قضیہ موجہہ

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



علم منطق کی اصطلاحات میں سے ایک اصطلاح قضیہ موجہہ ہے۔ قضیہ موجہہ سے مراد وہ قضیہ ہے جو ایسے لفظ پر مشتمل ہوتا ہے جو موضوع اور محمول کے درمیان یا مقدم اور تالی کے مابین نسبت کی کیفیت پر دلالت کرتا ہے۔


قضیہ کی اقسام

[ترمیم]

منطق میں قضایا کے باب میں مذکور ہے کہ قضیہ کی دو اقسام ہیں:
۱. قضیہ حملیہ
۲. قضیہ شرطیہ
ان میں سے ہر ایک کو مزید دو اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: ۱. موجّہہ، ۲. مطلقہ یعنی غیر موجّہہ۔

← قضیہ حملیہ موجہہ


قضیہ حملیہ موجہہ وہ قضیہ ہے جس میں موضوع اور محمول کے درمیان نسبت کی کیفیت صراحت کے ساتھ موجود ہوتی ہے۔ فرق نہیں پڑتا وہ نسبت ضرورت ہے یا امکان، دوام ہے یا امتناع۔ یعنی واضح اور صریح طور پر ذکر ہوتا ہے کہ محمول اپنے موضوع کے لیے یا تو ضروری و واجب امر ہے یا ممتنع ہے یا امرِ ممکن ہے۔ قضیہ موجہہ کو منّوعہ اور رباعیہ بھی کہتے ہیں کیونکہ اس کے چار اجزاء ہوتے ہیں: موضوع، محمول، رابطہ اور جہت۔ وہ لفظ جو اس نسبتِ قضیہ کی کیفیت پر دلالت کرتا ہے اسے جہت یا نوع کہتے ہیں، مثلاً ٹرائی اینگل (مثلث) کے زاویوں کا مجموع ۱۸۰ ڈگری (درجہ) بالضرورۃ ہے۔ ممتنع ہے کہ مثلث کے زاویوں کا مجموع ۲۰۰ ڈگری ہو۔ اس مثال میں مثلث کے زاویوں کا مجموع موضوع کہلائے گا اور ۱۸۰ ڈگری ہونا محمول کہلائے گا اور بالضرورۃ کے الفاظ قضیہ کی جہت اور نسبتِ قضیہ کی کیفیت کو بیان کرتے ہیں۔ بالضرورۃ اور بالإمکان اور اس کی مانند دیگر الفاظ کو جہتِ قضیہ کہا جاتا ہے۔ البتہ ممکن ہے کہ یہ جہتِ قضیہ [[|نفس الامر]] کے مطابق ہو کہ اس صورت میں قضیہ صادق کہلائے گا اور یہ بھی ممکن ہے کہ نفس الامر کے مطابق نہ ہو، اس صورت میں قضیہ کاذب کہلائے گا۔

← قضیہ شرطیہ موجہہ


قضیہ شرطیہ موجہہ وہ قضیہ ہے کہ جس میں تالی مقدم کے لیے ثابت ہوتی ہے اور تالی و مقدم کے درمیان جہت قضیہ یعنی ضرورت یا امکان، دوام یا امتناع واضح اور صریح طور پر مذکور ہوتی ہے، مثلا اگر بارش ہوئی تو ہوا ٹھنڈی ہو گی بالضرورۃ۔ جس طرح قضایا حملیہ میں متعدد جہات میں سے کوئی نہ کوئی جہت مذکور ہوتی تھی اسی طرح قضایا شرطیہ بھی ان جہات میں سے کسی ایک جہت سے متصف ہوتا ہو گا۔ البتہ قضایا شرطیہ میں ان جہات کا پایا جانا کوئی خاص فائدہ نہیں دیتاجس کی وجہ سے عمومًا اہل منطق قضایا شرطیہ کی جہات کے موارد کو ترک کر دیتے ہیں۔ چونکہ تشخیصِ قضیہ کے لیے ضرورت، امکان اور اطلاق کی حاجت پیش آتی ہے اس لیے اہل منطق نے قضایا شرطیہ میں لزوم اور عناد کو جہتِ ضرورت کے حکم میں شمار کیا ہے اور اتفاق کو جہتِ امکان کی منزلت پر اور اتصال و انفصال کو بمنزلہ جہتِ اطلاق قرار دیا ہے۔ بہت کم اہل علم نے اس موضوع کی طرف توجہ دی ہے کہ صرف قضیہ شرطیہ منفصلہ میں ان جہات کا لحاظ کیا جا سکتا ہے کیونکہ اگر قضیہ شرطیہ متصلہ کو درج ذیل پہلوؤں سے ملاحظہ کریں:
۱. قضیہ شرطیہ متصلہ کے اجزاء کو اس کے دیگر اجزاء سے تمایز کی جہت سے ملاحظہ کریں
۲. یا قضیہ شرطیہ متصلہ کے اجزاء میں خصوص و عموم کے ہونے کی جہت سے ملاحظہ کریں
۳. یا قضیہ شرطیہ متصلہ میں ایجاب و سلب کے اعتبار سے ایک قضیہ دوسرے قضیہ کے ساتھ مختلف انواعِ نسب پر مشتمل ہونے کے اعتبار سے ملاحظہ کریں
تو ان تمام صورتوں میں قضیہ شرطیہ متصلہ کاملا قضیہ حملیہ سے مشابہ ہو گا کیونکہ جس طرح سے قضیہ حملیہ میں محمول کو موضوع پر حمل کیا جاتا ہے اسی طرح سے قضیہ شرطیہ کے ایک جزء کو دوسرے جزء کے ساتھ مندرجہ بالا جہات سے مربوط کیا جاتا ہے۔ اس کے برخلاف قضیہ شرطیہ منفصلہ میں اس طرح نہیں ہے کیونکہ شرطیہ منفصلہ میں مقدم و تالی کی تعیین اور ہر جزء کا تقدم یا تأخر ایک اعتباری امر ہے نہ کہ طبعی اور اس میں قضیہ کے اجزاء کو معین عدد میں منحصر کرنا ضروری نہیں ہے۔ منفصلہ میں عناد کا معنی کسی شیء کا منع جمع اور منع خلو پر زائد ہونا نہیں ہے۔

قضیہ موجہہ کی اقسام

[ترمیم]

قضیہ موجّہہ کی اگر ایک حقیقی تقسیم بندی کریں تو اس کی دو اقسام سامنے آتی ہیں:
۱. قضیہ موجہہ بسیطہ
۲. قضیہ موجہہ مرکبہ
موجہات بسیطہ اور مرکبہ میں سے ہر ایک یا تو موجبہ ہے یا سالبہ۔ قضیہ موجہہ موجبہ جیسے کلّ انسان حیوان بالضرورة، اور قضیہ موجہہ سالبہ جیسے لا شیء من الانسان بحَجَرٍ بالضرورة۔

← قضیہ موجہہ بسیطہ


اس قضیہ کو قضیہ موجہہ بسیطہ کہتے ہیں جو ظاہری اور باطنی طور پر ایک سے زیادہ قضیہ نہ ہو اور ایک سے زیادہ نسبتِ ایجابی یا سلبی نہ رکھتا ہو اور تجریہ و تحلیل کرنے کی صورت میں دو قضایا یا دو نسبتوں میں منحل نہ ہوتا ہو بلکہ ایک قضیہ ہی رہے اور ایک نسبت پر مشتمل رہے۔
[۴] تفتازانی، عبد الله بن شہاب‌ الدين، الحاشیۃ علی تہذیب المنطق، ص۵۹-۶۴۔
[۵] ابو البركات ابن‌ملكا، ہبۃ الله بن علي، الکتاب المعتبر فی الحکمة، ص۷۰۔


← قضیہ موجہہ مرکبہ


قضیہ موجہہ مرکبہ سے مراد وہ قضیہ ہے جو دو قضایا سے مرکب ہوا ہو اور ان میں سے ایک قضیہ پہلے جزء میں اس طرح سے صراحت کے ساتھ بیان ہو کہ اس جزءِ مصرَّح کے موجبہ یا سالبہ ہونے کے اعتبار سے ہر قضیہ کو قضیہ کو موجبہ یا سالبہ کہا جا سکے اور دوسرا قضیہ کیف میں پہلے قضیہ کے مخالف ہو اور کمیت میں اس کے موافق ہو اور قضیہ میں صریح طور پر مذکور نہ ہو بلکہ اس طرح کے الفاظ کے ساتھ اشارہ کیا جائے: غیر دائمی، غیر ضروری وغیرہ۔

قضیہ مرکبہ کی ضرورت فقط اس صورت میں پیش آتی ہے جب قضیہ موجبہ عامہ کو استعمال کیا جائے اور اس میں ضرورت اور لا ضرورت یا دوام یا لا دوام ہر دو کا احتمال دیا جا سکے۔ اس صورت میں عدمِ ضرورت اور عدمِ دوام کو بیان کرنے کے لیے قضیہ میں غیر ضروری یا غیر دائمی کے الفاظ میں سے کسی لفظ کا لانا پڑے گا، مثلا کہا جاتا ہے: ہر نماز کا برپا کرنا عملی طور پر فحشاء سے اجتناب کرنا ہے۔ اس قضیہ پر دقت کریں تو معلوم ہو گا کہ ممکن ہے یہ قضیہ ضروری ہو اور یہ بھی ممکن ہے یہ قضیہ غیر ضروری ہو۔ لہٰذا ضروری اور غیر ضروری کے احتمال کو دور کرنے کے لیے اور غیر ضروری ہونے کے یقین کو حاصل کرنے کے لیے اس میں غیر ضروری کی قید کا اضافہ کیا جائے گا۔ اس بناء پر قضیہ مرکبہ کا پہلا جزء یعنی ہر نماز کا برپا کرنا عملی طور پر فحشاء سے اجتناب کرنا ہے قضیہ موجبہِ کلیہ مطلقہ عامہ ہے اور قضیہ مرکبہ کا دوسرا جزء یعنی غیر ضروری طور پر ہونا ایک قضیہِ سالبہ کلیہ ممکنہ عامہ کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ کیونکہ غیر ضروری طور پر ہونے کا معنی یہ ہے کہ اقامہِ نماز کے لیے فحشاء سے اجتناب کرنا ضروری نہیں ہے۔ اس کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ اقامہِ نماز کے لیے فحشاء سے اجتناب کرنے کو سلب کرنا ممکن ہے۔ پس اس قضیہ کو اس طرح سے بیان کیا جا سکتا ہے کہ ممکن نہیں ہے کہ ہر اقامہِ نماز فحشاء سے اجتناب کرنا ہو بالامکان العام۔
[۶] شیرازی، قطب‌ الدین، درة التاج منطق، ص۸۳-۹۰۔
[۷] مجتہد خراسانی (شہابی)، محمود، رہبر خرد، ص۱۶۵-۱۶۶۔


← تمام اقسامِ قضایا بسیطہ و مرکبہ کا شمار کرنا


کثیر علماء منطق خوب زحمت و مشقت کر کے قضایا موجہہ بسیط و مرکب کی تمام اقسام کو بیان کیا ہے اور ان کے تمام موارد کی تحقیق کر کے انہیں ذکر کیا ہے۔ جبکہ دیگر علماء منطق نے اس عمل کو غیر ضروری عمل قرار دیا ہے اور یہ استدلال پیش کیا ہے کہ قضایا موجہہ بسیطہ اور مرکبہ کی تمام اقسام کو شمار کرنا ممکن نہیں ہے اور بے جا مشقت و زحمت کا باعث ہے کیونکہ ان میں سے اکثر اقسام مختلف علوم اور محاورات و کلام میں قابل استعمال نہیں ہیں۔ اس لیے ان اقسام سے بحث کرنی چاہیے جن کی ضرورت پیش آئے اور علوم میں یا کلام میں وہ استعمال کی جاتی ہیں۔
[۸] شیرازی، قطب‌ الدین، درة التاج منطق، ص۸۳-۹۰۔
[۹] مجتہد خراسانی (شہابی)، محمود، رہبر خرد، ص۱۶۵-۱۶۶۔


اہم ترین قضایا موجہہ بسیطہ

[ترمیم]

علم منطق میں علماء نے زحمت اور محنت کر کے اہم ترین موجہہ بسیطہ کو ذکر کیا ہے جوکہ درج ذیل ہیں: ضروریۃ ذاتیۃ، مشروطۃ عامۃ، دائمۃ مطلقۃ، عرفیۃ عامۃ، مطلقۃ عامۃ، حینیۃ مطلقۃ، ممکنۃ عامۃ، حینیۃ ممکنۃ، منتشرۃ مطلقۃ اور وقتیۃ مطلقۃ۔

← قضایا بسیطہ کا مرکبہ میں استعمال


قضایا بسیطہ کو موجہاتِ مرکبہ کی نسبت سے ملاحظہ کریں تو یہ قاعدہ کلی ہمارے سامنے آتا ہے کہ قضایا بسیطہ میں سے ہر ایک قضیہ درج ذیل چار قیود میں سے ایک قید بن سکتا ہے اور مقید قرار پا سکتا ہے:
۱. لا دوام ذاتی
۲. لا دوام وصفی
۳. لا ضرورت ذاتی
۴. لا ضرورت وصفی
اصل قضیہ کے ساتھ اس قید کو ملحق کرنے سے اگر قضیہ کا معنی صحیح رہے تو ایک قضیہ موجہہ مرکبہ وجود میں آ جاتا ہے۔ پس قضیہ مرکبہ حقیقت میں قضایا بسیطہ کی بدولت تشکیل پاتا ہے، مثلا مشروطہِ عامہ کو ہم لا دوام ذاتی کے ساتھ مقید کر سکتے ہیں اور اسی طرح لا ضرورت ذاتی کے ساتھ بھی مقید کر سکتے ہیں۔ لیکن لا دوام وصفی کے ساتھ مشروط عامہ مقید نہیں ہو سکتا؛ کیونکہ مشروطہِ عامہ کا مفاد وصف کے ساتھ متصف ہونے کے اوقات میں ضرورت کا ہونا ہے۔ اس بناء پر اگر ہم مشروط عامہ کو لا دوام وصفی کے متصف کر دیں تو اس سے دوام کو مادام الوصف سے سلب کرنا لازم آئے گا جوکہ ممکن نہیں ہے۔ اسی طرح مشروطہ عامہ کو لا ضرورت وصفی کے ساتھ بھی مقید نہیں کر سکتے۔ نیز اگر اس کا اس پہلو سے جائزہ لیں کہ آیا مشروطہ عامہ کو علوم اور محاورات و کلام میں ان چار سے مقید کیا جاتا ہے یا نہیں تو معلوم ہو گا کہ علوم اور محاورات میں ان کو استعمال نہیں کیا جاتا۔ اس جہت سے ان اقسام سے بحث ہمیں کوئی فائدہ نہیں دے گی۔
[۱۰] خوانساری، محمد، منطق صوری، ص۶۲-۶۳۔
[۱۱] گرامی، محمد علی، منطق مقارن، ص۱۱۵-۱۲۴۔


اہم ترین قضایا موجہہ مرکبہ

[ترمیم]

علم منطق میں علماء نے اہم ترین قضایا موجہہ مرکبہ کو ذکر کیا ہے جوکہ درج ذیل ہیں:
۱. "مشروطہ خاصہ": جب مشروطہ عامہ کو لا دوام ذاتی کے ساتھ مقید کیا جاتا ہے تو مشروطہ عامہ حاصل ہوتا ہے۔
۲. "عرفیہ خاصہ": جب عرفیہ عامہ کو لا دوام ذاتی سے مقید کیا جاتا ہے تو عرفیہ خاصہ حاصل ہوتا ہے۔
۳. "وقتیہ": جب وقتیہ مطلقہ کو لا دوام ذاتی کے ساتھ مقید کیا جاتا ہے تو یہ قضیہ وقتیہ حاصل ہوتا ہے۔
۴. "منتشرہ": جب منتشرہ مطلقہ کے ساتھ لا دوام ذاتی کو مقید کیا جاتا ہے تو قضیہ منتشرہ حاصل ہوتا ہے۔
۵. "دائمہ" یا "دائمۃ خاصۃ": جب دائمہ وقتیہ کو لا دوام ذاتی کے ساتھ مقید کیا جاتا ہے تو دائمہ یا دائمہ خاصہ حاصل ہوتا ہے۔
۶. "مطلقہ خاصہ" یا "مطلقہ لادائمہ" یا "وجودیہ لا دائمہ": جب مطلقہ عامہ کے ساتھ لا دوام ذاتی کو مقید کیا جاتا ہے تو مطلقہ خاصہ حاصل ہوتا ہے۔
۷. "حینیہ" یا "حینیہ لادائمہ": جب حینیہ مطلقہ کے ساتھ لا دوام ذاتی کو مقید کیا جاتا ہے تو حینیہ لا دائمہ حاصل ہوتا ہے۔
۸. "وجودیہ لاضروریہ": جب مطلقہ عامہ کے ساتھ لا ضرورت ذاتی کو مقید کیا جاتا ہے تو وجودیہ لا ضروریہ حاصل ہوتا ہے۔
۹. "ممکنہ خاصہ": جب ممکنہ عامہ کے ساتھ لا ضرورت ذاتی کو مقید کیا جاتا ہے تو ممکنہ خاصہ حاصل ہوتا ہے۔
اجمالی طور پر اگر بیان کیا جائے تو کہا جائے گا کہ قضایا بسیطہ کی اقسام کے ساتھ ان چار قیود لادوام ذاتی، لا دوام وصفی، لاضرورت ذاتی اور لا ضرورت وصفی کو ضرب دیا جائے تو ہمارے پاس مختلف اقوال کے تناظر میں تیرہ (۱۳) یا چودہ (۱۴) اقسام سامنے آتی ہیں۔ اس طرح سے ہم قضیہ مرکبہ کی بڑی تعداد میں مختلف صورتیں تصور کر سکتے ہیں جن میں سے بعض صورتیں باطل ہیں اور بعض دیگر کی اصلا ضرورت نہیں ہیں کیونکہ ان کو علوم اور محاورات میں استعمال نہیں کیا جاتا، مثلا ضروریہ مطلقہ اور ضروریہ ازلیہ کو ان چار قیود میں سے کسی قید کے ساتھ مقید نہیں کر سکتے۔ دوسری طرف سے اگر ہم وقتیہ مطلقہ اور منتشره مطلقہ کو ملاحظہ کریں تو ہم ان دونوں کو لاضرورت ذاتی، لا ضرورت وصفی اور لا دوام وصفی کے ساتھ مقید کر سکتے ہیں لیکن چونکہ یہ علوم اور محاورات میں استعمال نہیں ہوتیں اس لیے اس کو اعتبار نہیں کیا گیا۔
[۱۲] فرصت شیرازی، میرزا محمد، اشکال ‌المیزان، ص۵۲-۵۹۔
[۱۴] تفتازانی، عبد الله بن شہاب‌ الدين، الحاشیۃ علی تہذیب المنطق، ص۲۴۸۔
[۱۶] شیرازی، قطب‌ الدین، درة التاج منطق، ص۴۶۔


مقالہ کے مصادر

[ترمیم]

اس مقالہ کو تحریر کرنے میں درج ذیل منابع و مصادر سے استفادہ کیا گیا ہے:
• گرامی، محمدعلی، منطق مقارن۔
• خوانساری، محمد، منطق صوری۔
• مجتہد خراسانی (شہابی)، محمود، رہبر خرد۔
• فرصت شیرازی، میرزا محمد، اشکال‌ المیزان۔
• شیرازی، قطب‌ الدین، درة التاج (منطق)۔
• ابو البركات ابن‌ ملكا، ہبۃ الله بن علي، الکتاب المعتبر فی الحکمۃ۔
مظفر، محمدرضا، المنطق۔    
سبزواری، ملا ہادی، شرح المنظومۃ۔    
• تفتازانی، عبد الله بن شہاب‌الدين، الحاشیۃ علی تہذیب المنطق۔
ابن‌سینا، حسین بن عبد الله، الاشارات و التنبیہات۔    
علامہ حلی، حسن بن یوسف، الجوہر النضید۔    
خواجہ نصیر الدین طوسی، محمد بن محمد، اساس الاقتباس۔    
مشکوة الدینی، عبد المحسن، منطق نوین مشتمل بر اللمعات المشرقیۃ فی الفنون المنطقیۃ۔    

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. خواجہ نصیر الدین طوسی، محمد بن محمد، اساس الاقتباس، ص۱۲۹-۱۵۳۔    
۲. مشکوة الدینی، عبد المحسن، منطق نوین مشتمل بر اللمعات المشرقیۃ فی الفنون المنطقیۃ، ص۳۰۵-۳۲۴۔    
۳. سبزواری، ملا ہادی، شرح المنظومۃ، ص۲۵۳۔    
۴. تفتازانی، عبد الله بن شہاب‌ الدين، الحاشیۃ علی تہذیب المنطق، ص۵۹-۶۴۔
۵. ابو البركات ابن‌ملكا، ہبۃ الله بن علي، الکتاب المعتبر فی الحکمة، ص۷۰۔
۶. شیرازی، قطب‌ الدین، درة التاج منطق، ص۸۳-۹۰۔
۷. مجتہد خراسانی (شہابی)، محمود، رہبر خرد، ص۱۶۵-۱۶۶۔
۸. شیرازی، قطب‌ الدین، درة التاج منطق، ص۸۳-۹۰۔
۹. مجتہد خراسانی (شہابی)، محمود، رہبر خرد، ص۱۶۵-۱۶۶۔
۱۰. خوانساری، محمد، منطق صوری، ص۶۲-۶۳۔
۱۱. گرامی، محمد علی، منطق مقارن، ص۱۱۵-۱۲۴۔
۱۲. فرصت شیرازی، میرزا محمد، اشکال ‌المیزان، ص۵۲-۵۹۔
۱۳. علامہ حلی، حسن بن یوسف، الجوہر النضید، ص۶۱-۶۲۔    
۱۴. تفتازانی، عبد الله بن شہاب‌ الدين، الحاشیۃ علی تہذیب المنطق، ص۲۴۸۔
۱۵. مظفر، محمد رضا، المنطق، ص۱۷۳-۱۷۷۔    
۱۶. شیرازی، قطب‌ الدین، درة التاج منطق، ص۴۶۔


مأخذ

[ترمیم]

پایگاه مدیریت اطلاعات علوم اسلامی، یہ تحریر مقالہ قضیہ موجہہ سے مأخوذ ہے، مشاہدہِ لنک کی تاریخ:۱۳۹۶/۳/۲۴۔    






جعبه ابزار