مثلی (فقہ)
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
مثلی
علم فقہ کی اصطلاحات میں سے ایک اصطلاح ہے جوکہ
ضمان کی بحث اور بیع سے مربوط ابواب میں استعمال ہوتی ہے۔ اس کی مشہور تعریف یہ ہے کہ وہ مال مثلی کہلاتا ہے جس کے اجزاء و افراد یکساں ہوں اور ایک دوسرے سے شباہت رکھتے ہوں، جیسے تیل ، دالیں ، چنے، انڈے وغیرہ۔ مثلی وہ مال ہے جس کے افراد کی خصوصیات ایک دوسرے کے نزدیک ہوتی ہیں اور مشابہت یا افراد کے یکساں ہونے کا معیار عقل نہیں بلکہ عرفِ عقلاء ہیں۔
[ترمیم]
لفظ
مِثْل اور قیمت عربی زبان کے الفاظ ہیں ۔ علم فقہ میں
معاملات کے ابواب میں ایک باب ضمان ہے جس میں مثلی اور قیمی کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ ضمان سے مربوط احادیث میں یہ الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔
لفظ مثلی و قیمی کا اصطلاحی معنی پہلی بار
شیخ طوسی کی کتاب میں استعمال کیا گیا ہے۔
شیخ طوسی کے بعد بعض فقہاء نے ان کی بیان کردہ تعریف کی اتباع کی ہے اور دیگر محققین نے ان کی تعریف کی تحقیق و جستجو کرنے کے بعد اس تعریف کی تکمیل کی ہے۔
[ترمیم]
مالی معاملات میں ایک طرف
ضامن ہوتا ہے جو اپنے مقابل کی طرف سے پیسے ادا کرنے کی ضمانت لیتا ہے۔ ضمان کے موارد میں سے ایک مورد ہے جس میں متعلقِ ضمان مشخص نہیں ہوتا اور موردِ توافق نہیں ہوتا، اس مورد میں
فقہ اسلامی اور اس موضوع سے متعلق قوانین میں وارد ہوا ہے کہ مثلی و قیمی میں ضمانِ مثل کا حکم لگایا جائے گا۔ مثل و مثلی کیا ہے ؟ اس بارے میں محققین و دانشوروں میں شدید معرکہ آراء بحث پائی جاتی ہے اور ہر کوئی اپنے مبانی کے تحت اس سوال کا جواب دیتا ہے۔
معاشرے میں موجود اقتصادی روابط میں بعض اوقات قرارداد و خاص معاملہ کی بناء پر اور بعض اوقات غیر قراردادی امور مثلا
غصب ، تلف وغیرہ کے سبب اشخاص پر لازم ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے مدمقابل فریق کو مال ادا کریں ۔ ضمانت سے نکالنے کے لیے دو طریقے بیان کیے جاتے ہیں:
۱. جس مال کی ضمانت لی گئی تھی بعینہ وہی مال ادا کیا جائے۔ یہ تب ممکن ہے جب بعینہ وہی مال موجود ہو۔
۲. اگر مال تلف ہو جائے یا مال ہاتھ سے نکل جائے تو اس صورت میں اس مال کے بدلے میں اسی کی مثل یا تو جنس دیں گے اور اگر اجناس قیمی ہوں تو اس کی قیمت ادا کریں گے۔
مال کا عوض اور بدل دو قسم کا ہوتا ہے:
۱. عوض اور بدل کا اعتباری اور قراردادی ہونا؛
۲. عوض و بدل کا حقیقی و واقعی ہونا۔
فقہِ شیعہ میں موجود قواعد و ضوابط جس کی تائید
اہل سنت مکتب میں بھی پائی جاتی ہے کے مطابق کسی معاملہ میں اگر کوئی شخص کسی دوسرے کا ضامن بنتا ہے تو اس ضامن کے لیے ضروری ہے کہ وہ بطور ضمانت اس مال کا بدلِ واقعی ادا کرے۔ اس قاعدہ کی بناء پر اس کو
قاعدہ ضمان واقعی یا ضمانِ مثل و قیمت بھی کہا جاتا ہے۔ اگر بذاتِ خود وہی مال موجود ہو تو ضامن کا وظیفہ یہ ہے کہ وہ اس مال کو ادا کرے۔ اگر عینِ مال تلف ہو گیا ہے یا اس تک رسائی مشکل ہے تو اس صورت میں دیکھا جائے گا کہ مورد مثلی یا قیمی ، اگر مثلی ہے تو اس مال کا مثل ادا کرنا ہو گا اور اگر قیمی ہے تو مال کی قیمت دینا ضامن کی ذمہ داری قرار پائے گی۔
[ترمیم]
لغت میں مثلی کا معنی مثل کی طرف نسبت یا وہ مال جس کے لیے مثل ہو بیان کیا گیا ہے۔
لغت میں مثلی کے معنی کی وضاحت اس طرح سے کی گئی ہے:
- مثل:کـلمه تـسویه؛ یـقال هذا مثله ، ومثله کما یقال شبهه و شبهه بمعنی؛ مثل: یہ کلمہ دلالت کرتا ہے کہ ایک شیء دوسرے کی مانند یا اس کے مساوی ہے، کہا جاتا ہے: یہ اس کی مثل ہے یعنی اس کے مشابہ ہے، اس کی مثال ہونا جیساکہ کہا جاتا ہے کہ یہ اس کے مشابہ ہے، اس کے مشابہ ہونے کا معنی یہ ہے کہ یہ اس کی مانند ہے۔
- وقیل: المثل بـالکسر: الشـبه، تقول هذا الشیء مثل ذاک بلفظ واحد للجمیع و المثلی بالکسر: المنسوب الی المثل؛ اور کہا جاتا ہے : مثل ، میم پر کسرہ کے ساتھ: مشابہ ہونا، آپ ایک لفظ کے ذریعے تمام کے لیے کہتے ہیں کہ یہ چیز اُس کی مثل ہے، مثلی - میم پر کسرہ کے ساتھ - وہ جو مثل کی طرف منسوب ہو۔
- المثل (بالکسر) کـلمه تـسویه و فی المصباح: المثل علی ثلاثه اوجه، بمعنی الشبیه و بمعنی نفسه و ذاته و زائدة؛ مثل - میم پر کسرہ کے ساتھ-: یہ کلمہ ایک چیز کے دوسری چیز کے مساوی ہونے کو بتاتا ہے، مصباح المنیر میں ہے: مثل تین صورتوں میں ہوتا ہے: بمعنی شبیہ (یعنی ایک چیز کا دوسری چیز کے مشابہ ہونا)، بمعنی نفس و ذات، بمعنی زائد۔
-قـوله تعالی: لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْء، أی کهو والعرب تـقیم المـثل مـقام النفس؛ قوله تعالی: وَمِثْلَهُمْ مَعَهُم، أی شبههم یـعنی أن الله أحـیی من مات من ولد ایوب ورزقه مثلهم؛ قرآنی آیت ہے: لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْء، یعنی جیسے وہ، عرب نفسِ شیء کی جگہ پر مثل کو رکھتے ہیں، اللہ تعالی کا فرمان ہے: اور ان کی مثل ان کے ساتھ ہے، یعنی ان کی شبیہ، یعنی اولادِ ایوبؑ میں سے جو جو مر گیا تھا اللہ نے اسے زندہ کیا اور انہی کی مثل اسے رزق دیا۔
نتیجہ یہ نکلا کہ لفظِ مثل دو یا تین معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ مثلی اور قیمی کی بحث میں مثل سے مراد پہلا معنی ہے جس سے مراد
مماثلت، مشابہت اور برابری و مساوی ہونا ہے۔
[ترمیم]
اکثر فقہاءِ امامیہ نے مثلی کی یہ تعریف کی ہے کہ مثلی سے مراد ایک
مال کے اجزاء کا قیمت کے اعتبار سے مساوی ہونا ہے؛ مثلاً اگر دس کلو آٹے کا تھیلا ہے جس کی قیمت ۱۰۰۰ روپے ہے تو اس کی طرح کا دوسرا تھیلا جس کی وہی قیمت ہے اس کی مثل کہلائے گا اور اس تھیلے کا نصف مثلا ۵۰۰ روپے ہے تو اس کی مثل دوسرا آٹا کا تھیلا کہلائے گا۔
بعض معاصر محققین کے مطابق تمام مذاہب کے فقہاء کی بیان کردہ تعاریف سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ مثلی سے مراد وہ مال ہے جس کے اجزاء یا افراد برابر ہوں، اس طرح سے کہ اگر اس جنس کے بعض افراد کو دیگر افراد کی جگہ پر رکھیں یا بدل دیں تو پیدا ہونے والا فرق قابل اعتناء نہ ہو ۔ بالفاظ دیگر اس مال کے افراد میں قابل توجہ فرق نہ ہو اور معمولا وزن یا
کیل کے پیمانوں پر اس کو فروخت کیا جاتا ہو۔
[ترمیم]
مثلی و قیمی کے الفاظ احادیث مبارکہ میں وارد ہوا ہے۔ لیکن اس کے باوجود یہ
حقیقت شرعیہ کا حامل نہیں ہے۔
اس کا مطلب ہے کہ مثل اور مثلی ایک اصطلاح ہے اور
انتزاعی معنی و عنوان ہے۔
مثل و مثلی کی خصوصیات اور مصادیق کو آشکار کرنے کے لیے ضروری ہے کہ
سیرت عقلاء اور عرفی ارتکازات کی طرف مراجعہ کیا جائے۔ فقہاء اسلام کا اتفاق ہے کہ اوّلا مثلی اشیاء میں مثلیت کا ملاک و معیار عرفی مماثلت ہے نہ کہ عقلی؛ کیونکہ اگر اگر عقلی مماثلت مراد ہوتی تو شارع حتما اس طرف اشارہ کر دیتے۔ ثانیاً چونکہ یہ امر مبتلاء بہ مسائل میں سے ہے اور
عام البلوی ہے اس لیے شارع کی جانب سے کسی قسم کی صراحت کا نہ ہونا اس امر کی نشاندہی کرتا ہے عقلی مماثلت شرط نہیں ہے۔ نیز اس امر میں مماثلتِ عقلی ناممکن ہے اور فقط
اللہ سبحانہ جوکہ علّام الغبوب ہے دقیق اور کامل طور پر مماثلت کی تشخیص دے سکتا ہے۔ بقیہ کے لیے تشخیص دینے کی تکلیف ان کی قدرت سے باہر ہے۔ ثالثًا عقلی مماثلت کے تعبدی ہونے کا وجود شریعت میں موجود نہیں ہے اور اصل عدم تعبد ہے۔
اس بناء پر کہا جا سکتا ہے کہ مثلی اور قیمی حقیقت شرعیہ نہیں رکھتی بلکہ یہ ایک فقہی اصطلاح ہے جس کی تعریف عرف سے حاصل کی گئی ہے اور
علم فقہ میں بابِ ضمان میں اس سے استفادہ کیا جاتا ہے۔
[ترمیم]
شیعہ فقہاء کی آراء و انظار کا مطالعہ کیا جائے تو اصطلاحِ مثلی کی جامع تعریف اس طرح سے ہمارے سامنے آتی ہے:
اکثر فقہاء
امامیہ نے مثلی کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے کہ مثلی سے مراد قیمت کے اعتبار سے مال کے اجزاء کا باہمی طور پر مساوی ہونا ہے؛ مثلاً اگر دس کلو گندم کی قیمت ہزار روپے ہے تو دو کلو گندم کی قیمت دو ہزار روپے ہو گی۔
ان تعریفوں میں اجزاء سے مراد کلی کے مقابلے میں جزئی ہے، نہ کہ کل کے مقابلے میں جزء۔
شیخ انصاری اس کی وضاحت پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں:
المراد باجزائه ما یصدق علیه اسم الحقیقة؛ اس کے اجزاء سے مراد اس پر شیء کا حقیقی عنوان آنا ہے۔ یعنی حقیقی معنی میں اس مال پر شیء کا نام صدق کرے،
مثلاً بکروں کی مختلف انواع پر بکرے کا نام حقیقتًا صدق کرتا ہے۔ البتہ اس تعریف پر یہ اشکال وارد ہوتا ہے کہ لفظِ اجزاء کو استعمال کر کے افراد مراد لیا گیا ہے یہ عرف اور اہل لغت کی نظر میں درست نہیں ہے۔ کیونکہ اجزاء اور افراد دو جدا الفاظ ہیں اور دونوں کا استعمال جدا ہے۔ مثل اور مثلی کی اصل تعریف
شیخ طوسی سے ہمارے پاس آئی ہے۔
ان کے بعد بقیہ فقہاء کرام نے ان کی اتباع میں تعریف کو قبول کیا اور تعریف پر سے ابہام کو دور کر کے اور
عدم اطراد جیسے اشکالات کو برطرف کر کے اس تعریف کی تکمیل کی ہے ، مثلا اس طرح کی عبارات کا اضافہ کیا گیا:
ویتفاوت صـفاتهیا
المتقارب الصـفات۔
فقہ جعفری میں مثلی کی اصطلاح تعریفوں پر دقت کریں تو ہمارے پاس تین ایسے ملاک سامنے آتے ہیں جن کے ذریعے ہم مثلی کی تشخیص کر سکتے ہیں اور اسے پہچان سکتے ہیں:
۱. مشہور اور ان کی اتباع کرنے والے دیگر فقہاء کرام نے اپنی تعریفوں میں اس بات کی تاکید کی ہے کہ قیمت اور نوعی خصوصیات کو ملاحظہ کیا جائے۔ اس معیار کے ذریعے اشیاء کے مثلی اور قیمی ہونے کی تشخیص دی جا سکتی ہے۔
۲. بعض معاصر محققین نے عوامی رغبت اور میلان کو میزان قرار دیا ہے۔ ان کے بیان کے مطابق وہ اموال مثلی کہلائیں گے جن کی خصوصیات یہ ہے کہ وہ آپس میں ایک جیسے اور یکساں و مساوی ہیں اور عوام ان کی طرف رغبت رکھتی ہے۔ اس طرف توجہ رہنی چاہیے کہ لوگوں کی رغبت و رجحان خود اشیاء سے حاصل ہونے والے نفع و فائدہ اور اس کی خواص کے تابع ہے۔ نیز اوصاف اور منافع اموال کی مالی حثیثت و قیمت سے مربوط ہیں۔ بالفاظ دیگر یہ کہا جا سکتا ہے کہ رغبت کو قیمت اور نفع کی طرح مال کی خصوصیات میں شمار کیا جا سکتا ہے۔
۳. بعض متأخرین اور معاصرین کے مطابق اموال کے مثلی یا قیمی ہونے کی تشخیص ان کی ذاتی اور عارضی خصوصیات پر موقوف ہے۔
ان تین آراء کی جمع بندی کرتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اموالِ مثلی وہ اموال ہیں جن کی خصوصیات اور اوصاف یکساں ہوں ، اس طرح سے کہ اموال کی یہ خصوصیات عوام کی نظر میں تاثیر رکھتی ہوں اور ان کی بناء پر عوام ان اموال کی طرف رغبت اختیار کرتے ہوں۔ فرق نہیں پڑتا یہ خصوصیات اس
مال کی ذاتی خصوصیات میں سے ہے یا عارضی خصوصیات میں سے۔ بطورِ خلاصہ کہا جا سکتا ہے اکثر شیعہ فقہاء دیگر فقہی مذاہب کے برخلاف اموال کی نوعی اور مالی خصوصیات جوکہ اموال کی ذاتی خصوصیات ہیں کو مثلی یا قیمی کی تشخیص کا ملاک و معیار قرار دیتے ہیں۔
[ترمیم]
اگر ہم مثلی کی اصطلاح کو
اہل سنت فقہاء کے تناظر میں ملاحظہ کرنا چاہیے تو ہمارے پاس اہل سنت کے چار فقہی مکاتب
شافعی،
حنفی،
حنبلی اور
مالکی سامنے آتے ہیں۔
حنفی مسلک کے مطابق مثلی سے مراد ہر وہ مال ہے جس کا اندازہ کیل یا
وزن یا شمار و حساب کتاب کی شکل میں لگایا جا سکتا ہے اس طرح سے کہ اس مال کے افراد ایک دوسرے سے مشابہ ہوں ، مثلا اخروٹ ، مرغی کے انڈے ... وغیرہ۔ نیز اس مالک ے اجزاء کی تقسیم اور اس کے جدا جدا مجموعے بنانے کی صورت میں کسی قسم کا نقصان و ضرر نہ پہنچتا ہو۔ اس کے مقابلے میں وہ اموال ہیں جن کا وزن اور تعداد و شمار میں اندازہ نہیں لگایا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس کے افراد ایک دوسرے کے ساتھ مشالہ ہوتے ہیں ، مثلا حیوانات، سبزیاں و پھل ۔ ان کے اوصاف ایک دوسرے کے قریب نہیں ہیں بلکہ قیمی ہیں۔
مسلکِ شافعی سے تعلق رکھنے والے فقہاء کے مطابق مثلی سے مراد وہ مال ہے جس کا وزن یا
کیل کے ساتھ اندازہ لگایا جا سکے اور اس مال میں
بیع سلم صحیح ہو۔
فقہاء
حنابلہ کے مطابق وہ مال مثلی کہلاتا ہے جس کا کیل یا وزن کے ساتھ اندازہ لگایا جا سکے جس میں انسان کے کام یا عمل کا دخل نہ ہو اور اس میں بیع سلم صحیح ہو۔
اس تعریف میں مثلی کے لیے ایک نئی قید کو بیان کیا گیا ہے۔ اس قید کے مطابق مثلی اشیاء پر ثانوی تبدیلیاں و تغیرات انسان کے عمل اور اس کے کام سے حاصل ہوتے ہیں جوکہ مثلی کی تشخیص میں کسی قسم کی دخالت نہیں رکھتے۔ کیل اور وزن کی حالت میں ان ثانوی تغیرات کو مدنظر نہیں رکھا جائے گا۔ بالفاظِ دیگر مثلی اشیاء کی تشخیص کا ملاک و معیار ان اشیاء کی وہ اوّلی شکل ہے جو
تغیر و تبدل اور دیگر انسانی اعمال کے نتیجہ میں برپا ہونے والیے تغییرات سے پہلے حاصل تھی۔
مالکی فقہ کے مطابق مثلی مال سے مراد وہ مال ہے جو کیل یا وزن یا اعداد و شمار کی صورت میں اندازہ گیری کے قابل ہو اور اس کے افراد ایک دوسرے کے ساتھ تفاوت نہ رکھتے ہوں۔ یہ اس قید کی صورت میں ہے کہ بشری
صنعت کاری کی اس میں مداخلت نہ کی جائے۔ پس مثلی مال کی تشخیص کے لیے بشری کام اور اس کی صنعت کاری سے پہلے والی صورت کو مدنظر رکھا جائے گا۔
[ترمیم]
فقہاءِ امامیہ اور
اہل سنت فقہی مسالک کے مطابق مثلی اور قیمی کی تعریف میں درج ذیل نکات ملحوظ خاطر رکھے جا سکتے ہیں:
۱. اہل سنت مختلف فقہی مذاہب نے مثلی کی تعریف میں کیل یا وزن کی صورت میں اندازہ گیری کے معیار کی خصوصی تاکید کی ہے کیونکہ غالبا یہ اجناس مثلی اشیاء میں پیش نظر شباہت کے حامل ہوتے ہیں۔
۲. اموالِ مثلی میں شباہت کا ہونا ان اموال کے ارکان کا جزء شمار کیا جائے گا اور ان کی تشخیص عرف کے سپرد ہے۔ چنانچہ اموالِ مثلی میں شباہت سے مراد عقلی طور پر شباہت نہیں ہے۔
۳. فقہاء اہل سنت کی بیان کردہ تعریفوں میں اموال مثلی کے لیے شباہت کا تذکرہ کیا گیا ہے جبکہ اسی مطلب کو فقہاءِ امامیہ نے مثلی اموال کی خصوصیات اور اوصاف کے یکساں ہونے کی صورت میں بیان کیا ہے۔ اس اعتبار سے فقہاءِ امامیہ اور فقہاء اہل سنت باہمی طور پر متفق ہیں۔
۴. اہل سنت فقہاء کی بیان کردہ تعریفوں میں مثلی اموال کا کیل یا وزن یا اعداد و شمار کی قابلیت کا حامل ہونا ذکر کیا گیا ہے۔ جبکہ فقہاء امامیہ کی نظر میں اس کا اموالیِ مثلی و قیمی سے کوئی تلازم نہیں ہے۔ کیونکہ بہت سے قیمی اموال ایسے ہیں جو کیل یا وزن کی اندازہ گیری کی قابلیت رکھتے ہیں لیکن اس کے باوجود فقہاءِ امامیہ کے مطابق وہ قیمی شمار ہوتے ہیں۔ اس پہلو سے مثلی کی تعاریف فقہاء امامیہ اور اہل سنت میں مختلف ہو جاتی ہے۔
۵. اہل سنت فقہاء کی بیان کردہ تعریفوں میں مثلی اموال میں بیع سلم کا ہونا جائز قرار دیا گیا ہے۔ یہ اس وجہ سے ہے کہ بیع سلم کے مورد میں اشیاء ایسے اوصاف و خصوصیات کی قابلیت رکھتی ہیں کہ یہ خصوصیات افراد کی اشیاء میں رغبت کا باعث بنتی ہیں ۔ یہ اوصاف میں وہی مماثلت و مشابہت کا ملاک ہے جو عرف کے پیش نظر ہوتا ہے اور مثلی اشیاء میں معیار قرار دیا گیا ہے۔
اس بات کا ذکر کرتے چلیں کہ موضوعات کی تعیین میں بیع سلم کے جواز کا حکم شرعی ذکر کرنا مناسب نہیں ہے کیونکہ موضوعات احکامِ شرعیہ میں
علت کی حیثیت رکھتی ہیں اور جب
موضوع محرز اور ثابت ہو جاتا ہے تو پھر حکم شرعی لاگو ہوتا ہے ۔ لہٰذا
حکم شرعی رتبہ کے اعتبار سے اپنے موضوع سے متأخر ہے۔ چنانچہ مناسب نہیں ہے کہ تعریف میں موضوع جوکہ مثلی اشیاء ہیں سے حکم شرعی کا استفادہ کیا جائے۔
[ترمیم]
- آل کاشف الغطاء، محمدحسین، تحریر المجلہ، تہران، النجاح؛ قم، فیروزآبادی، ۱۳۵۹ق.
- ابنالنجار، محمد بن احـمد، مـنتہی الارادات فـی جمع المقنع مع التنقیح و زیادات، بیروت، مؤسسۃ الرسالۃ، ۱۴۱۹ق.
- ابنرشد، محمد بـن احـمد، بـدایۃ المجتہد و نہایۃ المقتصد، قاہره، المکتبۃ الازہریۃ للتراث، ۱۴۱۱ق.
- ابنعابدین، محمد امین بن عمر، رد المحتار علی الدر المـختار، بـیروت، دار الفـکر، چاپ دوم، ۱۴۱۲ق.
- ابن قدامۃ، عبد الله بـن احـمد، المغنی مع الشرح الکبیر، ریاض، مکتبۃ الریاض الحدیثۃ، ۱۹۸۰م.
- ابن مفلح، ابراہیم بن محمد، المـبدع فـی شـرح المقنع، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، ۱۴۱۸ق.
- اصفہانی، محمد حسین، حاشیۃ مکاسب، قم، علمیۃ، ۱۴۱۸ق.
- انصاری، زکریا بن محمد، فتح الوہاب شرح منہج الطلاب، بـیروت، دار الکـتب العـلمیۃ، ۱۴۱۸ق.
- انصاری، زکریا بن محمد، منہج الطلاب، قاہرۃ، مکتبۃ الادبیۃ، بیتا.
- انصاری، مرتضی، المکاسب، تحقیق: سید محمد کلانتر، نجف، مـطبعۃ الآداب، ۱۳۹۳ق.
- انـیس، ابـراہیم و دیگران، المعجم الوسیط، مصر، بینا، ۱۹۶۱م.
- بروجردی، سیدحسین، تقریرات ثلاثۃ، قم، جامعۃ مـدرسین، ۱۴۱۳ق.
- بـہوتی، منصور بن یونس، شرح منتہی الارادات، بی جا، بینا، بیتا.
- بـہوتی، منصور بن یونس، کشاف القناع عن متن الاقناع، بـیجا، دار الکـتب العلمیۃ، بیتا.
- تبریزی، جواد، ارشاد الطالب الی التعلیق علی المکاسب، قم، دار الصدیقۃ الشـہیدۃ، بـیتا.
- تقی الدین شافعی، ابو بکر بن معلی، کفایۃ الاخـیار فـی حـل غایۃ الاختصار، دمشق، دار الخیر، ۱۹۹۴م.
- جمل (عجیلی ازہری)، سلیمان بن عـمر، فـتوحات الوہاب بتوضیح شرح منہج الطـلاب، بـیجا، دار الفکر، بـیتا.
- جوہری، اسـماعیل بـن حماد، الصحاح تاج اللغۃ و صحاح العربیۃ، تہران، امیری، ۱۳۶۸ش.
- حرّ عاملی، محمد بن حـسن، وسـائل الشیعۃ، بیجا، داراحیاء التراث العـربی، چـاپ چہارم، ۱۳۹۱ق.
- حسینی روحانی، سید محمد صادق، فقہ الصادق ع، قم، دار الکتب الاسلامیۃ، چاپ سوم، ۱۴۱۳ق.
- حسینی شـیرازی، سـید محمد، الفقہ (کتاب الغصب)، بی جا، دار القـرآن الحـکیم، بـیتا.
- حسینی مراغی، سـید میر عبد الفتاح، العـناوین، قم، مؤسسۃ النشر الاسـلامی، ۱۴۱۸ق.
- حـکیم، سید محسن، نہج الفقاہۃ، نجف، بینا، ۱۳۷۱ق.
- حلی، حسن بن یوسف، تحریر الاحکام الشرعیۃ علی مـذہب الامـامیۃ، قم، مؤسسۃ امام صادق (، ۱۴۲۱ق.
- حمد شـراره، عـبد الجبار، احکام الغـصب فـی الفـقہ الاسلامی، قم، مکتب الاعـلام الاسلامی، ۱۳۹۵ق.
- حمد، حمد بن عبدالله، شرح زاد المستقنع، بیجا، بینا، بیتا.
- خمینی، سید روح الله، کتاب البـیع، تـہران، مؤسسۃ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، ۱۳۷۹ش.
- خوئی، سید ابو القاسم، مصباح الفقاہۃ، بیجا، وجدانی، چاپ سوم، ۱۳۷۱ش.
- دہخدا، علی اکبر، لغتنامه، تہران، دانـشگاه تـہران، ۱۳۷۳ش.
- رافـعی قـزوینی، عـبد الکریم بـن محمد، فتح العزیز بشرح الوجیز (الشرح الکبیر)، بیجا، دارالفکر، بیتا.
- رشتی، میرزا حبیب الله، کتاب الغصب، تہران، بینا، ۱۳۲۲ق.
- رملی، ابنشہاب، نہایۃ المحتاج الی شرح المنہاج فی الفقہ عـلی مذہب الامام الشافعی، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، ۱۴۱۴ق.
- زحیلی، وہبۃ، موسوعہ الفقہ الاسلامی و القضایا المعاصرة، دمشق، دارالفکر، ۱۴۳۱ق.
- زہری غمراوی، محمد، السراج الوہاج علی متن المنہاج، بیروت، دارالمعرفۃ، بیتا.
- شربینی، محمد بن احـمد، مـغنی المحتاج الی معرفہ معانی الفاظ المنہاج، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، ۱۴۱۵ق.
- شربینی، محمد بن احـمد، مغنی المحتاج، بیروت، داراحیاء التراث العربی، ۱۹۵۸م.
- شرتونی، سعید، اقرب الموارد فی فصح العربیۃ و الشوارد، بیروت، مکتبۃ اللبنان، ۱۴۱۳ق.
- شویری لبنانی، ظـاہر خـیر الله، اللمع النواجم، بیروت، مطبعۃ العثمانیۃ، ۱۹۰۷م.
- شہید اول، محمد بن مکی، الدروس الشرعیۃ فی فقہ الامامیۃ، قم، جامعۃ مدرسین، ۱۴۱۷ق.
- شہید اول، محمد بن مکی، غایۃ المراد فی شرح نکت الارشـاد، قـم، جامعۃ مدرسین، بیتا.
- شہید ثـانی، زیـن الدین بن علی، الروضۃ البہیۃ فی شرح اللمعۃ الدمشقیۃ، تحقیق: سید محمد کلانتر، نجف، مطبعۃ الآداب، ۱۳۸۷ق.
- شہید ثـانی، زیـن الدین بن علی، مسالک الافہام، قم، معارف الاسلامیۃ، ۱۴۱۴ق.
- صاوی، احمد، بلغۃ السالک لاقـرب المـسالک لمذہب الامام مالک، قـاہرۃ، دار الفـکر، ۱۲۰۱ق.
- طباطبائی یزدی، سید محمد کاظم، حاشیۃ مکاسب، قم، مؤسسۃ اسماعیلیان، ۱۳۷۸ش.
- طباطبائی، سید علی، ریاض المسائل، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، ۱۴۱۲ق.
- طریحی، فخرالدین، مجمع البحرین، تحقیق: سیداحمد حسینی، بیجا، مکتبۃ المرتضویہ، بیتا.
- طوسی، محمد بـن حـسن، المبسوط فی فقہ الامامیۃ، تہران، المکتبۃ المرتضویۃ، ۱۳۶۳ش.
- عبدری غرناطی، محمد بن یوسف، التاج و الاکلیل لمختصر خلیل، بیجا، دارالکتب العلمیۃ، ۱۴۱۶ق.
- علیش، محمد بن احمد، منح الجلیل شرح مختصر خلیل، بیروت، دار الفکر، ۱۴۰۹ق.
- عمید زنجانی، عـباس علی، موجبات ضمان، تہران، میزان، ۱۳۸۲ش.
- فاضل آبی، حسن بن ابی طالب، کشف الرموز فی شرح المختصر النافع، قم، مـؤسسۃ النـشر الاسلامی، ۱۴۰۸ق.
- قلیوبی، احمد و عمیره، احمد برسی، حـاشیتا قـلیوبی و عـمیره، بیروت، دارالفکر، بیتا.
- کـاشف الغـطاء، عباس، المال المثلی و المال القیمی فی الفقہ الاسلامی، قم، بوستان کتاب، ۱۳۸۸ش.
- کوہ کمری، سید محمد حجت، کتاب البیع، تعلیقۃ میرزا ابوطالب تجلیل تبریزی، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، ۱۴۰۹ق.
- گرجی، ابو القاسم، مقالات حقوقی، تہران، دانشگاه تـہران، ۱۳۶۹ش.
- محقق حلی، جعفر بن حسن، شرائع الاسلام فی مسائل الحلال و الحرام، بیروت، دار الاضواء، بیتا.
- مدرسی طباطبائی، سید محمد رضا، دراسۃ حول المثلی و القیمی، بیجا، دبیرخانہ کنگره جہانی شیخ انصاری، ۱۳۷۳ش.
- مرداوی، علی بن سـلیمان، الانـصاف فی معرفۃ الراجح من الخلاف، بیروت، داراحیاء التراث العربی، چاپ دوم، ۱۹۸۰م.
- مشکینی، علی، مصطلحات الفقہ، قم، الہادی، ۱۳۷۷ش.
- ملیباری، زین الدین بن عبد العزیز، فتح المعین بشرح قرة العین بمہمات الدین، بیروت، دار الفکر، بـیتا.
- نـائینی، میرزا حسین؛ و خوانساری، موسی، منیۃ الطالب، بیجا، حیدری، بیتا.
- نجفی، محمد حسن، جواہر الکلام، بیروت، دار احیاء التراث العربی، ۱۹۸۱م۔
- نووی، یحیی بن شرف، منہاج الطالبین و عمدة المفتین فی الفقہ، بیجا، دار الفـکر، ۱۴۲۵ق.
- ہـیثمی، احمد بن حجر، تحفۃ المحتاج فی شرح المنہاج، مصر، المکتبۃ التجاریۃ الکبری، ۱۳۵۷ق.
[ترمیم]
[ترمیم]
سازمان اسناد و کتابخانہ ملی جمہوری اسلامی ایران، یہ تحریر مقالہ مثلی و قیمی از منظر فقہ اسلامی و حقوق ایران سے مأخوذ ہے، مشاہدہِ لنک کی تاریخ:۱۳۹۹/۱/۳۱۔