دائمہ مطلقہ

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



دائمہ مطلقہ منطق کی اصطلاحات میں سے ایک اصطلاح ہے جس سے مراد وہ قضیہ موجہہ ہے موضوع کے لیے محمول کے دوام پر دلالت کرتا ہے جب تک ذات موضوع موجود ہے۔


اصطلاح کی وضاحت

[ترمیم]

دائمہ مطلقہ وہ قضیہ ہے جس میں محمول کا ذات موضوع کے لیے دائمی طور پر ثبوت یا محمول کا موضوع سے دائمی سلب کا حکم لگایا جاتا ہے اس وقت تک جب تک ذات موضوع موجود ہے۔ فرق نہیں پڑتا کہ محمول کا موضوع کے لیے ثبوت یا سلب ضروری ہو یا ضروری نہ ہو، مثلا ہر ستارہ جب تک ستارہ ہے گردش میں ہے، کوئی بھی انسان جب تک انسان ہے پتھر نہیں ہو سکتا۔
[۲] مجتہد خراسانی (شہابی)، محمود، رہبر خرد، ص۱۷۱۔
[۳] شیرازی، قطب‌ الدین، درة التاج (منطق)، ص۹۴۔
[۴] گرامی، محمد علی، منطق مقارن، ص۱۱۸۔


دائمہ مطلقہ کہنے کی وجہ

[ترمیم]

اس قضیہ کا نام دائمہ اس لیے رکھا گیا ہے کیونکہ اس قضیہ میں جہت دوام پر مشتمل ہے اور مطلقہ اس لیے کہا جاتا ہے چونکہ دوام ایک قید و شرط کے ساتھ مقید و مشروط ہے اور وہ شرط ذاتِ موضوع سے خارج نہ ہونے کی شرط ہے۔ اس کے برخلاف عرفیہ عامہ ہے جس میں ذاتِ موضوع سے باہر اوصاف ہین جن سے ذات موضوع مقید ہے۔ عرفیہ عامہ میں موضوع ایک وصف کے ساتھ مقید ہے اس لیے وصف کا عنوان قضیہ کو دیا گیا ہے۔
[۵] فرصت شیرازی، میرزا محمد، اشکال ‌المیزان، ص۵۴۔
[۶] جرجانی، میر سید شریف، الکبری فی المنطق، ص۱۸۰۔
[۷] قطب‌ الدین رازی، محمد بن‌ محمد، تحریر القواعد المنطقیۃ فی شرح رسالۃ الشمسیۃ، ص۱۴۵۔
[۹] مجتہد خراسانی (شہابی)، محمود، رہبر خرد، ص۳۱۴۔


مقالہ کے منابع

[ترمیم]

اس مقالہ میں درج ذیل منابع سے استفادہ کیا گیا ہے:
• گرامی، محمدعلی، منطق مقارن۔
• مجتہد خراسانی (شہابی)، محمود، رہبر خرد۔
• شیرازی، قطب‌ الدین، درة التاج (منطق)۔
مظفر، محمدرضا، المنطق۔    
• فرصت شیرازی، میرزا محمد، اشکال‌ المیزان۔
• جرجانی، میر سید شریف، الکبری فی المنطق۔
• قطب‌ الدین رازی، محمد بن‌ محمد، تحریر القواعد المنطقیۃ فی شرح رسالۃ الشمسیۃ۔
• [http://lib.eshia.ir/۷۱۴۰۷/۱/۱ خواجہ نصیرالدین طوسی، محمد بن محمد، اساس الاقتباس۔
مشکوة الدینی، عبد المحسن، منطق نوین مشتمل بر اللمعات المشرقیۃ فی الفنون المنطقیۃ۔    

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. خواجہ نصیر الدین طوسی، محمد بن محمد، اساس الاقتباس، ص۱۳۴۔    
۲. مجتہد خراسانی (شہابی)، محمود، رہبر خرد، ص۱۷۱۔
۳. شیرازی، قطب‌ الدین، درة التاج (منطق)، ص۹۴۔
۴. گرامی، محمد علی، منطق مقارن، ص۱۱۸۔
۵. فرصت شیرازی، میرزا محمد، اشکال ‌المیزان، ص۵۴۔
۶. جرجانی، میر سید شریف، الکبری فی المنطق، ص۱۸۰۔
۷. قطب‌ الدین رازی، محمد بن‌ محمد، تحریر القواعد المنطقیۃ فی شرح رسالۃ الشمسیۃ، ص۱۴۵۔
۸. مظفر، محمد رضا، المنطق، ص۱۷۵۔    
۹. مجتہد خراسانی (شہابی)، محمود، رہبر خرد، ص۳۱۴۔
۱۰. مشکوة الدینی، عبد المحسن، منطق نوین مشتمل بر اللمعات المشرقیۃ فی الفنون المنطقیۃ، ص۳۱۷-۳۱۸۔    


مأخذ

[ترمیم]

پایگاه مدیریت اطلاعات علوم اسلامی، یہ تحریر مقالہ دائمہ مطلقہ سے مأخوذ ہے، مشاہدہِ لنک کی تاریخ:۳۹۶/۱/۹۔    






جعبه ابزار