تواتر معنوی
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
متواتر کا لفظ
تَوَاتر سے مأخوذ ہے جس کے معنی کسی چیز کے پے در پے اور تسلسل کے ساتھ واقع ہونے کے ہیں، جیساکہ
اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
ثُمَّ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا تَتْرَی؛ پھر ہم نے پے درپے
رسول بھیجے۔
۔
[ترمیم]
محدثین کی اصطلاح میں متواتر اس حدیث کو کہتے ہیں جس کے ہر طبقے میں راویوں کی تعداد اس قدر ہو کہ عام طور پر ان کا جھوٹ پر متفق محال و ناممکن ہو اور ان کے
خبر دینے سے انسان کو خبر کا متکلم سے صادر ہونے کا
یقین اور
علم حاصل ہو جائے۔ واضح رہے کہ
شیعہ علماء کے نزدیک حدیثِ متواتر میں روایوں کی کوئی خاص تعداد شرط نہیں۔ جبکہ
اہل سنت علماء میں اس بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض اہل سنت محدثین نے تواتر میں عدد کو معتبر قرار دیا ہے۔ علماءِ امامیہ کے نزدیک تواتر کا دارمدار صدورِ خبر کے علم اور یقین کے حصول پر ہے۔ علماءِ شیعہ کے نزدیک
حدیثِ متواتر کی تین قسمیں ہیں:
۱)
متواتر لفظی۲)
متواتر معنوی۳)
متواتر اجمالی[ترمیم]
متواتر معنوی وہ حدیث ہے جس کو متعدد راوی مختلف عبارات اور الفاظ کے ساتھ نقل کریں لیکن وہ سب مختلف الفاظ و عبارات ایک ہی معنی اور مفہوم پر
دلالت کرے، مثلا متعدد افراد نے مختلف الفاظ کے ساتھ
امام علیؑ کی شجاعت اور بہادری کے بارے میں روایات نقل کی ہیں لیکن وہ سب مفہوم اور مضمون کے لحاظ سے ایک معنی یعنی امیر المومنینؑ کی
شجاعت پر دلالت کرتی ہیں۔
[ترمیم]
شہید صدر نے متواترِ معنوی کا معنی اس طرح سے بیان کیا ہے:
أن يوجد بين المدلولات الخبرية جانب مشترك يشكل مدلولا تحليليا لكلّ خبر، اما على نسق المدلول التضمني، أو على نسق المدلول الالتزامي، مع عدم التطابق في المدلول المطابقي بكامله؛ تواتر معنوی سے مراد یہ ہے کہ خبر کے مدلولوں اور معانی کے درمیان مشترکہ معنی معنی پایا جائے اور یہ مشترکہِ معنی ہر خبر کے تحلیلی معنی سے تشکیل پایا جائے، یا تو
مدلولِ تضمنی کی ترتیب سے یہ مشترکہ معنی حاصل ہوا ہے یا
مدلول التزامی کے اعتبار سے، البتہ کامل طور پر
مدلول مطابقی کے اعتبار سے معانی میں مطابقت موجود نہیں ہے۔
[ترمیم]
صاحب معالم تواتر معنوی کی وضاحت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ بعض اوقات، واقعات وحادثات کے لحاظ سے روایات مختلف نقل ہوتی ہیں۔ لیکن یہ تمام روایات، دلالت تضمنی یا التزامی کے لحاظ ایک مشترک معنی پر دلالت کر رہ ہوتی ہیں، جیسے انسان کو علم اور یقین حاصل ہوتا ہے، مثلا مختلف جنگوں اور غزوات میں
امام علیؑ کے کارنامے، متعدد روایات میں ذکر ہوئے ہیں جن میں غور کرنے کے بعد، انسان یہ نتیجہ أخذ کرتا ہے کہ امیر المؤمنینؑ بہادری اور شجاعت میں بے مثال تھے۔
[ترمیم]
وہ روایات جن کے ذریعے اخباری
ظواہر قرآن کی عدم ِحجیت پر استدلال کرتے ہیں ان کے بارے میں
شیخ انصاری بیانِ نظر کرتے ہیں:
وأقوی ما یتمسّک لهم علی ذلک وجهان: أحدهما: الأخبار المتواترۃ المدّعی ظهورها فی المنع عن ذلک؛ قوی ترین دلیل جس کے ذریعے اخباری (ظواہر قرآن کی عدمِ حجیت) پر استدلال میں تمسک کر سکتے ہیں دو ہیں: ۱) وہ متواتر احادیث ہیں جن کے بارے میں ان کا دعوی ہے کہ یہ عدم حجیت ظواہر پر دلالت کرتی ہیں۔
محدّث
حر عاملی اپنی کتاب
وسائل الشیعۃ میں لکھتے ہیں کہ میں نے ۲۲۰ سے زیادہ ایسی متواتر احادیث کا مجموعہ یکجا کیا ہے جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ
قرآن کریم سے
احکام کا استنباط فقط
آئمہ معصومینؑ کے ذریعے ہی ممکن ہے، لہذا قرآن کریم کے ظواہر سے احکام کا
استنباط کرنا جائز نہیں ہے۔
وہ روایات جو
خبر واحد کی حجیت پر دلالت کرتی ہیں ان کے بارے میں شیخ انصاری بیان کرتے ہیں:
منها الأخبار ... مثل النبوي المستفیض بل المتواتر إنه من حفظ علی أمتي أربعین حدیثاً بعثه الله عالماً یوم القیامۃ؛ ان میں سے احادیث ہیں ۔۔۔ مثلا حدیث نبوی مستفیض بلکہ متواتر ہے کہ میری
امت میں سے جس نے چالیس احادیث حفظ کیں اللہ اسے روزِ قیامت عالم مبعوث فرمائے گا۔
شیخ اعظم ایک اور مقام پر ذکر کرتے ہیں:
والاخبار الواردة فی طرح الاخبار المخالفة للکتاب والسنة ولو مع عدم المعارض، متواترة جداً؛ وہ روایات تواتر کے ساتھ وارد ہوئی ہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ ان اخبار کو رد کر دینا چاہیے جو قرآن و
سنت سے ٹکراتی ہیں اگرچے ان کا کوئی معارض موجود نہ ہو۔
پھر ان روایات کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
أما أخبار العرض علی الکتاب فهی وإن کانت متواترۃ بالمعنی إلا أنها بین طائفتین؛ احادیث کو قرآن پر پیش کرنے والی روایات اگرچہ معنی کے اعتبار سے متواتر ہیں لیکن وہ دو قسموں پر ہیں۔
[ترمیم]
[ترمیم]
فرہنگنامہ اصول فقہ، مرکز اطلاعات و مدارک اسلامی، ص۳۶۹، مقالہِ تواتر معنوی سے یہ تحریر لی گئی ہے۔ سایت اندیشہ قم۔