضیہ باہمی طور پر مساوی یا موافق ہوں، جیسے دو قضیہ میں معلول کی
علت کا بیان ہو جس سے بالضرورۃ معلول وجود میں آئے، مثلا دو قضیہ: جہاں سورج ہو گاہ وہاں دن ہو گا، جہاں سورج نہیں وہاں دن نہیں ہو سکتا۔ ان دو مثالوں میں ہر دو قضیہ باہمی طور بر مساوی ہیں اور وہ مورد جہاں پہلا صدق کر رہا ہے وہاں دوسرا بھی صدق کر رہا ہے ۔ لیکن یہ تساوی خصوصیاتِ مادہ کے اعتبار سے ہے ورنہ کوئی قضیہ بھی خود بخود یا کسی شرط یا
حمل اور کسی
اطلاق یا کسی جہت کے اعتبار سے دوسرے قضیہ کے برابر نہیں ہوتا۔
[ترمیم]
[ترمیم]
پایگاه مدیریت اطلاعات علوم اسلامی، ماخوذ از مقالہ قضایا متباین، تاریخ لنک ۱۳۹۶/۳/۱۶۔